قرآن مجید میں مسلم عورت عظیم نصب العین اور طاقت ور شخصیت
محی الدین غازی
قرآن وسیرت کی بے شمار دلیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم مرد کی طرح مسلم عورت کی زندگی کا نصب العین بھی اقامت دین ہے، وہ بھی اس راستے کی اصلی راہی ہے، اس مقصد کے لیے انتھک کوشش اور محنت اس پر بھی فرض ہے، اور اس کے پاس اس کی اہلیت بھی ہے اور طاقت بھی، روشن نمونے بھی ہیں اور کام یابی کے وعدے بھی۔
قرآن مجید کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں مسلم عورت کا نہایت طاقت ور کردار پیش کیا گیا ہے۔ اور یہ طاقت ور کردار اس دنیا کے سامنے پیش کیا گیا جو عورت کو بے حد کم زور سمجھتی تھی۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں مسلم عورت کا تذکرہ ہے، اس میں کہیں بھی ذرہ برابر کم زوری نظر نہیں آتی ہے۔ وہ حالات کا بہادری اور پامردی سے مقابلہ کرتی ہے۔ نہایت پُر خطر مہمات انجام دیتی ہے۔ نہ کبھی راہِ فرار اختیار کرتی ہے، نہ کسی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے، اور وہ یہ سب تنہا کرتی ہے۔ کبھی مردوں پر انحصار کیے بغیر اور کبھی مردوں کی مخالفت کے علی الرغم، محض اپنے ذاتی فیصلے سے وہ اللہ کی راہ میں اسی طرح سرگرم اور ثابت قدم نظر آتی ہے جس طرح مومن مرد نظر آتے ہیں۔ ذرا بھی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ البتہ مومن مردوں اور مومن عورتوں میں دین کی خاطر باہم تعاون کا پہلو بہت نمایاں نظر آتا ہے، یہی مثالی صورت ہے۔
دین کے تقاضے اور عورت
دنیوی تقاضوں کی حد تک تو شریعت مرد اور عورت میں بڑا فرق کرتی ہے، اور کفالت کی تمام تر ذمے داری مرد کے اوپر عائد کرتی ہے۔ جس کی ایک واضح وجہ یہ ہے کہ بچوں کی پیدائش و پرورش سے متعلق جسمانی مشقت عورت کو برداشت کرنی پڑتی ہے، اور یہ مشقت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں اس کا تذکرہ عام زندگی کی کسی بھی مشقت سے زیادہ اہتمام کے ساتھ کیا گیا ہے۔
جہاں تک دینی تقاضوں کی بات ہے، قرآن مجید نے مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے لیے درج ذیل تین آیتوں کی تلاوت کافی ہوگی۔
پہلی آیت تزکیہ سے متعلق ہے:
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (سورۃ الاحزاب 35)
(بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاه کی حفاﻇت کرنے والے مرد اور حفاﻇت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ﺛواب تیار کر رکھا ہے)
اس ایک آیت کے اندر تزکیہ نفس کے تمام پہلوؤں کو جمع کر دیا گیا ہے، ہماری دل چسپی کی بات یہ ہے کہ تزکیہ نفس کے یہ تمام تقاضے مردوں کی طرح عورتوں سے بھی یکساں طور پر مطلوب بتائے گئے ہیں۔
دوسری آیت دینی مشن سے متعلق ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ أُولَـٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورة التوبة 71)
(مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے)
اس آیت میں اہل اسلام کے دینی فرائض اور دینی تعلقات کے ساتھ ان کے دینی مشن یعنی بھلائی کے فروغ اور برائی کے ازالے کا تذکرہ ہے، جو مردوں اور عورتوں دونوں سے مطلوب ہے۔
تیسری آیت دین کی راہ میں قربانیوں سے متعلق ہے:
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّـهِ وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ (سورة آل عمران 195)
(ان کے رب نے ان کی دعا قبول اور فرمایا، "میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میر ی راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے اُن کے سب قصور میں معاف کر دوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے”)
اس آیت میں راہ حق کے کٹھن حالات کا تذکرہ ہے، اور ان سے مردوں اور عورتوں دونوں کو جواں مردی اور استقامت کے ساتھ گزرتے دکھایا گیا ہے۔
ان تین آیتوں سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ قرآن مجید دینی ذمہ داری کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی بڑا فرق نہیں کرتا ہے۔ قیامت کے دن ہر مرد اور ہر عورت کو اپنا اعمال نامہ تنہا تنہا لے کر حاضر ہونا ہے۔ اس لیے دنیا میں کسی کی دین داری کسی پر منحصر نہیں رکھی گئی ہے۔ گھر کے خرچ کے سلسلے میں عورت مرد پر انحصار کرتی ہے کیوں کہ مرد کے اوپر اس کی کفالت کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے، لیکن دین پر عمل کرنے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں مرد کی طرح عورت کو اپنی ذمہ داری خود اٹھانی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہوں یہ تو مطلوب ہے، لیکن دونوں میں سے کوئی کسی پر انحصار کر بیٹھے، اور کوئی کسی کی محنت و کوشش کو اپنے لیے بھی کافی سمجھے، یا کوئی کسی کو روکنے کا حق رکھتا ہو، اس کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ہے۔ قرآن مجید میں مسلم عورت اپنی دینی ذمہ داری خود ادا کرتی نظر آتی ہے، کسی بھی مقام پر وہ مرد پر تکیہ کیے ہوئے دکھائی نہیں دیتی ہے۔
عورت: گھر میں اور میدان عمل میں
عورت کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ گھر اور خاندان کا حصہ ہوتی ہے، اس حیثیت سے اس کے حقوق اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں، جس طرح مرد کے حقوق اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ان کے سلسلے میں قرآن وسنت میں رہ نمائی موجود ہے۔ گھر اور خاندان کو بہتر سے بہتر انداز سے کیسے چلایا جائے اور مرد اور عورت دونوں گھر اور خاندان میں فعال ایجابی کردار کس طرح ادا کریں، اس کا تعلق اقدار سے بھی ہے اور حسنِ انتظام کے اصولوں سے بھی ہے۔ سب سے اعلی قدر باہمی رضامندی ہے، اور سب سے اہم انتظامی اصول تقسیمِ کار اور ایک دوسرے کے احوال اور صلاحیتوں کی رعایت ہے۔ امور خانہ داری انجام دیتے ہوئے بنیادی اور عمومی طور پر نہ مرد عورت سے بے نیاز ہوسکتا ہے اور نہ عورت مرد سے بے نیاز ہوسکتی ہے۔ بیگانگی دونوں کے لیے نقصان دہ ہے، ہم آہنگی میں دونوں کا فائدہ ہے۔ یہ نازک میدان تناؤ کا متحمل نہیں ہوتا ہے۔ صنفی کشیدگی سے ٹوٹ پھوٹ کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آسکتا ہے۔ قرآن مجید میں اس نزاکت کا پورا پورا لحاظ نظر آتا ہے۔
عورت کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ مرد کی طرح اس کے لیے بھی یہ دنیا امتحان گاہ ہے، اور اسے بھی اپنی آخرت کی کھیتی دنیا ہی میں کرنی ہے، مسلم امت کے فرض منصبی میں وہ بھی مردوں کی طرح پورے طور پر شریک ہے۔ خیر امت میں شامل ہونے کے لیے اسے بھی وہی کچھ کرنا ہے جو مسلم مردوں کو کرنا ہے۔ اس لیے اسے دین کے تقاضوں اور نصب العین کے مطالبوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری بہرحال قبول کرنی ہوگی، خواہ اس راہ میں کتنی ہی دشواریاں اور رکاوٹیں ہوں۔
خانہ داری وسیلہ اور اقامت دین مقصد ہے
ایک قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں خواتین کی جتنی اہم ہدایتیں اور قابل تعریف مثالیں ذکر کی گئی ہیں بیشتر ان کے دنیوی کردار کے بجائے ان کے دینی کردار کے بارے میں ہیں۔ مردوں کے سلسلے میں بھی قرآن مجید کا انداز بیان یہی ہے۔
اس کی وجہ بہت واضح ہے، اور وہ یہ کہ گھریلو ذمے داریوں کا تعلق زندگی کے انتظام سے ہے، جس کی حیثیت وسیلے کی ہے۔ جب کہ دینی تقاضوں کی حیثیت زندگی کے مقصد کی ہے۔ انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس کی اصل کام یابی کا دار و مدار زندگی کا مقصد حاصل کرنے پر ہے نہ کہ زندگی کے وسائل و ذرائع کے حصول پر۔ (یہاں وسائل و ذرائع کی اہمیت سے انکار مقصود نہیں ہے، مقصد کی اہمیت کا بیان پیش نظر ہے، جو بہرحال وسائل و ذرائع سے کہیں زیادہ ہے)۔
مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی اور اپنے زیر کفالت لوگوں کے معاش کی فکر کرے، اس کے لیے کوشش و محنت کرے، اور اس سلسلے میں ذرا کوتاہی نہ کرے، یہ اس کی فطرت میں رکھا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مقصد اور نصب العین کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کی بہترین توانائیاں، عمدہ ترین صلاحیتیں اور موزوں ترین اوقات دین کی خدمت کے لیے وقف کرے۔
بالکل اسی طرح عورت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ امور خانہ داری کو بہتر طریقے سے انجام دے، مگر اس کی اصل توجہ اپنے مقصدِ حیات کی طرف مرکوز رہے۔ امور خانہ داری سے غفلت پسندیدہ چیز نہیں ہے، لیکن مقصد زندگی سے غفلت بہت بڑی غلطی ہے، جس کے سلسلے میں سخت وعیدیں ہیں۔ قرآن مجید میں قابل تعریف خواتین کے جتنے نمونے ہیں، ان میں سے کسی ایک نے بھی سماج میں حق و باطل کے برپا معرکے سے کنارہ کش ہوکر اپنے گھر اور گھر کے معاملات تک خود کو محدود نہیں کیا۔ یہی بات مردوں کے سلسلے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔
سیرتِ صحابہ بھی دیکھیں تو ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ دین کی اقامت کے لیے گھریلو ذمے داریوں سے سبک دوش نہیں ہوئے تھے، اسی طرح عائشہؓ و حفصہؓ اور ام سلیمؓ و ام عمارہؓ نے گھریلو ذمے داریوں کا حوالہ دے کر دین کی خدمت و نصرت سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی تھی۔
قرآنی نمونے
یہ بات کہ عورت بے پناہ خوبیوں اور زبردست قوتوں سے مالا مال ہوتی ہے، اور یہ کہ ایمان کی طاقت اس کی خوبیوں اور قوتوں کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے، قرآن مجید میں مذکور مسلم عورتوں کے تذکروں میں صاف نظر آتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ انھیں اسی لیے ذکر کیا گیا ہے تاکہ مسلم عورت کے سامنے حوصلہ بخش اور ولولہ انگیز نسوانی نمونے ہمیشہ موجود رہیں۔ تقابل کرنے کا شوق رکھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ مصر یونان اور ہند و ایران کی کہانیوں میں جن طاقت ور نسوانی کرداروں کا ذکر ہے، ان میں سے بیشتر حوصلہ بخش اخلاقی نمونہ بننے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں، جب کہ قرآن نے جن نسوانی کرداروں کی تعریف کی ہے وہ ہر زمانے کی خواتین کے لیے بہترین اخلاقی نمونہ ہیں۔
ہم یہاں ایسے کچھ نمایاں نمونوں کا تذکرہ کریں گے:
دو باہمت بیویاں
ابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں، تاریخ میں انھیں سارہ اور ہاجرہ سے یاد کیا گیا ہے۔ دونوں بیویوں کی ہمت کی داد دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ دونوں اس عظیم پیغمبر کی وفادار بیویاں تھیں، جس کی زندگی کا ہر لمحہ آزمائشوں سے بھرپور تھا۔
سارہ کی یہ بلند ہمتی تھی کہ نہایت پر خطر زندگی میں اپنے شوہر کا پل پل ساتھ دیا۔ اور ہاجرہ کی یہ اولو العزمی تھی کہ شوہر نے انھیں ایک عظیم مقصد کی خاطر بے آب و گیاہ جگہ پر شیر خوار بچے کے ساتھ بسایا اور وہ اس کے لیے بہ خوشی تیار ہوگئیں۔
اللہ کی راہ میں تن من دھن کی بازی لگانے والے بندوں کی سچی رفاقت ایسی ہی عورتوں کے بس کی بات ہے جو سارہ اور ہاجرہ جیسے نمونے اپنے دل میں سجا کر رکھتی ہیں۔ ایک پستی کی انتہا وہ ہے جہاں لوط علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کی بیویاں ان کے ساتھ خیانت کرکے جاگری تھیں، اور ایک وہ بہت اونچی بلندی ہے جس پر ابراہیم علیہ السلام کی بیویاں فائز تھیں۔ مومن عورتوں کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ بلندی کے کس مقام تک پہنچنے کی امنگ رکھیں گی۔
عظیم ماں کا کردار
بلند مقام پر فائز عمران کی بیوی میں مسلم ماں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ماں بننے سے پہلے ہی انھوں نے اپنے پیٹ کے بچے کے بارے میں زبردست فیصلہ کیا، پیدا ہونے والے بچے کو دین کا خادم بنانے کا فیصلہ۔ حالت حمل ہی میں انھوں نے اللہ پاک سے مناجات کی کہ انھوں نے اس بچے کی پوری زندگی اللہ کے لیے وقف کردی ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے بہت اونچی سوچ اور زبردست قوت فیصلہ درکار ہوتی ہے۔ اپنی بہت سی دنیوی خواہشات کو قربان کرنا ہوتا ہے۔ پھر اسی نہج پر بچے کی تربیت کرنی ہوتی ہے۔ اس کے دل میں اس جذبے کے چراغ جلانے ہوتے ہیں۔ اس اٹھان کو یقینی بنانے کے لیے کارگر مربی اور سازگار تربیتی ماحول کی جستجو کرنی ہوتی ہے۔ عمران کی بیوی نے اپنی بیٹی مریم کی تربیت بہترین طریقے سے کی۔
مریم، بلند ترین نسائی منزل
عمران کی بیوی نے بچی کو جنا، انھیں صدمہ سا ہوا، وہ سوچنے لگیں کہ ایک عورت کو اللہ کے لیے کیسے وقف کیا جاسکتا ہے، اتنا بڑا کام کرنے کے لیے تو مرد ہونا ضروری ہے۔ اللہ پاک نے تسلی دی اور کہا ہم نے تمھیں ایسی لڑکی دی ہے جو اس لڑکے سے زیادہ عظیم بنے گی جس کی تمھیں تمنا تھی۔ اللہ نے انھیں مریم سے نوازا۔ اور مریم کو ایسے اعلی مقام پر فائز کردیا کہ وہ رہتی دنیا کی ہر عورت کے لیے عزم و ہمت کا سرچشمہ (source of inspiration) بن گئیں۔ قرآن مجید میں مریم کا تذکرہ ہر عورت کو یہ پیغام دیتا رہے گا کہ عورت عظمت کے بلند ترین مقام پر پہنچنے کا شوق پال سکتی ہے۔
قرآن مجید کسی تفصیل کے بغیر مریم کی نمایاں خوبی یہ بتاتا ہے کہ انھوں نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔ اس خوبی کے اس قدر اہتمام اور خصوصیت کے ساتھ تذکرے سے بس اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ مریم نے نہایت نازک اور چیلنج بھرے حالات میں اپنی آبرو کی حفاظت کی تھی۔
عورت اپنی عزت و آبرو کی محافظ ہو، یہ اس کی بنیادی اور ضروری صفت ہے۔ تاہم نہایت چیلنجنگ حالات میں بھی وہ اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرے، یہ اس کے طاقت ور ہونے کی مضبوط دلیل ہے۔ عورت کی آبرو کو ہر دو طرف سے خطرہ لاحق رہتا ہے، شیطان اس قلعے کو مسمار کرنے کے لیے اندر سے خواہشات کی کدالوں کا استعمال کرتا ہے، اور باہر انسان نما شیطان اس پر حملہ آور ہونے کی تاک میں رہتے ہیں۔ بعض حالات میں اس کی حفاظت آسان اور بعض حالات میں مشکل ہوجاتی ہے، تاہم ایمان اور ارادے کی قوت رکھنے والی عورت ہر حال میں اپنی عزت و آبرو کی محافظ ہوتی ہے۔ آبرو کا مسئلہ درپیش ہو تو مومن مرد یوسف علیہ السلام کو یاد کرلیں، اور مومن عورتیں مریم علیھا السلام کو یاد کرلیں۔
اس کے علاوہ مریم کی طاقت ور شخصیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ وہ عیسی علیہ السلام کی پیدائش کی نہایت سخت آزمائش سے گزریں۔ حمل اور پیدائش سے لے کر قوم کا سامنا کرنے تک اس آزمائش کا ہر لمحہ بہت سخت تھا۔ ایک کنواری عورت اپنی گود میں بچہ لے کر اپنی قوم کے سامنے جائے اور دل کو چیر کر رکھ دینے والے ان کے طعنوں کا سامنا کرے، مریم جیسی پاک باز اور عفت صفت خاتون کے لیے یہ بہت کٹھن امتحان تھا، اور اپنی ایمانی طاقت سے وہ اس امتحان میں سرخ رو رہیں۔ کچھ بدبختوں نے ان پر تہمت باندھی، مگر ہر دور میں انسانوں کی عظیم ترین اکثریت نے انھیں پاک دامن مریم کی حیثیت سے یاد کیا۔
صبر و ہمت والی ماں
موسی کی ماں اور بہن کی روداد بتاتی ہے کہ ایک عورت کیسی پرخطر اور جوکھم بھری مہم کو تن تنہا انجام دے سکتی ہے۔ فرعون کا حکم تھا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والوں لڑکوں کو قتل کردیا جائے۔ اس فرعونی فرمان پر سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ عمل ہورہا تھا۔ ایسے ہول ناک ماحول میں موسی کی ولادت ہوئی۔ ماں کا خوف زدہ ہونا فطری تھا۔ لیکن انھیں اللہ کی طرف سے اشارہ ہوا کہ جب اندیشہ بڑھ جائے تو بچے کو صندوق میں بند کرکے سمندر میں ڈال دیں۔ بچے کو صندوق میں رکھ کر سمندر کی موجوں کے حوالے کردینا آسان کام نہیں تھا، اس کے تو خیال سے ہی پہاڑوں کے دل لرز جائیں۔ لیکن موسی کی ماں نے بے نظیر صبر اور ہمت کے ساتھ یہ نہایت مشکل کام انجام دیا۔ اور ساتھ ہی موسی کی بہن کو حکم دیا کہ وہ صندوق کا تعاقب کرتے ہوئے اگلی مہم انجام دے۔
جرأت و ذہانت کی پیکر بہن
موسیٰ کی بہن کو ان کی ماں نے تن تنہا نہایت خطرناک مشن پر بھیج دیا، سمندر کی لہروں پر ڈولتے صندوق کا ویران وحشت ناک کنارے سے تعاقب کرنا، نہ جانے وہ کتنی لمبی مسافت رہی ہوگی، اور پھر جب وہ صندوق فرعون کے محل کے پاس جا پہنچا اور موسیٰ کو فرعون کے محل میں پہنچادیا گیا، تو جان ہتھیلی پر رکھ کر کسی گہری ترکیب سے فرعون کے محل کے اندر داخل ہوجانا، اور پھر اعلیٰ ذہانت سے کام لیتے ہوئے انھیں اس کے لیے قائل کرنا کہ موسیٰ کی ماں اس بچے کو دودھ پلائے، بہت خطرناک اور ذہانت طلب مشن تھا. موسیٰ کی بہن نے خطرات سے بھری ہوئی اس مہم کو بڑی ہمت و جرأت اور حکمت و ذہانت سے سر انجام دیا۔ اور اس طرح وہ مسلم خواتین کے لیے حوصلہ بخش نمونہ بن گئیں۔ پُر خطر حالات میں گھبرا جانا مسلم خاتون کو زیب نہیں دیتا ہے۔ بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا، حکمت وذہانت سے کام لیتے ہوئے مشکلات کے بیچ سے راستہ نکالنا، اور مشکل سے مشکل مہم کے لیے تیار رہنا وہ عظیم قرآنی اسباق ہیں جو موسی کی بہن کے کردار سے سیکھنے کو ملتے ہیں۔
مدین کی عفت شعار بہادر لڑکیاں
موسی جب اپنی جان بچاکر مصر سے نکل بھاگے اور مدین کے پانی پر پہنچے، تو وہاں دیکھا کہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں، اور دو لڑکیاں الگ کھڑی انتظار کررہی ہیں، پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ ان کے باپ بوڑھے ہوگئے ہیں، اور وہ سب کے جانے کے بعد اپنے جانوروں کو پانی پلائیں گی، اس سے پہلے نہیں۔ قرآن مجید پڑھنتے ہوئے ایسی تصویر سامنے آتی ہے کہ یہ دونوں لڑکیاں بہت مضبوط شخصیت کی مالک تھیں، ان کے والد بوڑھے ہوگئے تو انھوں نے مویشی چرانے کی مشکل ذمہ داری سنبھال لی، وہ روزانہ مویشی لے کر باہر نکلتیں، انھیں چراتیں، پھر انھیں پانی پلاتیں اور گھر واپس آتیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ گھر کی ضرورت کے لیے باہر تو نکلتیں، لیکن اصل قابل تعریف بات یہ ہے کہ وہ حیا اور عفت کا دامن مضبوطی سے تھامے رہتیں۔ اس کے لیے انھیں روزانہ اضافی تکان اور سخت دھوپ میں دھوپ طویل انتظار کرنا پڑتا، جو وہ راضی برضا کرتیں۔ وہ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے مردوں کی بھیڑ میں نہیں گھستی تھیں، بلکہ کنارے کھڑے ہوکر انتظار کرتیں، مرد پانی پلاکر چلے جاتے تو اپنے جانوروں کو پانی پلاتیں۔ غرض گھر کی ضرورت پوری کرنے اور بوڑھے باپ کو سہارا دینے کے لیے گھر سے باہر نکلنا لیکن گھر سے باہر اپنی حیا اور عفت کی حفاظت کا خیال رکھنا، یہ وہ حسین و جمیل نسوانی کردار ہے جسے یہ دونوں بہنیں پیش کرتی رہیں۔
ان لڑکیوں کی گفتگو سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمت و دانائی سے مالا مال تھیں، انھوں نے اپنی جوہر شناسی سے یہ بھانپ لیا کہ موسیٰ قوی اور امین ہیں اور اپنے والد کو مشورہ دیا کہ انھیں اجرت پر رکھ لیں۔ ساتھ ہی ایک قیمتی اصول بھی ذکر کیا کہ بہترین اجیر وہ ہوتا ہے جو قوی اور امین ہو۔
ان دونوں بہنوں میں سے ایک کی شادی موسیٰ سے ہوئی۔ جب موسیٰ علیہ السلام برسوں بعد وطن کی طرف لوٹے تو ان کی وہ بیوی بھی شریک سفر ہوئیں۔ فرعون کی مملکت کی طرف واپسی کا وہ سفر خطرات سے پُر تھا، ایسے سفر میں رفاقت کا فیصلہ ایک بہادر عورت ہی کرسکتی تھی۔
حکمت و دانائی سے مالا مال ملکہ سبا
ملکہ سبا کا تعلق سورج پرست قوم سے تھا، مگر اس کی فطرت خوبیوں سے مالا مال تھی، اس نے سلیمان کے خط کے جواب میں جس طرح کی حکیمانہ روش اختیار کی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک بادشاہ خواہ وہ دنیا کی کتنی ہی بڑی سلطنت کا حکمراں ہو، اپنی قوم کے مذہب اور عقیدے کے سامنے مجبور محض ہوتا ہے۔ ملکہ سبا نے جس حکمت اور دانائی سے کام لیتے ہوئے شرک سے توحید کا سفر کیا اس میں ہر قائد اور لیڈر کے لیے بہترین نمونہ ہے، خواہ وہ مرد ہو یاعورت۔
ظالم فرعون کی بہادر بیوی
ہمت و جرأت مندی، صبر و پامردی، شجاعت و بہادری جس مومن ذات پر ختم ہوجاتی ہے، وہ فرعون کی بیوی ہے۔
وہ اپنے وقت کی بہت بڑی سلطنت کی ملکہ تھیں، عیش و عشرت اور آرام آسائش کے اس وقت کے بہترین سامان حاصل تھے۔ رب کی معرفت حاصل ہوئی تو دنیا کی ہر آسائش سے بے نیاز ہوگئیں۔
ان کا شوہر انسانی تاریخ کا ظالم ترین بادشاہ اور قیامت تک کے لیے ظلم کا استعارہ تھا۔ اس کی سرکشی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ خود کو انسانوں کا ربِّ اعلی کہتا تھا۔ ظالم ایسا تھا کہ ایک پوری قوم کے بچوں کو ذبح کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب اس کے بدترین غیظ و غضب کا نشانہ بن جانا تھا۔ لیکن اس طاقت ور عورت نے ایمان کی راہ میں کسی خوف کو سامنے نہیں آنے دیا۔ اس حق پرست خاتون پر جتنے ظلم ڈھائے گئے ان کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی۔
اگر فرعون رہتی دنیا تک ظلم کا استعارہ رہے گا، تو فرعون کی بیوی رہتی دنیا تک کے لیے ایمانی طاقت کا استعارہ رہے گی، جس نے اس کے ظلم کو شکست فاش دے دی تھی۔
فرعون کی بیوی نے قیامت تک کے لیے ہر عورت کو یہ سبق دے دیا ہے کہ جبر کا کوئی حصار اس کا راستہ نہیں روک سکتا ہے، اور ظلم و جبروت کے ہولناک اژدہے اسے خوف زدہ نہیں کرسکتے ہیں۔
ہجرت کرنے والی ہمت والیاں
فرعون کی بیوی کے نقش قدم پر بہت سی عورتوں نے چلنے کی ہمت کی، اور اپنی مراد پائی۔ قرآن مجید اسلامی دور کی نہایت باہمت مہاجر خواتین کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہ مختلف عرب قبائل کی وہ عورتیں تھیں جن کے پاس جب حق کی دعوت پہنچی تو خاندان اور قبیلے کے مردوں نے دعوت کو جھٹلایا اور قبول کرنے سے انکار کردیا، مگر ان حق شناس عورتوں نے اسے بڑھ کر قبول کرلیا۔ عرب قبائل میں جہاں عورت مرد کے زیر دست رہا کرتی تھی، مرد کی مرضی کے خلاف اتنا بڑا قدم اٹھانا آسان نہیں تھا۔ وہ عورتیں کس قدر تعذیب کا نشانہ بنتی ہوں گی اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عزم و ہمت کی داستان یہیں پر ختم نہیں ہوئی، ایمان سے سرشار وہ عورتیں جان ہتھیلی پر رکھ کر تن تنہا دور دراز مسافتوں اور صحرائی راستے کے خطروں سے بے پروا ہجرت کرکے مدینہ چلی آئیں۔ انھوں نے اللہ کی خاطر اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ دیا اور اپنے سب گھر والوں سے ناطہ توڑ لیا۔ بلاشبہ انسانی قوت ارادی کی وہ بلند ترین چوٹیاں ہیں، جنھیں ان خواتین نے سر کرلیا تھا۔
یہ تمام تصویریں بتاتی ہیں کہ عورت اگرچہ جسمانی لحاظ سے کم زور ہوتی ہے، مگر قوت ارادی کے لحاظ سے وہ بے پناہ طاقت کی مالک ہوتی ہے۔ جب اسے ایمان کی قوت حاصل ہوجاتی ہے تو دنیا کی ساری قوتیں اسے پسپا کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔
قرآن مجید میں مسلم عورتوں کا تذکرہ اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ عورت کے اندر وہ تمام قوتیں بھرپور پائی جاتی ہیں جو انسان کا امتیاز ہیں، وہ بے حد ذہین ہوتی ہیں، انھیں بھی فہم و حکمت کے خزانے عطا کیے گئے ہیں، وہ قوت فیصلہ اور قوت ارادی رکھتی ہیں، وہ اپنے موقف پر زندگی بھر جمے رہنے والی استقامت رکھتی ہیں، وہ بہت بہادر ہوتی ہیں، خطرناک سے خطرناک مہم کو انجام دے سکتی ہیں۔ غرض یہ کہ ان کی اپنی منفرد اور مستقل شخصیت ہوتی ہے، جو زبردست خوبیوں اور قوتوں سے مالا مال ہوتی ہے۔ اور وہ ان خوبیوں اور قوتوں کے سہارے، راستے کی ہر چٹان کو اپنی ٹھوکر سے ریزہ ریزہ کرتی ہوئی جنت کی طرف تنہا دوڑ لگا سکتی ہیں۔
صحابیات کی طاقت و شجاعت کے نمونے
اللہ کے رسولﷺ کا پورا دور رسالت خواہ وہ مکی دور ہو یا مدنی دور سخت آزمائشوں سے بھرپور تھا، ہر روز جدوجہد، صبر اور قربانی کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اس کے لیے جہاں مومن مرد پیش پیش رہتے، وہیں مومن عورتیں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ خاص بات یہ ہے کہ بعض بہت مشکل مقامات پر جہاں بہت سے مردوں کے قدم اکھڑگئے، کچھ عورتوں نے زبردست پامردی کا ثبوت دیا۔ اور انتہائی خطرناک حالات میں شجاعت و بہادری کی داستان رقم کی۔
بہت سی مثالوں کے درمیان اگر صرف غزوہ احد اور غزوہ حنین کی روداد پڑھ لی جائے تو بے پناہ مسرت اور شدید تعجب ہوتا ہے کہ جس عورت ذات کو ہمارے معاشرے میں کم زور سمجھا جاتا ہے، وہ ایمانی جذبے سے سرشار ہوکر کس قدر بہادر اور طاقت ور ہوجاتی ہے۔
احد کے موقعہ پر مسلم فوج میں ابتری پھیل گئی، دشمن نے رسول پاک کے گرد گھیرا تنگ کرلیا، ایسے میں قلیل تعداد میں مردوں کے ساتھ کچھ مومن عورتیں بھی بے جگری سے رسول پاک کا دفاع کررہی تھیں، آپ نے خود اس کی گواہی دی، آپ ام عمارہؓ کے بارے میں فرماتے ہیں: میں دائیں مڑتا تو اور بائیں مڑتا تو یہی دیکھتا کہ وہ میرے سامنے مصروفِ پیکار ہیں۔ آپ نے فرمایا: ام عمارہ جو تم کر سکتی ہو وہ بھلا اور کون کرسکتا ہے۔ ام عمارہ کو اس موقع پر تیرہ زخم آئے تھے۔
حنین کے موقع پر بھی جب کمین گاہوں سے مسلم فوج پر اچانک شدید حملہ ہوا، اور مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے، افراتفری مچ گئی، لوگ بھاگنے لگے، تو چند مسلم خواتین ایسی تھیں جو ذرا پیچھے نہیں ہٹیں، انھوں نے جم کر دشمن کا مقابلہ کیا، اور بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو واپس لوٹنے کے لیے للکارا۔ ان میں ام سلیم بھی تھیں، حاملہ ہونے کے باوجود ڈٹی رہیں۔ اور ان میں ام عمارہ بھی تھیں، انھوں ہاتھ میں بے نیام تلوار لیے انصار کو للکارا، یہ کیا کرر ہے ہو، تم نے فرار کا منھ کب دیکھ لیا۔ ایک دشمن اونٹ پر سوار بھاگتے مسلمانوں پر حملہ کررہا تھا، ام عمارہ نے بڑھ کر اونٹ کی کونچیں کاٹ دیں، اونٹ گرگیا اور دشمن بھی زمین پر آرہا، ام عمارہ نے بڑھ کر اس کا کام تمام کردیا۔
حنین و احد کے موقعوں پر خواتین کی استقامت و بہادری میں رہتی دنیا تک کی مسلم خواتین کے لیے بہت بڑا پیغام ہے۔ اگر میدان جنگ میں مردوں کے قدم اکھڑنے کی صورت میں بھی کچھ عورتیں اس قدر استقامت کا ثبوت دے سکتی ہیں، تو راہ حق میں جرأت و ہمت اور کوشش و محنت کے دوسرے بہت سے مواقع اور میدانوں میں ان کے پیچھے رہنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے!۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم خواتین نے علم و تعلیم سے لے کر تربیت و دعوت تک دین کے ہر میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
گم نام مگر عظیم کردار
عمر فاروقؓ کے دور جاہلیت کا تذکرہ کرتے ہوئے سیرت نگار بتاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک باندی تھی، جس نے اسلام قبول کرلیا تھا، عمر اسے دن بھر کوڑے مارتے یہاں تک کہ رات ہوجاتی تو چھوڑ دیتے اور کہتے مجھے تجھ پر ترس نہیں آیا، میں تو مارتے مارتے تھک گیا اس لیے تجھے چھوڑ دیا۔ اس واقعہ کو لوگ یہ بتانے کے لیے بیان کرتے ہیں کہ اسلام لانے سے پہلے عمر اسلام کے کتنے شدید دشمن اور سنگ دل انسان تھے۔ لیکن اس تصویر میں زیادہ متوجہ کرنے والا کردار تو اس باندی کا ہے، جس نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اپنے ذاتی فیصلے سے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا، ایک تو عورت ذات اور پھر غلامی کی بیڑیاں، لیکن اس اللہ کی بندی نے ذرا پروا نہ کی۔ عمر جیسے سخت گیر انسان کا بے پناہ ظلم سہتی رہی، لیکن اپنے ایمان سے پیچھے نہیں ہٹی۔ ایک دن ابوبکر صدیقؓ کا وہاں سے گزر ہوا، اور انھوں نے اس باندی کو خرید کر آزاد کردیا۔ مکہ شہر میں بہت سی باندیوں نے اسلام قبول کیا، اور ظلم وستم کی چکی میں برسوں پستی رہیں، لیکن کسی ایک نے بھی کم زوری نہیں دکھائی۔ اس میں دور حاضر کی ان عورتوں کے لیے بڑا سبق ہے، جو سماج کی غلط روایتوں اور رسم و رواج کے آگے خود کو کم زور اور بے بس محسوس کرتی ہیں۔
دور حاضر میں ان کرداروں کی اہمیت
قرآن مجید اور سیرت کی کتابوں میں مسلم عورت کا جو عظیم الشان کردار مختلف زاویوں سے دکھایا گیا ہے، اس کردار سے دور حاضر کی مسلم خواتین کو آگاہ کرنا ضروری ہے، اس کی متعدد وجوہات ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ یہی ان کی اصل حقیقت ہے جس پر خود ان کے سامنے پردہ پڑا ہوا ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت غیر معمولی قوت ارادی کی حامل ہوتی ہے، لیکن مسلم خواتین کی نفسیات کا جائزہ بتاتا ہے کہ وہ خود کو بہت کم زور پاتی ہیں اور دوسروں پر انحصار کو ضروری سمجھتی ہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ عالم اسلام جب ملوکیت کے شکنجے میں آیا تو ایوان سے لے کر سماج تک ہر جگہ اس کے اثرات واقع ہوئے، اور ہر ملوکیت زدہ سماج کی طرح مسلم سماج میں بھی عورت نے اپنی اصل شخصیت کو کھودیا اور خود اپنی نگاہ میں بے حیثیت ہو کر رہ گئی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جب تک مسلم خواتین اپنی خوبیوں اور قوتوں سے آگاہ نہیں ہوں گی وہ اپنا مطلوبہ کردار ادا نہیں کرسکتی ہیں۔ اگر یہ درست ہے کہ اسلامی امت کی اسلام پسند عورتوں کو اقامت کے مشن میں شریک ہونا ہے، تو انھیں ان کے اصل مقام اور ان کے اندر پوشیدہ قوتوں سے انھیں آگاہ ہونا ضروی ہوگا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ دنیا میں جاری ویمن امپاورمنٹ کی تحریکیں یہ تاثر عام کرتی ہیں کہ مذہب اور خاص طور سے اسلام عورتوں کو کم زور، بے بس اور بے اختیار کردیتا ہے، اس لیے اگر خواتین کو طاقت ور، با اثر اور با اختیار بننا ہے تو انھیں مذہب سے دوری اختیار کرنی ہوگی، اور انھیں مذہبی سماج اور مذہبی اقدار سے بغاوت کرنی ہوگی۔ ایسے میں یہ وضاحت بہت ضروری ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید کی نصوص عورت کو بہت طاقت ور اور با اختیار ہستی کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ کبھی خود مسلم معاشرے میں قرآنی تعلیمات سے غفلت کے نتیجے میں عورت کی اصل حیثیت کو فراموش کردیا جاتا ہے، اور اس کے ساتھ اس طرح سے تعامل کیا جاتا ہے گویا اس کے پاس ارادے کی قوت ہے، اور نہ ہی وہ فیصلے کا حق رکھتی ہے۔ ضروری ہے کہ مسلم معاشرے کے خدوخال، رسم ورواج اور مروجہ نظریات پر نظر ثانی کی جائے، اور اس تصور کو حقیقت کا پیکر دیا جائے جو قرآن مجید میں دیا گیا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ گردش زمانہ کے ساتھ امت کے مرد تو دینی ذمے داریوں سے غفلت کے مرتکب ہوئے، جس کا علاج وعظ و نصیحت سے کیا جاسکتا ہے، لیکن امت کی خواتین یہ سمجھ کر اقامت دین کے فریضے سے کنارہ کش ہوگئیں کہ ان کا اصل کام امور خانہ داری ہے۔ قرآنی نمونے یہ بتاتے ہیں کہ جس طرح مرد کو فکر معاش کے ساتھ اور فکرِ معاش سے زیادہ فکرِ دین کرنا ہے، اسی طرح عورت کو بھی گھر کے کاموں کے ساتھ اور گھر کے کاموں سے زیادہ فکرِ دین کرنا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ مرد اور خواتین مل کر معاش اور خانہ داری کی ایسی تنظیم کریں کہ دین کے کاموں کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت دست یاب ہوسکے۔
اسلامی نسوانی کردار اور فیمنزم
قرآن مجید عورت کو اس کے حقوق دینے کے بعد خاندانی زندگی میں مرد کے ساتھ باہمی تعاون اور ضرورت پڑنے پر صلح اور سمجھوتے کی ترغیب دیتا ہے، اسی طرح کی تعلیم وہ مرد کو بھی دیتا ہے، تاکہ مرد اور عورت کے باہمی تعاون اور آپسی سمجھوتے سے خاندانی زندگی کا سفر بہتر طور پر جاری رہے۔ جب کہ فیمنزم کے نعرے خاندانی زندگی کے اندر ہی دونوں کے درمیان مقابلہ آرائی، تناؤ اور کشیدگی کا سامان کرتے ہیں۔
دوسری طرف قرآن مجید عورت کو اپنا عظیم انسانی کردار ادا کرنے کی طاقت ور ترغیب دیتا ہے، اور اس سلسلے میں اس کے لیے کسی ذلت آمیز ہزیمت یا اہانت انگیز سمجھوتے کا راستہ نہیں دکھاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مذہب بیزار فیمنزم کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات کیسے آسکتی ہے کہ عورت بہت بڑے اخلاقی مشن پر مامور ہے اور اسے نہایت عظیم انسانی کردار بھی ادا کرنا ہے۔ اس کی ساری پرواز محدود مادی اغراض ومقاصد سے آگے نہیں بڑھتی ہے۔
پیغامِ عمل
حالیہ زمانے میں اسلامی بیداری نے جہاں مسلم مردوں کو متاثر کیا ہے، وہیں مسلم خواتین کو بھی اپنی دینی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے، اور اب وہ اقامت دین کی راہ میں کوشش ومحنت کرنا چاہتی ہیں، لیکن گھر، خاندان اور سماج کی رکاوٹیں ان کا راستہ روکتی اور حوصلے پست کرتی ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مسلم سماج بھی اور مسلم خواتین بھی قرآن مجید میں مذکور اللہ کی محبوب خواتین کے نمونوں کو مشعل راہ بنائیں۔ مسلم خواتین حوصلے اور ہمت سے کام لیں، رکاوٹوں کو بہانہ بنانے کے بجائے حکمت اور ہمت کے ساتھ آگے بڑھنے کی راہیں نکالیں۔ گھر اور خاندان کا غیر موثر حصہ بننے کے بجائے انھیں اپنا ہم خیال وہم نوا بنائیں، ان کے دباؤ میں آکر اقامت دین کے فریضے کو چھوڑ بیٹھنے کے بجائے خود ان کو اقامت دین کی راہ میں اتارنے کا تہیہ کریں۔ غلط رسم و رواج کی اسیر اور جاہلانہ روایات کی غلام بننے کے بجائے انھیں بدلنے اور قرآن و سنت کے طریقے کو سماج پر غالب کرنے کا بیڑا اٹھائیں۔ آدھی انسانیت ان کے رہ نما کردار کی منتظر ہے۔ دور حاضر میں عام انسانی سماج میں تو باہمت اور حوصلہ مند خواتین کے نمونے جا بجا ملتے ہیں، لیکن مسلم خواتین کے یہاں ابھی بھی فعال کردار مفقود نظر آتا ہے۔ انسانی سماج کو اسلام کی روشنی سے منور کرنے کی کوششوں میں مسلم خواتین کو پیش پیش ہونا چاہیے۔
جب دین کی نصرت وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہو، حق و باطل کا معرکہ برپا ہو، دین کی دعوت سب پر فرض ہوچکی ہو، ایسے میں اسلام کا فہم و شعور رکھنے والی خواتین کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو گھر کے کچھ کاموں تک محدود کرلیں اور حال کی آدھی انسانیت، یعنی عورتوں میں اور مستقبل کی پوری انسانیت، یعنی بچوں میں باطل کو پھلنے پھولنے اور پھیلنے کی کھلی آزادی دے دیں۔ قرآن و سیرت میں تو انھیں اونچے نصب العین اور عظیم کردار کی تعلیم دی گئی ہے۔