ظہیر للت پوری
ہندوستان میں سرکاری تعلیمی ادارے، اسکول کالج، یونیورسٹی نیز تعلیمی پالیسی ہمیشہ نقادوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ اس بار تنقید کی وجہ ’’نہ کوئی فیل نہ پاس، ہر سال اگلی کلاس‘‘ کا فارمولا ہے۔ ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی حکومت کے مطابق ریاستی بنیادی تعلیمی بورڈ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں درجہ ایک سے آٹھ تک کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو امسال بھی بنا امتحان کے اگلی کلاس میں بھیج دیا جائے گا۔ کئی دیگر ریاستوں کی حکومتوں کے بنیادی تعلیمی ادارے ایسے ہی فیصلے لے چکے ہیں۔ میقات 2020-21 میں عالم گیر وبا کووڈ-19 پھیلنے سے قریب دس ماہ تعلیم متاثر رہی۔ بچوں کی پڑھائی لکھائی کا کام تقریباََ ٹھپ رہا۔ مارچ 2020 تا مارچ 2021 پورے سال سرکاری پرائمری اسکول بند رہے۔ آن لائن پڑھائی کی پالیسی بھی کامیا ب نہیں ہو سکی اور اسکولی آف لائن تعلیم کی کمی کی بھرپائی نہیں کر پائی۔ تاہم یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرکار کی یہ پالیسی بچوں کی پڑھائی کے نقصان کو کیسے پورا کرے گی۔ تمام کوششوں کے بعد بھی تعلیمی بحران سے نمٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ یونیسف (UNICEF) نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ ایک سو اڑسٹھ ملین طالب علموں کا مستقبل کورونا وبائی بحران کی وجہ سے اندھیرے میں ہے۔ بچوں اور ماؤں کی صحت و تعلیم کو بہتر بنانے میں دنیا کے ممالک، خاص کر ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو امداد پہنچانے والی اقوام متحدہ کی اہم ترین ایجنسی کا یہ انکشاف نہایت قابل غور اور تشویش ناک ہے۔ پچھلے دنوں یونیسیف کے فیس بک اکاونٹ پر ’’ A tragedy for the future of humankind.” کے عنوان سے یو این سکریٹری جنرل انٹونیو گٹریس کے حوالے سے ایک پوسٹ پڑھنے کو ملی جس میں انہوں نے تعلیمی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ COVID-19 کی وجہ سے 168 ملین طالب علموں کا ایک سال ضائع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نسلی تباہی پہلے سے جھیل رہے ہیں اس لیے اسکولوں کا پھر سے کھلنا اور اچھی طرح کھلنا بہت ضروری ہے۔
در حقیقت بچوں کا مستقبل بلکہ انسانیّت کے مستقبل کو بچانے کے لیے تعلیمی نظام کو دوبارہ پٹری پر لانے اور صحیح طریقے سے چلانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صورت حال ساری دنیا کی ہے۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ بچوں کی زندگی کے دو سال کو بچانے کے لیے کیا ’’نہ کوئی فیل نہ پاس، ہر سال اگلی کلاس‘‘ کا فارمولا ٹھیک رہے گا؟
ہندوستان کی ایک چھوٹی سی بستی سے لے کر دنیا کے بڑے سے بڑے شہروں میں تعلیمی صورت حال تقریباً یہی ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومتیں کوششیں تو کر رہی ہیں لیکن یہ کوششیں سود مند ہوں گی یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ درجہ ایک سے آٹھ تک کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو امسال بھی بغیر امتحان کے اگلی کلاس میں بھیجنے کی جو اسکیم بنائی گئی ہے اس سے ملک کے بہت سارے دانشور اتفاق نہیں رکھتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کے اس عمل سے تعلیمی معیار پر اثر نہیں پڑے گا؟ کیا اس سے بچوں کو اعلیٰ درجات میں جا کر پڑھائی کرنے میں پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ اتنا ہی نہیں بلکہ مستقبل میں باصلاحیت اور قابل افراد کی کمی کا بحران بھی سامنے آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
چنانچہ ریاستی بنیادی تعلیمی بورڈ اتر پردش کے اس فیصلے پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ بچوں کو بنا امتحان کے اگلی کلاس میں بھیجنے سے نہ کسی طالب علم کو فائدہ ہے نہ ملک کو۔ اس سلسلے میں دانشورں، سوشل ورکروں، صحافیوں اور عام پڑھے لکھے لوگوں نے بھی تشویش کا ہی اظہار کیا ہے۔ میں نے کئی سمجھ دار لوگوں سے بات کی تو ان میں سے زیادہ تر کی رائے میں آن لائن پڑھائی آف لائن پڑھائی سے مسابقت نہیں کر سکتی اور بغیر امتحان کے اگلی کلاس میں بھیجنے سے بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ میرے ضلع للت پور کی ایک انٹر کالج کے ریٹائرڈ پررنسپل کیپٹن اشوک شریواستو نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ تعلیم کا مقصد جسم کا ارتقا نہیں ہے بلکہ جسم کے ساتھ روحانی طاقت میں بھی اضافہ مقصود ہے‘‘ تاہم تعلیم کا مقصد ’’جسم، دماغ اور روح کی ہم آہنگی ترقّی‘‘ اگر حاصل نہیں ہوتا ہے تو تعلیم ادھوری ہے اور آنے والی نسل کے لیے فائدہ بخش نہیں۔ اتر پردیش کی ایڈیشنل چیف سکریٹری، تعلیم رینکا کمار کے حوالے سے مطلع کیا گیا ہے کہ فی الحال ’’پریرنا گیانونسو‘‘ پروگرام سے گزشتہ میقات 2019-20 میں بھی اسی طرح اگلی کلاس میں بچوں کو پرموٹ کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ جو اسٹوڈنٹ گزشتہ میقات 2019-20 میں پہلی کلاس میں تھا وہ امسال بغیر کسی امتحان کے تیسری کلاس میں پہنچ جائے گا چاہے اسے کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ جواسٹوڈنٹ 2019-20 میں چھٹی کلاس میں تھا وہ امسال اٹھویں کلاس میں اور ساتویں کلاس کا نویں میں بغیر پاس ہوئے پہنچنے والا ہے۔ پہلوان گردین ڈگری کالج للت پور کے ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ (HOD) پروفیسر رفاہ پروین کے مطابق بنیادی درجات میں بغیر امتحان کسی بچہ کو اگلی کلاس میں بھیجنے سے اس کی بنیاد کمزور رہے گی جس کی وجہ سے اسے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں نیز کیریر اور نوکری کے لیے مرکزی و ریاستی سطح پر منعقد ہونے والے مختلف مسابقتی امتحانات جیسے آئی اے ایس، پی سی ایس، آئی ایس ایس، نیٹ، جے ای ای وغیرہ میں کامیاب ہونے کے لیے بہت محنت کرنی پڑے گی۔
***
یونیسیف (UNICEF) نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ ایک سو اڑسٹھ ملین طالب علموں کا مستقبل کورونا وبائی بحران کی وجہ سے اندھیرے میں ہے۔ بچوں اور ماؤں کی صحت و تعلیم کو بہتر بنانے میں دنیا کے ممالک، خاص کر ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو امداد پہنچانے والی اقوام متحدہ کی اہم ترین ایجنسی کا یہ انکشاف نہایت قابل غور اور تشویش ناک ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا 10 اپریل 2021