"متنازعہ یو اے پی اے قانون کو چیلینج کرنا سیکولرزم کے حامیوں کی ذمہ داری”
مہاراشٹرا کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف سے انٹرویو
ضیاءالسلام
دسمبر 2001 میں سورت پولیس نے غیر قانونی سرگرمیوں کے متنازع قانون (یو اے پی اے) کی مختلف دفعات کے تحت 127 افراد کو گرفتار کیا تھا جو آل انڈیا مائناریٹی انسٹیٹیوشن بورڈ کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں شریک تھے۔ ان پر ممنوعہ اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کی سرگرمیوں کو فروغ و توسیع دینے کے لیے میٹنگ منعقد کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ مارچ کے اوائل میں زائد از 19سال کے بعد سورت کی چیف جوڈیشل مجسٹریٹ عدالت نے ان سب کو بری کر دیا ہے۔ 2002 میں اکشردھام مندر پر دہشت گرد حملہ کے کیس میں اور 2005 کے دھولا کنواں کیس میں بھی ملزمین کو کئی سال کی قید و بند کے بعد بے قصور قرار دیا گیا تھا۔ اسی تناظر میں اس قانون کی دفعات کو جس کے تحت سزا دہی کی شرح دو فیصد سے بھی کم ہے توجہ حاصل ہوئی ہے۔
ایس ایم مشرف سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس مہاراشٹرا نے یو اے پی اے کو غیر دستوری قرار دیا ہے۔ فرنٹ لائن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کے لیے موجودہ قوانین میں کافی گنجائش موجود ہے۔ مشرف جو ’کرکرے کو کس نے قتل کیا؟‘ اور ’برہمنوں کا بم دھماکہ اور مسلمانوں کو پھانسی‘ جیسی کتابوں کے مصنف ہیں انہوں نے کہا کہ نظام کو تبدیل ہونا چاہیے۔ ذیل میں ان کے انٹرویو کے کچھ اقتباسات پیش ہیں۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق غداری کے تقریباً دو ہزار مقدمات میں سے 65 فیصد مقدمات 2014 کے بعد سے دائر کیے گئے ہیں تو کیا ہندوستانی زیادہ غدار بن رہے ہیں یا حکومت زیادہ تادیبی بن رہی ہے؟
حکومت یو اے پی اے استعمال کرتے ہوئے زیادہ تادیبی بن رہی ہے۔ ان کے پاس غداری کی ٹھیک طور پر کوئی تشریح موجود نہیں ہے۔ حکومت کے خلاف اٹھنے والی مخالفت کی تمام آوازوں سے غداری کے طور پر نمٹا جارہا ہے۔ حکومت پر تنقید جمہوریت میں ایک حق ہے۔ سوشل میڈیا اور عوامی گفتگو، عام آدمی کے لیے اظہار کے ذرائع ہیں۔ آپ ہندوستان میں جمہوریت کی انحطاط پذیری پر تازہ رپورٹ پڑھیں۔ (یہ رپورٹ سویڈن میں قائم آزاد تحقیقی ادارہ وی ڈیم کی جانب سے 2017 سے باقاعدہ شائع ہو رہی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستان جمہوری ملک کی حیثیت سے اپنا موقف کھونے کے دہانے پر ہے) لیکن حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہم جمہوریت سے آمریت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ہمارے پاس نامور جہد کاروں جیسے سدھا بھردواج، ورا ورا راو، شرجیل امام اور عمر خالد جیسے نوجوانوں کی مثالیں موجود ہیں جن کو غداری کا ملزم بنایا گیا ہے ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے حکومت کے خلاف سوال اٹھائے تھے۔ کیا آپ کے خیال میں یو اے پی اے، حکومت کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار بن رہا ہے؟
بن نہیں رہا ہے بلکہ بن چکا ہے اور یہ صرف اسی حکومت میں نہیں ہوا بلکہ پہلے بھی ہوا ہے۔ تاہم اب یہ مخالفت کو ختم کرنے کا باقاعدہ ایک طریقہ بن گیا ہے۔ ہمیں ضرور یاد رکھنا ہوگا کہ یو پی اے حکومت کے دوران یو اے پی اے منظور ہوا تھا۔ زیادہ تر لوگ جنہیں بم دھماکہ کا ملزم بنایا گیا تھا، حیدرآباد مالیگاوں اور جے پور کے بتائے جاتے ہیں۔ انہیں یو پی اے حکومت کے دور میں اٹھایا گیا تھا۔ زیادہ تر کیسس کا میں نے اپنی کتاب (برہمنوں کا بم حملہ، مسلمانوں کو پھانسی) میں تذکرہ کیا ہے جو اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ حکومت مختلف ہے اس حکومت نے محض صورتحال کا فائدہ اٹھایا ہے لہٰذا ہم تنہا اسی حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے ہمیں سسٹم کو مورد الزام ٹھہرانا ہوگا۔ حکومتیں تو آتی اور جاتی ہیں لیکن سسٹم برقرار رہتا ہے۔
لیکن آج ذات پات یا مذہب سے قطع نظر کسی پر بھی محض حکومت کے موقف کو اختیار کرنے سے انکار پر یو اے پی اے کے تحت غداری کا ملزم بنا کر مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس سدھا بھردواج، ورا ورا راو جیسے جہد کار ہیں یہ دونوں برہمن ہیں اس لیے یہ صرف مسلمانوں کے بارے میں نہیں ہے۔
میں برہمن نہیں کہہ رہا ہوں، ایسے کئی برہمن ہیں جو حکومت اور نظام کے خلاف ہیں۔ میں نے ’برہمنسٹ‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔ ورا ورا راو، بھردواج برہمن ہیں۔ ممبئی اے ٹی ایس کے سربراہ کرکرے بھی ایک برہمن ہی تھے۔ ہمیں سسٹم کو نشانہ بنانا ہوگا۔ ہم برہمنوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ امتیاز پر مبنی برہمنی نظام کے خلاف ہیں۔ ہمیں لازماً سمجھنا ہوگا کہ دو اہم اداروں انٹلیجنس بیورو اور میڈیا پر کس کا کنٹرول ہے۔ اس بارے میں سوچیے اور آپ کو جواب مل جائے گا۔ ان اداروں کے ذریعے وہ عوام الناس کے ذہنوں میں زہر بھر رہے ہیں۔ ہمیں اس کے اثرات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس صورتحال سے باہر نکلنے کے راستے تلاش کرنا چاہیے۔
بھیما کورے گاوں اور دلی و دیگر مقامات پر شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف مظاہروں کی روشنی میں یو اے پی اے کے تحت من مانی گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ کئی پروفیسرس، طلبہ اور شاعروں کو عرصے سے قید و بند میں رکھا گیا ہے۔ تو کیا یہ قانون عام آدمی کا تحفظ کرتا ہے یا انہیں خوفزدہ کرتا ہے؟
یہ عام آدمی، اقلیتوں اور اصلاً مسلمانوں کو خوفزدہ کرتا ہے۔ کسی بھی گرفتاری کا مقصد وسیع تر سماج کو ایک پیغام پہنچانا ہوتا ہے تاہم یہ قانون، دستور کی کسوٹی پر ٹک نہیں سکتا۔ اسے قانون کی عدالت میں سنجیدگی سے چیلنج نہیں کیا گیا ہے۔ سیکولرازم کے حامیوں کی کسی اہم تنظیم کو سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کرنا چاہیے۔
یو اے پی اے میں غلط کیا ہے؟
اس میں ضمانت کی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ جب بھی جہد کاروں کو ریمانڈ کے لیے مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جاتا ہے، مجسٹریٹ کیا دیکھتا ہے؟ وہ یہ دیکھتا ہے کہ شواہد کے طور پر اس کے سامنے کیا پیش کیا گیا اور شواہد کیا ہیں؟ یہ بعض گمراہ گواہوں کے ذریعے دلایا گیا بیان ہے اور یہ کہ ملزم سے اقبالیہ بیانات پولیس تحویل میں لیے گئے ہیں اور یو اے پی اے کے تحت پولیس کے روبرو اعتراف اور اقبالی بیان تک قابل قبول ہیں نیز پولیس کی جانب سے کی جانے والی ضبطیاں بھی شواہد ہیں لیکن اس ضبطی کا ثبوت کیا ہے؟ ایک پنچ نامہ یعنی بعض پنچہ (گواہوں) کی موجودگی میں پولیس بعض ضبطیوں کو دکھاتی ہے جیسے آر ڈی ایکس (ریسرچ ڈپارٹمنٹ ایکسپلوزیو) یا بہت سارے کیسس میں اردو لٹریچر۔ وہ اردو لٹریچر کی موجودگی کو قابل اعتراض تصور کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں جہادی مواد ہوتا ہے اسے عدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مجسٹریٹ اس کی تصدیق کیے بغیر ملزم کو پولیس تحویل میں دے دیتا ہے۔ جب کیس ہائی کورٹ میں پہنچتا ہے تو ملزم کو ضمات نہیں ملتی کیونکہ قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
یو اے پی اے کو عدالت میں چیلنج کرنا ہوگا۔ ہمیں عدالت سے گزارش کرنی چاہیے کہ مجسٹریٹ کو ہدایت دی جائے کہ وہ ملزم کو پولیس تحویل میں دینے سے قبل بعض ابتدائی تحقیقات کر لے۔ اسی طرح اگر ملزم پولیس افسر کے سامنے کوئی اقبالی بیان دیا ہو تو اس کی بھی تحقیق کر لی جائے پھر اسے آسمانی سچائی کے طور پر قبول کرنے کے بجائے مجسٹریٹ انہیں اپنے چیمبر میں طلب کرتے ہوئے سوالات کر سکتا ہے۔ انہیں اعتماد میں لے کر اس بات کا اطمینان کر سکتا ہے کہ آیا اس نے بیان ڈر کر تو نہیں دیا ہے۔ اسی طرح گواہوں سے بھی پوچھ تاچھ کی جانی چاہیے۔ ابتدائی تحقیقات کا ایک طریقہ ہونا چاہیے بصورت دیگر ملزمین برسہا برس تحویل میں رہیں گے۔
اپنی کتاب میں مَیں نے اس طرح کے 21 کیسس پر بات کی ہے جو عدالتوں میں کئی برس چلتے رہے لیکن اس کے باوجود ملزمین کے خلاف شواہد نہیں پائے گئے۔ اگر ابتدائی تحقیقات کر لی جاتیں تو اس طرح کے حشر کو ٹالا جاسکتا تھا۔ مثال کے طور پر 2002 میں اکشردھام مندر پر کیے گئے حملہ کے کیس میں سپریم کورٹ نے مئی 2014 میں عدالتِ زیریں کی جانب سے قصور وار قرار دیے گئے تمام چھ ملزمین کو بری کر دیا اور بے قصور لوگوں کو پھنسانے کے لیے گجرات پولیس کی سرزنش کی۔
1993 کے سورت دھماکہ کیس میں جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کی ڈیویژن بنچ نے اس کیس میں ٹاڈا عدالت کے 2008 کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے تمام 11 ملزمین کو بری کر دیا۔ اس کیس میں محمد سورتی کو جو کانگریس کے ایک وزیر تھے اور دیگر چار افراد کو 20 سال کی جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ معاملہ جولائی 2014 کا تھا۔
اسی طرح 2005 کا دھاولہ کنواں انکاونٹر بھی مشہور ہے جس میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا اس نے پالم ایئرپورٹ پر بم نصب کرنے کے کشمیری دہشت گردوں کے منصوبے کو ناکام بنایا ہے اور ایک انکاونٹر کے بعد چھ کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ سیشنس کورٹ نے 2011 میں تمام چھ ملزمین کو بری کر دیا اور فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ پولیس جس انکاونٹر کی بات کر رہی ہے وہ حقیقت میں کبھی پیش ہی نہیں آیا۔ بلکہ انہوں نے دفتر میں بیٹھ کر اسے وضع کیا تھا۔
اس کی روشنی میں اگر ایک شخص کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے اور بعد میں وہ بے قصور پایا جاتا ہے تو آپ کے خیال میں متعلقہ پولیس عہدیداروں کو جوابدہ بناتے ہوئے اس شخص کو کچھ معاوضہ دینا چاہیے اور کیا اس طرح پولیس کو باز رکھا جا سکے گا؟
جواب دہی تو لازماً ہونی چاہیے پولیس عہدیداروں کو نہ صرف محکمہ جاتی طور پر سزا دینی چاہیے بلکہ ان کے خلاف ایک تعزیری جرم بھی درج کیا جانا چاہیے۔ یہ کام تو کرنا ہوگا لیکن کیا انصاف فراہم کرنے کے لیے 10 تا 15 برسوں کے لیے انتظار کرنا صحیح ہوگا؟ میں وکیلوں کو بھی الزام دیتا ہوں بیشتر معاملات میں ملزمین ایک اچھے وکیل کا خرچ اٹھا نہیں سکتے۔ بہت سارے وکیل اس طرح کے کیسس لڑنے کے لائق نہیں ہوتے۔ یہ معاملات، معمول کے قتل، ڈکیتی یا فساد کے مقدمات کی طرح نہیں ہوتے۔ ہمارے وکلا اسے عام معاملات کی طرح لینے پر مائل ہوتے ہیں جبکہ اس طرح کے کیسس میں تحقیق بجائے خود ایک سازش ہوتی ہے۔ شواہد کو گھڑا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کیسس میں اصل مجرموں کو جاننے کے بعد بھی پولیس ان سراغوں کے تعاقب کے بجائے بعض ضبطیوں یا اقبالی بیانات کی بنیاد پر بے قصوروں، بالخصوص مسلمانوں کو پھنساتی ہے۔
کتاب میں آپ نے جو باتیں اٹھائی ہیں اس کے رد میں عوام یا پولیس کی جانب سے کوئی جواب ملا ہے؟
نہیں بالکل نہیں۔ جب کتاب شائع ہوئی اس وقت پونے میں کچھ مظاہرے ہوئے تھے۔ دائیں بازو کی تنظیموں کے بعض عناصر نے مجھے دھمکایا، مجھے عدالت میں کھینچنا چاہا لیکن ڈیڑھ سال گزر چکا ہے اور کوئی بھی میرے اخذ کردہ نتائج کو رد نہیں کر سکا ہے۔ پہلے ہمارے پاس ٹاڈا تھا اب ہمارے پاس یو اے پی اے ہے۔ دونوں قوانین کے تحت ہمارے پاس فرضی مقدمات بنے اور ملزمین کو عرصہ دراز تک قید و بند میں رکھا گیا۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پھر بھی ہمیں اس طرح کے ایک قانون کی ضرورت ہے؟ وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق یو اے پی اے کے تحت سزا دہی کی شرح صرف دو فیصد ہے۔
نہیں بالکل نہیں۔ ہمیں یو اے پی اے کی ضرورت نہیں ہے یہ ضروری نہیں ہے بلکہ ضابطہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) میں کارروائی کرنے کے لیے بہت سی گنجائشیں موجود ہیں اگر وہ ایک سخت قانون بنانا چاہتے ہیں تو وہ ضمانت کو خارج نہیں رکھ سکتے۔ ضمانت (بیل) ایک حق ہے۔ اور جیل ایک استثنیٰ ہے۔ یہ قانون سرے سے غیر ضروری ہے۔ اگر کہیں فساد ہوتا ہے تو آئی پی سی کے تحت گنجائشیں موجود ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو اسے زیادہ سخت بنا سکتے ہیں۔ اگر کہیں دھماکہ ہوتا ہے تو ایکسپلوزیو سبسٹنسس ایکٹ موجود ہے۔ آپ کو اس کے لیے ایک خصوصی قانون کی ضرورت کیوں ہے؟ پھر بھی آپ ایک نیا قانون بنانا چاہتے ہیں تو اسے دستور کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔
تو کیا یو اے پی اے دستور کے خلاف ہے؟
یقینی طور پر کسی نے بھی اسے سنجیدگی سے چیلنج نہیں کیا ہے۔ مفاد عامہ کی ایک درخواست داخل کی جانی چاہیے اور عدالت میں اس قانون کے غیر آئینی ہونے کو ثابت کرنا پڑے گا۔
(بشکریہ: فرنٹ لائن، 9 اپریل 2021)
***
بہت سارے وکیل اس طرح کے کیسس لڑنے کے لائق نہیں ہوتے۔ یہ معاملات، معمول کے قتل، ڈکیتی یا فساد کے مقدمات کی طرح نہیں ہوتے۔ ہمارے وکلا اسے عام معاملات کی طرح لینے پر مائل ہوتے ہیں جبکہ اس طرح کے کیسس میں تحقیق بجائے خود ایک سازش ہوتی ہے۔ شواہد کو گھڑا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کیسس میں اصل مجرموں کو جاننے کے بعد بھی پولیس ان سراغوں کے تعاقب کے بجائے بعض ضبطیوں یا اقبالی بیانات کی بنیاد پر بے قصوروں، بالخصوص مسلمانوں کو پھنساتی ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا 10 اپریل 2021