’’لوجہاد‘‘ کی سیڑھی

صدر نشین قومی خواتین کمیشن ریکھا شرما کی ہر گوشے سے مذمت

 

ہاتھرس اور اس جیسے بے شمار حساس معاملوں کو نظر انداز کرنے اوراس پر معمول کی کارروائی کرکے خاموش بیٹھ جانے کے بعد’’ لو جہاد‘‘ کے معاملے پر مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کرکے سرخیوں میں آنےوالی نیشنل ویمنس کمیشن کی سربراہ ریکھا شرما شدید مذمت اور تنقید کے گھیرے میں آگئیں۔ انہیں فوری طور پر ان کے عہدے سے برخاست کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ریکھا شرما اس ہفتے کے آغاز میں گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے ملاقات کی تھی اور ان سے ریاست میں ’لو جہاد‘ کا معاملہ بڑھ جانے کی شکایت کرتے ہوئے اس پر ’قابو‘ پانے کی ان سے درخواست کی تھی۔ ذرائع کے مطابق ریکھا شرما نےگورنر کے روبرو ’باہمی رضا مندی‘ سے دومختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان شادی اور ’لو جہاد‘ کے فرق کو واضح کیاتھا اور کہا تھا کہ اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔یہاں پر اُن کے ذریعہ ’لو جہاد‘ کی اصطلاح استعمال کرنے پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہےاورانہیں برخاست کئے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ریکھا شرما کا یہ بیان منظر عام پر آنے کے بعدسوشل میڈیا پر عوام نے اس کا سخت نوٹس لیا ہے ۔ آخر یہ اصطلاح ’’لو جہاد‘‘ کیا ہے؟… جب یہی سوال کیرلہ ہائی کورٹ نے حکومت کیا تو گورنمنٹ آف انڈیا نے لوک سبھا میں یہ کہتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کی” ہندوستان بھر میں ایسی کوئی اصطلاح استعمال میں ہی نہیں ہے ۔خود مرکزی حکومت کے مطابق’’لو جہاد‘‘نامی اصطلاح میڈیا کے ایک گوشے کی سنسنی خیز اختراع ہے جو کہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کچھ مبینہ تنظیموں کو فائدہ پہنچانے کے لیے گھڑی گئی ہے۔
جب حکومت خود اس اصطلاح کے استعمال سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور یہ بھی مانتی ہے کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے پھر کیسے ایک باوقار اور قابل قدر حکومتی ادارے سے تعلق رکھنے والی نمائندہ اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے اور موجودہ سماج کے انتہائی اہم مسائل کے ساتھ اس لفظ کو جوڑنے کی کوشش کررہی تھیں؟ ۔
اگر واقعی ریکھا شرما مہاراشٹر کے ان زیرِ بحث مسائل پر سنجیدہ ہیں تو وہ ان مسائل کے حل کیلئے مہاراشٹرا کے چیف منسٹر سے مذاکرات کرتیں اور ان پر جلد سے جلد قابو پانے کے اقدامات کرنے کے لیے حکومت کی توجہ مبذول کرواتی کیونکہ کسی بھی ریاست کا انتظامی سربراہ چیف منسٹر ہوتا ہے ناکہ گورنر ۔ ریکھا شرما کی جانب سے سنجیدہ اور اہم معاملات کے ساتھ’’ لو جہاد‘‘ نامی مسئلے کو جوڑتے ہوئے، اس کو سیاسی رنگ دینے کے لیے سوشل میڈیا پر عوام نے سخت برہمی ظاہر کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ان سے سوال کیاگیا کہ کیا وہ مہاراشٹر میں اس طرح کے پانچ واقعات بتا سکتی ہیں؟
فلم اداکارہ اور کانگریس کی لیڈر ارمیلا ماتونڈکر نے سوشل میڈیا کے ذریعہ ہی ریکھا شرما کو جواب دیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’’اس ملک میں خواتین بھلا محفوظ کس طرح رہ سکتی ہیں جب اس طرح کا مخصوص ایجنڈہ رکھنے والی ایک خاتون، خواتین کے تحفظ کیلئے بنائے گئے ادارے کی سربراہی کررہی ہو۔‘‘سوشل میڈیا پر سرگرم ایک اور سماجی کارکن دیوی پرساد مشرا نے خواتین کمیشن کی سربراہ سے سوال کیا کہ ’’کیا این سی ڈبلیو اور اس کی سربراہ اس بات کی وضاحت کریں گی کہ ’لو جہاد‘ سے ان کا کیا مطلب ہے؟کیا آپ اس اصطلاح کا استعمال انہی معنوں میں کررہی ہیں جس کا استعمال کچھ انتہا پسند تنظیمیں کررہی ہیں؟اگر ہاں! تو کیا آپ کسی قانونی بنیاد کے بغیران کی نظریات کی حمایت کررہی ہیں؟‘‘
پلّوی نامی ایک خاتون نے ریکھا شرما کو گھیرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ قومی خواتین کمیشن ان معاملات کو بھی اٹھائے گی، جن میں دوسرے مذاہب میں شادی کرنے کیلئے خواتین پر حملہ کیا جاتا ہے اور انہیں مار تک دیا جاتا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’لوجہاد‘ جیسےبے معنی اصطلاح کا استعمال کرناغیر دستوری ہے۔ایک اور یوزر شاہانہ یاسمین نے سوال کیا کہ’’ریکھا شرما کون سے لو جہاد کی بات کررہی ہیں؟ کیا وہ اس طرح کے واقعات کی نشاندہی کرسکتی ہیں۔‘‘
اس کے ساتھ ہی انہیں برخاست کرنے کے مطالبے میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ انہیں فوری طورپر ان کے عہدے سے برخاست کردیا جائے۔ کانگریس کی قومی ترجمان سپریا سریناٹے نے اس بات پر حیرت کااظہار کیا کہ ایک سطحی سوچ رکھنے والی اس خاتون کو اتنا بڑا عہدہ کیسے تفویض کیاگیا جس پر ملک کے تمام خواتین کے حقوق کی نگہبانی کی ذمہ داری ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ریکھا شرما نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کو ’لاک‘ کردیا ہے۔ ان کے اکاؤنٹ پر جانے کے بعد یہ نوٹ سامنے آرہی ہے کہ ’ٹویٹ پروٹیکٹیڈ‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے ٹویٹس اب صرف وہی لوگ دیکھ سکیں گے جنہیں وہ اجازت دیں گی۔ خبروں کے مطابق اس سےقبل انہوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ کسی نے ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ ہیک کرلیا ہے۔ خیال رہے کہ ریکھا شرما پر بہت پہلے سے بی جے پی کے ایک کارکن کی طرح کام کرنے کا الزام عائد ہوتا رہا ہے۔ اس عہدے پر آنے سے قبل وہ ہریانہ میں بی جے پی کی ضلعی سطح کی سیکریٹری اور میڈیا انچارج تھیں۔
اسی دوران دلی کمیشن فار وومن کی تین سالہ رپورٹ منظر عام پر آئی ۔جس سے نیشنل کمیشن فار وومن کے درمیان واضح فرق سامنے آتا ہے ۔دلی کمیشن فار وومن کے مطابق گذشتہ آٹھ سالوں کے برعکس پچھلے تین سالوں میں ان کی کارکردگی میں 700فیصد اضافہ ہوا ہے ۔گذشتہ تین سالوں میں 52,473 کیسوں کی جانچ کی گئی ہے جبکہ پچھلے آٹھ سالوں میں سابقہ چیئرمین نے صرف ایک معاملے کی جانچ کی تھی ۔اس کے علاوہ 35,606 جنسی زیادتی کی شکار خواتین کی مدد کی گئی ۔ 11,670کیسس میں جنسی زیادتی کی شکار خواتین کی کونسلنگ کے ذریعے بازآباد کاری میں مدد کی گئی ۔ 181ہیلپ لائن نمبر پر 2,35,000 معاملات پر ایکشن لیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ 43,497 الگ الگ مقامات کا دورہ کرتے ہوئے مقامی حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے ۔مہیلہ پنچایت پروگرام کے تحت 15,843کمیونٹی میٹنگز کے ذریعے معاملات کی سنوائی کی گئی۔ جنسی زیادتی اور عصمت ریزی کی شکار 6,952خواتین کو ایف آر آئی درج کروانے میں مدد کی گئی ۔ عصمت ریزی کے شکار 559 کیسس میں کورٹ کے ذریعہ معاوضہ دلانے میں مدد کی گئی ۔535 معاملات میں کامیابی کے ساتھ عصمت ریزی کی شکار لڑکیوں کو بچایا گیا۔ دلی مہیلہ آیوگ کی اس رپورٹ کارڈ کے ذریعے امید ہے نیشنل کمیشن آف وومن بھی ظاہری سیاسی معاملات میں الجھنے کے بجائے معیاری نتائج پر غور کرے گی۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020