فلم ’جے بھیم‘ پولیس مظالم کی طویل داستان کی محض ایک جھلک

’کورٹ ڈراما‘ قانونی جنگ لڑنے والوں کے لیے تقویت کا باعث

احسان احمد، وانمباڑی، تملناڈو

فلم ’جے بھیم‘ تمل میں ریلیز ہوئی ہے جو کہ چار مزید زبانوں (ہندی، ملیالم، تیلگو اور کنّڈا) میں بھی ڈب کی گئی۔ یہ فلم ان دنوں سرخیوں میں ہے۔ یہ ڈھائی گھنٹے کی فلم ہے جو دو نومبر کو امیزان پرائم (Amazon Prime) پر ریلیز ہوئی۔
اس فلم میں 1993 میں تملناڈو کے شہر کڈالور میں پیش آئے ایک حقیقی واقعہ کو فلمایا گیا ہے۔ تمل سینما کے ایک مشہور اداکار سوریا نے اس فلم کو تیار (Produce) کیا ہے اور اس میں ایک وکیل کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ان کا کردار مدراس ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس اور سابق سینئر ایڈووکیٹ چندرو کی حقیقی زندگی پر مبنی ہے، جنہوں نے پاروتی نامی ایک خاتون جس کا تعلق آدی واسیوں کے قبیلے ارولر (Irular) سے ہے اس کو انصاف دلانے کے لیے قانونی جنگ کا سامنا کیا۔ پاروتی کے شوہر راجا کنو کو چوری کے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرکے پولیس حراست میں ہی مار دیا گیا تھا اور اسے جیل سے فرار قرار دے دیا گیا تھا۔
اِرولر ایک دراوڑی نسلی گروہ ہے جو تملناڈو، کیرالا اور کرناٹک میں آباد ہے یہ ایک درج فہرست قبیلہ (Scheduled Tribe) ہے جس کی آبادی تقریباً دو لاکھ ہے۔ یہ ایک پسماندہ اقلیت ہے جسے بنیادی قانونی دستاویزات حاصل کرنے میں بھی بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں اور اس قبیلے کے کئی لوگوں کو آج بھی ایک سے زائد جھوٹے الزامات لگا کر جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے.
اس فلم میں آدی واسیوں اور نچلی طبقے کے لوگوں کے ساتھ اعلیٰ ذات کے لوگوں، افسروں اور خاص کر پولیس والوں کی بربریت کو تفصیل سے دکھایا گیا ہے۔ دوسری فلموں کی طرح اس فلم میں نہ کوئی گانے ہیں اور نہ رقص وغیرہ جیسی فحش چیزوں کو شامل کیا گیاہے۔ اس فلم میں خاص طور پر پولیس والوں کے کرپشن اور ان کے ذریعہ ہونے والی درندگی کو واشگاف کیا گیا ہے نہتے کمزور لوگوں اور نچلے طبقے کے لوگوں کو کیسے روندا جاتا ہے جنہیں سماج کے کسی بھی گروہ کا کوئی تعاون حاصل نہیں ہوتا اس چیز کو بنیادی موضوع بنایا گیا ہے۔
اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے مظلموم طبقے کے لوگوں کی توہین کی جاتی ہے اور ان کے عزت ووقار کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے وہیں انہیں ہر لمحہ یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ پولیس کی جانب سے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ فلم کے آغاز میں ہی برہم واد کی بالادستی اور آدیواسیوں کی پستی کی جھلک دکھائی جاتی ہے۔
اس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ پولیس کے ذریعہ یہ مظالم صرف مردوں پر ہی نہیں بلکہ عورتوں پر بھی کیے جاتے ہیں، انہیں بھی اسی طرح مارا پیٹا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بھی بد سے بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔ اس فلم کو دلچسپ بنانے کے لیے اسے ایک کورٹ روم ڈرامے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے اور اسے ایک سسپنس تھرلر (Suspense Thriller) کے طور پر فلمایا گیا ہے تاکہ لوگ اسے دیکھنا پسند کریں اور اس فلم کا مسیج لوگوں تک پہنچے۔ یہ فلم اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ بروقت قانونی مدد سے سسٹم کے خلاف پسماندہ طبقے کی جنگ کو تقویت مل سکتی ہے. یہ صرف ایک فلم نہیں بلکہ پولیس کی بربریت، ذات پرستی اور اچھوت کو پروان چڑھانے والے سماج پر ایک طمانچہ ہے۔
ایسی فلمیں دیکھ کر اور دوسروں کو دکھا کر پولیس حراست میں ہونے والے ٹارچر اور اموات اور نچلے طبقات کے ساتھ ہونے والے مظالم کے بارے میں لوگوں کو بیدار کیا جا سکتا ہے اور شاید اس طرح ہم سسٹم میں بھی کچھ تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اگر ہم اس فلم کو دیکھیں اور اسے بڑھاوا دیں تو شاید ایسی بہت ساری اور فلمیں بن سکتی ہیں جو اسی طرح کی کہانیوں کو بیان کر سکتی ہیں جس سے سماج میں کچھ سدھار لایا جاسکتا ہے.
اس فلم کے ڈائریکٹر نیانویل نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جو مظالم اس فلم میں دکھائے گئے ہیں یہ تو کچھ بھی نہیں ہیں حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ مظالم قبائلی لوگوں پر ڈھائے جاتے ہیں۔ غیر ثابت شدہ مقدمات کو ثابت کرنے کے لیے انہیں جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔ اس فلم کو بنانے کے مقصد کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جس کسی کو بھی انتہائی پسماندہ لوگوں کے خلاف طاقت کا غلط استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے وہ انتہائی تعصب کے ساتھ کرتا ہے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ اس بات کو ساری دنیا کو بتائیں کہ ارولر قبیلے کے لوگ اس ظلم کا ہر روز سامنا کرتے ہیں اور زیادہ تر لوگوں کو اس کی کوئی خبر بھی نہیں ہوتی۔
سوریا تمل سینما کے اداکار ہونے کے علاوہ وقتاً فوقتاً ضرورت مندوں کی مدد کرنے والی متعدد فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ وہ برسوں سے "اگرم فاؤنڈیشن” چلا رہے ہیں جو غریب طلباء کی تعلیم میں مدد کرنے کے لیے ایک پہل ہے۔ اس فلم کی ریلیز کے بعد انہوں نے قبائلی طبقے کے طلباء کی فلاح و بہبود کے لیے ایک کروڑ روپے کا عطیہ دیاہے۔ اس فلم کو تملناڈو کے وزیر اعلیٰ نے بھی دیکھا اور انہوں نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔
بھارتی فلموں میں اکثر مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر دکھایا جاتا ہے، کیا یہ اصل صورتحال ہے؟ کیا ہم اس ملک میں بالکل محفوظ ہیں؟ کیا ہمارے نوجوانوں پر غلط الزامات لگا کر جیلوں میں ٹھونسا نہیں جاتا؟ کیا ہمارے ساتھ ظلم نہیں ہوتا؟ کیا ہمارے ساتھ بھید بھاؤ نہیں ہوتا؟ بالکل ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر ہوتا ہے، پھر ہم کیوں خاموش ہیں. ہم احتجاج کرتے ہیں ریلیاں نکالتے ہیں لیکن کیا ہماری آواز اس ملک کے ہر شہری تک پہنچتی ہے. اگر نہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ایک ایسا میڈیم چُنیں جس کے ذریعہ سے ہمارا پیغام ہر ایک تک پہنچے۔ ہم یا تو خود فلمیں بنائیں یا کسی کے ساتھ جُڑیں اور اس کام میں مدد لیں۔ سینما میں ایک بڑی طاقت ہوتی ہے جو سماج میں اثر انداز ہوتی ہے
اس فلم کا آخری پیغام "اپنے دفاع کو تلاش کرنا اس دنیا میں آپ کی حیثیت کی نشاندہی کرتا ہے اگر خیالات عمل میں بدل جائیں تو آپ جو کچھ ڈھونڈیں گے وہ خود ہی سامنے آجائے گا۔ حق کی راہ پر چلنا ہی آپ کی زندگی کا واحد مقصد ہے۔محبت کا پرچم لہرانے کی حمایت میں لاکھوں ہاتھ اٹھیں گے۔ کیا تلاش کے بغیر زندگی کامیاب ہو سکتی ہے؟ سب کچھ تو آپ کے اندر ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021