عہد ساز انقلابی مفکرعلامہاقبالؒ کی نظم نگاری

حب الوطنی اور مناظر فطرت کی عکاس نظموں میں عالمگیر اخوت کا درس پنہاں

سید احمد سالک ندوی ، بھٹکل

علامہ اقبال محض ایک شاعرنہیں تھے بلکہ ایک عہد ساز انقلابی مفکر اور نہایت حساس و راست گو انسان تھے۔ ان کی شخصیت، شاعری، فکر، فلسفہ تخلیقات وغیره پراب تک ایک دو نہیں سیکڑوں کتابیں تصنیف کی جا چکی ہیں ان کی شخصیت اس سے کہیں زیادہ تحقیق و جستجو کا تقاضہ کرتی ہے۔قبل اس کے کہ اقبال کی نظم گوئی پر کچھ لکھوں مناسب سمجھتا ہوں کے مختصراً علامہ کے حالات زندگی تحریر کروں۔
علامہ اقبال 1876 کو سیالکوٹ کے برہمن خاندان کے کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی پھر مولانا غلام حسین کی درسگاہ میں مولوی میر حسن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔میر حسن کی تعلیم و تربیت کے گہرے اثرات اقبال کی شخصیت پر مرتب ہوئے اقبال نے ان کے پاس دینی اور دنیوی علوم حاصل کیے پھر وقفہ وقفہ سے تعلیم کے مختلف مراحل کی تکمیل کی ۔ 1893کو اقبال ازدواجی بندھن میں بندھ گئے ۔انہوں نے گجرات کے ایک خوشحال گھرانے کی معزز خاتون سے شادی کی ۔تعلیمی زندگی کے ابتدائی دورسے لے کر کالج کی زندگی تک کے تمام مراحل کو اقبال نے امتیازی نمبرات سے پاس کیا۔ انہی دنوں شاعری کی شروعات ہوئی۔ اس زمانے کے ممتاز شعراء بالخصوص ارشد گورگانی نے ان کی شاعری کو بہت سراہا۔ اسی طرح اقبال نے عظیم المرتبت شعراء سے دادتحسین حاصل کی ، داغ دہلوی سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ اقبالؔ، داغؔ کواپنا استاذ مانتے تھے جس کا اظہار انہوں نے داغ کے انتقال پر لکھے ایک مرثیہ میں اس طرح کیا ہے۔
’ مجھے بھی فخر ہے شا گردی داغِؔ سخن داں کا‘
دوسری جگہ کہا
’تو بھی رو! ائے خاکِ دلی داغ ؔکو روتا ہوں میں ‘
اقبال نے مختلف مراحلِ حیات میں ایم اے کا امتحان نہ صرف یہ کہ پاس کیابلکہ ان کی امتیازی کامیابی پر انہیں طلائی تمغہ بھی حاصل ہوا۔ 1907 کو ایران کی میونک یونیورسٹی میں مابعد الطبعیات کے ارتقا پرایک ضخیم مقالہ لکھنے کی وجہ سے ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری سے سرفراز کیا گیا ۔ اسی دوران انہوں نے جرمنی سے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا اور 1934 تک وکالت کرتے رہے۔ 1926 میں لیجسلیٹیو کونسل کے ممبر منتخب کیے گئے۔عمر کے آخری تین سال بیمار رہے اور 21 اپریل 1938 کو اس دنیا سے چل بسے ۔
یہ اقبال کی شخصیت سے متعلق کچھ باتیں تھیں۔ جب ہم ان کی ادبی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں تو نثر و نظم دونوں ہی میدانوں میں ان کے نمایاں کا رنامےملتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر کی شخصیت اس کی تخلیقات میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اقبال کی تخلیقات میں ان کی شخصیت اس قدر نمایاں ہے کہ ان کو سامنے رکھ کر ان کی زندگی کے حالات اور ان کے افکاروخیالات کو بڑی خوبی کے ساتھ ترتیب دیا جا سکتا ہے ۔
اقبال کی نظم نگاری : نظم نگاری ایک مستقل فن ہے اور اقبال کی نظم نگاری اپنے وسیع معنی میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔
نظم کے معنی : نظم کے لغوی معنی آراستہ کرنے کے ہیں ۔ جبکہ اصطلاح میں اس موزوں کلام کو نظم کہتے ہیں جس کو کہنے والے نے غور وفکر سے مقررہ اوزان میں ڈھالا ہو۔ بالفاظ دیگر چند اشعار کے ایسے مجموعہ کو نظم کہتے ہیں جس میں جذبات یا خیالات تسلسل کے ساتھ پیش کیے گئے ہوں۔
نظم نگاری کی ابتداء: نظم نگاری کا آغاز تو دکنی عہد میں ہوا لیکن 1857ء کے بعد اس کی ترویج واشاعت کے لیے شعوری کوشش ہوئی، بیسویں صدی کے آغاز میں جدید نظم کو استحکام ملا۔
نظم نگاری کا ارتقاء اور اقبال کی نظم گوئی
پہلی جنگ عظیم کے بعد اردو نظم کو ہندوستانی تہذیب کی رنگا رنگی کا ترجمان بنایا گیا۔ چونکہ اقبال کو شاعری کاشوق بچپن سے تھا اور ابتدا غزل سے کی تھی مگر نظم نگاری پر بھی ان کی طبیعت مائل تھی۔ نظم گوئی کے لیے اقبال نے مشرقی و مغربی علوم و فنون کے مشاہیر اساتذہ کے خیالات سے استفادہ کیا۔ ان کی شاعری ہرعمر کے لوگوں کے لیے ایک پیغام رکھتی ہے ۔
ادب اطفال اور اقبال کی نظم گوئی:
علامہ اقبال نے بچوں کے لیے بے شمار نظمیں لکھیں، اکثر و بیشتر نظمیں جو بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں وہ انگریزی شعراء کے خیالات سے مستعار ہیں۔ جیسے ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ ’’ماں کا خواب‘‘ ’’گائے اور بکری‘‘ ’’پہاڑ اور گلہری‘‘ ’’ہمدردی ‘‘وغیره۔ ایسی نظمیں ہیں جو بچوں کی تربیت میں نہایت معاون و مفيدثابت ہوئیں جن میں صاف اور سلیس شعری زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ حسن ادا، جوش بیان، نئی نئی تراکیب، الفاظ کی حسين بندش، نادر تشبیہات و استعارات کابھرپور استعمال ان نظموں میں ہوا ہے ۔ ابتدائی دور کی شاعری قومیت اور وطنیت کے جذبات سے بھری پڑی ہے اس سلسلے میں ’ہمالہ‘ ’’ہندوستانی بچوں کا گیت‘‘ ’’ ترانہ ہندی وغیره قابل ذکر ہیں۔
جذبہ حب الوطنی اور اقبال کی نظم گوئی
اقبال کی بعض نظموں میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ’ہمالہ کا منظر‘ ’ ترانہ ہندی‘ وغیرہ کے مطالعے سے معلوم ہو تا ہے کہ اقبال نےاپنے وطن سے کیسی محبت کا ثبوت دیا ہے ۔ ’’ہمالہ کا منظر ‘‘نظم کا یہ شعر دیکھیے کہ
ائے ہمالہ ائے فصیل کشورِ ہندوستان
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
ترانہ ہندی کا یہ شعرکس قدر حب الوطنی پر دلالت کرتا ہے بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
مناظر فطرت اور اقبال کی نظم گوئی:
مناظر فطرت کی عکاسی میں اقبال کی نظمیں انتہائی عظمت کی حامل ہیں۔ اس سلسلے میں’’بزم قدرت‘‘ ’’عقل و دل‘‘ ’’ایک آواز‘‘ ’’کنار روی‘‘ ’’آفتاب صبح ‘‘ ’چاند اورتارے‘‘ ’’بلاد اسلامیہ‘‘ التجائے مسافر‘‘ ’’سیر فلک‘‘ ’’طلوع اسلام ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔نظم ’’طلوع اسلام‘‘ کا یہ شعر زبان زد خاص وعام ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا شجاعت کا
لیا جا ئے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یورپی ممالک کے سفر کے بعد اقبال کی نظم نگاری کا رنگ
1905 میں علامہ اقبال نے یورپی ممالک کا سفر کیا ۔اس کے بعد ان کی شاعری ایک الگ رنگ و روپ میں ظاہر ہوئی۔ اس دور کی شاعری میں اقبال نے انسانیت کا اعلیٰ تصور پیش کیا، اسلامی اخوت و مساوات، خودی و عزت نفس، رواداری و جذبہ عمل اور مرد مومن کا عالم گیر تصور پیش کیا اور اس موقع پر ان کا جذبہ اور فکر ایک دوسرے سے ایسے گھل مل گئے کہ جدا کرنا ناممکن سا ہو گیا اور یہی چیز ان کی شاعری کی معراج بنی۔
بانگ درا اور ارمغان حجاز کی نظمیں
بانگ درا سے لے کر ارمغان حجاز تک کی نظمیں ایسی ہیں جن میں اقبال نے اپنے فلسفہ خودی اور مرد مومن، تصور عشق و غیره موضوعات پر گفتگوکی۔ جن میں ان کا انداز اورلب ولہجہ مختلف رہا۔ کبھی سادگی ، کبھی جوش ، کبھی اداسی اور کبھی خوشی دیکھنے کو ملتی ہے۔اقبال نے اپنی شاعری میں اپنے احساس اور جذبہ کو کمالِ فن کے ساتھ برتاہے۔ ان کے یہاں خوب سے خوب تر کی تلاش کا احساس ملتا ہے ۔اقبال نے اس کے لیےمشرقی اور مغربی فلسفوں کے علاوہ قرآن حکیم سے بھرپور استفادہ کیا ہے ۔
اقبال کی نظموں میں تشبیہات و استعارات
اقبال کی نظم گوئی پر جب بھی کوئی سنجیدہ گفتگو ہوگی تو ضرور ان کی شاعرانہ خوبیوں کو زیر بحث لایا جائے گا۔ ، شاعر اپنی بات کو حسن تاثیر سے آراستہ کرنے کے لیے نئی تشبیہات واستعارات کا سہارا لیتا ہے۔کبھی کسی اور صنائع کا استعمال کر کے اپنی بات کو مؤثر بناتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں وافر مقدار میں تشبیہات اور استعارات پائے جاتے ہیں جنہیں جاننے کے لیے اقبال کی نظموں کا مطالعہ ضروری ہوجاتا ہے بالخصوص ’’گل رنگین‘‘ ’’گل پژمرده‘‘ ’’ آفتاب صبح ’موج دریا‘ ’ماه نو ‘پیامِ صبح‘ ’صبح کا ستاره‘ ’’اختر صبح ‘‘ ’کلى‘ ’’چاند اور تارے‘‘ ’’دو ستارے‘‘ ’’شبنم اورستارے‘’شعاع آفتاب ‘’’پھول‘‘ ’فلسفہ غم‘ ’قرطبہ‘ ’ساقی نامہ‘ وغیرہ قابل ذکرہیں۔ جن میں تشبیہات اور استعارات بے مقصد نہیں بلکہ مقصدیت کے ساتھ معنویت کےبھی حامل ہیں۔ کسی چیز کے ظاہری حسن سے اقبال کبھی متاثر نہیں ہوئے۔بلبل کی آواز اور طاوس کا رنگ و رقص خواہ کتنا ہی جاذب نظر کیوں نہ ہو اقبال اس کی تقلید کو غیر ضروری سمجھ کر ا س سے نہ صرف دامن بچاتے ہیں بلکہ ارباب عقل و خرد کو اپیل کرنے والا انداز اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں
کربلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ
اقبال نے گہرائی کے ساتھ زندگی کا مطالعہ کیا ہے ،ان کی شاعری میں حرکت و زندگی کا پیام ہے۔ ان میں وطنیت اور قومیت کی محدود فضاوں سے نکل کر عالمگیراخوت و مساوات کا درس ملتا ہے ۔ ’
ضرب کلیم‘ اور ’بال جبرئیل‘ کی نظمیں
’بال جبرئیل‘ اور’ ضرب کلیم‘ میں اقبال نے اپنے افکار وخیالات کے اظہار کے لیے واضح اور دلکش طریقہ اپنایا ہے ۔اس سلسلے میں’تصویر درد‘ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ ’’طلوع اسلام‘‘ ’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ ’ذوق و شوق‘ ’پیرومرید‘ ’لالہ صحراء‘ ’شاہین‘’ لینن خدا کے حضور میں ’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘ ’آزادی نسواں‘ کے عنوان سے لکھی گئیں نظمیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔
شخصی مرثیہ اور اقبال کی نظم گوئی
علامہ اقبال کی شاعری کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اقبال نے پہلی مرتبہ نظم کے سانچے میں شخصی مرثیے لکھے۔جن میں ان کی وسیع النظری،قادر الکلامی، علمی و فکری بصیرت کا خوبصورت اظہار ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ اقبال کی تمام نظموں میں اصلاحی و تعمیری جذبے کا عمل دخل ہے۔ مغربی تہذیب کے مضر اثرات سے احتیاط اور مشرقی اقدار کی اہمیت سب ہی اقبال کے کلام میں موجودہیں۔
ان کی نظمیں ان کی عظمت شان کی طرف نشاندہی کرتی ہیں جو اردو ادب کے لیے غیر معمولی عطیہ ہیں ۔
***

 

***

 یورپی ممالککےسفر کے بعد اقبال کی شاعری ایک الگ رنگ و روپ میں ظاہر ہوئی۔ اس دور کی شاعری میں اقبال نے انسانیت کا اعلیٰ تصور پیش کیا، اسلامی اخوت و مساوات، خودی و عزت نفس، رواداری و جذبہ عمل اور مرد مومن کا عالم گیر تصور پیش کیا اور اس موقع پر ان کا جذبہ اور فکر ایک دوسرے سے ایسے گھل مل گئے کہ جدا کرنا ناممکن سا ہو گیا اور یہی چیز ان کی شاعری کی معراج بنی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021