غیرسرکاری تنظیموں پر کستا شکنجہ
’’ایف سی آر اے میں ترمیم ہندوستان کے بین الاقوامی عہد وپیمان اور آئینی شقوں کی خلاف ورزی ہے‘‘ : انٹرنیشنل کمیشن آف جیوریسٹ
تحریر: ارشد شیخ
مترجم: جاوید اختر
غیر ملکی عطیہ (ریگولیشن) ترمیمی بل 2020 کو 20 ستمبر کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور سلیکٹ یا اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کیے بغیر اگلے 72 گھنٹوں کے اندر پاس بھی کر دیا گیا۔ بل میں ترمیم سے ہندوستان کی غیر سرکاری تنظیمیں حیرت زدہ اور پریشان بھی ہیں۔ VANI یعنی وولینٹری ایکشن نیٹ ورک انڈیا نے اس بل کو "این جی او کی ترقیاتی امداد، سائنسی تحقیق اور معاشرتی مدد کے کام کو موت کا ضربہ” قرار دیا ہے۔ VANI کا الزام ہے کہ ’’یہ بل باہمی تعاون کے اس جذبے کا گلا گھونٹنے کا کام کرتا ہے جو لاک ڈاؤن میں غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے دیکھنے کو ملا تھا‘‘
2016 تک ہندوستان میں 33 لاکھ غیر سرکاری تنظیمیں چل رہی تھیں۔ 2019 تک صرف 22 ہزار (1فیصدسے بھی کم) این جی اوز نے ایف سی آر اے کے تحت اپنا اندراج کروایا اور غیر ملکی فنڈز وصول کیے۔ اس دوران 98 فیصد نے حکومت کے لازمی ضوابط کی پاسداری کی۔ اس بل کو پاس کیے جانے سے پہلے غیر سرکاری تنظیموں کو غیر ملکی فنڈنگ کے لیے ایف سی اے 2010 کے ضوابط کی پاسداری کرنا پڑتی تھی۔ اس بل میں دو بار ترمیم کی گئی ہے۔ پہلی ترمیم فائنانس ایکٹ 2016 کے سیکشن 236 کے تحت کی گئی تھی جبکہ دوسری ترمیم فائنانس ایکٹ 2018 کے سیکشن 220 کے تحت کی گئی۔ آخر ایف سی آر اے 2010 میں حکومت کو ترمیم کی کیا ضرورت تھی اور نئی پابندیوں کے تعلق سے این جی اوز واویلا کیوں مچا رہے ہیں؟
نگراں کار کے طور پر این جی اوز کا رول غیر ملکی فنڈ حاصل کرنے والے این جی اوز پر حکومت شکنجہ کیوں کس رہی ہے اس کو سمجھنے کےلیے ہمیں ملک میں کام کرنے والی مختلف طرح کی غیر سرکاری تنظیموں کے درمیان تفریق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
این جی اوز کی ایک قسم (جسے ہم پلین ونیلا کہہ سکتے ہیں) عام روایتی غیر سرکاری تنظیمیں ہوتی ہیں جو گاؤں اور قبائلی علاقوں میں جاکر عوام کے ساتھ مل کر صحت، تعلیم اور سرکاری اسکیموں پر کام کرتی ہیں۔ دوسری قسم کی این جی او ’’ایکٹویسٹ‘‘ این جی اوز کہلاتی ہیں۔ اس طرح کی تنظیمیں حکومت کے مد مقابل ہوتی ہیں اگر حکومت آئین کے بیان کردہ راستے سے ہٹ جاتی ہے یا پھر اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ لیتی ہے تو ایکٹویسٹ این جی اوز حکومت کے کام کاج میں شفافیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور پسماندہ طبقات کو حقوق کو بحال کرنے کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔
وہ عام طور پر حکومت کی ان پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں جنہیں وہ عوام دشمن یا غیر جمہوری سمجھتے ہیں اور قانونی چارہ جوئی احتجاج اور میڈیا کے ذریعہ انہیں حکومت کی غلط پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فطری طور پر کوئی بھی حکومت ایسی مخالفت اور جارحانہ احتساب کی حوصلہ افزائی کو برداشت نہیں کرے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان فنڈز کو ایسی ترمیم کے ذریعہ باقاعدہ کرنے کی ضرورت ہے جو اسے لگتا ہے کہ وہ ایسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جو ’قومی مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں‘۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 2010 اور 2019 کے درمیان غیر سرکاری تنظیموں کی غیر ملکی فنڈنگ میں دو گنا اضافہ ہوا اور لازمی تقاضوں کی تعمیل نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو مجبوراً 19 ہزار سے زیادہ غیر سرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن کو منسوخ کرنا پڑا۔
ایف سی آر اے کے سخت ضوابط
ایف سی آر اے 2020 میں ہونے والی ترمیم کے تحت انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں، ایڈیٹر یا کسی اخبار کے پبلشر، ججوں، سرکاری ملازمین، ارکان قانون ساز اسمبلی اور سیاسی جماعت کے ممبروں کو کسی بھی شکل میں غیر ملکی فنڈ حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے، خواہ وہ نقد، سیکیورٹی ہو یا ایک طے شدہ قیمت سے باہر ہو۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازم (جیسے کوئی بھی فرد جو حکومت کی خدمت میں ہے یا تنخواہ یافتہ ہے جو کسی عوامی فرائض کی انجام دہی کے لیے حکومت کی طرف سے معاوضہ حاصل کررہا ہو) بھی غیر ملکی فنڈ سے فائدہ اٹھا نہیں سکتا۔ اس بل میں ایک اور اہم ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت این جی اوز کے تمام عہدیداروں یا ڈائریکٹر یا دیگر اہم عہدیداروں کے آدھار دستاویزات کو جمع کروانا لازمی ہوگا۔ اس نئی ترمیم کے مطابق ’’ہر وہ فرد جس کو سیکشن 12 کے تحت سرٹیفکیٹ یا اس سے قبل اجازت مل گئی ہو وہ بینک کے ذریعہ صرف نامزد کردہ ’ایف سی آر اے اکاؤنٹ‘ میں غیر ملکی فنڈ حاصل کرسکتا ہے‘‘ جو اسے غیر ملکی فنڈ کے مقصد کے لیے دلی کے ایس بی آئی بینک میں کھاتہ کھلوانا ہوگا۔
فیلڈ ورک کو انجام دینے کے لیے این جی اوز کے ذریعہ چھوٹے یا فیڈر این جی اوز کو فنڈ منتقل کرنے پر بھی شکنجہ کسا گیا ہے۔
ترمیم کے مطابق: ’’کوئی بھی فرد (اے) جسے اس ایکٹ کے تحت سرٹفکیٹ یا اجازت ملی ہے (بی) یا جو غیر ملکی فنڈ حاصل کر رہا ہو وہ کسی دوسرے فرد کو اس فنڈ سے پیسہ ٹرانسفر نہیں کرسکتا ہے‘‘۔ اس سے قبل این جی اوز کو انتظامی امور پر 50 فیصد تک خرچ کرنے کی اجازت تھی جسے ایف سی آر اے 2020 کے تحت صرف 20 فیصد کردیا گیا ہے۔ ان نئی ترامیم کی وجہ سے این جی اوز کے کام کاج پر برا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔
نئی پابندیوں کے ممکنہ نتائج
انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم آئی سی جے (انٹرنیشنل کمیشن آف جیوریسٹ) کے مطابق ’’یہ قانون ہندوستان کے اس بین الاقوامی عہد وپیمان اور آئینی شقوں کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ایک ساتھ جمع ہونے اور اظہار آزادی اور تشکیل مجلس کی آزادی کے حقوق کا احترام اور تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری تھی۔ اس سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہونگی‘‘۔ آئی سی جے لیگل اینڈ پالیسی ڈائریکٹر، ایان سیئڈرمین کہتے ہیں: ’’پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بل پیش کرنے کے صرف چار دن بعد بغیر کسی اسٹیک ہولڈر کی مشاورت کے منظور کرلیا گیا۔ اس جلد بازی سے قانون سازی انسانی حقوق کو واضح طور پر مجروح کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں سول سوسائٹی و دیگر جمہوری اداروں کے کام کاج کو غیر مستحکم کرنے کی حکومت کی ایک اور کوشش ہے۔ اس بل کا مقصد ہے کہ کچھ این جی اوز کو بدنام کیا جائے اور ان آمرانہ آوازوں کو مزید تقویت بخشی جائے جو اِن پر ’ملک دشمن‘ کہتے ہوئےحملہ کرچکے ہیں۔ بدقسمتی سے اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ سول سوسائٹی سے جڑی کئی تنظیمیں صرف ایف سی آر اے کے ڈر سے عطیہ دہندگان سے فنڈ لینے سے گریز کریں گی۔ حالانکہ انہیں اس بات کا پتہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ فنڈز نئے قانون کی خلاف ورزی ہیں بھی یا نہیں۔ یہ وسائل غیر سرکاری تنظیموں کے کام کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے بھی اہم ہیں۔
انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس کی ایک ایڈیٹوریل (2 اکتوبر) کے مطابق: ’’ہندوستان، روس کی صف بندی کر کے ان مذموم ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جہاں ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ کے کام کاج بند ہوچکے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعویٰ ہے کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعہ ان کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کی وجہ سے انہیں ہندوستان میں اپنا آپریشنز بند کرنا پڑا۔ وہیں وزارت داخلہ کی جانب سے ایمنسٹی انٹرنیشنل پر فنڈز میں دھاندلی کرنے کا الزام حکومت اور سول سوسائٹی تنظیموں کے درمیان شدید اعتماد کی کمی کو اجاگر کرتا ہے۔
ایف سی آر اے ایک ہنگامی دور کا قانون ہے۔ 1976 میں اسے سیاسی جماعتوں، انتخابی امیدواروں، ججوں، اخباروں کے پبلشروں، کارٹونسٹ کی غیر ملکی فنڈنگ کو ’باقاعدہ‘ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ مرکز حکومت ’من گڑھت کہانیاں‘ بنا کر غیر سرکاری تنظیموں کی ترقیاتی سرگرمیوں کو متاثر کرنا چاہتی ہے‘‘
حج اور انکم ٹیکس ریٹرن کا معاملہ
ایک ہفتہ قبل ہی یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک انکم ٹیکس کے ضوابط کے مطابق وہ غیر ملکی دورے جس میں دو لاکھ روپے سے زیادہ کی لاگت آئے انکم ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات فراہم کرنا لازمی ہوگا جس میں زائرین بھی شامل ہونگے۔ اس سے عازمین حج پر اضافی بوجھ پڑے گا اور بہت سے افراد کو سفر حج پر جانے سے حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس سلسلے میں حج کمیٹی کے سی ای او نے وزارت اقلیتی امور سے رجوع کیا ہے جس نے اس معاملے پر ہمدردانہ موقف پیش کیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وزارت اقلیتی امور نے اس کے متعلق وزارت خزانہ سے رجوع کیا ہے اور امید ظاہر کی کہ سفر حج کو اسے مستثنیٰ رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ اس سے قبل 1998 میں سفرحج اور مانسروور یاترا پر فیصلہ کیا گیا تھا۔ حج ٹور آپریٹرز کا کہنا ہے کہ بیشتر عازمین حج اپنی زندگی بھر کی کمائی سے جمع کی ہوئی رقم کو لے کر سفرحج پر نکلتے ہیں۔ اس مسئلے کو ابھی تک میڈیا میں خاطر خواہ کوریج بھی نہیں ملی ہے لیکن امید ہے کہ بہت جلد اس کا حل خوش اسلوبی سے نکالا جائے گا۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020