كیا جارج فلائڈ صدر ڈونالڈ ٹرمپ كے لیے محمد بوعزیزى ثابت ہوں گے؟

واشنگٹن سمیت کئی شہر احتجاج کی لپیٹ میں۔سیاہ فاموں کی انگڑائی سے اقتدار کے ایوان لرزگئے

عمارہ رضوان ،دلّی

تقریباً دس سال پہلے7 دسمبر 2010ء کو تیونس کے شہر سید بوزید میں میونسپل کارپوریشن کے عالى شان دفتر کے سامنے ایک مقامى نوجوان محمد بوعزیزى نے خود کو آگ لگا لى تھی۔ وه مقامى پولیس کے رویہ سے بے حد پریشان تھا، وه جس ٹھیلے پر گلى گلى پھر کر سبزی بیچا کرتا تھا پولیس نے اس کو توڑ کر سبزیاں بکھیر دى تھیں اور اپنے بوٹوں سے اس کو روند دیا تھا۔ یہى ٹھیلا بوعزیزى کے پورے گھر کى کفالت کرتا تھا۔ پولیس کے اس رویہ سے بوعزیزى اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ اس نے موت کو زندگى پر ترجیج دى۔ لیکن اس کى موت پورى قوم کو زندگی کا پیغام دے گئى۔ صرف تیونس کے حدودِ اربعہ میں ہى نہیں بلکہ پورے مشرق وسطٰى میں نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور کئى دہوں سے مسند اقتدار پر براجمان ڈکٹیٹروں کو اکھاڑ پھینکا۔ تیونس کے زین العابدین، لیبیا کے معمر قذافى، مصر کے حسنى مبارک اور یمن کے عبد الله صالح سب بوعزیزى کے جسم سے اٹھنے والى آگ کی لپیٹوں میں جھلس گئے اور سب کچھ خاکستر ہو گیا۔ شام کا بشار الأسد بھی اس عوامى سیلاب کے سامنے نہیں ٹھیر سکتا تھا اگر اس علاقے کى مسلح طاقتیں اس میں دخل نہ دیتیں۔ ایران اور روس کى پسِ پرده فوجى مداخلت نے عوامى قوت کا پانسہ پلٹ دیا اور پهر علاقے کى دوسرى قوتیںبھی اپنے اپنے مصالح کے لحاظ سے عوامى تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے کود پڑیں۔
30/ مئى کى صبح امریکى شہر مینیاپولس کے ایک قہوه خانے میں ایک سیاه فام امریکى داخل ہوا اور کافى کى چسکیوں کے ساتھ قہوه خانے کے باہر دوسرے ہاتھ سے سگریٹ کے دھوئیں کو ہوا میں اڑا رہا ۔، وه اپنے سامنے جلتى ہوئى کاروں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو بہت کرب سے دیکھ رہا تھا، ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ وه سگریٹ کے دھوئیں سے جلتى ہوئى کاروں کے دھوئیں کا موازنہ کر رہا ہے۔ وه بار بار منہ ہى منہ میں بڑبڑا رہا تھا کہ یہ شہر تو ایسا نہیں تھا، تشدّد کے اکا دکا واقعات کے علاوه تو پورا شہر بڑا ہى پرسکون تھا، آخر یہ سب کیسے ہوگیا؟
پانچ دن پہلےاسى شہر میں چھیالیس سالہ سیاه فام امریکى کو پولیس کى زیادتى کا شکار ہونا پڑا، اس سیاه فام کی ایک کیفے کے سفید فام امریکى مالک سے 20 ڈالر کے معمولى رقم پر تکرار ہوگئى جس پر کیفے کے مالک نے پولیس کو بلا لیا تھا۔ ڈیریک شووین نامى پولیس اہلکار نے اپنے دیگر چار ساتھیوں کے ساتھ مل کر اسے زمین پر پٹخ دیا اور اس کى گردن پر اس وقت تک اپنے گھٹنوں کو دبائے رکها جب تک کہ وه بے سُدھ نہیں ہوگیا۔ اتفاق سے اس پورے غیر انسانى عمل کو پاس کھڑی ایک نوجوان خاتون اپنے موبائل سے قید کر رہی تھی۔ ویڈیو کلپ سے اندازه ہوتا ہے کہ ڈیریک نے آٹھ منٹ اور 46 سیکینڈ تک جارج کو اپنے پیروں تلے دبائے رکھا، جارج بار بار اپنی جان کی دہائی بھی دے رہا تھا اور وہ یہ مسلسل کہے جار رہا تھا (I can’t breathe) میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں، مگر اس کے اس گڑگڑانے کا اس پولیس افسر پر کوئی اثر نہ ہوا، اور اسے اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک وه سڑک پر ہى اپنى جان سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھا۔
یہ ویڈیو کلپ آگ کى طرح تیزى سے امریکى سوشل میڈیا میں گردش کرنے لگی اور سیاه فام امریکى سڑکوں پر اترنے لگے، شروع میں یہ مظاہرے پر امن رہے مگر دھیرے دھیرے ان مظاہروں نے تشدد کا رنگ اختیار کر لیا، یہاں تک کہ وہائٹ ہاؤس کو اس پورے معاملے پر بیان جارى کرنا پڑا اور فورى طور پر چاروں پولیس اہلکاروں کو معزول کرنا پڑا۔ امریکى صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے احتجاج کى شدت کو دیکھتے ہوئے جمعہ کو وہائٹ ہاؤس کوبھی بند کرنے کا حکم صادر کردیا ، اور بعض خبر رساں اداروں کے بموجب صدر ٹرمپ کو وہائٹ ہاؤس کے اندر بنے ہوئے بنکر میں پناہ لینا پڑا کیونکہ سیکڑوں کى تعداد میں مظاہرین وہائٹ ہاؤس کى گیٹ تک پہونچ گئے تهے، امریکى صدر نے جارج فلائڈ کے اہل خانہ سےبھی گفتگو کى اور ان کو دلاسہ دیا، مگر صدر ٹرمپ کى کوششیں مظاہرین کے غصے کو ٹهنڈا کرنے میں ابهى تک ناکام ثابت ہوئى ہیں بلکہ اس کى شدّت میں اضافہ ہوتا گیا اور دهیرے دهیرے امریکہ کی تمام ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تادم تحریر امریکہ کے ایک سو چالیس (140) بڑے شہروں میں کرفیو نافذ ہے اور 23 ریاستوں میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کر دی گئی ہے۔ بالآخر صدر ٹرمپ کو دهمکى آمیز انداز میں ٹویٹ کرنا پڑا کہ لوٹ مار اور تشدد کے سامنے قوت کا استعمال ہمارى پولیس کى مجبورى ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اس صورت حال کا بالکل اندازہ نہیں تھا، اپنی ہی عوام کو انہوں نے جس انداز میں بار بار مخاطب کیا ہے اس سے ان کے غم وغصہ میں کمی کے بجائے شدت ہی آتی گئی۔ صدر ٹرمپ کی بد حواسی کو صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے جب وہ امریکی عوام کو ’’ٹھگ‘‘ کے لقب سے نوازتے ہیں اور کبھی ان کے ان مظاہروں کو سبوتاژ کرنے کے لیے فوج کو اتارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے کسی بھی رویے سے یہ نہیں لگتا کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ صدر ہیں اور وہ ان مظاہرین کے تئیں سنجیدہ ہیں بلکہ ان کا طرز تخاطب ایک ڈکٹیٹر کے انداز کلام کے مماثل ہے۔
امریکى معاشرے میں سیاه اور سفید کے درمیان پائى جانى والى خلیج نئى نہیں ہے۔ اٹهائیس سالہ سیاه فام امریکى نائمن اس ہمہ گیر مظاہرے پر تبصره کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’سفید فاموں کى طرف سے زیادتى کوئى نئى بات نہیں ہے ایسا ہر روز ہوتا رہتا ہے، اس حادثے کے ساتھ خاص بات یہ ہوئى کہ یہ لوگوں کے علم میں آگیا اور پهر اندر اُبال کهانے والا غصّہ باہر سڑکوں پر آ گیا ورنہ ہر روز سیاه فام اس طرح کى زیادتیوں کے شکار ہوتے رہتے ہیں اس واقعے نے جلتى پر تیل کا کم کیا ہے‘‘
امریکی معاشرے میں سیاہ فام عملی طور پر دوسرے درجے کے شہری ہیں، اگرچہ امریکی حکام دنیا بھر میں برابری ومساوات، عدل وانصاف اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ کسی سیاہ فام کے کرسی صدارت تک پہونچنے کے بعد بھی ان کی حالت میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ ڈونالڈ ٹرمپ سے پہلے بارک اوباما دو بار مسلسل امریکہ کے صدر رہے۔ اگرچہ حکومتی سطح پر پالیسیز میں کچھ تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں مگر زمینی سطح پر سیاہ وسفید کا امتیاز نہ صرف باقی رہا بلکہ صدر ٹرمپ کے زمانے میں اس میں شدت پیدا ہوئی۔ قانون کی حکم رانی کا دعویٰ صرف کاغذات تک محدود رہ گیا، کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی اس نسلی امتیاز پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ پورے امریکہ میں سیاہ فاموں کی آبادی صرف 13 فیصد ہے مگر جیلوں میں ان کا تناسب 40 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام جرائم میں صرف سیاہ فام ہی ملوث ہیں بلکہ قانون کی حکم رانی کا دعویٰ انہیں پر منطبق ہوتا ہے۔ اسی طرح جارج فلائیڈ کے شہر جہاں پر سیاہ فام افریقی النسل امریکیوں کی تعداد صرف 7 فیصد ہے مگر کورونا کے شکار سیاہ فام امریکیوں کا تناسب ان کی آبادی سے تین گنا زیادہ یعنی 23 فیصد ہے جسے وہ حکومتی لاپروائی پر محمول کرتے ہیں۔
اسى سے ملتا جلتا ایک واقعہ 2017 میںبھی اسى شہر میں پیش آیا تھا جب ایک سیاہ فام امریکى نسلى تعصب کا شکار ہوا جب اس نے مقامى پولیس سے جنسى زیادتى کى شکایت کى اور پولیس کى جانب سے شنوائی کے بجائے گولى کا شکار ہوا۔ یہ واقعہ بھی مقامى میڈیا کى سہ سرخى بنا مگر اس نے احتجاج کى شکل اختیار نہ کى۔2015 کے اوائل میںبھی چوبیس سالہ کلارک نامی نوجوان سفید فام پولیس کى دہشت گردى کا شکار ہوا جب اس نے پولیس سے سخت زبان میں بات کرلى تھی۔ اس وقت اس افریقی النسل امریکی کو اس بات کا احساس نہ رہا کہ وہ ایسے معاشرے میں سانس لے رہا ہے جہاں سفید وسیاہ میں امتیاز عروج پر ہے چنانچہ اس کی سانس اس کے گلے کے اندر ہی روک دی گئی۔ لیکن سابق کے مظاہروں اور احتجاجات نے وہ شکل اختیار نہ کی تھی جو جارج فلائیڈ کی موت کے بعد پھوٹ پڑنے والے مظاہروں کی ہے کی۔ سابق کے مظاہرے دو سے تین دن میں ختم ہو جایا کرتے تھے اور اس میں تشدد کا وہ رنگ بھی غالب نہیں ہوتا تھا جو ہم ان مظاہروں میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک ہفتے سے جاری ان مظاہروں نے امریکی صدر کی نیند حرام کردی ہیں اور انہیں کئی بار اپنی طے شدہ پریس کانفرنس بھی ملتوی کرنی پڑی ہے۔
امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹ صدر ٹرمپ کے اس غیر جمہوری عمل کے خلاف ایک مذمتی قرارداد لانے کی کوشش میں ہیں جس میں وہ پولیس کے طاقت کے استعمال پر اور امریکی عوام کو ان کے دستوری حق کے استعمال سے باز رکھنے کے لیے صدر ٹرمپ کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اس کے برخلاف ریپبلیکن پارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ مظاہرے کبھی بھی پرامن نہیں رہے جس کی وجہ سے ان مظاہرین کو منتشر کرنا حکومت کی مجبوری بن گئی تھی۔
امریکی ایوان بالا (سینیٹ) میں مائنارٹی لیڈر چک شومر (Chuck Schumer) نے اسپیکر نینسی پیلوسی (Nancy Pelosi) کے ساتھ ایک مشترکہ بیانیہ میں کہا کہ”امریکی عوام کو ان حالات میں ایک حقیقی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جبکہ صدر ٹرمپ نے نفرت اور تعصب کے بیج کو امریکی معاشرے میں بونے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں امریکی معاشرہ بری طرح تقسیم وتفریق کا شکار ہو کر رہ گیا ہے، یہ ایک بزدل قیادت کی علامت ہے جو امریکی معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہے۔امریکی صدر اور آج سے پانچ ماہ بعد ہونے والے صدارتی انتخاب میں ان کے متوقع مدّ مقابل سابق امریکی نائب صدر جوئے بائیڈن کے لیے یہ مظاہرے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک طرف موجودہ امریکی صدر ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش میں لگے ہیں تو دوسری طرف بائیڈن، صدر ٹرمپ پر مظاہرین سے سختی کے ساتھ نمٹنے کے لیے نالاں ہیں۔ اگر صرف دو دن کے اندر امریکی صدر کے ذریعے کی جانے والی ٹوئیٹس پر نظر ڈالی جائے تو بالکل صاف نظر آتا ہے کہ صدر ٹرمپ ان مظاہروں میں اپنی دوبارہ صدارتی فتح تلاش کر رہے ہیں۔ کبھی وہ انجیل اٹھا کر عوام کو اپنی مذہبیت کی یقین دہانی کراتے ہیں تو کبھی سیاہ فاموں کو اس بات سے رجھاتے ہیں کہ وہائٹ ہاؤس میں ان کے ساتھ کام کرنے والے سیاہ فام اہل کار کسی بھی امریکی صدر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں اور کبھی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ابراہیم لنکن کے بعد سیاہ فام امریکیوں کے حقوق کی سب سے زیادہ پاس داری انہوں نے کی ہے اور کبھی اپنا غصہ نیورک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات پر اتارتے ہیں کہ پوری آگ انہیں کی لگائی ہوئی ہے۔
امریکی میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں بھی زوروں پر ہیں کے صدر ٹرمپ نے پیر کے روز ان مظاہروں کی شدّت کے درمیان روسی صدر پوتین سے بات کی اور اس میں ان مظاہروں سے نپٹنے کے فارمولے پر تبادلہ خیال کیا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے رخ میں تبدیلی کی اور مظاہرین سے سختی سے نپٹنے کا حکم صادر کیا۔ مگر دونوں ممالک کے حکم راں اس بات چیت کو صرف جی 7 کانفرنس تک محدود رکھتے ہیں، یہ قیاس آرائیاں اپنی جگہ لیکن صدر ٹرمپ اپنے پرانے فارمولے پر عمل پیرا ہیں جس کا اظہار انہوں نے 2016 کے اوائل میں ورجینیا کی ایک عوامی کانفرنس میں کیا تھا کہ’’ہمیں نظام اور قانون کی بالادستی بہرحال باقی رکھنی ہے وگرنہ ہم اس ملک سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘‘
بعض مبصرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ خطرہ مظاہرین سے ہے اور اگر یہ مظاہرے اسی طریقے سے کچھ ہفتے اور جاری رہتے تو صدر ٹرمپ کی دوبارہ کرسی صدارت پر براجمان ہونے کی امید بالکل معدوم ہوجائے گی لہٰذا ان مظاہروں کو ختم کرنے کی یہی ایک سبیل باقی تھی کہ ان میں کسی طرح سے تشدد کو داخل کیا جائے تاکہ مظاہرین پر ہاتھ ڈالنے کا موقع ملے۔ اور یہ بات بعید از قیاس بھی نہیں ہے کیونکہ امریکی حکام مشرق وسطیٰ میں بارہا اس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ جب جب عوامی تحریکوں کا دباؤ حکم رانوں پر پڑا ہے اور ان کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے قریب ہوئے ہیں، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو بنا کر منظر عام پر لایا گیا۔ 20 ڈالر سے شروع ہونے والى تکرار نے اب تک 20 ارب ڈالر کا نقصان کر دیا ہے اور نہیں لگتا کہ یہ آگ اتنى جلد سرد پڑے گی۔ اب تو ان مظاہرین کى تائید میں امریکہ کے باہر لندن، پیرس اور ٹورنٹو جیسے دسیوں شہروں میںبھی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ پیرس میں لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد پہلے ہی دن بیس ہزار سے زائد لوگ جارج فلائیڈ کی تائید میں جمع ہو گئے تھے۔
خود امریکی مظاہرے صرف سیاہ فاموں تک محدود نہیں رہے بلکہ زندگی کے ہرشعبہ کے افراد اس میں حصّہ لے رہے ہیں اور ہر نسل کے ساتھ ساتھ سفید فام امریکیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ان مظاہروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مظاہرین نے جہاں ’’میں سانس نہیں لے پار ہا ہوں‘‘ کی تختیاں اٹھا رکھی ہیں وہیں کچھ بچوں نے ’’سیاہ فاموں کی زندگی بھی قیمتی ہے‘‘ کے پلے کارڈس اٹھا رکھے ہیں۔ ان مظاہروں میں پولیس کی جانب سے بھی انسان دوستی وجمہوریت نوازی کی تصویریں دیکھنے کو مل رہی ہیں جیسے واشنگٹن پولیس نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر یہ پیغام دیا کہ ہر سفید فام پولیس ظلم پر یقین نہیں رکھتی اور ہم اپنے کیے پر شرمندہ ہیں۔ اسی طرح ہیوسٹن کے پولیس چیف Art Acevedo کا صدر ٹرمپ کو یہ جواب دینا کہ ’’اگر منہ سے اچھی بات نہیں نکل سکتی تو کیا چپ نہیں رہ سکتے‘‘ اس بات کی علامت ہے کہ تمام امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی تائید نہیں کرتے۔
امریکہ اور وطن عزیز ہندوستان میں بہت ساری مماثلت ہے، دونوں ممالک جمہوریت پر یقین رکھتےہیں، دونوں جگہوں پر دائیں بازو کی جماعتیں بر سراقتدار ہیں، دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح پر بیٹھے ہوئے حکم رانوں کا طرز تخاطب ایک جیسا ہے، دونوں حکم راں ووٹ کے پولرائزیشن پر یقین رکھتے ہیں، اقلیت کے تعلق سے دونوں حکم رانوں کا رویہ ایک ہے، ایک کو میکسیکو کے بارڈر پر دیوار برلن بنانے میں دلچسپی ہے تو دوسرے کو اپنے ہی شہریوں کو غیر ملکی بتانے اور بنانے میں۔ لیکن ان سب کے ساتھ دونوں کو ایک جیسے حزب اختلاف سے سابقہ پڑا ہے۔ عوام نے ہی دونوں کو اقتدار پر بٹھایا ہے اور وہی ان سے حساب چکا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے پہلے وطن عزیز ہندوستان میں نوجوان اور طلبہ سڑکوں پر تھے تو اَن لاک کے زمانے میں امریکی سڑکیں عوام سے بھری ہوئی ہیں۔ لیکن ہندوستانی جمہوریت اتنی پختہ نہیں ہے اور اکثریت ابھی بھی گودی میڈیا کے بہکاوے میں بدمست ہاتھی کی طرح ہے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے کے ہندوستانی مظاہروں میں اکثریت خاموش تماشائی بنی رہی اس کے برخلاف امریکی اقلیت جب سڑکوں پر اتری تو اس وقت پورا امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ امریکیوں کو بہرحال اس بات کا فائدہ حاصل ہے کہ ابھی بھی ان کا مین اسٹریم میڈیا حکومت کا احتساب کرنے کی پوژیشن میں ہے اور حزب اختلاف بھی ابھی حکومتی استبداد کے آگے سرنگوں نہیں ہوا ہے۔
سپر پاور امریکہ میں یہ مظاہرے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب وہ کورونا وائرس سے سب سے زیاده متاثر ہے اور صدر ٹرمپ دن بدن اپنى مقبولیت کھوتے جا رہے ہیں۔ بے روزگارى نے اپنے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ روٹى بینک و فوڈ بینک کے سامنے امریکیوں کى اچھى خاصى تعداد قطار میں لگى ہوئى دیکھى جا سکتى ہے، ایک لاکھ سے زائد امریکى کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور صدر ٹرمپ پر لاپروائى کا الزام برابر لگ رہا ہے۔ ابهى صدر ٹرمپ اسى چیلنج سے نبرد آزما ہی تھے کہ جارج فلائڈ کى موت سے پھوٹنے والے ملک گیر احتجاج نے صدر ٹرمپ کى نیند اڑا دی ہے۔ ایسے میں دیکھنا ہے کہ صدر ٹرمپ کى چین مخالف پالیسى ان کو کتنا فائده پہونچائے گى۔ اور یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ آئنده نومبر میں ہونے والے انتخاب میں صدر ٹرمپ دوسرى مدّت کے لیے منتخب ہو پاتے ہیں یا مشرق وسطیٰ کے حکم رانوں کى طرح تاریخ کے صفحات میں گم ہو جاتے ہیں۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ،دلی میں سینئر سیکینڈری کی طالبہ ہیں۔ [email protected])


 

امریکی قصر صدارت وائٹ ہاوز کے باہر سیکڑوںافراد کا مظاہرہ۔ احتجاجیوںکے غیض وغصب کو دیکھ کر خفیہ سرویس کے ایجنٹس کے کہنے پر صدر ٹرمپ ایک انڈر گراونڈ بنکر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔