قرآنیات: قرآن کریم سے استفادہ – شرائط و آداب
پروفیسر سید مسعود احمد
قرآن کریم تہذیب انسانی کے اس دور میں نازل ہوا جب کہ باوصف نوعِ انسانی نے اپنے مادی اور سائنسی عروج و ارتقاکے لیے اپنے بازو وا کردیے تھے اور رب کریم نے اپنے دین قیم کی تکمیل کا فیصلہ فرمالیا تھا یہ کتاب الٰہی تمام دنیائے انسانیت کی ہدایت اور رہتی دنیا تک بنی نوع آدم کو ایک کامل و مکمل شاہ راہ حق دکھانے کے لیے یعنی جزیرۃ العرب کے ایک صادق و امین بندےکے قلب پر جستہ جستہ نازل کی گئی، تاکہ خدا ترس لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں۔ یہ کائنات کی عظیم ترین نعمتِ الٰہی نیز زندہ و جاوید اور دائمی معجزۂ خداوندی ہے۔اس کے اعجاز و عجائبات کا انکشاف ایک مسلسل عمل ہے جو زمانۂ نزول قرآن سے جاری ہے اور قیامِ قیامت تک مشیتِ الٰہی میں طے ہے۔
قرآن مجید سے مطلوبہ استفادہ کے لیے بھی اُسی کی رہنمائی کو اولیت حاصل ہونی چاہیے اور اسی اجمال کی تفصیل سنت رسول اللہ ﷺسے معلوم کرنی چاہیے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام براہِ راست تمام انسانوں کو نہیں پہنچایا بلکہ قرآن مجید کو نبی خاتم محمد رسول اللہ ﷺکے قلب اطہر پر نازل فرمایا تاکہ آپ ﷺاس کلام کی تلاوت بھی کریں اور اس کی توضیح و تشریح بھی کریں۔ جیسا کہ اسی کتابِ ہدایت میں ارشاد ربانی ہے کہ: ’’ہم نے آپ کے پاس یہ یاددہانی اس لیے بھیجی ہے تاکہ انسانوں کی طرف جو بھیجا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کردیںاور تا کہ وہ (اس کی روشنی میں) غور و فکر کرسکیں‘‘۔(النحل: ۴۴)
قرآن مجید کے ذریعے حصولِ ہدایت کے شرائط
قرآن مجید سے مطلوبہ استفادہ کی غرض سے جب ہم اس کتاب کی رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کتاب کو کھولتے ہی سورۃ الفاتحہ ہمیں اپنے پروردگار سے مانگنے کا ادب اور انسان کی سب سے بڑی احتیاج یعنی صراط مستقیم کی ہدایت مانگنے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اور ٹھیک اس کے بعد سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات میں ان سات بنیادی شرائط کا ذکر مل جاتا ہے جو اس کتاب سے استفادہ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں:
قرآن کریم سے مطلوبہ استفادہ کرنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان میں خدا ترسی، خشیتِ الٰہی اور خوف خداوندی کا جذبہ قایم و دایم ہو اور وہ اپنی زندگی میں طہارت و پاکیزگی اور توازن و تناسب کا متمنی ہو۔
وہ اَن دیکھی حقیقتوں کو بِن دیکھے مان لینے کا حوصلہ رکھتا ہو یعنی وہ نہ صرف یہ مانتا ہو کہ کائنات کے اس ظاہر کے پیچھے بے شمار غیبی اور انسانی حواس و آلات کی گرفت سے ماوراء حقائق ہیں، بلکہ اس کا یہ ا صرار بھی نہ ہو کہ مجھے جب تک ان کا ادراک نہ ہو جائے، میں انھیں کیوں مانوں۔ ایسا خام خیال رکھنے والا اور کم عقل شخص قرآن مجید کے غیبی حقائق پر ایمان نہیں لا سکتا۔ قرآن مجید ہدایت الٰہی کے دروازے ان لوگوں پر کھولنے کا وعدہ کرتا ہے جو چشم بصیرت اور عقل و وجدان جیسی اعلیٰ صفات کے حامل ہیں۔ اور جو حیوانوں کے حواسِ خمسہ سے آگے علم و آگہی کے اعلیٰ ذرائع کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ علم کی گہرائیاں اور گیرائیاں عقل و وجدان کے اعلیٰ معیار کے ایقان کی طالب ہیں۔
وہ اگر ہدایت حق کے لیے قرآن مجید سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تویہی قرآن یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ کی تیسری شرط اس پر عائد کرتا ہےکیوں کہ اُسے قرآن سے مطلوبہ استفادہ کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ رب العالمین کے حضور جبینِ نیاز پورے خلوص اور پابندی سے خم کرتا ہے اس کی قرآن کریم کے ذریعے خدا سے ہدایت طلبی سچی نہیں مانی جاسکتی۔
قرآنی ہدایت کے حصول میں ایک مخلص شخص اپنے مال کو راہ خدا میں لٹا دینے کا جذبہ بھی ضرور رکھے گا۔ قرآن مجید ہدایت طلبی کے لیے اس شرط کو ضروری ٹھہرا کر اس کے اخلاص نیت کا امتحان بھی لیتا ہے اور یہ بھی یاد دلاتاہے کہ کوئی بھی قیمتی چیز بغیر ایثار و قربانی کے حاصل نہیں ہوتی۔
قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے پانچویں شرط یہ ہے کہ قاری قرآن اس تصور کا قائل ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے سلسلہ کو اس دنیا میں کتب الٰہی، توریت، انجیل، زبور اور صحف سابقہ کے ذریعے قائم کیا ہے اور قرآن مجید اسی سلسلۂ ہدایت کی آخری کڑی ہے۔
جب تک قرآن مجید کے بارے میں یہ یقین نہ ہو کہ یہ رب العالمین ہی کا نازل کردہ ہدایت نامہ ہے اور یہ وہی آخری کتاب ہے جس کی پیشین گوئی انبیاء ورسل اور کتب سابقہ کے فرمودات میں موجود ہے، اس وقت تک اس کتاب سے پوری ہدایت کا حصول بے معنی ہے۔
اس کتاب سے مطلوبہ ہدایت کا حصول اس وقت تک عملاً ناممکن ہے جب تک وہ اپنے رب کے حضور جوابدہی کا یقین نہ رکھتا ہو۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص تعلیماتِ قرآنی کو اس لیے اختیار کرلے کیوں کہ اس کے نزدیک یہ اچھے اعمال کی تعلیمات ہیں لیکن جب تک اس کا یہ یقین نہیں ہوگا کہ میرے رب نے مجھ پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ میں نیک اعمال پر زندگی بھر کار بند رہوں اور رب العالمین میرے ہر عمل کا ایک روز حساب لے گا اور اگر میں اس روز کامیاب ہوگیا تو میرے لیے جنت ہے ورنہ جہنم کے عذاب کا بھی پورا پورا اندیشہ ہے نیز اس دن کوئی سفارش بھی مالک یوم الدین کے حضور کام نہیں آئے گی اِلاَّ یہ کہ وہی کسی کے حق میں کرم و فضل کا فیصلہ کردے۔ جب تک آخرت کا عقیدہ جس کا قرآن میں تفصیل سے سینکڑوں بار ذکر آیا ہے، قاری قرآن کے قلب میں جاگزیں نہیں ہوجاتا اور اس عقیدہ پر اس کا یقین کامل نہیں ہوجاتا، اس شخص کا قرآن کریم سے مخلصانہ ہدایت طلبی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ جب کسی کو نیکیوں کے کرنے اور گناہوں سے بچنے کی فکر ہی نہیں ہے تو اس کو کون سی ہدایت مطلوب ہے۔
یہ تمام شرائط خود منبع ہدایت اور پروردگارحقیقی نے اپنی کتاب ہدایت کے ا بتدائی اور تعارفی کلمات ہی میں واضح کردی ہیں(ملاحظہ ہوں سورہ البقرہ کی ابتدائی چار آیات) ان شرائط کو پورا کرتے ہوئے جب قرآن کریم کے ذریعے رب العالمین کی بارگاہ عالی سے مخلصانہ ہدایت طلب کی جائے گی تو نہ صرف ہدایت حق ملنے کا وعدہ ہے بلکہ ایسے مخلص افراد کو فلاح و کامرانی کی بشارت بھی وہیں دے دی گئی ہے(البقرہ:۵)۔
کلام اللہ کی تلاوت، سماعت اور مطالعہ کے آداب
مندرجہ بالا شرائط تو وہ ہیں جو قرآن مجید کے ذریعے ہدایت خداوندی کے حصول میں مطلوب ہیں ا ور جن کے بغیر اللہ تعالیٰ اس کتاب کی معرفت اور ہدایت کے دروازے انسانی قلوب پر نہیں کھولتا۔ اگلی سطور میں وہ آداب و شرائط پیش کیے جائیںگے جن کا التزام ایک طالب علم کو قرآن مجید کی تلاوت کے وقت تنہائی یا مجمع میں کرنا چاہیے تاکہ اس کا قرآنِ کریم سے مطلوبہ اور اس کتاب کے شایان شان تعلق قایم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو۔ یہ آداب خود پروردگار عالم نے اپنے کلام اور اپنے رسول خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچائے ہیں۔ یہ سات آداب و شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) طہارت قبلِ تلاوت (۲)تعوذ قبلِ قرأت (۳) تسمیہ قبلِ قرأت (۴) عظمتِ قرآن کا استحضار (۵) ترتیلِ تلاوت (۶) استماع و انصاتِ قرأت (۷) تدبر فی القرآن۔
تلاوت قرآن میں پہلا ادب یعنی طہارت قبلِ تلاوتِ قرآن کو ہادیِ برحق نے غالباً اس لیے پسند فرمایا ہے کہ اس کلام عالی مقام کو پڑھنے سے پہلے قاری قرآن اور مطالعہ قرآن کرنے والے کوخود کو شعوری طور پر جسمانی و روحانی، حقیقی و معنوی، ظاہری اور باطنی تمام نجاستوں کو دور کرکے بالکلیہ پاک و صاف ہوجانا چاہیے۔کیوں کہ یہ کلام الٰہی بہت ہی پاکیزہ ہے لہٰذا اس کا جسم بھی پاک ہو اور اس کی روح بھی دنیوی متعلقات و آلائش سے کم از کم مطالعہ قرآن کے وقت تنفر اور دوری اختیار کرے۔ مزید برآں اس کے خیالات بھی پاکیزہ ہوں اور اس کی نیت بھی بالکل پاک ہو یعنی وہ ہدایتِ حق اپنی دنیوی اور اخروی کامیابیوں ا ور رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر ہی طلب کررہا ہو اور اس کا یقین ہو کہ ہدایتِ حق صرف اللہ رب العالمین ہی سے مل سکتی ہے اور قرآن مجید اسی اللہ کا ہدایت نامہ ہے۔
تلاوت کے آداب میں دوسری شرط تعوذ باللہ من الشیطان ا لرجیم ہے۔ قرآن کریم میں ہی باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’قرآن پڑھنے کے وقت راندۂ درگاہ شیطان کے خلاف اللہ کی پناہ طلب کرو۔‘‘ (النحل: ۹۸) اس سے استعاذہ یا تعوذ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ شیطان، قرآن عظیم کی تلاوت و مطالعہ میں سب سے زیادہ ذہن بھٹکانے کا کام کرے گا۔ وہ قرآن کریم کی تعلیمات کے خلاف ہر ممکن حربہ اختیار کرے گا، وسوسہ اندازی کرے گا، جس کاحل و علاج صرف یہی ہے کہ ہم اللہ قادر مطلق کی پناہ شیطان لعین کے ہر وسوسہ و حربہ کے خلاف مانگ لیں۔ کیوں کہ ہمارا رب ہماری ہر پرخلوص اور جائز دعا قبول کرتا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ یقین بھی ہونا چاہیے اور امید بھی کہ ابلیس لعین کے ہر وسوسہ اور حربہ کے خلاف اللہ رب العزت کا دست قدرت ہی ہماری دست گیری کرے گا۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کا زبان سے پڑھنا جس میں معنی کا استحضار اور اخلاص دونوں شامل ہوں، در اصل ہماری اس کیفیت کی عکاسی ہے جس میں ہم تمام محرکات شر کے خلاف اللہ تعالیٰ عزیز و قدیر ہی کی پناہ گاہ میں امن و سکون ڈھونڈتے ہیں۔
قرآن سے مطلوبہ استفادہ کرنے کے لیے یہ بھی ایک ادب ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت و مطالعہ کا آغاز اللہ ہی کے نام سے کرنا چاہیے۔ اس کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام ذی وقار میں ہر سورت کی ابتدا میں بجز سورہ التوبہ کے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بحیثیت ایک مستقل آیت کے شامل کرائی۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ہی اپنے کلام کا آغاز بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے کرتا ہے تو ہمارے لیے یہی زیب دیتا ہے کہ تلاوت و مطالعہ قرآن کی ابتدا اللہ کے نام سے کریں اور اس کا بہترین طریقہ وہی ہوگا جو اس نے اپنے کلام میں پسند فرمایا۔ یہ کلمات تسمیہ ہمیں نبی خاتم پر پہلی وحی کے کلمہ ’اقرأ‘ کا جواب بھی معلوم ہوتے ہیں یعنی جب ہمارے آقا اور ہادی اعظم کو رب کائنات کا حکم ہوا کہاِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَتو اسی خالق و مالک نے ان کلماتِ تسمیہ کے ذریعے اپنے حبیب ﷺ کی تعلیم و تربیت شروع کردی۔ البتہ ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ رسول وقت کو جو کچھ سکھایا جاتا ہے وہ در اصل امت کے لیے حکم خداوندی ہوتا ہے کیوں کہ رسول تو نمائندۂ خدا ہی ہوتا ہے لہٰذا رسول خاتم ﷺ کو دی گئی خدا کی ہر تعلیم بغرض تعلیم و تزکیۂ امتِ مسلمہ ہوتا ہے۔ اس بحث کو سمیٹنے سے پہلے اس حقیقت کی یاددہانی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قرآن حکیم میں ایک سو چودہ بار بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘کی تکرار و موجودگی اس کلمہ کی رب ذو ا لجلال و الاکرام کے نزدیک اہمیت کی غماز بھی ہے اور اس کتابِ الٰہی ا ور رسولِ خاتم ﷺ کی مخصوص علامت و پہچان بھی جو کتب سابقہ توریت، انجیل میں بتائی گئی ہے۔ ان کلمات میں اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت کا حوالہ بھی موجود ہے اور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت اور رحمۃ للعالمینی کا اشارہ بھی۔
قرآن مجید کی عظمت کا استحضار بھی تلاوت و مطالعہ قرآن کی شرائط و آداب میں سے ہے۔ قرآن حکیم میں متعدد جگہ اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ قارئین قرآن کو بار بار عظمت قرآن کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔ مثلاً یہ فرمان خداوندی : ’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خوفِ الٰہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔‘‘ (الحشر:۲۱) اور اس کا اثر نیک لوگوں پر کیسا ہوتا ہے اس کا اندازہ اس آیت سے لگائیے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ جس میں آپس میں ملتی جلتی اور بار با ر دہرائی گئی آیات ہیں، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں، پھر ان کے جسم و دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم پڑ جاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے عنایت کردیتا ہے‘‘(الزمر: ۲۳)۔ مزید دیکھیے سورہ بنی اسرائیل: ۱۰۷ تا ۱۰۹، سورہ انفال: ۲، وغیرہ۔ سورہ مریم میںایمان والوںکی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب ان کے سامنے کلامِ رحمن کی آیات کی تلاوت کی جاتی تو وہ روتے اور گڑگڑاتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے (مریم: ۵۸)۔ قرآن مجید کی عظمت کا ایسا ہی استحضار مطالعۂ قرآن کے وقت مطلوب ہے۔
قرآن کریم کی تلاوت کا پانچواں ادب یہ ہے کہ کلام کو ترتیل یعنی ٹھہر ٹھہر کر اور مخارج کی صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : ’’قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (اور صاف) پڑھو‘‘(المزمل: ۴)۔ ترتیل سے پڑھنے سے معانی کا استحضار بھی آسانی سے ہوسکتا ہے اور رب کریم سے مکالمہ کے ذریعے اس سے قرب کا بھی موقع ملتا ہے۔ کیوں کہ تلاوت کے ذریعے بندہ سے اس کا رب حقیقی براہ راست مخاطب ہوتا ہے اور ترتیل سے بندۂ مومن کے قلب پر کلام اللہ کا مطلوبہ اثر پڑتا ہے اور اسی ذریعہ سے قاری قرآن کریم سے مطلوبہ استفادہ کرنے کی پوزیشن میں ہوسکتا ہے۔
چھٹا ادب قرآن مجید کے سننے سے تعلق رکھتا ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت ہورہی ہو تو اس وقت بالکل خاموش رہیں اور اس کو غور سے سنیں تاکہ تم پر رحم کیا جائے (الاعراف: ۲۳)۔ مخالفین و منکرین اسلام کا اس کے خلاف یہی تو رویہ تھاکہ وہ اس پر اندھے بہرے ہو کر گرے پڑتے تھے (الفرقان:۷۳)۔ اور کبھی شور مچایا کرتے تھے تاکہ وقتی طور پر غالب آجائیں (حم السجدہ: ۲۶)۔ کہنا یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطالعہ و تلاوت کے دوران خشوع و خشیت سے لبریز ایک ایساماحول ہونا چاہیے کہ جس میں رحمت الٰہی متوجہ ہو کیوں کہ خشیت قلبی ہی اخلاص نیت اور تقویٰ کی علامت ہے اور تقویٰ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہدایت بالقرآن کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط ہے نیز خشیت قلبی ہی قاری کے قلب میں عظمتِ قرآن کے استحضار کی کسوٹی ہے۔ در اصل خشیتِ قلبی ا ور انصات کے بغیر مطلوبہ استفادہ نا ممکن ہے۔
قرآن مجید سے مطلوبہ استفادہ تدبر فی القرآن کے بغیر بھی ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ خود قرآن مجید میں ارشاد ربانی موجود ہے کہ ’’یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف (اے محمد ﷺ) نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور و تدبر کریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘ (ص: ۲۹)۔تدبر فی ا لقرآن کے ذریعے ا یک طالب علم اپنے ذہن کے دریچے اس کلام کو سمجھنے کے لیے کھولتا ہے تو اسے جستجوئے حق کی راہ میں مشقت کا ثواب ملتا ہے۔ مطالعہ قرآن سے ہمارا مقصد وحید یہی تو ہے کہ ہمارا رب جو اپنے کلام میں ہم سے مخاطب ہے اور اُس نے یہ کلام ہماری پوری ہدایت کے لیے ہی اتارا ہے تواس سے معلوم کریں کہ وہ در اصل ہم سے کیا چاہتا ہے؟ وہی رہنمائی ہم اس کے کلام سے حاصل کرنے کی پوری سنجیدگی اور ا خلاص سے کوشش کریں۔ جو لوگ معانی کے استحضار کے بغیر اور بلاتدبر فی القرآن تلاوت قرآن کرتے ہیں ہماری حقیر رائے میں انھوں نے ثوابِ آخرت تو بھلے ہی کچھ جمع کرلیا ہو مگر اس کتاب سے وہ رہنمائی حاصل نہیں کی جس کے لیے اس کتاب کو نازل کیا گیا تھا۔ کیا تدبر فی القرآن اور ہدایت بالقرآن کی اصل و اہمیت سے کوئی مسلمان انکار کی جرأت کرسکتا ہے؟
طلبائے قرآن سے قرآن مجید کے سات مطالبات
مذکورہ بالاسات آداب و شرائط تو ہادی برحق نے قارئین اور سامعین قرآن پر عاید کیے ہیں مگر قرآن حکیم سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے بھی رب العزت کے سات مطالبات ہیں جن کا استحضار و عمل اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ آداب و شرائط کے بارے میں بتایا گیا۔ یہ سات نکات درج ذیل ہیں:
قرآن حکیم سے مطلوبہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم ہی کے سات مطالبات ہیں۔ ان میں پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کو اس سرچشمۂ علم و حکمت کا براہ راست فیض بلکہ اس کے محیط علم کا ہی ایک حصہ مانیں جس ذاتِ اعلیٰ ومقدس نے تمام کائناتوں کو وجود بخشا ہے۔ اور یہ بھی یقینِ صادق رکھیںکہ اس قرآن کو نازل کرنے والا رب العالمین ہی نہیں بلکہ ا لرحمن والرحیم بھی ہے۔ وہ اپنے بندوں کی ہر حاجت سے ان سے زیادہ واقف ہے اور ان کی حاجات کی بہترین ادائیگی وہی کرسکتا ہے کیوں کہ اس کے خزانوں کی کوئی انتہااور شمار نہیں اوروہ تو چاہتا ہی یہ ہے کہ اس کے بندے اس سے مانگیں اور خوب مانگیں۔ اُس نے اپنے اسی کلام میں فرمایا ہے : قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ (غافر: ۶۰) یعنی ’’تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروںگا۔‘‘
بہرحال اس نے ہماری سب سے بڑی حاجت یعنی ہدایتِ صراط مستقیم کی فطری تمنا کو الفاظ کا جامہ پہنا کر ہمیں دعا مانگنے کا سلیقہ بھی سکھایا اور اس دعا کا جواب پورے قرآن میں نازل کردیا، یہی ہمارا ایمان ہے۔ یہ یقین ہی ہماری ہدایت کی کنجی ہے۔ ہمارا یقین یہ بھی ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمارے ہر مسئلہ کا حل بتایا ہے۔ بلکہ قیامت تک تمام انسانوں کے جملہ بنیادی مسائل کا حل اسی کتاب الٰہی میں موجودہے۔ اس قرآن سے مطلوبہ استفادہ کے لیے سورہ الحجرات کی آیت ایک کسوٹی فراہم کرتی ہے۔اور وہ یہ کہ: ’’مومن تو در اصل وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان لائے اور پھر اس میں شک نہیں کیا اور اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کیا، یہی لوگ (دعویٔ ایمان میں) سچے ہیں۔‘‘ (الحجرات:۱۵)۔قرآن مجید سے مطلوبہ اور خاطر خواہ استفادہ کے لیے ایسا ایمان بالقرآن مطلوب ہے جس میں شک و ریب کا شائبہ تک نہ ہو۔
تلاوتِ قرآن باللسان و تلاوت بالمعانی قرآ ن مجید کو معانی کے ساتھ پڑھنے والا خود بخود یہ سمجھ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تلاوت کتاب کا کیا مطلب ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں دسیوں مقامات پر ’’اُتْلُ‘‘ کا کلمہ استعمال کیا گیا ہے اور اکثر و بیشتر جگہوں پر اس سے مراد صرف ذاتی طور پر یا تنہائی میں پڑھنا مراد نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے سامنے کلام اللہ کی تلاوت و ا شاعت مراد ہے، یہ تلاوتِ قرآن علی الناس ہے۔ اسی لیے ہم نے اس نکتہ کو تلاوت باللسان کا عنوان دیا ہے۔ جیسے یہ ارشاد گرامی کہ اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ یعنی ’’آپ ﷺ پر کتاب میں سے جو وحی کی گئی ہے اسے پڑھ کر سنائیں‘‘۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو حضور نبی اکرم ﷺ کے منصب نبوت کی چار بنیادی ذمہ داریوں میں سے سب سے پہلی ذمہ داری تلاوتِ کتاب تھی اور اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ تھا کہ آپ لوگوں کے سامنے کلام اللہ کی آیات کی تلاوت کریں یعنی قرآن مجید کو بلا کم و کاست لوگوں تک پہنچائیں۔ ہم بحیثیت افراد امت مسلمہ اسی کام کے مکلف اور ذمہ دار ہیں لہٰذاتلاوتِ قرآن کی ذمہ داری اب ہماری طرف منتقل ہوچکی ہے۔ قرآن مجید میں ت ل و کے مادہ سے باسٹھ کلمات موجود ہیں۔ ان میں بیشتر (انسٹھ) میںتلاوت کا صلہ علیٰ کے ساتھ آیا ہے یعنی لوگوں پر اس کلام کی تلاوت ہوگی۔ بد قسمتی سے امت کی اکثریت تنہائی میں کلام اللہ کے پڑھنے کو ہی تلاوت قرآن سمجھتی ہے ا ور اگر اس میں مزید یہ اضافہ کردیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ طوطے کی طرح معانی کو بلا سمجھے ہوئے زبان سے چند کلمات کا نکال دینا ہی امت کے سوادِ اعظم کے نزدیک ’’تلاوتِ قرآن‘‘ ہے۔ کیارسول خاتم ﷺ پر یہ قرآن عظیم منتروں کی طرح جاپ کرنے کے لیے نازل ہوا تھا؟
یادرہے کہ قرآنی کلمات کی ادائیگی ا ور آیاتِ الٰہی کی قرأت و ترتیل سے ملنے والے ثواب و برکات سے انکار تو ہمارے نزدیک بھی غلط ہے لیکن یہاں تلاوت کے مروّج اور غلط طریقہ کی نفی مقصود ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ یہاں موضوع بحث قرآن کریم سے مطلوبہ استفادہ کے آداب و شرائط ہیں۔
تَعَلَّمُ الْقُرْاٰنَ کی شعوری کوشش: اس عنوان سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجید کا علم حاصل کرنا اور سکھانا بھی اسی کلام اللہ کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ قرآن مجید میں حضور نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت کی چار بنیادی ذمہ داریوں کا ذکر کیا گیا اور چار بار آپ ﷺ کی اس ذمہ دار ی کا ذکر و اعادہ کیا گیا ہے وہ مقامات ہیں :البقرہ: ۱۲۹؛ ۱۵۱؛ آل عمران: ۱۶۴؛ الجمعہ:۲۔ ا ور وہ چار ذمہ داریاں اس طرح ہیں: تلاوتِ آیاتِ قرآنی، تعلیم کتابِ الٰہی، تعلیمِ حکمتِ قرآن اور تزکیۂ نفوس۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بھی ہے کہ ’تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور سکھائے‘۔ لہٰذا قرآن مجید کو سیکھنے کی خصوصی کوشش کرنا امت مسلمہ کے ہر فرد کی ا نفرادی ذمہ داری ہے۔ تلاوتِ قرآن اور تعلّم قرآن میں ایک موٹا سا فرق یہ ہے کہ تلاوت قرآن میں معانی کے استحضار کے ساتھ کسی ترتیب سے قرآن کو پڑھنا مراد ہے جب کہ تعلّم القرآن میں کسی خاص موضوع قرآن اور اس کی آیات کو سمجھنے اور ان کی تفصیلات میں جانے سے تعلق مراد ہوتا ہے۔ مزید برآں تلاوتِ قرآن میں قرآنی آیات کا ایک سادہ سا بیانیہ (narration)پیش کیا جاتا ہے جو مخاطبین تک پہنچانا ہوتا ہے۔ در اصل وہاں مخاطب کی رعایت سے بات کی جاتی ہے کیوں کہ اُس کے پاس سننے کو زیادہ وقت نہیں ہے لہٰذا متکلم اپنی بات سادہ سے انداز میں بیان کردیتا ہے۔ علاوہ ازیں تلاوتِ آیات میں صرف یک طرفہ بات ہوسکتی ہے جب کہ معلّم اور متعلم کے درمیان سوالات و جوابات کا بھرپور موقع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تلاوتِ قرآن کسی خاص سورہ و مجموعہ آیات کی ہوتی ہے۔ تعلّم قرآن میں معلّمِ قرآن زیر بحث موضوع کے مختلف پہلوؤں کو لے سکتا ہے۔ بہرحال تلاوتِ قرآن اور تعلیم قرآن دونوں کی الگ اور علیحدہ افادیت ہے اور دونوں کی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے۔
حکمت قرآن کی جستجو بذریعہ تدبر قرآن: قرآن مجیدحکمتوں سے لبریز کتاب ہے اور وہ اس حقیقت پر خود گواہ ہے مثلاً فرمانِ ربانی ’یٰسٓo وَالْقُراٰنِ الْحکِیْمِ‘ (یٰس:۲-۱)یعنی’’ یٰس، حکمت سے بھرے قرآن کی قسم‘‘۔ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی تخلیق، اس رب قدیر کی تدبیر اور اس کے افعال کی حکمتوں کی پردہ کشائی کرتی ہے۔ جب ایک مومن اس کتاب پر تدبر کرتا ہے تو اس پر اس کتاب کی حکمتوں کے عقدے کھلتے ہیں اور اس سے قلب منور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی امی رسول خاتم ﷺ کو تلاوت آیات اور تعلیم کتاب کے ساتھ ساتھ حکمت کی باتیں بتانے اور خصوصاً قرآن مجید کی تعلیمات میں جو اللہ تعالیٰ کی حکمتیں پنہاں ہیں ان کی نقاب کشائی کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات و خطابات اور اقوال و فرمودات کا مستند ذخیرہ اسی حکمت و دانائی کا آئینہ دار اور نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مختصر مگر جامع خطبے آپ کے کارِ رسالت کی در اصل زمانی و مکانی تعبیر و تشریح ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ آپ ﷺکی نبوی زندگی قرآن مجید کی عملی اور مجسم تفسیر تھی اور آپ قرآن مجید ہی کی حکمت کے موتی اپنی لسانِ نبوت سے بھی پیش فرماتے تھے۔ اب قرآن مجید کے طلبا اور قارئین سے یہ مطالبہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات پر تدبر اس طرح کریں کہ قرآن مجید کی حکمتیں ان پر آشکارا ہوں تاکہ ان کے قلوب روشن و منور ہوں، اور اس کا صحیح طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ جو کچھ اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی خاتمﷺکو قرآن مجید کی حکمتیں سکھلائیں اور انھوںنے امت کے سامنے پیش کیں وہی طریقہ ہم اختیار کریں۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک علمی راستہ ہوگا اور اُس میں ایک حد تک انفرادی تشفی اور اطمینان قلب کے لیے اس کو آزاد ہی چھوڑنا بہتر ہے مگر شرط یہی ہے کہ وہ بنیادی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے یعنی قرآن اور سنتِ نبوی کی روشنی میں جس طرح چاہے اپنے تشفی اور اطمینان قلب کے لیے قرآن کی حکمتوں کے موتی اپنے لیے چُنے۔ البتہ ہم یہاں عرض کردیں کہ حکمتوں کا اطلاق جب فرد کے بجائے اجتماع پر اور علم سے آگے بڑھ کر عمل پر ہوگا تو حضور نبی اکرم ﷺ کی ساری نبوی زندگی اور آپ کے مستند فرمودات ہی قرآن مجید کی حکمتیں سمجھنے بالخصوص بیان اور عمل کرنے میں ناگزیر قرار پائیںگے۔
قرآن مجید پر غور و تدبر محض مباح فعل ہی نہیں بلکہ مستحسن عمل ہے اور اس کا حکم قرآن مجید میں صریح و واضح شکل میں ہے۔ جیسے سورہ ص آیت ۲۹ میں ہےکہ ’’یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ اس کی آیات پر تدبر کیا جائے ا ور تاکہ اس سے عقل مند لوگ یاد دہانی حاصل کریں۔‘‘ ان آیات سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن پاک پر تدبر کرنا اس کتاب کا مقصد نزول ہے اور یہ تدبر محض علما کرام کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ ہر مومن و کافرسب کے لیے ہے جیسا کہ سورہ النساء آیت ۸۲اور سورہ محمد آیت ۲۴ سے مترشح ہوتا ہے۔ آج کل بدقسمتی سے تدبر کے دروازے عام مسلمانوں کے لیے بند کردیے گئے ہیں اور قرآن کو سمجھنا اور اُس پر تدبر کرنا بعض علما کے نزدیک صرف ان علما کا کام ہے جو قرآن کے بڑے عالم ہوں جب کہ ایسا کہنا قرآن کریم کی تعلیمات کی صریح نفی ہے۔ قرآن مجید تو کافروں اور منافقوں تک سے تدبر کا مطالبہ کرتا ہے تو کیا مسلمان معاذ اللہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں؟ قرآن مجید کی سور ص کی آیت ۲۹ واضح طور پر تمام انسانوں سے یہ مطالبۂ خداوندی یاد دلاتی ہے کہ اس مبارک قرآن کو نبی خاتم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر اسی لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کی آیات پر غور و تدبر کیا جائے جس کے نتیجہ میں عقل مند لوگ اس سے نصیحت و یاددہانی حاصل کریں۔ خدارا غور کریں کہ انسان اپنی عقل اور اپنے اخلاق ہی سے تو جانوروں سے ممتازہے اور اگر ہم ان دو چیزوں سے ہی کام لینا چھوڑ دیں تو اشرف المخلوقات اور انسان ہی کب رہیںگے؟
اخلاص اور پاکیزگیِ نیت: قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ طالبِ علمِ قرآن کا مطالعہ ہدایت الٰہی کے لیے مخصوص ہو۔ وہ مطالعۂ قرآن کو صرف حصول ہدایت کے لیے اور اپنے تزکیہ کے لیے ہی خالص کرلے جس میں اس کو ذرہ برابر یہ وسوسہ نہ آئے کہ وہ کسی دنیوی مقصد یا محض اضافۂ علم کے لیے قرآن مجید کا مطالعہ کررہا ہے۔ بیشک اضافۂ علم بھی مطالعۂ قرآن کے نتیجہ میں حاصل ہوگا لیکن اس بندۂ خدا کا مقصد اضافۂ علم نہیں ہونا چاہیے بلکہ حصولِ ہدایت اور ہدایت برائے تزکیہ ہونا چاہیے اور ہدایت برائے رضائے الٰہی بھی مقصودو مطلوب ہونا چاہیے۔
عزم و عہدِ تزکیہ: یہ نکتہ بھی گذشتہ نکتہ میں ایک اضافہ ا ور اس کا تتمہ ہے۔ مطالعۂ قرآن سے پہلے ہرطالب قرآن کو یہ عزم بالجزم کرنا ضروری ہے کہ اس کو جو کچھ فرموداتِ ربانی کا علم حاصل ہوگا وہ اس کی زندگی میں عملی انقلاب بھی ضرور رونما کرے گا۔ قرآن مجید میں بار بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کہیں یہ کہا گیا ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (اعلی:۱۴) یعنی ’’کامیاب ہوا وہ جو تزکیۂ نفس پر کار بند ہوا‘‘۔ کہیں فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس:۹) یعنی یقینا ًوہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کو تزکیہ و طہارت کے ذریعے نشو ونما کیا۔ آپ ﷺکے فرضِ منصبی کا منتہائے مقصود بھی تزکیہ نفوس ہی تھا، اور یہ آپ کے مشن رسالت ہی پر منحصر نہیں بلکہ تمام انبیاء و رسل کا مقصدِ کار اور مشنِ رسالت در اصل افراد کا تزکیہ اور اصلاحِ معاشرہ ہی تھا۔
اشاعت قرآن: بحیثیت پیروانِ نبیِ آخر الزماں محمد ﷺسب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے بلکہ جو شخص بھی قرآن مجید کو کتابِ ہدایت(Book of Guidance) تسلیم کرتا ہے وہ اس نورِ ہدایت کو اپنی ذات تک محدود رکھنا پسند نہیں کرسکتا بلکہ اس روشنی کو دنیا میں عام کرنا چاہے گا۔ یہ اس کا قلبِ سلیم بھی کہتا ہے اور اس کے رب کا بھی یہی فرمان ہے کہ ’’یہ تو لوگوں کے اطلاع و تبلیغ کے لیے ہے اور تاکہ اس کے ذریعے اُن کو آگاہ کیا جائے اور ان کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور تاکہ اس کے ذریعے دانش مند یاددہانی حاصل کریں‘‘ (ابراہیم: ۵۲)۔یہ ذمہ داری کسی رسول پر بھی نہیں ڈالی گئی تھی کہ وہ حق کو منوا کر ہی چھوڑیں البتہ قرآن مجید میں جو تبلیغِ حق کی ذمہ داری رسولِ خاتم ﷺ پر ڈالی گئی تھی اس کو مختلف پیرایوں میں بار بار ذکر کیا گیا ہے مثلاً سورہ آل عمران:۲۰؛ المائدہ: ۹۲ اور ۹۹ ؛ الرعد: ۴۰؛ النحل: ۳۵ اور ۸۲؛ النور: ۵۴؛ العنکبوت: ۱۸؛ یٰس: ۱۷؛ التغابن: ۱۲ وغیرہ۔ جیسا کہ ا وپر ذکر کیا گیا کہ امت مسلمہ کے تمام افراد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جو کام رسولوں کا تھا وہ اب امت مسلمہ کو انجام دینا ہے جب کہ سورہ آل عمران میں واضح طور سے دو مقامات پریعنی کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آیت :۱۱۰) اور وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ(آیت: ۱۰۴)کے ذریعے اس امتی فریضہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔اشاعتِ قرآن کی ذ مہ داری کا امت مسلمہ پر عموماً اور طالبانِ قرآن پر خصوصاً عائد ہونا تو اوپر مذکور ہوا البتہ اس کی حکمتوں ا ور فائدوں کے تعلق سے یہ بتانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دوسرے لوگوں کو قرآنی تعلیمات پہنچانے کا کام کرے گا اس کے لیے اپنی ذات پر اس قرآن کو نافذ کرنا یقینا آسان بھی ہوگا اور لازم بھی ورنہ ’’لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ‘‘(الصف:۲) کا گناہ بھی اس پر قائم ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی تجربہ میں آئی ہے کہ جو لوگ کسی کام کو عملاً کرنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس علم کے تعلق سے شک و ریب کے سارے کانٹے خود بخود نکال دیتا ہے اور شرح صدر نصیب فرما دیتا ہے۔ ارشاد ربانی بھی ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: ۶۹) یعنی ’’جو لوگ ہماری راہ میں جد و جہد کرتے ہیں ان کے لیے ہم ہدایت کے (متعدد) راستے کھول دیتے ہیں‘‘۔
قرآن مجید سے مطلوبہ استفادہ کے لیے آداب و شرائط نیز قرآن مجید کے مطالبات کی ایک اجمالی تصویر یہاں پیش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ ان تمام آداب و شرائط اور مطالبات کوان کے شایان شان ادا کرنے کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین ■ (جاری)