لاک ڈاؤن اوربچوں کی نفسیاتی صحت

خوف کی نفسیات کم ہمت اور بزدل بناتی ہیں

خالد پرواز، گلبرگہ

بچوں کو جسمانی اور ذہنی عوارض سے بچانا والدین کی ذمہ داری
کورونا وبا قیامت صغریٰ کی مانند نظر آتی ہے۔ہر طرف نفسا نفسی ،بے بسی اور بے چارگی کا عالم ہے۔زمین کا ہرگوشہ ، زندگی کا ہر شعبہ اور معاشرے کا ہر فرد اس سے متاثر ہے ۔ سابقہ پیڑھیوں نے اس طرح کی ہنگامی صورت حال نہیں دیکھی ہوگی۔ اس غیر یقینی اور خوف سے بھری صورت حال نے اچھے اچھوں کے ہوش اڑا دیے ہیں۔
ٹیلی ویژن پر 24 گھنٹے چلنے والی خبریں اس خوف کے ماحول کو اور خوفناک بنا رہی ہیں ۔سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی افواہیں اس ماحول کو اور ڈراونی بنا رہی ہیں۔ یہ کہانی تقریباً دو سال سے چل رہی ہے۔
اس کا سب سے زیادہ اثر بچوں کے معصوم ذہنوں پر پڑا ہےاور وہ کئی طرح کی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوئے ہیں۔لاک ڈاون کی وجہ سے بار بار اسکولوں کا بند ہونا ،ان کے دوستوں اور ساتھیوں سے دوری، کھیل کود اور سیر و تفریح پر پابندی نے ان کے ذہنی دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں میں روکاوٹوں اور نیند کے اوقات میں تبدیلی کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت کافی متاثر ہوئی ہے۔بار بار امتحانات کی معطلی و منسوخی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا میں مایوسی کی کیفیت پیدا کی ہے۔اس وبا کی وجہ سے بچے نفسیاتی امراض کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ 2020 میں طلبا میں خودکشی کی شرح پچھلے سالوں سے زیادہ رہی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق 2019 میں کل 10335 طلبا نے ہمارے ملک میں خودکشی کی یعنی ہر روز 28 طلبا نے خودکشی کی جو 2020 میں تعداد بڑھ کر 14825 ہوگئی، یعنی کورونا وبا کے دوران 2020 میں ہر روز 40 طلباء نے خودکشی کی۔
خود کشی کے علاوہ بچوں کے اندر بہت ساری نفسیاتی پیچیدگیاں بھی وجود میں آگئی ہیں۔ خودکشی بھی نفسیاتی الجھنوں کی وجہ سے ہی کی جاتی۔ اگر ان مسائل کی پہچان اور اس کا تدارک پہلے ہی کر لیا جائے تو نہ صرف نفسیاتی بیماریوں سے بلکہ اس انتہائی اقدام یعنی خود کشی سے بچوں کو روکا جاسکتا ہے۔ گھر میں والدین اور اسکول میں اساتذہ ان میں ہونے والی تبدیلیوں کو پہچان کر ان کو مختلف ذہنی بیماریوں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ آج والدین کی ضرورت سے زیادہ مصروفیات یا بچوں کے مزاج سے عدم واقفیت نے گھروں میں بچوں کے ذہنی مسائل کی نشاندہی میں ایک روکاوٹ کھڑی کردی ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ اگر بچوں کے رویوں پر گہری نظر رکھیں اور ان کے ساتھ شفقت سے پیش آتے ہوئے ان سے گفتگو کریں تو مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل ممکن ہے۔ لیکن اساتذہ نصاب کی تکمیل اور کتابی مواد کی منتقلی کو ہی مقصد بنالیں تو بچوں کے نفسیاتی مسائل جوں کہ توں رہ جائیں گے۔
اس سلسلے میں کمیونٹی سنٹرس، سماجی ادارے اور تنظیمیں بھی اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ شہری سطح پر کونسلنگ سنٹرس کا قیام، ماہرین نفسیات کی خدمات کا حصول اور اساتذہ اور والدین میں بچوں کی نفسیات کے متعلق شعور بیداری کے پروگرام منعقد کرنا آج کے حالات میں ضروری ہو گیا ہے۔ ورنہ بہترین دماغ ،بہترین صلاحتیں اور وہ بچے جو مستقبل میں بڑی شخصیتیں بن سکتے ہیں حالات کی نذر ہو جائیں گے، اور وہ نونہال جو غیر معمولی انسان، مختلف میدانوں کے ماہرین اور قائدین بننے والے ہیں نفسیاتی آلودگی اور ڈر وخوف کی فضا میں مرجھا جائیں گے۔بقول ابراہیم ذوق
پھول تو دو دن بہار جاں فزاں دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
زندہ قومیں بلند حوصلہ و عزائم کی مالک ہوتی ہیں۔ ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ، کامیابی کی لگن اور مختلف میدانوں کو سر کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اگر بچپن میں ہی نفسیاتی مسائل کے باعث مایوسی اور خوف دل میں گھر کر جائے، خواہشیں اور تمنائیں دم توڑ جائیں تو بڑا ہو کر وہ زندہ لاش بن کر رہ جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کی نفسیاتی صحت کا خیال رکھا جائے۔ ان کو وبا اور ڈر سے ابھرنا سکھایا جائے۔ چھوٹی عمر سے ہی والدین مختلف چیزوں کا ڈر دکھا کر بچوں کو خاموش کراتے ہیں اس کا اثر ان پر عمر بھر رہتا ہے۔ یہی ڈر مختلف فوبیا میں تبدیل ہوکر ان کو بزدل بنا دیتا ہے۔ صرف اچھی غذا کھلا کر اپنی اولاد کی جسمانی نشونما کرنا ہی والدین کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ان کو جسمانی اور ذہنی عوارض سے بچا کر ایک مضبوط شخصیت کا مالک بنانا بھی والدین کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ نہ صرف گھر والوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے بہتر انسان ثابت ہوسکیں۔جسمانی عوارض کی علامات کو پہچاننا اسان ہے لیکن نفسیاتی امراض کے شکار بچوں کی نشاندہی مشکل کام ہے۔ آئیے دیکھیں کہ وہ کونسی علامتیں ہیں جن کے ذریعہ ہم یہ جان سکتے ہیں کہ بچہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہے۔
نفسیاتی الجھنوں کے شکار بچوں کی علامتیں
خاموش رہنا، گم سم بیٹھنا، کسی بھی سرگرمی میں دلچسپی نہ لینا۔ اضطراب و بے چینی کا شکار ہونا، توجہ اور یکسوئی کا نہ ہونا۔ جھنجھلاہٹ کا شکار ہونا، بات بات پر ناراض اور غصہ ہونا۔ ڈر اور خوف کا شکار ہونا۔ سونے اور کھانے پینے کی عادتوں میں غیر معمولی تبدیلی ہونا۔
دوست احباب سے دور رہنا اور سماجی رابطے منقطع کرلینا۔
ان علامتوں کا ظاہر ہونا نفسیاتی مسائل کی وجہ ہے اور ان علامتوں کی پہچان ان مسائل کے حل کی جانب پہلا قدم ہے۔ آئیے دیکھیں کہ ہم کس طرح بچوں کے ان مسائل کو دور کر سکتے ہیں۔
بچوں کے نفسیاتی مسائل کا حل
سب سے پہلے تو اساتذہ اور والدین اپنے بچوں سے گفتگو کریں، ان کے تحت الشعور میں پیوست غیر ضروری اور غیر معقول باتوں کو باہر نکالیں۔ ان کی ہمت باندھیں، ان کو حوصلہ دیں ان کے قلب میں امیدوں کی شمعیں روشن کریں، اللہ کی صفات ان کو بتائیں کہ اللہ پر بھروسہ کرنے کے بعد ہمیں کسی ڈر و خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ ہمارا نگہبان ہے۔ زندگی میں ہر طرح کے حالات آتے رہتے ہیں، ہمیں مشکل حالات کا سامنا ہمت اور حوصلوں سے کرنا ہے۔ آخر اس مشکل وقت کو بھی جانا ہے۔ انشاءاللہ اچھا وقت، کامیابی اور خوشیاں آپ کی زندگی میں ضرور آئیں گی۔ یہی اصل میں کونسلنگ ہے۔اس گفتگو سے بچوں پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری چیز یہ کہ ان بچوں کو اچھی غذا دی جائے، کیونکہ اچھی متوازن غذا ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔ ایسی غذا جس میں پروٹینس، وٹامنس اور معدنیات موجود ہوں دماغ میں موجود مختلف مادوں میں توازن پیدا کرنے ان میں برقی ہیجان کی ترسیل کے لیے ضروری ہے۔ اس سے عصبی خلیات کی بازیافتگی اور ہارمونس کی فراہمی میں مدد ملتی ہے۔
ذہنی صحت کو حاصل کرنے کے لیے اچھی نیند بھی ضروری ہے۔ گھر کا ماحول ایسا نہ ہو کہ سب لوگ رات دیر گئے تک جاگتے اور صبح دیر تک سوتے ہوں۔ اس کی بجائے جلد سونے اور جلد جاگنے کی عادت ڈالنی چاہیے کیونکہ رات کے وقت دماغ نیند کے دوران ریچارچ ہوتا ہے۔ فاسد مادوں کو دور کرتا ہے۔ عصبی خلیات کے درمیان رابطوں کی تنظیم نو ہوتی ہے جو صحت مند دماغ کے لیے ضروری ہے۔
ذہنی صحت کو بارآور کرنے کے لیے جسمانی سرگرمی یا ورزش ضروری ہے۔ لاک ڈاون کے دوران بچے گھروں میں قید رہنے سے کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں کا پہلو کمزور ہوگیا ہے۔ جسمانی سرگرمی سے دماغ تک بہتر طور پر خون اور آکسیجن کی سربراہی ہوتی ہے۔ ورزش سے ذہنی دباو میں کمی آتی ہے اور طبیعت میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے۔ ورزش نیند کو بہتر بناتی ہے۔ توانائی کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے اعتماد میں اضافہ، یادداشت میں بہتری اور توجہ میں مرکوزیت پیدا ہوتی ہے۔ ورزش سے انسانی جسم میں کورٹیسل نامی ہارمون جو ذہنی دباؤ کا باعث ہے کم ہوتا ہے بلکہ انڈورفنس ہارمون کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے جو انسان کو خوش رکھنے اور بہتر محسوس کرنے کے لیے ضروری ہے۔
ان تمام ترکیبات کے باوجود اگر بچوں میں نفسیاتی مسائل برقرار رہتے ہیں تو آپ ضرور کسی ماہر نفسیات ڈاکٹر سے رجوع ہوں۔ جس طرح جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں اور ان کا علاج ہو جاتا ہے اس طرح دماغی بیماریاں بھی ہوتی ہیں اور ان کا بھی علاج ممکن ہے، لیکن افسوس کہ ذہنی بیماریوں کے تعلق سے ہماری آگہی و معلومات میں کمی کی وجہ سے ان کو ہنسی اور مذاق کا موضوع بنا کر ذہنی الجھن کے شکار بچہ کو ذلیل کر کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

 

***

 زندہ قومیں بلند حوصلہ و عزائم کی مالک ہوتی ہیں۔ ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ، کامیابی کی لگن اور مختلف میدانوں کو سر کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ اگر بچپن میں ہی نفسیاتی مسائل کے باعث مایوسی اور خوف دل میں گھر کر جائے، خواہشیں اور تمنائیں دم توڑ جائیں تو بڑا ہو کر وہ زندہ لاش بن کر رہ جائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کی نفسیاتی صحت کا خیال رکھا جائے۔صرف اچھی غذا کھلا کر اپنی اولاد کی جسمانی نشونما کرنا ہی والدین کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ان کو جسمانی اور ذہنی عوارض سے بچا کر ایک مضبوط شخصیت کا مالک بنانا بھی والدین کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ نہ صرف گھر والوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے بہتر انسان ثابت ہوسکیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  06 فروری تا 12فروری 2022