قربانی۔۔تاریخ، حقیقت اور اعتراضات
پروفیسر سید مسعود احمد کی کتاب جس میں سنّت ابراہیمی پر اعتراضات کا جائزہ لیا گیا
سہیل بشیر کار، بارہمولہ
معروف عالم دین ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی قربانی کے متعلق لکھتے ہیں: ’’قربانی ایک خالص دینی عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے اور اسے اطاعت الٰہی کا ایک نشان(Symbol)قرار دیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے خود قربانی کی ہے اور مسلمانوں کو بھی اس کی ترغیب دی ہے، چنانچہ مسلمان اسے سنت مؤکدہ سمجھتے ہیں اور ہر صاحبِ حیثیت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ‘‘ لیکن قربانی کا جب وقت آتا ہے تو قربانی پر غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی اعتراض کرتے ہیں یا ان کے دلوں میں خدشہ ہوتا ہے۔ مولانا رضی الاسلام ندوی مزید لکھتے ہیں: ’’قربانی کا زمانہ آتے ہی اسلام اور مسلمانوں کے بہت سے ہمدرد اور بہی خواہ نکل آتے ہیں۔ وہ بغیر مانگے ایسے مشورے دینے لگتے ہیں جن سے بہ ظاہر انسانی غم خواری، ہمدردی اور محبت کا اظہار ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ان کے مشورے اسلامی تعلیمات پر خط نسخ پھیرنے والے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ قربانی کی رسم پوری دنیا کے مسلمان انجام دیتے ہیں۔ حج پر جانے والے بہت بڑی تعداد میں جانور قربان کرتے ہیں، افراتفری میں ان کا گوشت صحیح مصرف میں استعمال نہیں ہوپاتا اور ضائع ہوجاتا ہے۔ جو لوگ حج پر نہیں جاتے وہ بھی عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرتے ہیں۔ اس طرح کروڑوں مسلمانوں کا اربوں کھربوں روپیہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر اس خطیر رقم کی منصوبہ بندی کرکے اسے رفاہی کاموں میں لگادیا جائے، بہت سی ڈسپنسریاں اور اسپتال کھول دیے جائیں، مکاتب و مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کردی جائیں اور اسے ایسے کاموں میں صرف کیا جائے جن سے غریب مسلمان فائدہ اٹھاسکیں تو یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی ‘‘ایسے میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان اعتراضات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اور ان کے جوابات علمی انداز سے دیے جائیں۔ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پروفیسر مسعود احمد صاحب نے کتاب ’’قربانی (تاریخ، حقیقت اور اعتراضات)‘‘ لکھی ہے۔
پروفیسر سید مسعود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں؛ ان کا مختلف افکار کے حامل افراد سے ربط رہتا ہے، وہ بچپن سے ہی قرآن پاک سے عملی طور پر جڑے ہوئے ہیں لہذا ان کی کوشش رہی ہے کہ قربانی کے سبھی پہلوؤں کا جائزہ قرآن و سنت سے لیا جائے۔ پروفیسر مسعود احمد نے کچھ فکری اور عملی کتابیں لکھی ہیں جن کو علمی حلقوں میں پزیرائی حاصل ہوئی ہے۔86 صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب کو مصنف نے ’پیش لفظ‘ کے علاوہ 7 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔قربانی پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں اس کی متعلق وہ پیش لفظ میں لکھتے ہیں :’’ان معترضین میں اپنے بھی تھے اور بیگانے بھی، پڑھے لکھے حضرات بھی تھے؛ نا خواندہ بھی، مسلم بھی تھے اور ترقی پسند اور سیکولر اور بظاہر روایت پسند دانشور بھی، غرض یہ کہ ایسا محسوس ہوا ہے کہ اس عظیم الشان عبادت کے سلسلے میں کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ‘‘ (صفحہ 5) یہ وہ وجہ ہے جو اس کتاب کو لکھنے کا محرک بنی ہے، مختصر مگر جامع کتاب کا نہ صرف اسلوب بہتر ہے بلکہ اہم پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ؛ مصنف لکھتے ہیں:’’ اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ قربانی کی اہمیت، حقیقت، روح، تقاضے اور قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کر دیے جائیں، نیز مختلف مذاہب میں قربانی کی اہمیت سے بھی قارئین کو روشناس کرادیا جائے، مزید ان سوالات کے سائنٹفک اور تشفی بخش جواب دے دیے جائیں…. اس کے علاوہ ان مذاہب و نظریات پر بھی تنقیدی نظر ڈالی جائے جو معترضین کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔ ‘‘(صفحہ 6)
پہلے باب ’قربانی کی مذہبی اہمیت (قرآن و سنت کی روشنی میں‘ میں مصنف نے 8 نکات کی وضاحت کرکے سمجھایا ہے؛ لکھتے ہیں: ’’قربانی ایک مہتم بالشان جذبہ؛ ایثار و وارفتگی؛ عظیم المرتبت وظیفہ حیات و بندگی اور اللہ تعالی کے تقرب کے حصول کے لیے روز اول سے عائد کردہ خصوصی عبادت و علامت سرافگندگی ہے۔ اور خالق کا ئنات کی تخلیق کردہ محترم جان کو اسی کی راہ میں دے دینے کا اظہار علامت ہے۔ اسلام کی عبادات اربعہ یعنی نماز ، روزہ، حج اور زکوۃ میں اللہ تعالی کے مخلص بندے اپنے سارے وجود سے جن جذبات و احساسات بندگی کی مجسم تصویر بن جاتے ہیں اگر ان پرغورکریں تو قربانی کی اہمیت کے مزید گوشے سامنے آتے ہیں۔ ‘‘(صفحہ 7) دوسرے باب ’’قربانی کی تاریخ اہمیت‘‘ میں مصنف نے دکھایا ہے کہ قربانی کی تاریخ ہمیں آدم علیہ السلام کے بیٹوں کی قربانی سے ملتی ہے، یعنی بالکل ابتدائی زمانے سے، اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کی قربانی بھی ہے، موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو گائے کی قربانی کا حکم دیا گیا ہے، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں حکم دیا گیا۔
’’پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو‘‘
مصنف قربانی کی تاریخی حقائق بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ حقائق قربانی کی ناقابل انکار فضیلت اور انتہائی اہمیت کے لیے کافی ہیں، قربانی جیسی عظیم عبادت کا منکر کافر اور اس کی تخفیف کرنے والا جاہل ہے اور مصلحت کے نام پر اس قدیم اور آفاقی عبادت کو روکنے والا اپنے ایمان کی خیر منائے، کیونکہ وہ توحید کی عظمت و لذت سے نا آشنا اور شرک کی وقباحت سے نابلد ہے۔ ‘‘(صفحہ 28)
تیسرے باب میں مصنف نے مختلف مذاہب کے تصور قربانی پر روشنی ڈالی ہے، اس باب میں انہوں نے مختلف مذاہب میں قربانی کی اصطلاحیں، نذر و قربانی کی شکلیں اور قربانی کی نسبت سے مذاہب عالم کا جائزہ لیا ہے وہیں بدھ ازم اور جین ازم کا بھی تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے، موصوف نے قربانی کا قرآنی مقصد بیان بھی کیا ہے؛
’’ان قربانیوں کا نہ گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اللہ کو تمہارا تقوی اور پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ ‘‘(قرآن)
(صفحہ 37)کتاب کے چوتھے باب ’قربانی اور اسوہ ابراہیمی‘ میں پروفیسر صاحب نے سلیقہ مندی سے اسوہ ابراہیمی کے تینتیس اوصاف بیان کیے ہیں؛ جس سے ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا اجمالی خاکہ ہمارے سامنے آتا ہے، کتاب کے پانچویں باب میں مصنف نے ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو قربانی کے متعلق غیر مسلم کرتے ہیں یاجانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی انجمنیں یا جو شبہات مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں، مصنف نے ہر شبہ کا عقلی جواب دیا ہے ۔ اس باب کے آخر میں مصنف نے قربانی کے سلسلے میں مسلمانوں میں پائی جانے والی خرابیوں کا ذکر بھی کیا ہے، یہ خرابیاں وہ ہیں جن کی وجہ سے معترضین کو اعتراض کا بہانہ ملتا ہے، تین صفحات میں مصنف نے خوبصورت نکتے بیان کیے ہیں۔ چھٹے باب کا عنوان ہے ’’قربانی کا مسنون طریقہ‘‘ اس باب میں مصنف نے سنت کی روشنی میں باریک سے باریک نکتے بہترین طریقے سے بیان کیے ہیں، کتاب کے ساتویں باب میں مصنف نے نکتہ بہ نکتہ ’قربانی کی روح اور اس کا پیغام‘ میں قربانی کی روح کو بیان کیا ہے، کتاب کے آخر میں خلاصہ کلام میں مصنف نے نچوڑ پیش کیا ہے؛ لکھتے ہیں: ’’قربانی ایک ایسا پاکیزہ، مقدس اور جلیل القدر عمل ہے جس پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم نے اسے وہ اہمیت نہیں دی جس کی وہ مستحق ہے۔؛‘‘ (صفحہ 85) مزید لکھتے ہیں:’’ قربانی کی روح کو اسوہ ابراہیمی میں، اسوہ ابراہیمی کو کلام اللہ میں اور ابراہیم علیہ السلام کے احساسات اور واردات قلبی کو ان دعاوں میں تلاش کرنا چاہیےجو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اسی طرح دین کی راہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کا استحضار کرنا چاہیے، یہ قربانی ہم سے بھی آج اسی قسم کا مطالبہ کرتی ہے، اور اس ہمت و حوصلہ کی یاد دلاتی ہے جس کا خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حبیب خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مظاہرہ کیا تھا، اگر ان قربانیوں پر ان کو دونوں جہاں کی امامت ملی تھی تو کوئی وجہ نہیں ہمیں بھی قربانی دینے پر دنیا کی امامت کا کوئی حصہ نہ ملے۔ ‘‘(صفحہ 86)
کتاب میں مختلف مقامات مختلف پیرایوں میں مصنف قارئین کو بڑے بڑے نکتوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔ بنی اسرائیل میں سوختنی قربانی کی اہمیت کے پیرایے میں لکھتے ہیں: ’’۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد بھی قربانی کا سلسلہ جاری رہا، تا کہ گلہ بانی پر مبنی معیشت و ثقافت اور تہذیب انسانی میں چوپایوں کی محبت ،عقیدت میں اور عقیدت ، تقدیس میں نہ ڈھل جائے ۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں قبطیوں اور دوسری قوموں کی گوسالہ پرستی کو دیکھ کر بنی اسرائیل میں بھی گائے کی تقدیس پیدا ہوئی۔ ‘‘ (صفحہ 24) ایسے بہت سارے نکات کتاب میں درج ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ اگر ہم مذہبی ہیں تو دنیا سے اتنے دور کہ صفائی ستھرائی ، محلے اور معاشرے کے سلگتے مسائل تک سے بے بہرہ، بلکہ ایسے کام کرنے والے پر سیاست کرنے کا لیبل چسپاں کرنے والے اور صاف ستھری سیاست اور خدمت خلق تک کو برا سمجھنے والے ۔ نمازی ہیں پھر بھی اخلاق و کردار سے تہی دامن اور ایفا ءعہد کی اہمیت سے نابلد بالخصوص آپسی معاملات میں کمزور ہی نہیں بلکہ کھوٹے ۔ حاجی ہیں پھر بھی دنیا سے عشق ، مجرموں کے محافظ اور جاہلیت کے علم بردار ، خانہ کعبہ کا ہم نے طواف کیا ہے مگر یہاں ہماری زندگی ننانوے کے پھیر میں ہے ، ہم نے وہاں حج وعمرہ میں سعی کی ہے مگر یہاں ہماری ساری سعی و جہد غیر اسلامی پارٹیوں کا مہرہ بننے میں ہے ، ہم نے وہاں شیطان کو بلکہ تین شیطانوں کو کنکریاں ماری ہیں اور یہاں سینکڑوں شیطانوں کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔ ‘‘(صفحہ 70)بس ایک کمی محسوس ہوئی کہ قربانی کے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیاں جو مسلمانوں کے اندر پھیلائی گئی ہیں اس کا جواب تشنہ طلب ہے جیسے قربانی کی ہڈیوں کو دفن کیا جائے یا پھینکا جائے؟ خون کو معمول کے مطابق نالی میں یوں ہی بہا دیا جائے یا گھڑے میں جذب کیا جائے۔ کتاب اپنے موضوع پر بہت اہم ہے، مصنف نے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہے۔ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ دلی نے اسے شائع کیا ہے۔ کتاب کی قیمت صرف 50 روپے ہ
***
مصنف نے قربانی کے سلسلے میں مسلمانوں میں پائی جانے والی خرابیوں کا ذکر بھی کیا ہے، یہ خرابیاں وہ ہیں جن کی وجہ سے معترضین کو اعتراض کا بہانہ ملتا ہے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 جولائی تا 16 جولائی 2022