قیام لیل اور قیام نہار
علامہ احمد ریسونی
ترجمہ : سدید ازہر فلاحی
سورہ مزمل اور سورہ مدثر قرآن کریم کی دو سورتیں ہیں جو ایک دوسرے سے مماثلت رکھنے والی اور زمان و مکان کے اعتبارسے باہم قریب ہیں۔ ان میں مشابہت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ان دونوں کے نام میں جو ان کے آغاز میں موجود یا أیھا المزمل اور یا أیھا المدثر کی ندا سے ماخوذ ہیں، لفظی و معنوی مماثلت پائی جاتی ہے (مزمل اور مدثر کا صوتی آہنگ بھی ملتا جلتا ہے، اور دونوں کے معنی بھی، بالترتیب چادر لپیٹنے والے اور لبادہ لپیٹنے والے ایک ہی قبیل کے ہیں) اور اسی طرح یہ مماثلت بھی کہ دونوں کی ابتدا میں قیام کرنے کاحکم آیا ہے۔
ان دونوں سورتوں کے زمانی اعتبار سے باہم قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں قرآن کریم کی اولین نازل کردہ سورتوں میں سے ہیں جو یکے بعد دیگرے یا قریب قریب ایک ہی دور میں نازل ہوئیں۔ان دونوں کے مکانی اعتبار سے باہم قریب ہونے سے میری مراد یہ ہے کہ مصحف میں سورتوں کی جو ترتیب ہے اس میں یہ سورتیں یکے بعد دیگرے رکھی گئی ہیں جب کہ قرآن میں ایسی بہت ساری سورتیں اور آیتیں ہیں جو آگے پیچھے نازل ہوئیں لیکن مصحف کی ترتیب میں انھیں ایک دوسرے سے دور رکھا گیا۔
ان دوسورتوں کے سلسلے میں جس چیز پر میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں وہ دونوں کے آغاز میں قیام کاحکم ہے۔
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنذِرْ
ایک ہی لفظ میں دونوں احکام وارد ہوئے ہیں لیکن دونوں کا رخ الگ الگ ہے۔ پہلےحکم قُمِ اللَّيْلَ‘‘ (رات کو کھڑے رہو) کو دین داری، عبادت، قرب خداوندی، تربیت اور تزکیہ کے سلسلے میں بڑ ی اہمیت حاصل ہوئی، اس کا بڑا چرچا ہوا اور اسے ’’قیام اللیل‘‘ کا ایک مخصوص نام بھی ملا جس کے مفہوم میں کوئی ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے۔
رہا دوسرا حکم ’’ قُمْ فَأَنذِرْ‘‘ (کھڑو ہوجاؤ اورخبردار کرو ) تو پہلے حکم کو جو مقام و اہمیت حاصل ہوئی اس کا ذرا سا حصہ بھی اس کے نصیب میں نہیں آیا۔اسی لیے میں امت کی تجدید کے تعلق سے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے اس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں۔
سورہ مدثر اور اس کے ابتدائی حصے پر نظر ڈالنے اور اس کی جڑواں سورت سورہ مزمل اور اس کے ابتدائی حصے سے اس کا تقابل کرنے کے بعد یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم ’’قیام نھار‘‘(دن کی سرگرمی) پر بھی اسی طرح بات کرتے جس طرح ’’قیام لیل‘‘(رات کی سرگرمی) پر بات کرتے ہیں۔
قیام لیل کے مشمولات اگر نماز، ذکر اور تلاوت ہیں جیسا کہ کہا گیا: قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (رات کو کھڑے رہو، مگر تھوڑا۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرلویا اس پر کچھ زیادہ کرلواور قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھو) تو قیام نھار دعوت اور اس کی تمام شکلوں اور اس کے مطالبات کا نام ہے جن میں جدوجہد اور صبر و استقامت شامل ہیں قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (کھڑے ہوجائو اور آگاہ کرو اور اپنے رب ہی کی کبریائی کا اعلان کرو اور اپنے دامن دل کو پاک رکھو اور شرک کی غلاظت سے دور رہو اور اپنی سعی کو زیادہ خیال کرکے منقطع نہ کر بیٹھو اور اپنے رب کے فیصلے کے انتظار میں ثابت قدم رہو)۔
سورہ مزمل جوقیام لیل کا حکم لے کرآئی ہے وہی سورت سورہ مدثر کی صریح تعلیم سے پہلے ہی قیام نھار کی جانب بھی ہماری نگاہوں کو ملتفت کرتی ہے۔ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا (بے شک رات کا اٹھنا جم کر کھڑے ہونے اور صحیح تر بات ادا کرنے کے لیے نہایت خوب ہے)کے الفاظ میں قیام لیل اور اس کی اہمیت کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی مزید فرماتا ہے إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا (بے شک دن میں تمہیں دوڑ دھوپ کا کافی موقع ہے )۔
علامہ ابن عاشور قرآن کے اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ قیام لیل کریں کیوں کہ رات کا قیام زیادہ اثر انگیز اور کلام الہی کودل و دماغ میں زیادہ راسخ کرنے والا ہے اور اس لیے بھی کہ دن میں ایک بڑا کام انجام دینا ہے جس کی وجہ سے آپ ﷺ کو تنہائی میسر نہیں ہوگی اور دن میں آپ کا کام دعوت الی اللہ، قرآن کا ابلاغ، دین کی تعلیم، مشرکین کے ساتھ گفتگو اور کم زور مومنین کی خبرگیری کرنا تھا لہذا ان تمام کاموں کو ’’سبحِ طویل‘‘ یعنی طویل مصروفیت سے تعبیر کیا گیا۔(التحریر والتنویر، جلد ۹۲،صفحہ۴۶۲)
جس طرح رسول اللہ ﷺ رات کا ایک حصہ قیام لیل میں گزارتے اسی طرح آپ ﷺ دن کے بیشترحصے میں قیام نھار اور اپنے دشمنوں اور اپنے خلاف دھڑے بندی کرنے والوں سے مقابلہ کرنے میں مشغول رہتے وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا (اور یہ بھی کہ اﷲ کا یہ بندہ صرف ﷲ کو پکارنے کھڑا ہوجاتا ہے تو لگتا ہے کہ یہ اس پر ٹوٹ پڑیں گے، کہہ دو میں تو اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھیراؤں گا۔ سورۃ الجن: آیت ۱۹ اور ۲۰)۔
قیام لیل کی بڑی فضیلت اور تزکیہ و تربیت میں اس کے بڑے اثرات کے باوجود دین میں اس کا حکم ترغیب و استحباب ہی کے درجے میں ہے اوراس کا دورانیہ رات کے ایک حصے تک ہی محدود ہے جس میں یہ عبادت زیادہ یا کم انجام دی جاسکتی ہے۔رہا قیام نھار جو دعوت و تبلیغ، جدوجہد اور صبر وتحمل،بحث و جہاد سے عبارت ہے، تو اس میں مندوب و مستحب اعمال ہی نہیں بلکہ متعدد فرائض و واجبات بھی شامل ہیں۔ اسی لیے یہ زیادہ ضروری و قابل تاکید ہے اور اسی لیے قیام نھار اور اس کی مدت ’’سبح طویل‘‘ (طویل مصروفیت) ہے۔
آج اور خصوصا ان ایام میں ہمیں قیام نھار کے احیا اور اس کے مقام و فعالیت کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جس طرح دعا قائم کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح دعوت قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہم اسی طرح قیام نھار پرمشتمل اعمال (قیام، انذار،رب کی کبریائی کا اعلان، دامن دل کی پاکیزگی، شرک کی آلودگی سے دوری، اپنی سعی کو زیادہ خیال کرکے منقطع کرنے سے پرہیز)کے حاجت مند ہیں جس طرح قیام لیل پر مشتمل اعمال (رکوع، سجدے،تلاوت، ذکر،دعا)کے حاجت مند ہیں بلکہ قیام نھار کے اعمال شریعت کی رو سے زیادہ ضروری اور خاص طور سے موجودہ حالات میں تو زیادہ ہی قابل تاکید ہیں۔