ماحولیات کا تحفظ دنیا کے لیے بڑا چیلنج

اسلام نے فطری نظام سے چھیڑ چھاڑ پر انسانوں کو باربار متنبہ کیا ہے

ڈاکٹر ایم صلاح الدین (سائنٹسٹ )

 

خالق کائنات نے بنی نوع انسان کی افزائش اور نشو و نما کے لیے اس خوبصورت زمین کو انواع و اقسام کی قدرتی نعمتوں سے مالامال کر رکھا ہے۔ ہوا‘ پانی‘ آسمان‘ سورج‘ چاند‘ ستارے‘ سمندر‘ پہاڑ‘ میٹھے دریا‘ نباتات اور حیوانات کی مختلف قسمیں دراصل دنیا کے ماحولیاتی نظام کو تشکیل دینے والے بنیادی عناصر ہیں۔ قدرت نے انسانی زندگی کی بقا کے لیے لازمی اِن بنیادی عناصر کے اندر ایک توازن، ترتیب اور خوبصورتی رکھی ہے جس کا احترام اور تحفظ انسانی معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر انسانی مداخلت اور دست برد سے نظام قدرت کے ان فطری عناصر کا توازن اوراس کی ترتیب میں بگاڑ پیدا ہوگا تو ماحولیات کا پورا نظام شدید متاثر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے قدرتی وسائل کے غلط استعمال اور دنیا کے فطری نظام سے چھیڑ چھاڑ پر انسانوں کو باربار تنبیہ کی ہے۔
جب تک سائنس اسلامی اسکالرس کے ہاتھوں میں رہی‘ انھوں نے سائنس کا استعمال انسانوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے لیے کیا۔اور نہ صرف یہ کہ قدرتی وسائل کا غلط استعمال نہیںہونے دیا بلکہ اس کے تحفظ کے لیے عوامی شعور کو بیدار رکھا۔ انیسویں صدی کے اوائل تک معاملات درست تھے۔ عام انسان فطرت کا احترام اورا س سے محبت کرتا تھا ۔ جب تک لوگ ماحول دوست رہے‘ ان کی زندگیاں خوشی سے گلزار بنی رہیں۔ لیکن ۱۹۲۳ء میں عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد ماحولیات کے مسائل نے تیزی سے سر اٹھایا۔
۱۹ ویں صدی کے اوائل میں جب سائنس عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاتھ میںچلی گئی تو انھوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھیننے اور دولت کی حصول کے لیے سائنس کا استحصا ل شروع کردیا۔ ان کے سائنس دانوں نے جدید مہلک ہتھیار مثلاً بندوق، ٹینک ، میزائل اور جنگی جہازوں سے آگے بڑھ کر جدید ٹکنالونی کی مدد سے آہستہ آہستہ ماحولیات مخالف حیاتیاتی ہتھیاروں(Biological warfare)اور ایٹم بم تک بنالیے جس نے دنیا کے قدرتی حسن اور صاف ستھری آب و ہوا کو آلودہ کردیا۔ صنعتی انقلاب (Industrial Revolotion) کے نتیجے میں عالمی سطح پر بازاروں کی زینت میں اضافہ کرنے والی اشیاء مثلاً فینسی کپڑے‘ کاسمیٹکس‘ پلاسٹک‘ کیمیائی رنگ‘ لکژری کاریں‘ خود کار مشینیں اوردلکش پولیتھین بیگ وغیرہ نے دنیا کے قدرتی ماحول کے سامنے ایک چیلنج کھڑا کردیا۔
حالانکہ سائنسداں انڈسٹریز‘ فیکٹریوں اور کَل کارخانوں سے نکلنے والے دھویں اور انسانوں پراس کے منفی اثرات سے خوب واقف تھے، مگر وہ اپنے وقتی مادی فائدے اور دنیا پر بالا دستی کے سفلی جذبات سے مغلوب ہوکر خاموش رہے۔ جدید میڈیکل سائنس کی ترقی اور نئی نئی اودیات کی ایجاد سے مغربی دواساز کمپنیوں اور صنعتی اداروں نے خوب نفع حاصل کیا اور بے شمار دولت اکھٹا کرلی مگر ماحولیات کو نقصان پہنچایا اور ان دواؤں کے مضر اثرات سے انسانوں کو قصداًناواقف رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید صنعتی انقلاب انسانی معاشرہ کے لیے مضر ثابت ہوااور اس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل نے ایک بحران کی شکل اختیار کرلی ۔ مگر جدیدیت اور نام نہادترقی کے نام پر یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔
آج ہماری دنیا کو ۶ قسم کے ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے۔
۱-موسم کی تبدیلی
۲-فضائی آلودگی
۳-آبی آلودگی
۴-کوڑا کرکٹ اور فضلہ کا انتظام
۵-جنگلات کی کٹائی
۶-حیاتیاتی تنوع (Biodiversity)
موسمیاتی تبدیلی آج ایک اہم موضوع ہے۔ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی شکست کی ایک اہم وجہ موسم کی تبدیلی کا ایشو تھا۔ دنیا اُس وقت سخت صدمہ سے دو چار ہوگئی تھی جب مسٹر ٹرمپ نے (موسمیات کے تحفظ سے متعلق) ’پیرس معاہدے‘ سے امریکہ کو باہر نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن مسٹر بائیڈن نے عہدۂ صدارت پرمتمکن ہونے کے بعد پہلے ہی دن اُس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کا اعلان کرکے بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ہمیں ان کے اس موقف کی تعریف کرنی چاہیے۔ پوری دنیانے مسٹر بائیڈن کے اس فیصلے سے راحت محسوس کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔
موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تازہ اطلاعات کے مطابق دنیا کے ایک درجن ممالک کا وجود خطرہ میں ہے۔ دنیا کے درجۂ حرارت میں محض ۲ ڈگری کا اضافہ کرۂ ارضی کے منظر نامے کو تبدیل کردے گا۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو اگر صنعتی ترقی سے پہلے والی سطح تک دوبارہ نہیں پہنچایا گیا تو عالمی معیشت، موسم کا فطری مزاج، انسانی صحت اور زراعت وغیرہ تباہ ہوجائے گی۔ بدقسمتی سے بعض ممالک اب بھی اس نازک معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور سیاست کررہے ہیں۔فضائی آلودگی کا مسئلہ انسانیت کے لیے دوسرا بڑا چیلنج ہے۔ آئی کیو ایر ۲۰۲۰ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے دس بڑے آلودہ شہروں میں ۹ ہندوستان کے شہرہیں۔غازی آباد، بلند شہر، نوئیڈا، گریٹر نوئیڈا، کانپور، لکھنؤ، دہلی اور فریدہ آباد دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے ۲۰۱۸ء میں یہ اطلاع دی تھی کہ دنیا میں سالانہ ۷۰ لاکھ افراد فضائی آلودگی کے سبب ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ڈاؤن ٹواَرتھ کی ۲۰۲۰ ء کی رپورٹ کے مطابق ’’فضائی آلودگی کے سبب ۲۰۱۹ء میںصرف ہندوستان میں تقریباً ۱۷ ؍لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
یہاں پر میں یہ وضاحت کردینا چاہتا ہوں کہ فضائی آلودگی دراصل بدانتظامی‘ شہری زندگی کی ناقص منصوبہ بندی اور ماحولیاتی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔ بدقسمتی سے مرکزی اور ریاستی دونوںحکومتیںاس معاملے میں غیر سنجیدہ ہیں۔ تاہم فضائی آلودگی کے ذمہ دار عناصر کی نشاندہی اور اس میں تخفیف کے لیے ٹکنالونی کے استعمال سے متعلق جامع سائنسی تحقیقات کی اشد ضرورت ہے۔اس ضمن میں پانی کی آلودگی بھی ہندوستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پانی کے بیشتر ذرائع یا تو ختم ہوتے چلے جارہے ہیں یا انتہائی آلودہ ہیں۔ گاؤں، شہروں اور قصبات کے اندر یا اُن کے اِردگرد کے آبی ذخائر ،تالاب اور پوکھرے وغیرہ زمین مافیاؤں کے قبضے میں آگئے ہیں۔ یہ آبی ذخائر پانی کی سطح کو برقرار رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج ہندوستان میںکوئی شہر ایسا باقی نہیں بچا ہے جہاں زمین کا پانی آلودہ نہ ہو اور پینے کے لیے موزوں ہو۔ ملکی سطح پر ۸۰ فیصد دریا خشک ہوچکے ہیں یا مکمل طور پر آلودہ ہیں۔جدید کاری، ترقی اور آباد کاری کے نام پر پورے ملک میں بڑے پیمانے پر قدرتی جنگلات کو کاٹ کر صاف کیا جارہا ہے، مگر کوئی سوال نہیں کرسکتا۔ جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ملک کو جملہ تمام میدانوں میں بین الاقوامی معیار تک پہنچانے کے لیے عالمی سطح کے ہوائی اڈے‘اسمارٹ سٹی‘ کشادہ شاہراہوں ‘صنعتوں اور پانچ ستارہ ہوٹلوں کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی حکومتوں نے جنگلات کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔وزارتِ ماحولیات جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پالیسیاں بنائے مگر اس نے خود کو جنگلوں کی تباہی کے لائسنس جاری کرنے کے لیے ایک دکان تک محدود کرلیا ہے۔ جنگلات کاٹنے سے صرف جنگلی جانورہی نہیں ختم ہورہے ہیں ، بلکہ حیاتیاتی تنوع کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہم ہاتھی، شیر، چیتا، ہرنوں، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کے قدرتی گھروں کو ختم کررہے ہیں۔ دواؤں میں استعمال ہونے والے پودے اوردیگر متعدد قدرتی وسائل ضائع ہورہے ہیں۔پرندوں اور پودوں کی متعدد اقسام ناپید ہوچکی ہیں جواَب شاید کبھی اس سیارے پر واپس نہ آسکیں۔ شیروں، ہاتھیوں اور دیگر جنگلی جانوروں کی تعدا روز بہ روز کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ جنگلات کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرنے اور تمام جانداروں کے لیے آکسیجن پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ گزشتہ دنوں اتر کھنڈ، کشمیر اور چنئی میں آنے والا سیلاب بنیادی طور پر جنگلات کی کٹائی کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم نے اب بھی جنگلات کے تحفظ اور ان کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو ہمیں بھاری تباہی کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ قدرت کو اگر حد سے زیادہ نقصان پہنچایاجائے تو اُس کا انتقام بہت شدید ہوتا ہے ۔
۲۰۱۶ء میں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ٹھوس بلدیاتی فضلہ 2.01ملین ٹن ، اسٹیٹسٹیکا ۲۰۱۹ ء کی رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کا فضلہ 368ملین ٹن ، اور گلوبل ویسٹ ۲۰۱۹ء کی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا میں 55.5ملین ٹن الیکٹرانک فضلہ اکٹھا ہوجاتا ہے ۔
مذکورہ بالا اعداد و شمار کا تجزیہ بتاتا ہے کہ مختلف اقسام کا ہزاروں ٹن فضلہ زمین پر اکٹھا ہوگیا ہے جو فضائی ، آبی اور دیگر قسم کی آلودگیوں کا باعث ہے، جو انسانی صحت اور بچوں کی نشو ونما کو متاثر کر رہا ہے اور دن بہ دن اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ اِس وقت پورا کرۂ ارض ایک بڑے خطرہ سے دوچار ہے ۔ اگر عالمی اداروں اور حکومتوں نے بر وقت اس معاملے میں کاروائی نہیں کی تو یقینی طور پرماحولیاتی توازن بگڑ جائے گا اورپھر وہاں سے واپسی شاید ممکن نہ ہو ۔ یہاں پر میں یہ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ ماحولیات خالصتاً ایک سائنسی موضوع ہے ،لہٰذا اِس مسئلہ کو سائنٹفک اصول و ضوابط کے مطابق حل کیا جائے نہ کہ سیاست دانوںاور نوکر شاہوں کی مرضی کے مطابق ۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے با اختیار سائنس دانوں کی دو سطحی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو مرکزی اور صوبائی سطح پر ایک ساتھ کام کرے۔ سپریم کورٹ کے موجودہ جج اس کی صدارت کریں اور چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے سہ ماہی کارکردگی رپورٹ پیش کی جائے ۔ سیاست دانو ںاور نوکر شاہوں کی اس مسئلہ میں مداخلت پر سخت پابندی لگائی جائے ۔
وال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی فساد کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیاموجودہ حکومت ماحولیات کے تحفظ اور فضائی آلودگی میں تخفیف کے لیے ضروری قدم اٹھائے گی ؟اگر ایسا نہیںہوا تو انسانیت کو اِس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت ہندوستان ماحولیات کے تحفظ اور ہماری آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے اپنے طرز عمل میں مثبت تبدیلی لائے گی ۔
[email protected]
***

موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تازہ اطلاعات کے مطابق دنیا کے ایک درجن ممالک کا وجود خطرہ میں ہے۔ دنیا کے درجۂ حرارت میں محض ۲ ڈگری کا اضافہ کرۂ ارضی کے منظر نامے کو تبدیل کردے گا۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو اگر صنعتی ترقی سے پہلے والی سطح تک دوبارہ نہیں پہنچایا گیا تو عالمی معیشت، موسم کا فطری مزاج، انسانی صحت اور زراعت وغیرہ تباہ ہوجائے گی۔ بدقسمتی سے بعض ممالک اب بھی اس نازک معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور سیاست کررہے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021