للن اور کلن کی جیل یاترا

کسانوں کے قتل پر ایس آئی ٹی کی رپورٹ۔ٹھاکروں کی سیاست اور برہمنوں کی دبنگئی

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

لکھیم پور کھیری جیل کے دروازے پر جمن انصاری نے للن ٹینی سے پوچھا کیوں صاحب! منہ اٹھائے کہاں چلےجارہے ہو ؟
للن نے اکڑ کر کہا ابے او چوکیدار جانتا نہیں میں کون ہوں؟
دیکھیے صاحب چوکیدار تو آپ کے پردھان جی ہیں۔ میں چوکیدار نہیں ہوں
اچھا تُو چوکیدار نہیں تو کیا ہے ؟
میں حوالدار ہوں صاحب حوالدار۔
خیر تیرا عہدہ جو بھی ہو کرتا تو چوکیداری ہی ہے نا؟ اس لیے چوکیدار ہی کہلائے گا۔
جی نہیں صاحب! آپ کے پردھان کہاں چوکیداری کرتے ہیں جو چوکیدار کہلاتے ہیں۔
للن نے پوچھا اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
فرق کیوں نہیں پڑتا۔ وہ بغیر چوکیداری کیے چوکیدار ہوسکتے ہیں تو میں چوکیداری کرکے حوالدار کیوں نہیں۔ کام کرنے اور بول بچن میں فرق تو ہے۔
اچھا چل اب باتیں کم اور کام کر۔ جلدی سے گیٹ کھول کیا سمجھا؟
جمن بولا صاحب گیٹ تو کھولوں کا مگر پہلے آپ کی جامہ تلاشی لینی ہوگی۔
تُو میری جامہ تلاشی لے گا ؟ ادھر لکھیم پور میں ؟؟ تیری یہ مجال ؟؟؟
صاحب یہ میری مجال نہیں ذمہ داری ہے اور میں اسے ادا کروں گا ۔
للن نے غصے سے آگ بگولہ ہوکر پوچھا: لگتا ہے تجھے سبق سکھانا پڑے گا ۔ تو نہیں جانتا کہ میں کون ہوں ؟
دیکھیے صاحب! سبق تو آپ کو سکھایا جاچکا ہے آپ حد میں رہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کون تھے اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ اب آپ کیا ہیں؟
للن بولا بہت زبان چلاتا ہے تجھے نہیں معلوم کہ میں اس سے پہلے کیا تھا اور اب بھی وہی ہوں۔
جمن نے کہا مجھے سب پتہ ہے صاحب لیکن آپ کو نہیں معلوم میں کون ہوں ؟
اچھا تو کون ہے تُو ؟ کوئی لارڈ گورنر ہے کیا؟
دیکھیے صاحب! میرا نام جمن انصاری ہے۔ وہ تو میرا باس فی الحال جیل میں ہے ورنہ ابھی تک آپ کو پتہ چل جاتا کہ میں کیا ہوں ؟
اچھا! میرے علاقہ میں مجھے دھمکی دیتا ہے ۔
دیکھیے صاحب! باس نہیں ہے تو کیا وردی تو ہے۔ آپ تلاشی کے بغیر اندر نہیں جاسکتے ۔ ویسے ایک صورت ہے ؟
للن نے حیرت سےسوال کیا اچھا! وہ کیا ؟
یہی کہ آپ ازخوداپنا ریوالور یہاں جمع کردیں ، میں آپ کی تلاشی نہیں لوں گا۔
اچھا تو کیا میں اس کے ساتھ اندر نہیں جاسکتا ؟
جی نہیں! کیونکہ اگر آپ میرے ہوتے اسے اندر لے جاکر کچھ ایسا ویسا کردیں تو میری ذمہ داری ہوگی۔
للن نے سوچا ویسے بھی بیٹے کلن مونو سے ملاقات میں پستول کا کیا کام ؟ وہ اسے میز پر رکھ کر بولا اچھا یہ سنبھال کر رکھ میں واپسی میں لے لوں گا۔
جی سرکار ۔ بہت شکریہ ۔ آپ اندر جاسکتے ہیں ۔ مونو آپ کا انتظار کررہا ہے۔
کلن مونو کو دیکھ کر للن ٹینی بولا کیوں بیٹے کیسے ہو؟
کلن روہانسا ہو کر بولا بابا جیسے لوگ جیل میں رہتے ہیں ویسا ہوں ۔
نہیں بیٹا جیل کے اندر ایسی ٹھاٹ باٹ کس کی ہوتی ہے جیسی تیری ہے؟
جی ہاں لیکن پھر بھی جیل تو آخر جیل ہی ہوتی ہے۔ اچھا یہ بتائیے کہ میری ضمانت کا کیا ہوا؟
بیٹے! ایس آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد تو معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا ہے۔
لیکن بابا! آپ کے ہوتے یہ رپورٹ آئی کیسے ؟
دیکھو بیٹے! میں غفلت میں مارا گیا ۔
غفلت ؟ کیسی غفلت میں نہیں سمجھا ؟؟
ارے بیٹے! میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہماری اپنی ریاستی سرکار کے تحت کام کرنے والی ایس آئی ٹی ایسی رپورٹ جمع کردے گی ۔
بابا! دراصل آپ نے ٹھاکروں پر بھروسہ کرکے بہت بڑی غلطی کی اور اس کی سزا میں بھگت رہا ہوں ۔
ارے بھائی وزیراعلیٰ ہماری اپنی پارٹی کے ٹھاکر ہیں ۔
مجھے معلوم ہے لیکن میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ پارٹی کی وفاداری صرف ابن الوقتی ہے اصل چیز تو ذات برادری ہوتی ہے۔
جی ہاں! برادری کا معاملہ بھی ہوتا ہے اور پارٹی بھی ہوتی ہے لیکن یہ کوئی اور ہی چکرہے۔
کوئی اور چکر؟ سیاست میں برادری اور پارٹی کے سوا اورکیا ہوسکتا ہے۔ دھن دولت ؟ لیکن اس کی ہمارے پاس کیا کمی ہے۔
ارے بیٹے! دھن دولت اور دبنگائی کی تو ہمارے پاس کوئی کمی نہیں ہے لیکن ہم لوگ کراس فائر میں پھنس گئے۔
کلن نے حیرت سے پوچھا کراس فائر؟ کیسا کراس فائر ؟؟ میں نہیں سمجھا ؟؟؟
وہ ایسا ہے بیٹا کہ فی الحال شاہ جی اور یوگی کے درمیان ایک سرد جنگ چل رہی ہے۔
اس کے باوجود آپ نے اپنے دنگل میں وزیراعلیٰ کے بجائے ان کے نائب کو بلا لیا جبکہ ان کے درمیان کھٹائی ہے۔
اوہو وہ ہمارے کیمپ کے آدمی ہیں ۔ شاہ جی کو خوش کرنے کے لیے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔
ٹھیک ہے آپ نے انہیں خوش کردیا لیکن انہوں نے تو آپ کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔
دیکھو بیٹے انہوں نے بچانے کی کوشش کی مگر کبھی کبھار حالات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔ دو ملاوں کے بیچ میں مرغی حرام ہوجاتی ہے۔
بابا مجھے سب معلوم ہے۔ کیا آپ مجھے بچہ سمجھتے۔ یہ بات تو اپنی ریاست کا بچہ بچہ جانتا ہے۔
جی ہاں جانتے تو سب ہیں مگر اس کی قیمت ہم لوگوں کو چکانی پڑرہی ہے۔
یہ تو بہت بری بات ہے ۔ ہم کیوں چکائیں اس کی قیمت ؟؟لیکن یاد رکھیے اگر اس کراس فائر میں کوئی ٹھاکر آجاتا تو اس کا یہ حشر نہیں ہوتا۔
یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟
سیدھی بات ہے بابا آپ نے دیکھا ہاتھرس میں کیا ہوا ؟ کس طرح سارے ثبوتوں کے باوجود ٹھاکروں کو بچانے کی کوشش کی گئی۔
جی ہاں لیکن اس میں کوئی سیاست نہیں تھی۔
کیوں نہیں تھی؟ وہاں پھر کھلےعام ٹھاکروں نے مہا پنچایت بلا کر اپنے نوجوانوں کو چھڑانے کا مطالبہ کردیا۔ کیا برہمن یہ کرسکتے ہیں؟
ارے بھائی نہیں کرسکتے مگر کیا کریں ۔ ہمارے پاس کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے ۔
کیا مطلب؟ کیا کمل کے علاوہ سارے پھول مرجھا چکے ہیں ۔ کسی اور کی سیاست نہیں چل رہی ہے۔
ارے بھائی ہم نے ہاتھ کا ساتھ چھوڑ کر ہاتھی پر سواری کی لیکن اب وہ بھی ہانپ رہا ہے۔
ہانپ رہا ہے ؟ کیا بہن جی اس بار الیکشن نہیں لڑ رہی ہیں ؟؟
لڑ تو رہی ہیں مگر ہارنے اور ہرانے کے لیے۔ مجھے تو لگتا ہے اس بار ہاتھی کا انتم سنسکارہوجائے گا۔
لیکن پرینکا کا تو کافی زور ہے۔ اسی نے یہاں آکر سارا کھیل خراب کیا۔
جی ہاں نہ اسے لکھیم پور آتے ہوئے وزیر اعلیٰ گرفتار کرتے اور نہ اتنی بڑی خبر بنتی۔
اور نہ میری گرفتاری ہوتی۔ سارا فتنہ اس بھائی بہن کا پھیلایا ہوا ہے۔ میرے بس میں ہوتا تو میں ان پربھی گاڑی چڑھا دیتا۔
تمہارے اسی گرم دماغ کی وجہ سے میں اور میری پارٹی مشکل میں پھنسی ہوئی مگر تمہاری سمجھ میں نہیں آتا۔ پھر وہی دھونس دھمکی کی باتیں ۔
بھاڑ میں جائے آپ کی پارٹی میں تو کہتا ہوں۔ آپ غلط لوگوں کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ ان کو گولی مارو۔
تمہاری اس مار دھاڑ سے میں تنگ ہوں۔ وہ توجمن حوالدار نے پستول رکھوا لی ورنہ میں تمہارا حساب کتاب ٹھیک کردیتا۔
کلن بولا ایسا ہے تو یہ لیجیے میرے پستول سے میرا کام تمام کردیجیے۔
کلن کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر للن چونک پڑا۔ وہ بولا ارے یہ تمہارے پاس کیسے آگیا ؟ مجھ سے تو اس جمن نے یہ باہر ہی رکھوا لیا۔
ارے بابا ،مجھے پتہ ہے وہ انصاری کا آدمی پولیس میں بھرتی ہوگیا ہے۔
لیکن اس نے تمہیں یہ پستول اندر کیسے لانے دیا؟
بابا میں جس وقت آیا اپنا کنن سوامی ڈیوٹی پر تھا۔ اس کی کیا مجال کے مجھے روکتا۔ وہ رات کوڈیوٹی پر آتا ہے۔ اس کے بعد اپنا ہی راج ہوتا ہے۔
ٹھیک ہے ۔ میں اس کم بخت جمن کا تبادلہ کرواتا ہوں ۔
آپ اس کا کیا تبادلہ کروائیں گے ۔ میرے آنے کےدو دن قبل اس کو ٹرانسفر کرکے یہاں لایا گیا ہے۔
اچھا تب تو یہ بھی سازش کا حصہ ہوسکتا ہے۔
جی ہاں آپ کی اس پارٹی میں چھل کپٹ اور شڑینتر کے سواچل ہی کیا رہا ہے۔ مجھ کوتو گھن آنے لگی ہے۔
لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ؟
میں تو سب سے پہلے یوا مورچے کی صدارت سےاستعفیٰ دینے والا ہوں ۔
لیکن میں کیا کروں ؟
بابا سائیکل کے بارے میں سوچیے۔ آج کل بہت بھاگ رہی ہے۔
کیسی باتیں کررہے ہو بیٹے۔ یادو سماج کے ساتھ ہماری بات کبھی بھی نہیں بن سکتی ۔ تم ان کو نہیں جانتے ۔
یہ گزرے زمانے کی باتیں ہیں بابا۔ آپ نے دیکھا پوروانچل کے پورےتیواری پریوار نے گیروا گمچھا پھینک کرلال ٹوپی پہن لی ہے۔
جی ہاں وہ بھی اپنے ٹھاکر صاحب کی حماقت کا نتیجہ ۔ انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ۔
تو ہم سے کون سا اچھا سلوک کررہے ہیں ؟ وہ تو شاہ جی سے اپنا حساب چکانے کے لیے آپ کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں ۔
ہاں بیٹے لیکن ہم لوگ فی الحال مجبور ہیں ۔ اس کانڈ کے بعد کوئی ہمیں اپنے قریب نہیں لے گا۔
تو کیا ہم اسی طرح گھٹ گھٹ کر مرتے رہیں گے ۔
نہیں بیٹے عوام کی یاد داشت کمزور ہوتی ہے۔ کچھ دن بعد وہ سب کچھ بھول بھال جائیں گے ۔ اس کے بعد ہم اپنی آگے کی حکمت عملی بنائیں گے۔
تو کیا میں اس وقت تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑتا رہوں گا ؟
نہیں بیٹے الیکشن کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا ۔
تو کیا آپ کا مطلب ہے کمل مرجھا جائے گا ؟
جی ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے۔
لیکن سائیکل والے تو ہم سے اور بھی دشمنی نکالیں گے ۔
یہ ضروری نہیں ہے ۔ ہم اگر ان کی جانب بڑھیں گے تو کون اپنا نقصان کرے گا ؟
لیکن اگر پھر سے کمل کھل جائے تو کیا ہوگا؟
تب بھی شاہ جی دوبارہ ٹھاکر صاحب کو بننے نہیں دیں گے اور جو بھی آئے گا وہ اپنا آدمی ہوگا۔ موریا سے تو اپنی ویسے بھی دوستی ہے۔
تو بابا آپ کا مطلب ہے مارچ تک مجھے اسی جیل کی ہوا کھانی پڑے گی ؟
ہاں بیٹے مجھے اس کے علاوہ کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔
ٹھیک ہے بابا تب تو غالب کا یہ شعر پڑھنا پڑے گا ۔
کون سا شعر ؟
وہی بابا:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
ہاں بیٹے
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26  دسمبر تا 1 جنوری 2021