فہـــــم قــــــرآن
بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو ( اسلامی معاشرہ کے خد و خال سورہ الحجرات کی روشنی میں)
(چوتھی قسط )
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو اللّٰہ سے ڈرو، اللّٰہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔
سورہ الحجرات کی 11 اور 12 آیتوں میں چھ باتوں سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے۔ پہلے تین چیزوں سے یعنی کسی کا مذاق اڑانا، طعن وتشنیع کرنا اور برے القاب رکھنا جیسی حرام چیزوں سے روکا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس روش کو نہ چھوڑیں وہ ظالم ہیں پھر آیت 12 میں بھی تین بڑے گناہوں کی نشاندہی کی گئی جس سے معاشرے میں بگاڑ اور فساد بر پا ہوتا ہے وہ سوء ظن، تجسس اور غیبت ہے پہلے جن کا ذکر کیا گیا ہے ان کا ارتکاب انسان اعلانیہ کرتا ہے باقی تین برائیاں جن کا ذکر بعد میں کیا گیا وہ انسان پرائیوٹ طریقہ سے کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کو چھپا کر یا اپنے محرمان راز کے اندر محدود رکھ کر کرتا ہے۔ ان برائیوں کے بارے میں قرآن میں کہا گیا ہے کہ اللہ سے ڈرو توبہ اور استغفار کیا کرو اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحمان اور رحیم ہے۔ اگر ان چھ برائیوں سے معاشرے کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے تو معاشرے میں جھگڑے اور لڑائیوں میں کمی آسکتی ہے معاشرے کا فساد ختم ہو سکتا ہے معاشرہ برائیوں سے پاک اور صاف اور ستھرا ہوسکتا ہے اس کی کوشش ہر طرف سے ہر تنظیم کی طرف سے ہونی چاہیے۔ زیادہ گمان یا سوء گمان تجسس اور غیبت پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن میں روشنی ڈالی ہے۔ مطالعہ کے لیے پیش خدمت ہے:
(1 ) زیادہ گمان
طلقاً گمان کرنے سے نہیں روکا گیا ہے بلکہ بہت زیادہ گمان سے کام لینے اور ہر طرح کے گمان کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اس حکم کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجزیہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ گمان کی کتنی قسمیں ہیں اور ہر ایک کی اخلاقی حیثیت کیا ہے:
ایک قسم کا گمان وہ ہے جو اخلاق کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ اور دین کی نظر میں مطلوب اور محمود ہے مثلاً اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان سے نیک گمان اور ان لوگوں کے ساتھ حسن ظن جن سے آدمی کا میل جول ہو اور جن کے متعلق بدگمانی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو۔ دوسری قسم کا گمان وہ ہے جس سے کام لینے کے سوا عملی زندگی میں کوئی چارہ نہیں ہے مثلاً عدالت میں اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا ہے جو شہادتیں حاکم عدالت کے سامنے پیش ہوں ان کو جانچ کر غالب گمان کی بنا پر فیصلہ کرے کیونکہ معاملہ کی حقیقت کا براہ راست علم اس کو نہیں ہوسکتا اور شہادتوں کی بنیاد پر جو رائے قائم ہوتی ہے وہ زیادہ تر یقین پر نہیں بلکہ ظن غالب پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی طرح بکثرت معاملات میں جہاں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور حقیقت کا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہوتا انسان کے لیے گمان کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
گمان کی ایک تیسری قسم وہ ہے جو اگر چہ ہے تو بدگمانی مگر جائز نوعیت کی ہے اور اس کا شمار گناہ میں نہیں ہوسکتا مثلاً کسی شخص یا گروہ کی سیرت وکردار میں یا اس کے معاملات اور طور طریقوں میں ایسی واضح علامات پائی جاتی ہوں جن کی بنا پر وہ حسن ظن کا مستحق نہ ہو اور اس سے بد گمانی کرنے کے لیے معقول وجوہ موجود ہوں۔ ایسی حالت میں شریعت کا مطالبہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی سادہ لوحی برت کر ضرور اس سے حسن ظن ہی رکھے لیکن اس جائز بدگمانی کی آخری حد یہ ہے کہ اس کے امکانی شر سے بچنے کے لیے بس احتیاط سے کام لینے پر اکتفا کیا جائے اس سے آگے بڑھ کر محض گمان کی بنا پر اس کے خلاف کوئی کارروائی کر بیٹھنا درست نہیں ہے۔ چوتھی قسم کا گمان جو در حقیقت گناہ ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی شخص سے بلا سبب بدگمانی کرے یا دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے میں ہمیشہ بدگمانی ہی سے ابتدا کیا کرے یا ایسے لوگوں کے معاملہ میں بد ظنی سے کام لے جن کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ وہ نیک اور شریف ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی گناہ ہے کہ ایک شخص کے کسی قول یا فعل میں برائی اور بھلائی کا یکساں احتمال ہو اور ہم محض سوء ظن سے کام لے کر اس کو برائی ہی پر محمول کریں مثلاً کوئی بھلا آدمی کسی محفل سے اٹھتے ہوئے اپنے جوتے کے بجائے کسی اور کا جوتا اٹھالے اور ہم یہ رائے قائم کرلیں کہ ضرور اس نے جوتا چرانے ہی کی نیت سے یہ حرکت کی ہے حالانکہ یہ فعل بھولے سے بھی ہوسکتا ہے اور اچھے احتمال کو چھوڑ کر برے احتمال کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ بدگمانی کے سوا نہیں ہے۔ اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گمان بجائے خود کوئی ممنوع چیز نہیں ہے بلکہ بعض حالات میں وہ پسندیدہ ہے بعض حالات میں ناگزیر ہے بعض حالات میں ایک حد تک جائز اور اس سے آگے نا جائز ہے اور بعض حالات میں بالکل ہی ناجائز ہے۔ اسی بنا پر یہ نہیں فرمایا گیا کہ گمان سے یا بدگمانی سے مطلقاً پرہیز کرو بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ بہت زیادہ گمان کرنے سے پرہیز کرو۔ پھر حکم کا منشا واضح کرنے کے لیے مزید بات یہ فرمائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اس تنبیہ سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب کبھی آدمی گمان کی بنا پر کوئی رائے قائم کر رہا ہو یا کسی اقدام کا فیصلہ کرنے لگے تو اسے اچھی طرح جانچ تول کر یہ دیکھ لینا چاہیے کہ میں جو گمان کر رہا ہوں کہیں وہ گناہ تو نہیں ہے؟ کیا فی الواقع اس گمان کی ضرورت ہے؟ کیا اس گمان کے لیے میرے پاس معقول وجوہ ہیں؟ کیا اس گمان کی بنا پر جو طرز عمل میں اختیار کر رہا ہوں وہ جائز ہے؟ یہ احتیاط لازماً ہر وہ شخص کرے گا جو خدا سے ڈرتا ہو۔ اپنے گمان کو مطلق العنان بنا کر رکھنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے بے خوف اور آخرت کی باز پرس سے بے فکر ہیں۔ (جاری)