محمد عزیز صائب المظاہری
نبی کریمﷺ نے فرمایا اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہاری عورتیں سرکش اور بے قابو ہوجائیں گی، تمہارا نوجوان طبقہ بدچلن ہوجائے گا اور تم جہاد ( دین کے قیام میں جہدوجہد، جانی ومالی قربانی) چھوڑ بیٹھو گے؟ لوگوں نے کہا : ا ے اللہ کے رسولؐ! مسلم معاشرہ میں کیا یہ خرابی پیدا ہونے والی ہے؟ آپؐنے فرمایا : ہاں! خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ آئے گا! لوگوں نے پوچھا اس سے زیادہ سخت مرحلہ کیا ہوگا؟ آپ ؐنے فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تم نیکی کا حکم نہ دو گے اور نہ برائی سے روکو گے۔ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا یہ بھی ہونے والا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ہاں ! خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ آنے والا ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا : اے اللہ کے رسولؐ! اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ اور کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا اور برائی کو بھلائی سمجھنے لگو گے۔ لوگوں نے کہا : کیا یہ بھی ہونے والا ہے؟ آپ ؐنے فرمایا: ہاں ! خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ آنے والا ہے۔ لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ؐ! سے بھی زیادہ شدیدمرحلہ اور کیا ہوگا؟ سرورکائناتؐنے فرمایا : تمہارا حال کیا ہوگا جب تم برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے لوگوں کو روکو گے؟ لوگوں نے کہا: کیا امت پر ایسا یہ مرحلہ بھی آنے والا ہے؟ آپ ؐنے فرمایا: ہاں ! خدا کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ آنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی قسم کھاکر فرماتا ہے کہ میں (اس آخری مرحلہ میں امت کے داخل ہونے کے بعد ) ایسے ایسے فنتوں میں انہیں مبتلا کروں گا کہ ان کے عقلا او رہوشمند لوگ حیران و درماندہ ہوجائیں گے ( ان کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا کہ ان فتنوں سے کیسیے بچیں کیا کریں کہاں بھاگ جائیں؟)
(نوٹ: اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت ابن عمرؓ کی حدیثیں پڑھیے جو فتنہ کی وضاحت کرتی ہیں)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا جو لوگ جہاد یعنی دین کی سربلندی کے لیےمحنت ، جاں فشانی، مالی اور جانی قربانی نہ کریں ۔ اللہ ایسے لوگوں پر عذاب مسلط کردے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کاروبار ’’عینیہ‘‘ کے ساتھ کرنے لگو گے جب تم بیل کی دم تھام لوگے اور کھیتی باڑی میں مگن ہوجاو گے اور دین کے قیام کی مہم میں محنت سے جی چرانے لگو گے اور مالی و جانی قربانی سے گریز کرنے لگو گے تواللہ تمہارے اوپر ذلت اور محکومی مسلط کردے گا۔ جو تم سے کبھی نہ ٹلے گی جب تک کہ تم ا پنے دین کی طرف پھرسے پلٹ کر نہ آو گے۔
عینیہ کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں مختصر طور پر جن کا حاصل یہ ہے کہ سودی کاروبار کو مختلف دوسرے خوبصورت ناموں سے کرنا چونکہ اسلام سے نسبت ہے اس لیے کھلم کھلا باطل کاروباری طریقوں اور سودی معاملات سے شرم آتی ہے تو حسین لفظوں کے پردوں میں حرام کو حلال کر ڈالنے کے مغالطے دے کر شریعت سے کھیلتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خدائے علیم و خبیر بھی ان ناموں سے دھوکہ کھا جاے گا۔
رب رحیم کی رحمت عام و تمام کا عالم یہ ہے کہ نبی آخر الزماں ﷺ کے ذریعہ خیر امت اور امت وسط کو برپا فرماکر شہادت حق اور اقامت دین کے فریضہ کا بوجھ جب ان پر ڈالا گیا اور قرآن کریم کی امانت کا امین بناکر قیامت تک کے لیے باب نبوت کو بند کردیا گیا تو اس فریضہ کی اہمیت اور اس کی ادائی کے پرحکمت طریقے بھی سکھادیے گئے اور اس فریضہ کی ادائی میں غفلت اور سستی یا بے حکمتی سے کام کے دنیوی و اخروی برے نتائج سے بھی آگاہ فرمادیا گیا اور جس رخ اور جس سمت سے امت وسط میں بگاڑ پیدا ہوسکنے کے امکانات تھے ان کی پیشگی نشاندہی بھی کردی گئی تاکہ یہ حزب اللہ (اللہ کی پارٹی) ان مورچوں پر زیادہ مستعد اور چوکس رہے۔ چنانچہ پہلی حدیث میں اسی کی نشاندہی کی گئی ہے اور پھر اس بگاڑ کی درجہ بدرجہ مرحلہ وار تصویر کھینچ کر رکھ دی گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عالم الغیب و الشہادہ نے انیسویں اور بیسویں صدی کا پورا نقشہ سمٹ کر ختم رسل کے سامنے رکھ دیا ہے اور آپؐ گویا آنکھوں دیکھا حال بیان فرماکر امت پر رحمت و حجت کا اتمام فرمار ہے ہیں۔
اس حدیث میں عجیب حکمت کے روشن دیے بھی فروزاں فرمادیے ہیں کہ وہ دور اگر امت پر بھاری ہوجائے اور مسلم حنیف بندے توبہ نصوح کرکے پھر پلٹنا چاہیں تو وہ اپنا سفر اور احیائے اسلام کی سعی میں گرداں ہوں۔
چنانچہ اذا طغی نسائُ کم ۔ سے فساد شروع ہوا اور آہستہ آہستہ بگاڑ بڑھتا ہوا یہاں تک پہنچا کہ معروف منکر اور منکر معروف بن کر نہیں رہ گیا بلکہ معرو ف کا حکم کرنے والے معروف کے بجائے منکر کا حکم کرنے لگے اور منکر سے روکنے کے بجائے معروف سے باز رہنے کا حکم دینے لگے نتیجہ سامنے ہے کہ اس سطح پر پہنچ کر خیر امت سنت اللہ کی زد میں نظر آرہی ہے اور امت کے ہوشمند حیران ہیں کہ اس فتنہ عام سے کیسے خود بچیں اور عام انسانیت کو اس سے بچانے کا حق کس طرح ادا کریں؟ پھر اس دور فتن کی پیش گوئی میں لطیف انداز سے اس سے بچنے کی تدبیر بھی بتلادی، اور آغاز کار کی نشاندہی بھی فرمادی۔ وہ یہ کہ ہم کو اپنے گھر اپنی بیوی بیٹی اور ماں کو اہمیت دے کر قو انفسکم و اہلیکم نارا (اپنے آپ کو اپنے اہل و عیال کو نار جہنم سے بچاو ) و انذر عشیرتک الاقربین (اور اپنے قریبی خاندان اور عشیرہ کو انذار کا فریضہ انجام دو ) کی روشنی میں گھر پھر خاندان پھر سماج کی اصلاح کے لیے قدم اٹھانے ہوں گے۔
دوسری حدیث جو صدیق اکبرؓ سے مروی ہے اس میں شہادت حق کے فریضہ کی اہمیت کو اس کے منفی پہلو کو سامنے رکھ کر جتایا گیا ہے اور حدیث ابن عمرؓ اس جمال اور ابہام کو جس کا ذکر صدیق اکبرؓ فرما رہے ہیں متعین واضح اور دو ٹوک انداز میں بیان فرماکر امت پر روف و رحیم رسول کی رافت و رحمت کا اعلان فرمارہے ہیں۔
امت مسلمہ کی ذلت و محکمومی کا سبب، اس کی نوعیت، اس سے نکلنے اور بچنے کی حکمت و تدبیر سب کچھ حق ادا کردیا گیا۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے اوپر رحم کھائیں اور بنی نوع انسان اور امت مسلمہ کو محکومی و ذلت کے عذاب سے نکالنے کے لیے پھر تجدید عہد کریں اور توبہ نصوح کی بھیک اسی اپنے رب رحیم سے مانگیں جس کی مٹھی میں عزت وذلت اور ہدایت وضلالت کی کنجیاں ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 14 نومبر تا 20 نومبر 2021