فرقہ واریت کا وائرس، دوسرا خوفناک چیلنج

سیاسی فائدے کے لیے یہ زہر پھیلا یا جارہاہے

جولیو ربیرو

اس لاک ڈاون کے دوران میں اپنی بیٹی کے گھر ممبئی میں بند ہوں۔جب میں اپنے واقف کاروں سے ٹیلیفون پر یا ای میل کے ذریعہ بات کرتا ہوں تو میں سمجھ سکتا ہوں کہ لوگ آج کل کیا سوچ رہے ہیں اور کس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں اور جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ اس بوڑھے آدمی کے کانوں کے لیے یقیناً خوشگوار نہیں ہے۔میرے ہندو اور مسلمان دونوں دوست یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اب کسی کا بھی خدا اس کے بندوں کو کورونا وائرس کے شکنجے سے بچا نہیں سکتا۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرونا سے بھی بدترین یہ فرقہ وارایت کا وائرس ہے جسے ہندوتوا طاقتوں نے سیاسی طور پر اپنے جسموں اور ذہنوں میں داخل کر لیا ہے اور خدا کے دیے ہوئے اس موقع کو مسترد کر دیا ہے جس سے تمام برادریوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع مل سکتا تھا۔ کورونا سے لڑنے اور اس وبا پر فتح حاصل کرنے کے لیے مودی جی نے تمام ہندوستانیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی لیکن ان کے اپنے دوست، تقسیم کی سیاست کے لیے کورونا کا استعمال کر رہے ہیں۔ کورونا ہمارے تعاقب میں ہے اور ظاہر ہے یہ تعاقب مزید جاری رہے گا۔ ان حالات میں ہمارے پاس معیشت کی بحالی کا اہم کام ہے جو کورونا وائرس کی وباء سے پہلے بھی تیزی سے نیچے کی طرف گامزن تھا، لیکن ہم اس وقت ایک اور ناگہانی بحران سے دوچار ہیں۔ ہماری معیشت کو دوبارہ پٹری پر واپس لانے کے لیے تمام شہریوں کی شراکت کی ضرورت ہوگی۔اس ناگزیر معرکہ آرائی میں شامل ہونے کے لیے ہر ہندوستانی کو مذہب، ذات پات اور معاشی حیثیت سے اوپر ہوکر اس بحران سے نمٹنے کی تیاری سے کرنا چاہیے۔ اس اہم نکتہ سے قطع نظر ملک کا ایک گوشہ ایک مخصوص برادری کو اچھی طرح جانتے ہوئے بھی کہ یہ سچ نہیں ہے اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔
تبلیغی جماعت اپنے بین الاقوامی سالانہ مشورے کے اجلاس کو ملتوی نہ کرنے کے اپنے فیصلے کے لیے یقیناً غیر ذمہ دار ثابت ہوئی، لیکن کیا حکومت بھی ایک ہزار سے زائد افراد پر مشتمل مذہبی اجتماع کو روکنے میں ناکام نہیں رہی؟ اس کانفرنس پر پابندی عائد کی جاسکتی تھی یا غیر ملکی مندوبین کو جاری کردہ ویزے منسوخ کیے جاسکتے تھے، حکومت اس میں کیوں ناکام ہوئی؟
وزارت صحت کے ترجمان لوو اگروال اپنے خود کے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں تبلیغی جماعت کے شرکاء سے رابطے کی وجہ سے 50 فیصد لوگ کوویڈ-19 سے متاثر ہوئے ہیں۔ اگلے دن پھر سے یہ الزام دہرایا گیا…! جبکہ یہ سراسر قیاس آرائی تھی اور حقیقی اعداد وشمار سے خالی تھی اور اس کا مقصد سیاسی مفاد پر مبنی تھا جبکہ حکومتوں کو اس طرح کے ہتھکنڈوں سے گریز کرنا چاہیے۔ اس پروپیگنڈے سے ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو جو نقصان پہنچ رہا ہے وہ پچھلے دہائی میں فرقہ وارانہ سیاست سے پہنچائے گئے نقصان سے کہیں زیادہ ہے.میرے تمام مسلم اور ہندو دوستوں نے اس صورت حال پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ کیا اب اس طرح سے ہماری سیاسی رہنمائی ہوگی؟ یعنی حتمی تجزیہ یہ ہے کہ اب اس کے نتیجے میں ایک پانچواں ستون قائم ہوگا جو ہمارے آئین کے مضبوط ومتحرک سیکولر جمہوریت کی عمارت کو کمزور کرنے والا ہے۔ مودی جی نے تھوڑا ہی سہی لیکن کبھی اس آئین کو خراج عقیدت پیش کیا تھا ہوگا۔میں نے پہلے بھی عام سماجی کارکنان کی جانب سے مزدور تارکین وطن اور ممبئی کے دیگر غربت سے متاثرہ مقامی باشندوں کو کھانا کھلانے کی قابل ستائش کوششوں کا تذکرہ کیا تھا۔ جس طرح لاک ڈاؤن کے دوران بھوک میں اضافہ ہوا ہے اس ماحول میں ہم کسی سے یہ ہرگز توقع نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ مذہب کو بنیاد بنا کر اپنے مفاد کے راستے تلاش کرے گا۔ صرف معاشی کساد بازاری پر ہی ہماری ساری توجہ مبذول ہونی چاہیے۔ لیکن افسوس کہ ہر جگہ امتیازی سلوک کی کہانیاں نمایاں ہیں۔ انسانی فطرت ہمیشہ سے زیادتیوں کے خلاف سینہ سپر رہی ہے۔ نا گفتہ بہ حالات ہر دور میں مثبت طاقتوں کو اپنے مشن میں کامیاب ہونے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ حال ہی میں ممبئی سے متصل قبائلی ضلع پال گھر میں ایک تنازعہ کھڑا ہوا جہاں قبائلیوں نے گاؤں والوں کے بچوں کے سارق ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے دو سادھووں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سادھوؤں کو ریاست کی سرحد عبور کرکے گجرات میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا کیونکہ ان کے پاس سرحد عبور کرنے کے لیے کوئی سرکاری پاس نہیں تھا۔ وہ سادھو ممبئی سے سورت ایک سینئر سادھو کی آخری رسومات میں شرکت کے ارادے سے جارہے تھے۔ وہ واپس ممبئی کا رخ کرنے کے بجائے اور سرحدی چوکی سے بچنے کے لیے اپنی گاڑی کو جنگل کے راستے پر ڈال دیا۔اس غیر محفوظ راستے پر محکمہ جنگلات کی ایک چوکی کے قریب آس پاس کے دیہاتیوں نے سادھوؤں پر حملہ کیا اور انہیں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ ان قبائلیوں کو سادھوؤں کے بھیس میں بچہ چور ہونے کا شبہ تھا۔ بی جے پی کے حامی صحافی سونیا گاندھی کی خواہ مخواہ ملامت کرنے لگے کہ وہ اس واقعے پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اگرچہ کہ ان صحافیوں کو اپنی انکوائری کرنا ہوتا ہے جیسا کہ اچھے دیانت دار صحافی کرتے ہیں تب انہیں یہ معلوم ہوتا کہ سونیا گاندھی کو کس طرح پتا چلتا کہ سورت میں ایک معزز سادھو کی موت ہوگئی ہے؟
مذہبی برادریوں کے مابین دشمنی پیدا کرنے کی ان صحافیوں کی مذموم کوششوں پر انہیں حوالات میں بند کر دینا چاہیے تھا اس طرح کی مذموم کوششیں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کا ایک عام طریقہ ہیں۔
مودی جی کو چاہیے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے اس مرحلے پر ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے اپنے ہی حامیوں کے خلاف مثالی قانونی کارروائی کا حکم دیں، جو فرقہ وارانہ وائرس کو پھیلاتے ہوئے ماحول کو خراب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
***

مودی جی کو چاہیے کورونا وائرس کے خلاف جنگ کے اس مرحلے پر ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے اپنے ہی حامیوں کے خلاف مثالی قانونی کارروائی کا حکم دیں، جو فرقہ وارانہ وائرس کو پھیلاتے ہوئے ماحول کو خراب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔