قانون کے رکھوالوں کی سفاکیاں ، انسا نیت لہولہان
پولیس اصلاحات ،ہر بار اُبھر کر دَب جانے والا مسئلہ۔مسلمانوں کو مناسب نمائندگی اور فرقہ وارانہ ذہنیت سے نمٹے بغیر اصلاح ممکن نہیں
پولیس کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ملک کے قانون کے مطابق کام کرے۔ مگر دلی فسادات کے دوران پولیس نے پھر ایک بار عوام کو مایوس کیا ہے۔کئی دنوں تک دلی کی سڑکوں پر قانون کی بالادستی کی جگہ نفرت کا راج قائم رہا۔ ایسی نفرت جس نے فسادیوں کے دلوں کو پتھر سے بھی سخت بنا ڈالا تھا۔ انسانیت اور اخوت کی جگہ درندگی ان کے سروں پر جنوں بن کر سوار تھی۔ جن علاقوں میں بے سہاروں کے گھر، دکان اور مذہبی مقام جلائے جارہے تھے، وہاں پولیس جان بوجھ کر غائب تھی۔ لوگ مدد کے لیے چیخ رہے تھے پولیس کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھی۔ مظلوموں اور بے سہاروں کی مدد کرنا تو دور کی بات ہے پولیس بعض اوقات مسلمانوں کو ’سبق سکھلانے‘ کے لیے سڑکوں پر اتری ہوئی تھی۔یہ بات تو ثبوت کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ فسادیوں کو پکڑنے اور حالات کو قابو میں کرنے کے لیے دہلی پولیس نے کوئی موثر اقدامات نہیں اٹھائے۔ الٹے پولیس ان لوگوں کو پریشان کر رہی ہے جو فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے سرگرم عمل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دلی پولیس نے عدالت عظمیٰ میں ایک حلف نامہ داخل کیا ہے اور مشہور و معروف سماجی جہدکار ہرش مندر کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہرش مندر سیکولرازم اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے عرصے سے کام کر رہے تھے۔ ان کی این جی او ’کاروان محبت‘ ہجومی تشدد اور منافرانہ جرائم کے متاثرین کے دکھ بانٹتی رہی ہے۔ یہ بات ارباب اقتدار کو پریشان کر رہی تھی اور وہ ہرش مندر پر کارروائی کرنے کا بہانہ تلاش کر رہے تھے۔ اب حکومت پولیس کو استعمال کرکے ان کو ہراساں کرنا چاہتی ہے۔ پولیس کا اس قدر کسی خاص سیاسی جماعت کے مفاد کو پورا کرنا ہندوستانی جمہوریت کے لیے بے حد مضر ہے۔
اب جب کہ دہلی کے فسادات کی آگ بجھ چکی ہے، متاثرین سامنے آ کر اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہیں اور انہوں نے میڈیا اور راحت اور بازآباد کاری میں سرگرم جہد کاروں کو بتلایا ہے کہ وہ مدد کے لیے چیختے چلاتے رہے لیکن پولیس ان کو بچانے کے لیے سامنے نہیں آئی۔ ۲۷ فروری کو ’ہفنگٹن پوسٹ‘ میں مطبوعہ ایک خبر کے مطابق اشوک نگر کے باشندے محمد اکبر قریش کے گھر پر بلوائیوں نے حملہ کر دیا۔ اس وقت قریش نے مقامی پولیس کو مدد کے لیے فون کیا مگر کوئی اس کی مدد کے لیے نہیں آیا۔ ’’ہم پولیس کو بار بار فون کرتے رہے انہوں نے کہا کہ وہ دو منٹ میں آ رہے ہیں۔ پھر ہم لوگوں نے انہیں ایک اور کال کیا اور کہا کہ وہ جلدی جائے وردات پر پہنچیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہنچ ہی رہے ہیں، مگر کوئی ہماری مدد کے لیے نہیں پہنچا‘‘۔
قمر الدین نے بھی مصیبت کی حالت میں پولیس کو پکارا۔ فسادی ان کے گھر کو نذرِ آتش کر چکے تھے۔ قمر الدین اور ان کے خاندان والے کسی طرح اپنے پڑوسی کی چھت پر کود گئے۔ اسی بیچ انہوں نے اپنے ایک جاننے والے کی مدد سے پولیس تک اپنی بات پہنچائی۔ پولیس سے یہ کہا گیا کہ وہ مقامی جیوتی نگر پولیس کی ٹیم کو ان کی مدد کے لیے بھیجیں۔ مگر پولیس نے اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے بجائے یہ کہا کہ ’’ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘دہلی پولیس نہ صرف مظلوموں کی مدد کرنے اور فسادیوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی، بلکہ بعض اوقات وہ خود اقلیتوں کو ٹارگیٹ کر رہی تھی۔ چکن بیچنے والے نوجوان فیضان کا ہی دردناک واقعہ لے لیجیے۔ پولیس نے پہلے فیضان کو خوب مارا اور پھر ادھ مرا ہوجانے پر اس کو قومی ترانہ’’جن گن من‘‘ گانے کے لیے مجبور کیا۔پولیس کی اس بربریت اور فرقہ وارانہ ذہنیت کو ایک وائرل ہونے والے ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ۳؍ مارچ کے روز بی بی سی نیوز کی ایک ویڈیو رپورٹ میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس نہایت سفاکی سے فیضان کو مار رہی تھی۔ فیضان کا بھائی نعیم روتا بلکتا اپنے شہید بھائی کو یاد کر رہا ہے۔ نعیم نے اپنے بھائی کی تصویر موبائیل پر دیکھتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اسے خوب مارا۔ اس کے ساتھ بڑی نا انصافی اور ’اتیاچار‘ (ظلم) ہوا ہے۔ ویڈیو میں یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ سڑک پر چت پڑے نِہتّوں پر پولیس ڈنڈے برسا رہی تھیں اور ان سے کہہ رہی تھی کہ وہ ’’جن گن من‘‘ گائیں۔
قومی شاعر ٹیگور نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے لکھے ہوئے ترانے کو اس طرح سے گوایا جائے گا۔ ان کے قلم سے نکلی نظمیں دو ملکوں کے قومی ترانے کی حیثیت رکھتی ہیں، ایسا اعزاز دنیا کے کسی دوسرے شاعر کو حاصل نہیں ہے، مگر ان کے نزدیک انسانیت کا درجہ قومیت کی تنگ نظری سے کہیں بڑا ہے۔ جب پولیس اس کو مار مار کر یہ کہہ رہی تھی کہ وہ’’جن گن من‘‘ گائے، تو یہ مار نہ صرف فیضان پر پڑ رہی تھی بلکہ اس مار کا درد ٹیگور کو بھی ہوا ہوگا۔ اگر ٹیگور کو یہ معلوم ہوتا کہ قومیت کے نام نہاد پاسباں آگے چل کر اُن کے لکھے گئے ترانے کی دُھن بجا کر معصوموں کی جان لیں گے، تو وہ شاید اسے کبھی نہیں لکھتے۔
پولیس کی اسی بے حسی اور اپنے فریضہ کو انجام دینے میں ناکامی کی وجہ سے دہلی فساد میں ۴۰ سے زائد افراد مارے گئے ہیں اور ۲۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے اجڑ گئے ہیں اور سب سے زیادہ نقصان یقیناً مسلمانوں کا ہوا ہے۔ پولیس کی لاپروائی اور نظم و ضبط کو بگڑنے سے روکنے میں ناکامی کو دہلی ہائی کورٹ نے بھی تسلیم کیا ہے اور اس کے لیے پولیس کی سرزنش بھی کی ہے۔ ۲۵ فروری کے روز دہلی ہائی کورٹ کے جج مرلی دھرن نے پولیس کی موجودگی میں بی جے پی کے لیڈران کپل مشرا، مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، ایم پی پرویش ورما، ایم ایل اے ابھے ورما کی اشتعال انگیز تقریر کی کلپ سنی اور پولیس سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور انتظار نہ کریں کیوں کہ بہت ساری جانیں جا چکی ہیں اور بہت کچھ برباد ہو چکا ہے۔ ۲۶ فروری کے روز ’دی وائر‘ میں ایک رپورٹ میں جسٹس مرلی دھرن کے بیان کا ایک اِقتباس شامل کیا گیا ہے، جس میں وہ پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ایف آئی آر درج کیجیے اور اس کی جانکاری اپنےکمشنر کو دیجیے۔ آئینی عدالت کو اس پر غصّہ ہے۔ آپ ان معاملوں میں ایف آئی آر درج کرنے میں تیزی کیوں نہیں دکھاتے؟ ہم امن کی بحالی چاہتے ہیں۔ یہ شہر بہت زیادہ تشدد دیکھ چکا ہے۔ ہمیں۱۹۸۴ کو نہیں دوہرانا چاہیے‘‘۔
پولیس اس سے پہلے کہ ان معاملوں میں ایف آئی آر درج کر کے فسادیوں کو گرفتار کرتی، جسٹس مرلی دھرن کا تبادلہ اس فیصلے کے چند ہی گھنٹوں بعد کر دیا گیا۔ اس فیصلے کے خلاف قانون کے پیشے سے وابستہ لوگوں نے اعتراض ظاہر کیا ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب کسی جج کا تبادلہ کیا جاتا ہے تو ان کو ۱۵ دنوں کا وقت دیا جاتا ہے، جس کے دوران وہ باضابطہ طور پر اپنی ذمہ داری کسی دوسرے کو منتقل کرتے ہیں۔ غور کرنے کی بات ہے کہ جب کورٹ کے اپنا فریضہ انجام دینے سے پولیس کی فضیحت ہوئی تو حکومت پولیس کے دفاع میں سامنے آ گئی۔ کسی بھی کامیاب جمہوریت کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ پولیس قانون کے مطابق راستے پر چلے۔ مگر یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ وہ بر سرِ اقتدار جماعت کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ پولیس ریاستی حکومت اور دہلی میں وزارت داخلہ کے ماتحت ہوتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنا کام بر سرِ اقتدار جماعت کے ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر کرے۔فساد اور دنگوں کے نازک لمحات میں پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت کا سخت امتحان ہوتا ہے۔ اس کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ قانون کے مطابق کام کرے اور کسی کے ساتھ ذات برادری، مذہب، جنس اور علاقہ کے بنیاد پر فرق ہرگز نہ کرے۔
مگر ان باتوں کا اکثر پولیس خیال نہیں رکھتی۔آزادی کے بعد سے پولیس کئی فسادات کے وقت برسرِ جماعت کے اشاروں پر کام کرتی رہی ہے۔ اس کا رویہ رویّہ اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے تئیں کافی منفی رہا ہے۔ یہ بات بہت سارے تحقیقاتی کمیشنس اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی رپورٹس اور دانشوروں کے تحقیقی مقالوں میں کہی گئی ہے۔
پولیس سے متعلق دو سب سے بڑے مسائل ہیں ایک اس کا سیاسی دباو میں کام کرنا اور دوسرا اس کی فرقہ ورانہ ذہنیت۔ نازک لمحات میں وہ اپنا پیشہ وارانہ فرض ادا نہیں کر پاتی اور اکثر سیاسی دباؤ میں آ جاتی ہے۔
مشہور تحقیقی ادارہ سینٹر فار پالیسی ریسرچ نے سال ۱۹۸۷ میں ’’کمیونل وائلنس ان انڈیا‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی تھی۔ اس کے مصنف پی آر راج گوپال نے پولیس، سیاست داں اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان ملی بھگت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے گجرات کے سابق پولس چیف جولیو ربیرو کے اس بیان کا ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’’پولیس فورس بھاری سیاسی مداخلت کی وجہ سے برباد ہوگئی ہے۔ ہر تبادلہ سیاست دانوں کے کہنے پر ہوتا ہے۔ پولیس افسران کو دباو میں ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ سیاست دانوں کی کہی ہوئی بات مانیں۔ اس وجہ سے جرائم پیشوں کے مزے ہیں (ص ۱۰۸)‘‘۔
اپنی کتاب ’’خاکی اینڈ ایتھنک وائلنس ان انڈیا (٢٠٠٣)‘‘ میں دانشور عمرخالدی نے اس مسئلہ پر گفتگو کی ہے۔ وہ بھی سیاسی مداخلت سے پریشان نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر سارے پولیس والوں اور نوکر شاہوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ قانون پر چلنے کو اولین ترجیح دیں گے اور سیاسی قیادت کی بات ماننے کو دوسری ترجیح دیں گے مگر سیاسی جوابی کارروائی کے تعلق سے مختلف تحفظات فرض کی ادائیگی میں حائل ہوجاتے ہیں۔ ریاست کو اس بات کا اختیار ہے کہ کسی بھی پولیس والے اور نوکر شاہ کا معمولی بات پر تبادلہ کر دے یا درجہ گھٹا دے۔ ریاست بعض انتہائی معاملوں میں اسے ملازمت سے معطل بھی کر سکتی ہے (ص۔ ۹۴)۔
یعنی سیاست داں اپنی طاقت کا بیجا استعمال کر کے پولیس والوں اور نوکر شاہوں کو اپنی بات منوانے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ اگر افسران برسرِ اقتدار جماعت اور حکومت کی آواز میں آواز ملا کر کام کرتے ہیں تو ان کو پروموشن دیا جاتا ہے اور جو افسران ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ان کو طرح طرح سے پریشان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بھاگلپور فسادات کے دوران مقامی ایس پی، کے ایس دویدی کا ٹرانسفر ہونے کے بعد بھگوا عناصر نے خوب شور مچایا اور ان کی بحالی کے لیے ۲۶ اکٹوبر ۱۹۸۶ کو وزیر اعظم راجیو گاندھی کا گھیراو بھی کیا۔ راجیو گاندھی دباو میں آ گئے اور دویدی کی بحالی کروائی۔ اسی دویدی ایس پی کو جانچ رپورٹوں میں بھاگلپور فسادات کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
ممتاز دانشور، مورخ اور ماہر آئین اے جی نورانی نے اپنے ایک مقالہ ’’کمیونل رائٹز اینڈ دی پولیس‘‘ جو اقبال نارائن کی مرتب شدہ کتاب ’’کمیونل رائٹز (۱۹۹۷)‘‘ میں ایک باب ہے، میں ۱۹۷۹ کے دوسرے قومی پولیس کمیشن کی سفارشات کا ذکر کیا ہے، جس میں اس موضوع پر کلام کیا گیا ہے کہ کیسے پولیس کو سیاسی مداخلت سے محفوظ رکھا جائے۔ اس رپورٹ میں ایک ’’ریاستی تحفظ کمیشن‘‘ بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ ایس پی اور اس سے اوپر کے رینک کے پولیس افسران ’’بیجا‘‘ سیاسی مداخلت کے خلاف اس ادارے میں اپیل کر سکتے ہیں۔ اس کمیشن کے ارکان میں دو ایم ایل اے شامل ہوں گے۔ ایک بر سر اقتدار جماعت سے ہوگا اور دوسرا جزب اختلاف کی نمائندگی کرے گا۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹ کے چار دیگر ارکان میں سبکدوش جج صاحبان، سول سروینٹ، اور اکیڈمیکس سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوں گے۔ پولیس محکمہ سے تعلق رکھنے والا وزیر اس کمیشن کا صدر ہوگا۔ پولیس کپتان اس کمیشن کا بہ حیثیت عہدہ سیکریٹری ہوگا۔ لیکن کیا یہ اس کمیشن کے بن جانے سے اس مسئلے کا حل نکل جائے گا؟ اس کا جواب نورانی نے یوں دیا ہے: ’’یہ اقدامات مدد گار ثابت ہوں گے، مگر ایک حد تک ہی (ص۔۱۱)‘‘۔ ایک حد تک؟ آخر کیوں نورانی کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ریاستی تحفظ کمیشن بن جانے کے بعد بھی اس مسئلے کا مکمل حل نہیں ہو پائے گا؟ اس کا جواب پولیس کی فرقہ وارانہ ذہنیت سے بندھا ہوا ہے۔ اس کے تار پولیس محکمے میں پائی جانے والی مسلمانوں کی گرتی نمائندگی سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
جدید بھارت میں پولیس کا وجود ۱۸۶۱ میں لائے گئے پولیس ایکٹ کے ساتھ سامنے آیا۔ انگریزوں کے دور حکومت میں حکومت ان کا استعمال جنگ آزادی کے مجاہدوں کے خلاف کرتی تھی۔ مگر اتنا ضرور تھا کہ اس زمانہ کی پولیس کسی ایک خاص مذہبی فرقے کے خلاف اس قدر فرقہ وارانہ سوچ نہیں رکھتی تھی۔ آزادی سے پہلے پولیس میں مسلمانوں کی شرح آج کے دور کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی۔مگر یہ بے حد افسوس کی بات ہے کہ آزاد بھارت میں جہاں ایک سیکولر آئین نافذ ہے اور ایک جمہوری نظام قائم ہے وہاں پولیس کا رویہ کافی فرقہ وارانہ رہا ہے۔ یہ بات بہت ساری رپورٹوں میں سامنے آ چکی ہے۔ پولیس محکمہ کے اندر اصلاح کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ پولیس تھانوں کے اندر مندر بنایا جانے لگا اور کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ اس سیکولر محکمے میں کسی خاص مذہب کا بول بالا قائم کرنے کی اجازت کیوں کردی جا سکتی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بن جانے کے بعد ملک کے مسلمانوں کو مسلسل شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ جان بوچھ کر انہیں پولیس محکمے سے دور رکھا گیا اور ان کے ساتھ امتیازی سکوک کیا گیا۔ بہت سارے خفیہ فرمان لائے گئے اور محکمہ پولیس میں مسلمانوں کی تقرری نہ کرنے کی سازش کی گئی۔ اس طرح کی فرقہ وارانہ سیاست کا مرکز اتر پردیش رہا۔ آزادی کے آس پاس اتر پردیش میں مسلمان پولیس میں اپنی آبادی سے بھی زیادہ تعداد میں نوکری کرتے تھے، مگر بعد کی حکومتوں نے ان کے ساتھ امتیاز برتا۔ ۱۹۸۰ اور ۱۹۹۰ کی دہائیوں میں وی پی سنگھ اور ملائم سنگھ یادو نے مسلمانوں کو پولیس میں ملازمت دینے کی کوشش کی مگر وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی۔
دلی کے صدر بازار علاقے میں سال ۱۹۷۳ میں ہوئے فساد کی جانچ کرنے والے ایک سول سروینٹ آر پرساد نے بھی اس مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔’’جہاں دہلی میں مسلمانوں کی آبادی ۶ فی صد ہے، وہیں پولیس میں ان کی نمائندگی ایک فی صد ہے۔ یہ نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے درست نہیں ہے‘‘۔
رفتہ رفتہ پولیس کا رویہ مسلمانوں کے تئیں منفی بنایا گیا، جو بعض اوقات سامنے آجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پولیس کے تئیں اقلیتوں کے دل میں ڈر اور خوف کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس کا علاج تنوع اور تکثیریت ہے۔ اگر سماج کے اندر تنوع پایا جاتا ہے تو لازم ہے کہ اس کا عکس دیگر اداروں جیسے پولیس اور فوج میں بھی نظر آنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے فرقہ پرست سیاست دانوں کو پولیس پر دباو ڈال کر کام کروانا نسبتاً مشکل ہو جائے گا اور وہ پولیس کا استعمال کسی خاص گروپ کے خلاف کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔حالانکہ یہ ضروی نہیں ہے کہ جن ریاستوں میں اقلیتوں کا تناسب محکمہ پولیس میں کم ہے وہاں ان کو ہر حال میں نشانہ بنایا جائےگا۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال اور بہار میں مسلمان اپنی آبادی سے بہت کم پولیس میں ہیں۔ مگر لیفٹ اور لالو پرساد یادو کی قیادت والی سرکاروں کے دوران مسلمان ان ریاستوں میں محفوظ رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ بنگال کی سی پی ایم کی سرکار اور لالو پرساد یادو کی جنتا دل اور راشٹریہ جنتا دل کا سیاسی نظریہ سیکولرازم ہے اور ان کی سیاسی قیادت فساد روکنے کے لیے پر عزم رہتی ہے۔ یہ بات مشہور ماہر سیاسیات پال براس کی دلیل سے ملتی ہے کہ فسادات ہوتے نہیں، بلکہ کرائے جاتے ہیں۔اتر پردیش کے مختلف ضلعوں میں کام کر چکے پولس افسر وبھوتی نرائن رائے نے بھی اپنی کتاب "کمباٹنگ کمیونل کنفلکٹز (۱۹۹۹)” میں مسلمانوں کی پولیس میں کم تعداد پر افسوس ظاہر کیا ہے۔” پولیس میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کی شرح سے کافی کم ہے۔ بی پی آر اینڈ ڈی نے یہ دکھایا ہے کہ فرقہ وارنہ طور سے حساس ریاستوں میں ان کی آبادی ۵ فی صد سے کم ہے(ص۔۴۔۳)‘‘۔
اسی کتاب میں رائے نے اس بات پر بھی مایوسی ظاہر کی ہے کہ خاکی وردی پہننے کے بعد بھی پولیس کے جوان ہندو اور مسلمان کی اصطلاح میں سوچتے ہیں اور اپنے مذہبی تشخص سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں۔
فرقہ پرستی ایک جدید نظریہ ہے جس کا استعمال سیاسی فائدے کے لیے کیا جاتا ہے، جہاں جان بوجھ کر ایک مذہنی فرقے کو دوسرے مذہبی فرقے کے خلاف تیار کیا جاتا ہے۔ بی جے پی لیڈر کپل مشرا اسی فرقہ پرستی کے جذبے کو مزید بڑھا رہے تھے تاکہ اکثریتی فرقہ اقلیتی فرقے کو اپنا دشمن سمجھ لے۔فرقہ پرستی پھیلانے کے لیے ہر روز کام کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے دل اور دماغ میں لٹریچر اور پروپیگنڈے کی مدد سے نفرت بھری جاتی ہے۔ فلم، سنیما اور گانوں کی مدد سے فرقہ پرستی کے زہر کو عوام کے رگوں میں اتارا جاتا ہے اور ان کے دل میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ ایک مذہبی فرقے میں شامل سبھی ارکان دوسرے مذہبی گروپ کے ارکان سے جدا ہیں اور ان کے مفاد ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ بد قسمتی سے آزاد بھارت کی سیکولر طاقتوں نے فرقہ پرستی سے مقابلہ کرنے میں ایمانداری نہیں دکھائی اور فرقہ پرستوں کے ساتھ سمجھوتا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرستی کا نظریہ ہمارے اداروں، خاص کر پولیس اور فوج میں پھیلتا چلا گیا اور آج حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ حکومت چاہے سیکولر جماعت کی ہو یا فرقہ پرست گروہ کی، پولیس عموماً غیر جانب دار نہیں رہتی۔ اگر گجرات اور حالیہ دلی کے فسادات فرقہ پرستوں کے دور حکومت میں سامنے آئے ہیں اور اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا تو اس سے پہلے رونما ہونے والے فسادات جیسے بھاگلپور، دلی کا سکھ کش فساد، مرادآباد، جمشیدپور، راورکیلا وغیرہ سیکولر حکومتوں کے راج میں سامنے آئے ہیں۔ ان سب فسادات میں نشانہ اقلیتوں کو ہی بنایا گیا۔ اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کہ پولیس محکمے میں اصلاح کی جائے اور اس مسئلے کو وسیع سیاق میں دیکھا جائے۔