لب پر گاندھی دل میں گوڈسے!
سات دہائیوں کے بعد بھی جمہوریہ ہند میں عوام کو انصاف اور مساوات کی آس
ابھے کمار ، نئی دلی
گوڈ سے کو پھانسی لگی مگر اس کےنظریات کو فروغ ملا!کیا بھارت کی تاریخ صرف آریائی، ویدک اور ہندو تہذیب تک ہی محدود ہے؟
کہتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے الگ اور کھانے کے الگ ہوتے ہیں۔ یہ بات بڑی حد تک بھگوا جماعت پر صادق آتی ہے۔ جہاں ایک طرف اس سے جڑے سرکردہ لیڈر گاندھی کے مجسمہ پر گلپوشی کرتے ہیں اور ان کو اپنا آئیڈئل بھی کہتے ہیں تو دوسری طرف بابائے قوم کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو بھی ہیرو مانتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں بھی صحیح ہوں؟ یا تو گاندھی کا موقف درست ہو سکتا ہے یا پھر گوڈسے کی سوچ صحیح ہو سکتی ہے۔ مگر بھگوا جماعت کی عیاری اور سیکولر طاقتوں کی بے عملی اور موقع پرستی کا نتیجہ ہے کہ آج گوڈسے کی زہریلی سوچ سماج کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گئی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ آئینی منصب پر بیٹھے بھگوا لیڈر عوام کے سامنے گاندھی کو ہی اپنا رہنما قبول کرتے ہیں اور باپو کی ہی آرتی اُتارتے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ سب حالات کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں۔ ان کا منشاتو یہ ہے کہ گوڈسے کے راستہ پر ملک کو چلایا جائے اور یہاں کی مشترکہ وراثت اور شہادت کی تاریخ کو مٹا کر اسے ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جائے ۔
ملک کی یہ بد قسمتی ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف ملک کے عوام نے سیکولر لیڈرشپ کو اتنا کچھ موقع دیا مگر انہوں نے صحیح کم اور خراب زیادہ کیا۔ فرقہ پرستی اور نفرت کے خلاف جو لڑائی ان کو لڑنی چاہیے تھی اور جو عوامی حمایت ان کو دی گئی تھی اس کی اہمیت کو وہ نہ سمجھ سکے اور انہوں نے اقتدار کی خاطر ایک کے بعد ایک سمجھوتا کیا اور بعض اوقات فرقہ پرستوں کے ساتھ پس پردہ ساز باز بھی کی، اس طرح ملک کو کمزور کیا۔ سیکولر طاقتوں کی یہ نادانی تھی یا ان کی موقع پرستی کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ گوڈسے کو پھانسی لگ جانے کے بعد اس کی کہانی کا اختتام ہو گیا۔ مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔ انہوں نے گوڈسے کو ایک نفرت انگیز نظریہ کی علامت سمجھنے کے بجائے واحد جنونی انسان سمجھا جو ایک روز پستول اٹھا کر گاندھی کے جسم میں تین گولی مار دیں اور کہانی ختم۔
سیکولر فورسیز کی اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوتوا طاقتیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف مین اسٹریم میں واپس آ گئیں بلکہ انہوں نے گوڈسے کو دوبارہ عوام میں ہیرو بنانے کا کام کیا۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ انہوں نے اس کام کو انجام دینے میں کتنا وقت لگایا مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ فرقہ پرست اور شدت پسند گروپوں سے باہر بھی اس کا پرچار کیا گیا اور بہت سارے لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ گوڈسے نے ہندو سماج اور ملک کے لیے قربانی دی اور اس نے گاندھی کو ہلاک کر کے صحیح کام کیا تھا۔
میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ہندو سماج، خاص کر اعلی ذات کے ایک حصہ میں گوڈسے کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پرائمری اسکول کا طالب علم تھا تب بھی میرے گاوں میں گوڈسے کا ذکر ہوتا تھا۔ یہ بات ۱۹۹۰ کی دہائی کی ہے، اس وقت تک بھگوا طاقتیں سیاست کے مرکز تک نہیں پہنچ پائی تھیں اور اقتدار کی کرسی پر سیکولر طاقتیں ہی قابض تھیں۔ میرا آبائی وطن شمالی بہار کا ایک بہت ہی پسماندہ گاوں ہے، جو نیپال کی سرحد سے قریب ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے گاوں میں ایک شکلا جی ہوتے تھے، جو پاس کے کسی اسکول میں معلم تھے۔ کم پڑھے لکھے گاوں میں ان کی بڑی عزت تھی۔ سرکاری نوکری تھی اس کے علاوہ وہ زمیندار بھی تھے۔ بات کرنے کا انداز بھی اچھا تھا۔ زبان شیریں تھی اور آرام سے بولتے تھے۔ وہ ہندی کے اخبارات پڑھتے تھے اور ریڈیو سے خبریں بھی سنتے تھے۔ گاوں کے دیگر باشندے کم پڑھے لکھے تھے۔ لوگوں کو ماسٹر جی ملک اور دُنیا کی سیاست اور حالات حاضرہ کے بارے میں جانکاری دیتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب بہار کے گاوں میں ٹی وی ایک دو گھروں تک ہی پہنچ پایا تھا۔ ڈی ٹی ایچ اور کیبل نیٹ ورک تو دور گاوں میں بجلی بھی نہیں تھی۔
شاید ناتھو رام گوڈسے کے بارے میں سب سے پہلے میں نے انہی سے سنا تھا۔ گاندھی جی کے بارے میں ہم تھوڑا بہت جانتے تھے کیونکہ یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کی تقریب کے دوران ہمارے اسکول کے بچوں کی ریلی گاوں بھر میں گھومتی تھی۔ مائک کو ہاتھ میں پکڑ کر ہم مہاتما گاندھی زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے۔ گاندھی کون تھے، ان کے کیا افکار تھے یہ سب ہم کو معلوم نہیں تھا۔ مگر جب میں نے ماسٹر جی کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ گوڈسے نے گاندھی کا قتل کرنے کے بعد ایک کتاب لکھی جسے سب کو پڑھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کتاب میں گوڈسے نے یہ بتلایا ہے کہ آخر کیوں اسے گاندھی کو مارنے کی ضرورت پڑی۔ ماسٹر جی کی باتوں کو سن کر ایسا لگا کہ گوڈسے نے بڑی قربانی دی اور دیش کو بچایا تھا۔ ماسٹرجی نے گاندھی کی غلطیوں کے بارے میں بھی بتلایا کہ وہ کیسے مسلم نواز تھے اور کیسے انہوں نے ہندو سماج کا نقصان کیا تھا۔ شکلا جی کی بات مجھے آج بھی یاد ہے۔ مگر اب ان کی باتوں کا مطلب کچھ اور ہی سمجھ میں آتا ہے۔ جس گوڈسے
کی کتاب کا ذکر انہوں نے کیا تھا اسے میں کچھ سال پہلے پڑھ چکا ہوں اور اب مجھے اس بات کا یقین ہونے لگا ہے کہ ماسٹر جی ضرور بھگوا تنظیم کے پرچارک، مبلغ یا پھر اس کے اہم کارکن رہے ہوں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بچپن میں ماسٹر جی کی نفرت انگیز باتیں بھی بری نہیں لگتی تھیں کیونکہ کہنے والا گاوں کا ہی ایک معزز ٹیچر تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے شعور میں اضافہ ہوا۔ اپنے ذاتی تجربہ اور مطالعہ سے مجھے سماج کے اندر جڑیں مضبوط کر چکی فرقہ پرستی کی بیماری سے چھٹکارا ملا۔ مجھے محسوس ہوا کہ سیکولر نظریہ ہی درست ہے اور جو لوگ دھرم اور مذہب کے نام پر معاشرہ میں دراڑیں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ ملک کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ مجھے اس بات کا مضبوط یقین ہونے لگا کہ اصل لڑائی نا برابری کے خلاف ہونی چاہیے۔ میں نے دیکھا کہ سماج میں غیر مساوی نظام آسمان سے نہیں ٹپکا ہے بلکہ کچھ مٹھی بھر لوگ اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ ارباب اقتدار کا اس میں مفاد ہے کہ ذات پات اور دھرم کے نام پر لوگوں کو بانٹ کر رکھا جائے اور نفرت اس قدر پھیلائی جائے کہ باطل ہی حق اور شر ہی خیر نظر آنے لگے۔ لوگوں کو دھرم کے نام پر اس لیے تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ ان کا ذہن اور ان کی لڑائی کبھی بھی صحیح سمت اختیار نہ کرے۔
یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں آج اپنے ناپاک منصوبہ میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئی ہیں۔ سماج کا ایک حصہ نفرت کی سیاست کی زد میں آ گیا ہے۔ جب دن رات افواہیں پھیلائی جائیں اور جھوٹ کو بار بار دہرایا جائے تو وہ سچ معلوم ہونے لگتا ہے۔ آج ایسا ہی کچھ گوڈسے کے بارے میں بھی ہو رہا ہے۔ آزادی کو ملے ہوئے ہمیں ۷۵ سال سے بھی زیادہ ہو گئے مگر آج بھی ہماری جمہوریت فرقہ پرست عناصر کے خطرہ سے آزاد نہیں ہے۔ آج تو حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ باپو کے قاتل کے نظریہ کے حاملین اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو گئے ہیں۔ ایک زمانہ تک انہوں نے ملک کے آئین کو اس لیے برا بھلا کہا کیونکہ وہ ہندو دھرم کی مذہبی کتابوں پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے گاندھی کو مسلم نواز کہہ کر نئی نسلوں کو گمراہ کیا۔ آج بھی گوڈسے کو ہیرو بنانے کے لیے پوری مشینری لگی ہوئی ہے۔ یہ بات ہمیں نہیں فراموش کرنی چاہیے کہ جو لوگ آج حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ گوڈسے کے نظریہ کو دل سے قبول کرتے ہیں اور دنیا کو دکھلانے کے لیے گاندھی کے نام کا جاپ کرتے ہیں۔
اخبارات کے پرانے صفحات کو پلٹ کر دیکھیے پا پھر انٹرنیٹ پر سرچ کر لیجیے آپ کو بہت ساری ایسی کہانیاں مل جائیں گی جن میں گوڈسے کو میڈیا اور عوام کے سامنے ہیرو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب ہنگامہ زیادہ بڑھ جاتا ہے اور گوڈسے بھکتی پر سوال اٹھنے لگتے ہیں تو سرکار میں بیٹھے بھگوا لیڈر خود کو ان ساری حرکتوں سے الگ کر لیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گوڈسے نواز فوج کو پیدا کرنے والے اور ان کو ہر طرح سے مدد فراہم کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ یہی بھگوا تنظیمیں ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو گوڈسے کا نام اس کے ساتھ ہی مٹ گیا ہوتا۔ اگر بھگوا عناصر گوڈسے کو آگے نہیں کرتے تو آج اس کے مجسمہ پر گلپوشی نہیں ہوتی، نہ کوئی اس کے لیے مندر بنانے کی بات کہتا اور نہ کوئی گاندھی کی تصویر پر علامتی طور سے گولی چلاتا! یہ بھی بات ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بھگوا حکومت میں بیٹھے جو لوگ بھی خود کو گوڈسے کے نام سے اپنے آپ کو منسوب نہیں کرتے ہیں وہ بھی گوڈسے کی سوچ کے مطابق ہی سیاست کرتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں گوڈسے کی زندگی اور اس کے نظریہ کے بارے میں چند اہم باتوں کا ذکر کرنا پڑےگا۔
ناتھو رام گوڈسے نے ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ کی شام پانچ بجے باپو کے جسم میں تین گولیاں ماریں۔ یہ واقعہ تب پیش آیا جب وہ دہلی میں واقع بِرلا ہاوس میں پوجا پاٹ کر رہے تھے۔ باپو کے قتل کے الزام میں گوڈسے پر مقدمہ چلا اور اسے عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی۔ گوڈسے کی اس مذموم حرکت کے بعد ملک میں بھگوا فرقہ پرست تنظیموں کے خلاف ایک ماحول بن گیا۔ چونکہ گوڈسے کا تعلق ہندو مہاسبھا سے تھا اور وہ وی ڈی ساورکر کے رابطہ میں بھی تھا اس لیے عوام میں ان بھگوا تنظیموں کی مقبولیت کافی کم ہو گئی اور وہ مین اسٹریم سے الگ تھلگ پڑ گئے۔ اس کے بعد سیکولر طاقتوں نے محسوس کیا کہ اب بھگوا عناصر کبھی بھی دوبارہ سر اٹھا نہیں سکیں گے۔ مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔ رفتہ رفتہ بھگوا طاقتوں نے پاوں پھیلانے شروع کیے۔ انہوں نے سیکولر طاقتوں کی موقع پرستی اور غفلت کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور تصویر بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
گوڈسے نواز طاقتیں آج اقتدار کی کرسی پر قابض ہیں اور ملک کی مشترک وراثت میں یقین رکھنے والے لوگوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو غدار وطن، مسلم نواز کہہ کر دن رات گالیاں دی جا رہی ہیں۔ آج صورت حال اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ بابائے قوم کے قاتل گوڈسے کے مجسمہ پر گلپوشی کی جا رہی ہے اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے اس کی آرتی اُتاری جارہی ہے۔ یہ سب ملک کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ گوڈسے کے پستول سے نکلنے والی گولی سے بھی زیادہ خطرناک یہ فرقہ وارانہ فکر ہے۔ گولی تو ایک انسان کی جان لے سکتی ہے، مگر نفرت، تفریق اور فتنہ بھڑکانے والا نظریہ پورے سماج اور ملک کو تباہ اور برباد کر دیتا ہے۔
گوڈسے گاندھی کے افکار اور ان کی پالیسی سے کافی ناراض تھا۔ اس کو لگتا تھا کہ گاندھی مسلمانوں کے مفاد میں اس قدر کام کر رہے ہیں جس سے ہندو سماج کا بڑا بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ حالانکہ ان باتوں میں کوئی سچائی نہیں تھی۔ گوڈسے کے ذہن پر بھگوا شدت پسند تنظیموں کا اثر تھا۔ گوڈسے اپنی جوانی کے دنوں میں آر ایس ایس سے جڑا ہوا تھا۔ پھر وہ ہندو مہاسبھا کے قریب آیا۔ اتنا ہی نہیں وہ مہاراشٹرا سے شائع ہونے والے مراٹھی روزنامہ "اگرانی” کا مدیر بھی بنا۔ اس کو لوگ پنڈت ناتھو رام گوڈسے کے نام سے بھی پکارتے تھے اور وہ ساورکر کے کافی قریب تھا۔ گاندھی کے بارے میں گوڈسے نے اپنے دل میں بہت ساری غلط فہمیاں پال رکھی تھیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ گاندھی مسلمان، مسلم لیگ کے رہنماوں اور پاکستان پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہیں، جبکہ وہ اس بات سے فکر مند نہیں ہیں کہ ہندووں کے خلاف قتل و غارت گری کرنے والے یہی لوگ ہیں۔
در اصل گاندھی اور سیکولر طاقتوں کو مسلم نواز کہنے والا گوڈسے ہی واحد شخص نہیں تھا۔ آج بھی اس طرح کے خیالات بھگوا عناصر کی طرف سے پھیلائے جاتے ہیں کہ سیکولر لیڈرشپ مسلمانوں کے لیے کام کرتی ہے’ اسے ہندو سماج اور ملک کی زیادہ فکر نہیں رہتی۔ گوڈسے کا بھی یہی ماننا تھا کہ تقسیم ملک کے وقت مسلمانوں نے ہندووں پر ظلم اور زیادتی کی اور مسلم لیگ کی سرکار خاموش تماشائی بنی رہی۔ گاندھی سے گوڈسے کی ناراضگی اس بات سے بھی تھی کہ گاندھی اپنی پوجا پاٹ کے دوران قرآن بھی پڑھتے ہیں۔ گوڈسے کی غلط سوچ کی بنیاد میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ قدیم زمانہ سے ہندوستان ہندووں کے لیے مادر وطن اور مقدس سرزمین رہا ہے۔ بھارت کی جو عظیم تاریخ ہے اسے بنانے میں صرف اور صرف ہندووں کا ہی رول رہا ہے۔ وہیں دوسری طرف مسلمان بھارت میں دسویں صدی کے بعد داخل ہوئے اور انہوں نے’’ہندو‘‘ملک کے اوپر مسلم حکومت تھوپ دی۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مسلمانوں کو حملہ آور کہنے والوں میں صرف گوڈسے ہی شامل نہیں ہے، بلک ملک کی حکومت کے عالی منصب پر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے بھی ہزار سال کی غلامی کی بات کہہ کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
گوڈسے اور دیگر بھگوا فرقہ پرستوں کی نفرت انگیز سوچ اس وجہ سے ہے کہ ان کا خیال ہے کہ مظلوم تو صرف ہندو ہی ہو سکتا ہے اور ظالم صرف غیر ہندو، جیسے مسلمان، مسلم لیگ، پاکستان اور عیسائی۔ اگر بات تقسیم ملک کی جائے تو یہ کہنا کہ فسادات میں صرف ہندووں کا ہی خون بہا تو یہ سراسر غلط بات ہو گی۔ مگر گوڈسے کو صرف ہندو خون بہتا ہوا نظر آیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خون ہندو کا نہیں بہا اور نہ ہی مسلمان اور سکھ کا بہا تھا بلکہ صحیح معنوں میں کہا جائے تو خون مظلوموں کا بہا تھا اور ظلم اور زیادتی کرنے والے طاقتور لوگ تھے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی علاقہ میں ہندو کے ساتھ ظلم کیا گیا ہو اور کسی علاقہ میں سکھ، عیسائی، مسلمان اور دیگر کے ساتھ۔ دراصل تقسیم ملک، بھارت میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے ایک المیہ تھا جس میں خون انسان کا بہا تھا اور وہ اس لیے بہا تھا کہ ہندوستان کے لیڈروں نے اپنی کرسی کی پروا زیادہ اور ملک و معاشرہ کی پروا کم کی تھی۔ اگر ان لیڈروں نے اقتدار میں سب کو شریک کرنے اور کمزور طبقات کو ان کا حق دینے کی کوشش سچے دل سے کی ہوتی تو آج ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔
یہ بات بھگوا تنظیمیں نہیں سمجھنا نہیں چاہتیں کہ بھارت کی اصل طاقت یہاں کے لوگوں کے مابین اتحاد ہے۔ لوگوں کو دھرم کے نام پر لڑانے سے ایک مخصوص سیاسی جماعت ہی مضبوط ہو سکتی ہے مگر ملک اور سماج اندر سے کمزور ہوتا ہے۔ یہ بات ان فرقہ پرستوں کو کون سمجھائے کہ یہ ملک جتنا ہندووں کا ہے اتنا ہی مسلمانوں اور دیگر مذہبی گروپوں کا بھی ہے۔ اس ملک کے وسائل پر جتنا حق ہندووں کا ہے اتنا ہی پسماندہ، دلت اور آدی واسی سماج کے لوگوں کا بھی ہے۔ جس طرح مرد کو تمام حقوق دیے گیے ہیں، اسی طرح خواتین کو بھی حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ کہنا کہ یہ ملک صرف ہندووں کا ہے، ملک کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کرتا ہے۔ کیا ملک کی آزادی میں ہندووں کے علاوہ دیگر سماجی گروپ کے لوگوں نے قربانیاں نہیں دی تھیں؟ کیا بھارت کی تاریخ صرف آریائی، ویدک اور ہندو تہذیب تک ہی محدود ہے؟ ہرگز نہیں۔ در اصل بھارت کی تاریخ صرف ہندو تہذیب کی داستان نہیں ہے، بلکہ اس میں بدھ مت، جین مت، اسلام، عیسائیت، پارسی اور سکھ دھرم کی بھی عظیم داستانیں بھی شامل ہیں۔ جہاں بھارت میں آریائی، ویدک اور سنسکریت تہذیب اہم ہے، اسی طرح ڈراویڈ کلچر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک میں دھر کو ماننے والوں سے لے کر دھرم کو نہ مانے والوںتک کی تاریخ اور افکار شامل ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی فائدہ کے لیے باپو کے قاتل گوڈسے کے حامیوں کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے ان کو بچایا جا رہا ہے۔ یہ سب رجحانات ملک کی مشترکہ وراثت کے لیے بے حد خطرناک ہیں۔ آئیے ایک بار پھر ہم باپو کے یوم شہادت پر عہد کریں کہ ہم گوڈسے کی زہریلی سوچ کو ملک میں پھیلنے سے روکیں گے اور اس کے حامیوں کو سماج میں الگ تھلگ کرنے کے لیے پوری کوشس کریں گے۔
(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔)
***
***
یہ بات بھگوا تنظیمیں نہیں سمجھنا نہیں چاہتیں کہ بھارت کی اصل طاقت یہاں کے لوگوں کے مابین اتحاد ہے۔ لوگوں کو دھرم کے نام پر لڑانے سے ایک مخصوص سیاسی جماعت ہی مضبوط ہو سکتی ہے مگر ملک اور سماج اندر سے کمزور ہوتا ہے۔ یہ بات ان فرقہ پرستوں کو کون سمجھائے کہ یہ ملک جتنا ہندووں کا ہے اتنا ہی مسلمانوں اور دیگر مذہبی گروپوں کا بھی ہے۔ اس ملک کے وسائل پر جتنا حق ہندووں کا ہے اتنا ہی پسماندہ، دلت اور آدی واسی سماج کے لوگوں کا بھی ہے۔ جس طرح مرد کو تمام حقوق دیے گیے ہیں، اسی طرح خواتین کو بھی حقوق ملنے چاہئیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 06 فروری تا 12فروری 2022