مجاہدین آزادی اور شہیدوں پر سیاست کا سلسلہ دراز

کھیل کے میدان کو شہید وطن سے منسوب کرنے پر بی جے پی چراغ پا

نہال صغیر، ممبئی

ٹیپو سلطان سے نفرت فرقہ پرستوں کا ذہنی دیوالیہ پن
ایک محاورہ ہے ’’باسی کڑھی میں ابال‘‘ بی جے پی مہاراشٹر میں اپنی زمین پانے کے لیے وہی کچھ کر رہی ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی طرح اسے پھر سے یہاں کا اقتدار مل جائے مگر باسی کڑھی میں جس طرح ابال نہیں آسکتا اسی طرح مہاراشٹر میں اقتدار میں آنا بی جے پی کیلئے’ دلی دور ‘ والا معاملہ ہے ۔ممبئی میں صحافیوں کے درمیان یہ بات کافی مشہور ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ مہاراشٹر دیوندر پھڈنویس اب بھی خود کو وزیر اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے موجودہ حکومت کے قیام و استحکام کے بعد بھی وہ اور ان کے ساتھی اس کے خاتمہ کا خواب دیکھتے رہے لیکن اسی خیالی دنیا میں رہتے ہوئے ممبئی اور مہاراشٹر سے بی جے پی کی زمین کھسکنا شروع ہو گئی تو یہ نیند سے بیدار ہوئے اور انہوں نے بحیثیت حزب اختلاف اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ مگر انہیں غور کرنا چاہیے کہ حزب اختلاف کا کام محض اختلاف کرنا ہی نہیں ہے بلکہ مثبت کردار بھی ادا کرنا ہوتا ہے تبھی ایک عوامی حکومت فلاحی ریاست کے قیام میں اپنا کردار نبھا سکے گی۔
مخالفت میں بی جے پی کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہےاور وہ مخالفت برائے مخالفت کی روش پر قائم ہے۔ چنانچہ حالیہ دنوں میں ممبئی کے مضافات میں ملاڈ مغرب کے مالونی علاقہ میں ایک پارک اورکھیل کے میدان کو شہید وطن ٹیپو سلطان کے نام سے منسوب کیے جانے سے انہیں کافی تکلیف ہے۔ ۲۶ جنوری یوم جمہوریہ کو حکومت مہاراشٹر کے کابینی وزیر اسلم شیخ نے اس کا افتتاح کیا۔ افتتاح کو روکنے کی بی جے پی اور وشو ہندو پریشد و بدنام زمانہ بجرنگ دل کے لوگوں نے کوشش کی لیکن پولیس کی بھاری جمعیت نے فسادیوں کے عزائم کو کامیاب ہونے نہیں دیا۔ مذکورہ پروگرام میں رخنہ ڈالنے اور فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کی کوشش کو ناکام بنانے سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو وہ امن و امان کی فضا کو بگڑنے سے بچاسکتی ہے اور فسادی ٹولہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ممبئی کے مضافات میں واقع مالونی جو کہ ملاڈ مغرب میں ہے، ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ وہاں قریب میں ہی خالی پڑی جگہ کو کھیل کود کے فروغ کے لیے پارک اور میدان کے طور پر ترقی دی گئی ہے۔ اس کا افتتاح حکومت مہاراشٹر کے وزیر اسلم شیخ نے کیا۔ یہ کچی سڑک کے پاس ہے جو اگرچہ اب پختہ ہوگئی ہے لیکن یہ اب بھی کچی سڑک کے نام سے ہی معروف ہے ۔اسلم شیخ نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کھیل کود خیر سگالی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کا کام کرتا ہے مگر بی جے پی کو تو نفرت کی سیاست کے سوا کچھ آتا ہی نہیں ہے۔ انہوں نے یاد لایا کہ ان کے کارپوریٹر اور ایم ایل اے نے اپنے حلقہ میں ایک سڑک کو ٹیپو سلطان کے نام سے منسوب کیا ہے۔ ان کا اشارہ گورے گاوں حلقہ کے سابق ایم ایل اے ساٹم کی طرف تھا جہاں انہوں نے ایک سڑک کو ٹیپو سلطان کے نام سے منسوب کیا تھا۔
مہاراشٹر بی جے پی کے ترجمان نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعہ احتجاج کرتے ہوئے مذکورہ میدان کو شیواجی کے نام سے منسوب کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے دھمکی بھرے لہجے میں کہا کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو وہ خود وہاں اس نام کا بورڈ لگائیں گے۔ موقع پر احتجاج کرنے والے بی جے پی، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لوگوں کو پولیس نے آگے بڑھنے سے روک دیا اور انہیں چارکوپ پولیس اسٹیشن لے گئی۔ معلوم ہوا کہ پولیس ان لوگوں کو جان بوجھ کر مالونی پولیس اسٹیشن نہیں لے گئی کیوں کہ وہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور اس گروہ کا مقصد ہی ہندو مسلم منافرت پھیلا کر اقتدار کا حصول ہے۔
بی جے پی عرصہ سے ٹیپو سلطان کے خلاف گھٹیا پروپگینڈا کرتی آ رہی ہے۔ اس نے بھگوان ایس گڈوانی کے ناول پر بنے ٹی وی سیریل ’’دی سورڈ آف ٹیپو سلطان‘‘ پر بھی کافی ہنگامہ کیا تھا۔ ابھی چونکہ کئی ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہیں اور خود ممبئی میونسپل کارپوریشن کا بھی الیکشن قریب ہے جہاں کبھی شیو سینا اور بی جے پی ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے۔ اب بی جے پی اور شیو سینا اتحاد ٹوٹ چکا ہے اور کچھ دنوں قبل شیو سینا کے یوم تاسیس کے موقع پر ادھو ٹھاکرے اور آدتیہ ٹھاکرے نے یہ کہا تھا کہ بی جے پی شیو سینا کو ختم کر دینا چاہتی تھی، اور سچائی بھی یہی ہے کہ بی جے پی شیو سینا کی مدد سے ہی مہاراشٹر میں بہتر حالت میں آئی ہے اور اسی سے شیو سینا کمزور ہو رہی تھی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شیو سینا کی بی جے پی سے علیحدگی کی اہم وجہ یہی ہے کہ شیوسینا کو اس کا ادراک ہوگیا تھا کہ اگر وہ زیادہ دنوں تک بی جے پی کے ساتھ رہی تو وہ بے اثر ہو جائے گی۔
شیو سینا کے ترجمان اور رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے بی جے پی کی ٹیپو سلطان کے متعلق منافرت پر کہا کہ ’’انہیں لگتا ہے ہمیں تاریخ کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہمیں ٹیپو سلطان کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے، ٹیپو سلطان نے کیا کیا یہ ہمیں بی جے پی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ اسلم شیخ سے استعفیٰ لینے کے بی جے پی کے مطالبہ پر سنجے راوت نے کہا صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے کرناٹک اسمبلی میں ٹیپو سلطان کی ستائش کرتے ہوئے ٹیپو سلطان کو ایک تاریخی جنگجو اور ایک مجاہد آزادی قرار دیا تھا تو کیا ان سے بھی استعفیٰ لیں گے؟ انہوں نے کہا کہ حکومت مہاراشٹر آزادانہ فیصلہ لینے کی طاقت رکھتی ہے ۔این سی پی کے ترجمان نواب ملک نے بھی بی جے پی والوں کو تاریخ پڑھنے یا پھر صدر جمہوریہ سے تاریخ کے تعلق سے معلومات لینے کا مشورہ دیا۔
بی جے پی کسی مشورہ یا کسی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی اسے تو صرف اپنی منافرت پر مبنی سیاست کی فکر ہوتی ہے۔ وہ عظیم محب وطن اور انگریزوں سے لوہا لینے والے ٹیپو سلطان شھید کو ہندو مخالف یا ہندوؤں کا قتل عام کرنے والا کہہ رہے ہیں۔ اس کی بنیاد کچھ مصنفین جیسے ڈبلو کرک پیٹرک کی سلیکٹ لیٹرز آف ٹیپو سلطان (۱۸۱۱)، ایم ولکس کی ہسٹوریکل اسکیچس آف ساؤتھ انڈیا (۱۸۶۴) اور ایچ ۔ایچ ڈوڈویل کی کیمبرج ہسٹری آف انڈیا (۱۹۲۹) جیسی منافرت اور تعصب پر مبنی تصانیف نے ٹیپو سلطان کی شبیہ کو داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے اور شاید اسی سے کولکاتا کے پروفیسر ہری پرساد شاستری متاثر ہوئے اور انہوں نے بھی ایک جھوٹ گھڑا کہ ٹیپو سلطان نے تین ہزار برہمنوں کو اسلام اپنانے کا حکم دیا اور اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں انہیں قتل کر دینے کی دھمکی دی، ان تین ہزار برہمنوں نے مشرف بہ اسلام ہونے کے بجائے خود کشی کرنا گوارا کر لیا۔ الہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر اور اڑیسہ کے گورنر پروفیسر بی این پانڈے نے مذکورہ پروفیسر صاحب سے استفسار کیا کہ انہوں نے یہ کس حوالہ سے لکھا ہے تو انہوں نے کہا کہ میسور گزٹ میں یہ واقعہ درج ہے۔ بی ایم پانڈے نے اس کی تفتیش کی تو میسور گزٹ میں ایسا کوئی واقعہ درج ہی نہیں تھا۔ اسی طرح کے بہت سے جھوٹے اور من گھڑت واقعات عظیم مجاہد آزادی اور محب وطن شہید ٹیپو سے منسوب کیے گئے ہیں اور بی جے پی ان فرضی واقعات کی بنیاد پر اپنی بیہودہ حرکتوں کے ذریعہ ملک کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے مجاہدین کے ساتھ ناانصافی ہی نہیں ان کی توہین بھی کررہی ہے ۔
بہر حال ٹیپو سلطان شید جیسوں کی شخصیت کو داغ دار کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ بی جے پی یا ان کی ہمنوا تنظیموں کی مخالفت میں بھی مجھے کوئی زیادہ جارحیت نظر نہیں آئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ وہ یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ وہ موجود ہیں اور اپنی پہچان کے ساتھ اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اسی لیے مخالفت برائے مخالفت کے فلسفہ پر عمل پیرا ہیں۔ چونکہ اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں میں اسمبلی کے الیکشن ہیں اور ممبئی میں کارپوریشن کا بھی الیکشن قریب ہی ہے اسی مقصد کے تحت انہوں نے اپنی منافرت اور ہندو ووٹوں کو اپنے حق میں یکجا کرنے کی ایک ناکام کوشش کی ہے۔ مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ایشو نہیں ہے انہوں نے اپنی حکومت میں عوامی مفاد میں کچھ کیا ہی نہیں تو اب یہی کچھ کریں گے اور نفرت کے ماحول کو فروغ دیں گے۔ مولانا نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنی بڑی قومی پارٹی ملک کی تاریخ سے بھی ناواقف ہے۔
عالم دین اور سماجی کارکن مولانا محمود دریا بادی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کرنے کا کام صرف بی جے پی کرتی ہے اور شیو سینا ایک آزاد علاقائی پارٹی ہے اس لیے ان کا ایجنڈا بی جے پی کے ایجنڈے سے میل نہیں کھاتا ۔شیو سینا کا موجودہ رجحان خوش آئند ہے اور اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
اردو روزنامہ ہندوستان کے مدیر سرفراز آرزو کا بھی کہنا ہے کہ یہ محض اپنے وجود کا احساس کرانے کی کوشش ہے ورنہ ان کی ان منافرت یا مخالفت سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیوسینا نے ان کی زمین چھین لی ہے لوکل باڈیز کے حالیہ انتخابی نتائج بتارہے ہیں کہ بی جے پی مہاراشٹر میں سمٹنے والی ہے ۔
بی جے پی مہاراشٹر کے مسلمان لیڈر حیدر اعظم (سکریٹری بی جے پی مہاراشٹر) سے یہ جاننا چاہا کہ ملاڈ مغرب میں واقع مالونی میں اسپورٹس کمپلیکس کو ٹیپو سلطان کے نام منسوب کرنے کی بی جے پی، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی جانب سے مخالفت کیے جانے پر ان کی کیا رائے ہے تو انہوں نے کہا کہ جو لوگ مخالفت کر رہے ہیں انہی سے پوچھیں، انہوں نے اپنا ردعمل دینے سے انکار کر دیا لیکن ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہوا کہ وہ پارٹی کے اس رویہ سے کافی مایوس ہیں۔
***

 

***

 بہر حال ٹیپو سلطان شید جیسوں کی شخصیت کو داغ دار کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ بی جے پی یا ان کی ہمنوا تنظیموں کی مخالفت میں بھی مجھے کوئی زیادہ جارحیت نظر نہیں آئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ وہ یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ وہ موجود ہیں اور اپنی پہچان کے ساتھ اپنا وجود رکھتے ہیں۔ اسی لیے مخالفت برائے مخالفت کے فلسفہ پر عمل پیرا ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  06 فروری تا 12فروری 2022