’فتح الحمید ‘ مولانا فتح محمد جالندھری کا تفسیری ترجمہ

زبان و بیان اور سلاست و روانی سے بھر پورترجمانی

ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی

 

مولانا فتح محمد جالندھری کے آبا واجداد افغانستان سے نقل مکانی کر کے پہلے رام پور اور پھر پنجاب میں آباد ہو گئے تھے۔ مولانا روہیلوں کے یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا جالندھری ٹانڈا ضلع ہوشیار پور میں۱۸۶۴ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شاہ محمد خان جالندھر میں ملازمت کرتے تھے اس لیے آپ کی پرورش بھی جالندھر ہی میں ہوئی۔ مولانا موصوف کی ذاتی زندگی کے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں ۔معروف شاعر حفیظ جالندھری نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ ’’میں نے آپ کے حالات فراہم کرنے کی کوشش کی لیکن مجھے ناکامی ہوئی کیونکہ جالندھر میں بھی جو میرا وطن ہے بہت کم لوگ ہیں جو آپ کے ذاتی حالات سے کما حقہ واقف ہوں۔‘‘(۱)
۱۹۳۸ء میں لاہور کے ایک بڑے پریس عطر چند اینڈ کپور سنز نے مولانا جالندھری سے پرائمری، مڈل اور اعلیٰ درجات کے لیے اردو فارسی گرامر کی کتب تصنیف کروائی تھیں جن کا شمار معیاری کتب میں ہوتا تھا۔ ان کی ایک کتاب ’مبادی القواعد‘ (اردو قواعد کا ابتدائی رسالہ) جسے اس وقت محکمہ تعلیم پنجاب نے اپر پرائمری جماعتوں کے لیے نصاب کے طور پر شامل کیا تھا۔مولانا کی دوسری کتاب ’افضل القواعد‘ جو اردو قواعد پر مشتمل تھی اسے بھی پرائمری جماعتوں کے نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔ مولانا کی تیسری کتاب ’مصباح القواعد‘ کافی معروف ہوئی، ایک اور کتاب ’منہاج القواعد‘ پنجاب یونیورسٹی کے انٹرنس کے نصاب میں شامل تھی۔ اس سے اردو زبان و قواعد پر مولانا کی دسترس کا علم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دینیات پر مولانا کی تصنیف کردہ کتب میں ارشادات القرآن، الاسلام، نفائس القصص والحکایات، الیاقوت المرجان، نفیس تحفہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
مولانا فتح محمد جالندھری کی سب سے اہم خدمت ان کا ترجمہ قرآن ہے۔ مولانا کا ترجمہ قرآن پہلے پہل ۱۹۰۰ء میں امرتسر سے ’فتح الحمید‘ کے نام سے شائع ہوا۔ مولانا کسی فقہی، کلامی گروہ سے وابستہ نہیں تھے اس لیے ان کا ترجمہ قرآن تمام مسلمانوں میں یکساں مقبول اور متداول ہے۔ ترجمہ قرآن کے سبب کے متعلق مولانا نے دیباچہ میں لکھا ہے: ’’میرے دل میں تو کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا تھا کہ قرآن مجید کا بالاستیعاب ترجمہ کردوں، مگر چونکہ یہ سعادت میری قسمت میں لکھی تھی اس لیے ارشادات القرآن اور نفائس القصص والحکایات کا شائع ہونا تھا کہ سخن شناسان اہل ذوق نے تمام قرآن کا ترجمہ کردینے کی فرمائش کردی‘‘۔(۲) اپنے ترجمہ کے متعلق مولانا جالندھری لکھتے ہیں: ‏’’ہم ان تمام صاحبوں کو یقین دلاتے ہیں جو شاہ صاحب کے ترجمہ کے دلدادہ ہیں کہ ہم نے اسے اس درجہ سہل سلیس اور بامحاورہ کر دیا ہے کہ زبان کے لحاظ سے جو جو خوبیاں ترجمے میں ہونی چاہیے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ شاہ صاحب کا ترجمہ اگر مصری کی ڈلیاں ہیں تو یہ ترجمہ شربت کے گھونٹ۔ نہایت آسان، سریع الفہم کہ پڑھتے جائیے اور سمجھتے جائیے‘‘‏۔(۳) وقت گزرنے کے ساتھ زبان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ اسی سبب سے دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے اس ترجمہ کو مزید آسان، سلیس اور بامحاورہ کر کے ازسر نو طبع کیا۔ ریڈیو پاکستان نے اسے اپنے ترجمہ کے طور پر منتخب کیا اور جب صوت القرآن شروع کیا گیا تو اس کے لیے اسی ترجمہ کو منتخب کیا گیا۔
تاریخی شواہد کے مطابق آپ نے اس ترجمہ کو ڈپٹی نذیر احمد ترجمہ قرآن سے استفادہ کر کے مکمل کیا ہے۔ فتح محمد جالندھری کا یہ ترجمہ مابعد آزادی پاکستان میں بغیر عربی متن کے ’نورِ ہدایت‘ کے نام سے چھپا ہے۔ اس میں شاہ عبدالقادر کی موضح قرآن سے جا بجا حواشی شامل کیے گئے ہیں۔ مولانا اپنے ترجمہ قرآن کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’اس ترجمے میں جس امر کی زیادہ تر کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ سہل، سلیس اور بامحاورہ ہو اور اس کے ساتھ مطالب قرآنی صحیح ادا ہوں، حق یہ ہے کہ قرآن مجید کا شستہ اور شگفتہ اور لطیف اور شیریں اور دلنشیں اور اعلیٰ اور اولی ترجمہ کرنا جوئے شیر کا لانا ہے اور میں نے جہاں تک میرا امکان میں تھا اسی طرح کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ زبان ایسی اختیار کی گئی ہے جو شایانِ شان کلام ذوالجلال والاکرام ہو۔ صحت کے لحاظ سے اگریہ ترجمہ معتبر تفاسیر سے جانچا جائے گا تو کسوٹی پر کسا ہوا سونا نظر آئے گا۔ ہم ان تمام صاحبوں کو جو شاہ علیہ الرحمہ کے ترجمہ کے دلدادہ ہیں یقین دلاتے ہیں کہ جو روش اس ترجمہ میں اختیار کی گئی ہے اس میں زبانِ حال کی شستگی، زبان کے لحاظ سے جو جو خوبیاں ترجمے میں ہونی چاہیں وہ سب اس میں موجود ہیں۔‘‘(۴)
مولانا جالندھری نے یہ ترجمہ قرآن عوامی ذہن کے مطابق سلیس، آسان اور عام فہم اردو زبان میں کیا ہے۔ انہوں نے اردو میں ہندی اور سنسکرت کے مستعمل الفاظ کے بجائے عربی وفارسی کے زیادہ زیادہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ترجمہ قرآن اپنے دور سے لے کر آج تک مسلسل مشہور ترین ترجمہ قرآن سمجھا جاتا رہا ہے۔
علمائے کرام نے اس ترجمہ کو کافی سراہا ہے۔ چند ایک کی آراء کو یہاں نقل کیا جارہا ہے:
مولانا مفتی کفایت اللہ صدر جمیعت العلماء ہند دہلی نے لکھا ہے:
’’قابل مترجم نے قرآن مجید کا مفہوم ادا کرنے میں سلف صالحین کے مسلک کا اتباع کیا ہے اور ترجمہ کو بامحاورہ، مطلب خیز، عام فہم بنانے کے باوجود الفاظِ قرآنیہ کی پوری رعایت رکھی ہے اور توضیحاتِ تفسیریہ کی غرض سے بین القوسین عبارتیں بڑھانے سے حتی الامکان اجتناب کیا ہے؛ الغرض یہ ترجمہ اپنے محاسن کے لحاظ سے ایک ممتاز درجہ رکھتا ہے‘‘۔(۵)
مالک دارالاشاعت پنجاب لاہور مولانا سید ممتاز علی فرماتے ہیں:
’’زبان کی نفاست، سلاست اور متانت جو اس ترجمہ میں ہے وہ اوروں میں نہیں۔ مصنف نے جس قدر عرق ریزی اس کے بامحاورہ اور معنی خیز کرنے میں کی ہے اس سے زیادہ اہتمام اس کی صحت میں کیا ہے یعنی ایک ایک لفظ معتبر اور مستند تفاسیر کی کسوٹی پر پرکھ کر لکھا ہے۔ غرض یہ ترجمہ تمام موجودہ تراجم سے ممتاز ہے‘‘۔(۶)
پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم عثمانی مولانا جالندھری کے ترجمہ پر اس طرح رقم طراز ہیں:
’’ان کا ترجمہ قرآن مجید با محاورہ ہونے کے ساتھ ساتھ مستند سمجھا جاتا ہے اور امت مسلمہ کے تمام فرقوں کے لیے قابل قبول ہے‘‘۔(۷)
مولوی خواجہ حسن نظامی نے اس ترجمہ قرآن کے بارے میں اپنے خیالات اس طرح بیان کیے ہیں:
’’جناب فتح محمد خان جالندھری کا ترجمہ قرآن مجید میں نے پڑھا۔ یہ ترجمہ مزے دار اردو میں ہے یعنی جس زبان میں چٹخارے نہ ہوں۔ نہایت سنجیدہ، شائستہ اور عام فہم صاف سلیس زبان میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفہومِ قرآنی کو اردو کے بہت سارے تراجم کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح ادا کرتا ہے۔ جو لوگ زبان کے چٹخارے کو پیشِ نظر رکھتے ہیں وہ بعض اوقات ایسی غلطی کر جاتے ہیں کہ منشائے قرآنی بدل جاتا ہے اور قرآن کا سنجیدہ لہجہ عامیانہ شکل اختیار کرلیتا ہے۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑا عیب ہے۔ قرآن مجید کی شان و متانت ترجمے میں باقی رکھنی چاہیے جو اس ترجمہ میں موجود ہے۔ جہاں تک متن قرآنی کی شان اردو ترجمہ میں آسکتی ہے مترجم نے کوشش کی ہے کہ اردو کے صحیح محاوروں میں اس کو ادا کرے۔ خطوطِ وحدانی کا بہت کم استعمال کیا ہے ان اعتبارات سے اس ترجمہ کو بہت پسند کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تمام مسلمان اس پڑھیں اور اپنی عورتوں اور بچوں کو پڑھائیں‘‘۔
‏(۸) مولانا فتح جالندھری کا ترجمہ فتح الحمید یہ تفسیری ترجمہ ہے جسے لفظی ترجمہ قرآن سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ عربی متن سے قریب ترین ترجمہ کیا ہے جس سے مفہوم کی ادائیگی بھی ہوتی ہے۔ کہیں کہیں قارئین کو سمجھنے کے لیے قرآنی الفاظ کی تشریح قوسین میں زائد الفاظ سے بھی کی ہے۔
اس ترجمہ کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں ہندی اور سنسکرت الفاظ کے بجائے اردو زبان میں مستعمل عربی اور فارسی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مولانا نے قرآنی اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کے بجائے انہیں جوں کا توں رکھ دیا ہے جو ترجمہ کا ایک اہم اصول بھی ہے البتہ جہاں ابہام کا خدشہ ہو وہاں اس کی وضاحت کر دی ہے۔ اس طرح مولانا نے ترجمہ کے بعض اصولوں کی سختی سے پابندی کی ہے۔ اس ترجمہ کو ہوئے ایک سو بیس (۱۲۰) سال ہو رہے ہیں اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ برسوں میں کیا گیا ترجمہ ہے۔
ہر ترجمہ کی طرح بعض کمیاں اس ترجمے میں بھی نظر آتی ہیں مثلاً ‘اللہ’ کا ترجمہ ہر جگہ ‘رب’ کیا گیا ہے جو کہ اللہ تعالٰی کی الوہیت کے تمام معانی کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح سورہ فیل میں ’طیراً ابابیل’ کا ترجمہ‘جھلڑ کے جھلڑ جانور’ کیا ہے جب کہ ‘جھلڑ’ اسم جمع کی حیثیت میں مکھیوں کے لیے مستعمل ہے۔ جھلڑ کی بجائے ’جھنڈ کے جھنڈ‘ آسان اور عام فہم ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ دوسری طرف ‘طیراً ’ کا ترجمہ جانور کیا ہے جبکہ بیشتر مترجمین نے پرندے یا چرند پرند کیا ہے۔ ’بقرہ‘ کا معروف ترجمہ تقریباً مترجمین نے گائے کیا ہے لیکن مولانا جالندھری غالبًا واحد مترجم ہیں جنہوں نے ’بیل‘ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس ترجمہ میں مولانا نے بعض ایسے الفاظ کا استعمال کیا ہے جو پہلے اردو میں مستعمل نہیں تھے۔
حوالے:
۱۔ مخزن،اپریل ۱۹۲۸ء، لاہور
۲۔ مولانا فتح محمد جالندھری ،دیباچہ،ترجمہ ’فتح الحمید۔ قرآن مجید ترجمہ جدید، تاج کمپنی لاہور، ۱۳۵۴ھ
۳۔ حوالہ بالا
۴۔ حوالہ بالا
۵۔ بحوالہ، قرآن حکیم کے اردو تراجم۔ ڈاکٹر صالحہ اشرف ۔ص۔۶۳۔۲۶۲
۶۔ ایضاً،ص۔۲۶۳
۷۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم عثمانی ،اردو میں تفسیری ادب پر ایک تاریخی تجزیاتی جائزہ، ص۔۳۳
۸۔ مولانا فتح محمد جالندھری، دیباچہ،ترجمہ ’فتح الحمید۔ قرآن مجید ترجمہ جدید، تاج کمپنی لاہور، ۱۳۵۴ھ
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021