قرآن: حاصل ماہِ رمضان

مسلمان ،حق کو چھپانے کی روش ترک کریں

ڈاکٹر ساجد عباسی

اس سال کا ماہِ رمضان اختتام پذیر ہے۔ماہِ رمضان امتِ مسلمہ کے اندر تقویٰ کی صفت پیداکرنے اور اہل ایمان کو جہنم کی آگ سے چھٹکارا دلانے لیے اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ ہے۔رمضان کے روزوں کا ایک اور مقصدیہ ہے کہ ہم قرآن جیسی عظیم الشان نعمت کا شعوررکھیں اور روزوں اور اعمالِ صالحات کابطورِ شکر اہتمام کریں۔ ماہِ رمضان میں قرآن کا نزول ایک ایسا واقعہ ہے جو رمضان کی تمام برکتوں کا محور ہے۔ دنیا کی ہر نعمت زوال پذیر اور فانی ہے۔خود انسان بھی فانی ہے۔انسان اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ ہ اٹھاتا رہتا ہےاور انسان پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ نعمتیں اس کے سامنے موجود ہوتی ہیں لیکن وہ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے پر قادر نہیں ہوتا۔یہاں تک کہ موت آکر انسان کا تمام لذّتوں سے رشتہ کاٹ دیتی ہے۔اسی لیے موت کو ھادم اللذّات کہاگیا۔لیکن قرآن ایک ایسی عظیم المرتبت نعمت ہے کہ وہ انسان کو ابدی نعمتوں سے بھری جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔انسان کو وہ ایمان عطاکرتی ہے جس کی بدولت وہ دنیا کی نعمتوں کو جنت کی لازوال نعمتوں کے مقابلے میں حقیر سمجھتا ہے اور کبھی دنیائے دنی کے لیے آخرت کا سودا نہیں کرتا۔قرآن انسان کو عملِ صالح کی ایسی شاہراہ پر ڈال دیتا ہےجس پر چلتے ہوئے اسے اطمینانِ قلب کی دولت بھی نصیب ہوتی ہےاور بے شماربرکتیں بھی اس کےحصہ میں آتی ہیں۔قرآن سے نسبت جس کو بھی ملی وہ تمغۂ عظمت سے سرفراز ہوا۔ جس ماہ میں قرآن کا نزول ہوا وہ سب سے مقدس ومبارک ماہ قرار پایا۔جس رات قرآن کا نزول ہوا وہ لیلۃ المبارکۃ اور لیلۃالقدر سے موسوم ہوئی جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔جس فرشتےکےذریعےاس کی ترسیل ہوئی اس کو روح الامین کا لقب ملا۔جس ہستی کے قلب پر اس کا نزول ہوا وہ رحمت اللعالمین کے لقب سے سرفراز کی گئی۔جس امّت کو حاملِ قرآن بنایا گیا اس کوساری انسانیت کے لیے امتِ وسط اور خیرِامّت بنایا گیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں وہ بہتر ین قرار دیے گئے جو قرآن کو سیکھتے ہیں اورسکھاتے ہیں۔قرآن کے اصولوں کو دستورِ حیات بناکر جب امّت مسلمہ نے دنیا میں زندگی گزارنے کا عزم کیا اس کو قرآن نے بامِ عروج پر پہنچادیا۔اونٹوں کے چرانے والوں نے تہذیب کی شمعیں روشن کیں۔اور حامل قرآن ہوکر جب بھی مسلم قوم نےقرآن کو پسِ پشت ڈالنے کے جرم کا ارتکاب کیا اسے تاریخ میں نشانِ عبرت بنادیا گیا ۔انّ اللّہ یَرفَعُ بِھٰذالکِتابِ اقواماً ویَضَعُ بِہ آخِرین۔بے شک اللہ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو اٹھاتا ہے اور اس کو چھوڑنے کے نتیجے میں زوال سے ہمکنار کرتاہے۔
سب سے پہلا حاصلِ ماہ ِرمضان یہ ہے کہ اس قرآن سے ہمارا تعلق معنوی ہو۔قرآن ہماری ذات کا حصہ بن جائے جسکی بدولت ہماری شخصیت بھی انسانیت کے لیے بابرکت بن جائے گی ۔ہرروز پابندی سے ہم اس کو پڑھیں، ترجمہ و تفسیر کی مددسے سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔قرآن خود سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں ۔قرآن کے دروس کی محفلوں کو آباد کریں۔اور بالخصوص قرآن کے پیغام کو غیر مسلم ہموطنوں کے سامنے پیش کریں تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔یہ ایسی ذمہ داری ہے جس پر بھارت کے مسلمانوں کے مستقبل کا انحصارہے۔اگر ہم عزمِ صمیم اور داعیانہ تڑپ کے ساتھ اپنے ہم وطنوں تک اللہ کے اس پیغام کوجو قرآن کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اس کا تعارف پیش کریں اور ان تک پہونچانے کی کوشش کریں تو یقیناً یہ کاوش ہماری ملّی بقا کی ضامن ہوگی۔آج جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں اس میں ایسا لگتا ہے کہ ہمارا وجود ہی خطرے میں ہے۔اور اس کا مداوا بظاہر مفقود نظر آتا ہے ۔اصل مداوا وہی ہے جو خود قرآن میں بیان کیا گیا :’’البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے اسے بیان کرنے لگیں ، ان کو میں معا ف کر دوں گا اور میں بڑا در گزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں‘‘۔(سورۃ البقرۃ ۱۶۰)
کتمانِ حق کو چھوڑ کر اگر ہم قرآن کے پیغام کو انسانیت کے سامنے بیان کرنے لگیں گے تو اس بات کی قوی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ بھارت کے مسلمانوں کے خراب حالات کو اچھے حالات سے بدلے گا۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے :’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا‘‘۔(سورۃ محمد۷۔)
اللہ کے آخری کلام کو اس کے بندوں تک پہنچانا اللہ کا کام ہےاور وہ اپنے بندوں کے ذریعہ کروانا چاہتا ہے۔اگر ہم اس اللہ کے کام کو انجام دیں گے تو اللہ ہمارے مسائل کو حل فرمائے گااور ہمیں ہمارے وطن میں باعزت مقام دےکر سامانِ زیست عطاکرے گا۔قرآن کے حقوق میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ ہم دنیاکے موجودہ مسائل کا حل قرآن سے پیش کریں۔
عیدالفطر مسلمانوں کے لیے خوشیوں کی سوغات ہے اور انہیں سب سے زیادہ خوش نزول قرآن پر ہونا چاہیے جسکا ذکر خود قرآن میں اس طرح آیا ہے: لوگو، تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبیؐ ، کہو کہ” یہ اللہ کا فضل اور اُس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اُس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔)سورۃ یونس۵۷، ۵۸۔(
عید کے دن زائد تکبیرات کے ساتھ عید کی نماز کا اہتمام اسی نعمتِ عظمیٰ کا اظہارِ تشکر ہےجس کاحکم قرآن میں اس طرح دیا گیا:’’اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے ، اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔(سورۃ البقرۃ ۱۸۵۔)
حاصلِ رمضان میں سے ایک اہم امر یہ ہےکہ ہم اس مہینے میں تقویٰ کی جو صفت پیدا ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو استحضار دل میں پیدا ہوا ہے اس کو اپنی زندگی کا جزو لاینفک بنادیں۔روزوں کے دوران کئی اچھی عادتوں کے ہم خوگر ہوئے اور کئی بری عادتوں سے ہمیں چھٹکارا ملا۔اس سرمایے کو باقی رکھیں ۔ جس طرح ایک اچھی جسمانی ساخت کو برقرار رکھنےکےلیے مسلسل محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی فوائد کو باقی رکھنے کے لیے بھی ایک منظم اورمسلسل کوشش درکارہے۔رمضان میں جس طرح ہم نے اپنی زبان اور نظروں کی حفاظت کی ہے اسی طرح بندِ تقویٰ پررمضان کے بعدبھی قائم رہیں ۔رمضان میں جس طرح نمازِ باجماعت کا التزام کرنا ،سحری کے وقت تہجد پڑھنا،قرآن پڑھنا ،بھلائی کے کاموں میں حصہ لینا وغیرہ معمولات بن گئے تھے ان کو جاری و ساری رکھیں۔اللہ تعالیٰ انسانی فطرت سے واقف ہے۔وہ جانتا ہے کہ ایک اچھی عادت کو اختیارکرنے کے لیے مسلسل تیس دن کی مشق کافی ہوتی ہےاس لیے اللہ تعالیٰ نے تیس دن کےمتواتر روزے فرض کیے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نمازِباجماعت کے عادی بننے کا نادر موقع جو رمضان نے عطا کیا تھا اس کو ضائع نہ کریں۔بڑے افسوس کی بات یہ ہےکہ ہماری مسجدیں ۲۷ رمضان میں ختم ِقرآن اور شبِ قدر کی محفلوں کے بعد دوسرے دن ہی سے شکوہ کرنے لگتی ہیں۔
صائم الدہر کا اجر پانے کے لیے شوال کے چھ روزے رکھیں ۔سال بھر روزوں کی روحانی اور جسمانی برکات سے مستفید ہونے کے لیے ہر ماہ ایام ِ بیض یعنی چاند کی ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخ کے روزے رکھیں جائیں۔ رمضان میں انفاق کا جو جذبہ پیداہوا تھا اس کو سرد پڑنے نہ دیں۔زکوٰۃ کے ساتھ صدقات کا اہتمام ساری زندگی میں جاری رہے۔
امت کے اکثر افرا د پہلی شوال کے دن ہی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب پابندیوں کا مہینہ گزر گیا ہےاور اب ہم آج ان پابندیوں سے آزاد ہوگئے ہیں اور تقویٰ کی بیٹری جو ایک مہینے میں چارج ہوئی تھی یک لخت ڈسچارج ہوجاتی ہے۔اس طرح بیٹری کو چارج کرنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔رمضان میں روزوں کا مقصد یہ ہے کہ شیاطین کو قید کرکے نفسِ امارہ پر اتنا قابو پیداکردیا جائے کہ سال بھر نفس ِ امارہ پر لگام لگی رہے۔رمضان تو ہمارے نیکیوں کے پلڑے کو غیر معمولی طور پر وزنی کرنےکے لیے آیا ہےتاکہ ہم جہنم سےبچ جائیں۔لیکن ہم اگر اگلے رمضان کی امید میں پھر گناہوں کے پلڑےکو وزنی کرتے جائیں تو یہ بہت بڑی حماقت ہوگی اس لیے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اگلا رمضان ہماری حیاتِ مستعار میں شامل ہے یا نہیں۔
ماہ ِرمضان کی قبولیت کا ایک معقول پیمانہ یہ ہےکہ یہ دیکھا جائے کہ مابعد رمضان ہماری زندگی کیسی ہے۔اگر ہماری زندگی میں حقیقی مثبت تبدیلی واقع ہوئی ہوتو یہ سمجھیے کہ ہمارا رمضان عنداللہ مقبول ہوا ہےورنہ معاملہ بالعکس ہوتو یہ صورتحال تشویشناک ہے۔
دنیا میں ہر چیز کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔امتِ مسلمہ کا بھی ایک مقصدِ وجود ہے۔امّت کے تمام مسائل کا منبع یہ ہے امّت مسلمہ اپنے مقصدِ وجود سے ہی غافل ہے۔جس دن امّت ِ مسلمہ کو اپنے مقصدِ وجود کا شعور حاصل ہوگااس دن امّت مسلمہ کے اندر عقابی روح بیدار ہوگی۔اور یہ مقصدامّت کو متحد کرنے کا بھی ذریعہ بنے گا۔
دعوت الی اللہ ، شہادت علی الناس ، امربالمعروف و عن المنکر یہ وہ کام ہیں جن کے لیے اس امت کو براہِ راست خطاب کرکے اعزاز کے ساتھ اس دنیا میں برپا کیا گیاتھا۔لیکن امّت نے اس مشن کو بھلاکر امّت ہونے کے تصور ہی کو کھودیا۔امّت میں سے جب مشن غائب ہوجائے تووہ امت کے مقام سے گرکر محض روایتی قوم بن جاتی ہے۔ایسی صورت میں صلوٰۃ ،صوم ،زکوٰۃ و حج جیسی عظیم عبادات محض مراسمِ عبودیت بن جاتی ہیں اور ان عبادات کے عظیم نتائج سے محرومی اس امت کا مقدر بن جاتی ہے۔اس کے بعد ہر محاذ پر امت اپنا وقار کھوتی چلی جاتی ہے۔مقصدِ وجود کا شعور ہوگا تو شعوری ایمان بھی پیدا ہوگااور عبادات کی روح بھی جلوہ افروزہوگی۔
***

 

***

 ماہ ِرمضان کی قبولیت کا ایک معقول پیمانہ یہ ہےکہ یہ دیکھا جائے کہ مابعد رمضان ہماری زندگی کیسی ہے۔اگر ہماری زندگی میں حقیقی مثبت تبدیلی واقع ہوئی ہوتو یہ سمجھیے کہ ہمارا رمضان عنداللہ مقبول ہوا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  01 تا 07 مئی  2022