عہدنبویﷺ:اعتدال اور توازن کا بہترین نمونہ

انتہا پسندی اسلامی مزاج کے خلاف۔عبادات سے لے کر طرز زندگی تک ہر معاملہ میں میانہ روی کی تاکید

ڈاکٹر نثار احمد

اُمت مسلمہ کی شناخت اور اس کی پہچان جہاں اس کے اللہ کے پیغام کے علَم بردار ہونے کی حیثیت سے ہے وہیں اس کا دوسرا اور لازمی وصف قرآن نے أُمَّةٗ وَسَطٗا کے زریں الفاظ میں واضح کیا ہے:
اے نبیؐ! ان سے کہو مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمتِ وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔(البقرہ ۱۴۲۔۱۴۳)
واضح رہے اُمتِ وسط سے مراد ایک ایسی قوم اور انسانوں کا ایک ایسا گروہ ہے جو فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر عدل و انصاف اور توسط اور میانہ روی کی روش پر قائم ہو، اور جس کا تعلق سب انسانوں کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور کسی سے بھی ناحق اور ناروا تعلق نہ ہو۔ اس کے برعکس انتہاپسندی وہ روش ہے جو راہِ وسط کی ضد ہے۔
انتہا پسندی کے الفاظ بجائے خود شدت وحدّت کو ظاہر کرتے ہیں۔ انتہا کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کی آخری حد یا کنارہ۔ کسی دائرے کا آخری گھیرا، کسی صفحے کی آخری لکیر، کسی وسعت کا احاطہ کلُی، خاتمہ، روک یا آخری سرا، جو اسے کسی دوسری حد اور انتہا سے ممتاز وممیز کردے۔حد وانتہا مادی شکل کی بھی ہوسکتی ہے اور معنوی بھی۔ نیز حد وانتہا کے واقعتاٌ دو رُخ ہو سکتے ہیں: ایک کم سے کم یا نیچے کی حد یا آخری لکیر سے گر جانا، اور ایک حد ونہایت یا غایت وانتہا اُوپر کی طرف، حد سے اُوپر گزر جانا، دائرے سے باہر نکل جانا۔ گویا انتہاپسندی کا اصولاً اطلاق زیادہ سے زیادہ یا کم سے کم دونوں صورتوں پر ہو سکتا ہے، یعنی افراط اور تفریط دونوں شکلوں میں۔ ان دونوں انتہاؤں (کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ) کے درمیان یا وسط (بیچ) عدل و قسط اور اعتدال کی منزل ہے۔
روزمرہ کی گفتگو میں جب انتہا پسندی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس میں عُرفاً اور عموماً حد اعلیٰ و بالا کی طرف ہی بڑھ جانے یا گزر جانے کا اشارہ ہوتا ہے، یعنی سیاسی، معاشی، معاشرتی یا مذہبی کسی بھی معاملے میں حد سے آگے بڑھ جانا۔ حد سے آگے بڑھنے کا رجحان ومیلان جسے ہم انتہا پسندی کہتے ہیں، دراصل عدل واعتدال کو خاطر میں نہ لانے اور وسط وقسط ترک کر دینے سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اگرچہ ’انتہا پسندی‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا، تاہم انتہا پسندی کی نمائندگی اور اس کی کیفیت وکمیت کا اظہار دوسرے کئی الفاظ واصطلاحات سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حدِ اعتدال سے آگے بڑھ جانا، یعنی انتہا پسندی دراصل حدود شکنی ہے، ظلم وزیادتی ہے اور اسی کو غُلو کہا گیا ہے، یعنی مبالغہ کرنا، حد سے آگے بڑھنا، جب کہ یہی طغیان، اعتدیٰ، افراط اور عدوان ہے۔ چنانچہ قرآنِ پاک میں یہ نمائندہ الفاظ و اصطلاحات جہاں جہاں پائے جاتے ہیں ان کے سیاق وسباق سے پتہ چلتا ہے کہ انتہا پسندی سے ظلم وزیادتی جنم لیتی ہے، جبر وجور بڑھتا ہے، تشدد وتغلب پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں قتل وغارت گری، فتنہ وفساد پورے معاشرے میں پھیل جاتا ہے جس کا مشاہدہ ہم آج خود اپنے ملک میں آئے دن کرتے رہتے ہیں۔
انتہاپسندی کا رجحان یا رویہ خواہ دینی، دنیوی کسی معاملے میں ہو یا انسانی زندگی کے کسی بھی شعبے میں پایا جائے بہرحال عقل ونقل کسی اعتبار سے پسندیدہ نہیں، بلکہ قابلِ مذمت اور انتہائی خطرناک ہے اور مختلف درجات میں مہلک نتائج کو جنم دیتا ہے۔ انتہاپسندانہ رویہ بنیادی طور پر بے اعتدالی اور بے راہ روی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تاہم اور دوسرے بہت سے اسباب کا بھی اس میں عمل دخل ہوتا ہے، مثلاً بعض لوگ طبعاً انتہا پسندانہ طبیعت لے کر پیدا ہوتے ہیں اور انتہا پسندی ان کی سرشت میں ہوتی ہے، جیساکہ سورہ علق کی آیت ۶ میں فرمایا گیا: کَلَّا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓی (بے شک انسان حد سے نکل جاتا ہے)۔
انتہا پسندی کی ایک وجہ لاعلمی، ناواقفیت اور جہالت ہے۔ حدود وقیود سے ناواقفیت بجائے خود حدوں کی پامالی اور ان سے تجاوز کا باعث بنتی ہے اور جہالت میں اکھڑپن، ناشائستگی، عدم برداشت، تشدد اور تغلب سب چیزیں داخل ہیں جو بالآخر انتہا پسندی پر منتج ہوتی ہیں۔ علم، طاقت، عزت، دولت، علم، عقل وغیرہ اگرچہ عطیہ خداوندی ہیں لیکن اکثر اوقات آدمی اس زعمِ باطل میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ یہ اس کے کسب ومحنت کا نتیجہ اور ملکیت ذاتی ہے۔ پھر فخر، غرور، گھمنڈ میں آکر انا ولاغیری کا خبط اس پر سوار ہوجاتا ہے اور وہ خودی کی انتہا پر پہنچ کر اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (النازعات ٢۴ میں ہوں رب تمہارا سب سے اُوپر) کا دعویٰ کر بیٹھتا ہے۔ یہی فرعونیت ہے۔ قرآن میں مختلف حوالوں سے فرعون کا تقریباً ۷۴ مرتبہ ذکر آیا ہے لیکن اس کی فردِ جرم میں مرکزی شق ہے: اِنَّہٗ طَغٰی (طٰہٰ ۲۰، النازعات ۱۷) کہ وہ حد سے بہت بڑھ گیا تھا۔ انتہا کی بھی انتہا کوپہنچ گیا تھا جس کی مزید تشریح یہ کی گئی کہ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ ط وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ(یونس ۸۳) (اور فرعون ملک میں متکبر ومتغلب اور (کبر وکفر میں) حد سے بڑھا ہوا تھا)۔ اور فرمایا گیا: اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ (القصص ۴) (بے شک فرعون نے بہت سر اُٹھا رکھا تھا)۔ اس انتہا پسندی کے نتیجے میں اسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا (النازعات ۲۶)۔
انتہا پسندی کے فروغ میں بعض اوقات ذاتی غرض و منفعت، حب مال ومنصب بھی کار فرما حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ چنانچہ وسائل و ذرائع میں جائز و ناجائز، حق و باطل، صحیح وغلط کا امتیاز بے معنی ہو جاتا ہے۔ پھر ضد، ہٹ دھرمی، انتقام، انانیت، انتہاپسندی کی راہوں کو پُر پیچ بنا کر انسانیت کو تباہی و ہلاکت سے دوچار کر دیتی ہیں۔ اس پہلو سے انتہاپسندی اور دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا کیونکہ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے۔
آج سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے، عرب کے جاہلی معاشرے میں جس وقت رسولؐ رحمت کی بعثتِ مبارکہ ہوئی تو احوال وکیفیات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اُس معاشرے کی نمایاں ترین خصوصیت انتہا پسندی تھی۔ جس طرح انسانی زندگی کے ہزار رنگ ہیں، انتہا پسندی کے اقسام بھی بے شمار ہیں۔ تاہم سب دائروں کا مرکز مذہبی انتہاپسندی میں مرتکز تھا۔ مذہبی انتہاپسندی کا سب سے بڑا مظہر شرک وبت پرستی تھا اور شرک وبت پرستی کا محور ومرکز اُس گھر کو بنا دیا گیا تھا جو اصلاً اللہ کا گھر، خدا پرستی کا مرکز اور نشرگاہِ توحید تھا۔ توحید اللہ کی وحدانیت ویکتائی ہے۔ بے مثل، بے عیب، وحدہٗ لاشریک وہی ہے۔ یکتا وتنہا ذات مالک الملک ذوالجلال والاکرام وہی ہے۔ تصورِ حقانیت اور حقیقت میں عدل وقسط کی نمائندہ توحید ہے، جب کہ شرک ایک سے زیادہ بلکہ سیکڑوں کی تعداد میں خداؤں کا یقین خلافِ حقیقت بھی ہے اور ذہنی، تصوراتی انتہاپسندی بھی ہے۔ نیز جہالت وظلم کی نمائندہ ہے۔ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمٰن ۱۳)۔
عرب جاہلیت میں انتہا پسندی اگرچہ ذہنی وعملی ہزار شکلوں میں موجود تھی لیکن اس کا سب سے بڑا مظہر مذہبی انتہاپسندی کی صورت میں نمایاں تھا۔ چنانچہ حضور نبی کریمؐ کا اپنے مخاطبین، یعنی مشرکینِ مکہ سے ایک یہی تو مطالبہ تھا کہ وہ صرف ایک کلمہ توحید/اسلام کا اقرار کرلیں تو عرب وعجم کی بادشاہی ان کے قدموں میں ہوگی۔ یہ ایک کلمہ توحید یا کلمہ اسلام ان کی انتہا پسندانہ مشرکانہ زندگی پر خطِ تنسیخ پھیر رہا تھا۔ وہ بلبلا اُٹھے۔ وہ کلمہ، اس کی دعوت، اس کے اثرات، اس کے تقاضے ان کے مذہبی شب و روز، ان کی معاشرتی زندگی، ان کے معاشی فوائد، ان کی بداخلاقیاں، سب کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہورہے تھے۔ شرک بقول قرآن ظلم عظیم ہے، اس لیے مشرکوں اور ظالموں نے انفرادی طور پر موحد اہلِ ایمان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جس سے خود ذاتِ رسالت مآبؐبھی مستثنیٰ نہ تھی۔ پھر اجتماعی طور پر انتہاپسندی کا مظاہرہ چھ سال بعد ہی مشرکین مکہ، یعنی قریش نے اس طرح کیا کہ نہ صرف حضوؐ ر بلکہ بنو مطلب سمیت پورے خاندانِ بنو ہاشم کا معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر دیا۔ اس ظالمانہ سلوک اور اجتماعی انتہا پسندی کا سلسلہ تین سال تک برابر جاری رہا۔ ایسے ظالمانہ سلوک اور انتہا پسندی کی اس سے پہلے عرب کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن جب کفار ومشرکین کی معاندانہ کوششوں اور ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود آنحضور ﷺ کی تبلیغی مساعی نے مدینہ میں بھی کامیابی حاصل کرلی تو کفار ومشرکین کی انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی، اور انہوں نے دارالندوہ کے ایک خصوصی اجلاس میں آقائے رسالتؐ کے قتل کا منصوبہ بنا ڈالا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر آپؐتقدیر وتدبیر الٰہی کے تحت شمشیر بردار مشرکوں کے محاصرے سے ہجرت کی رات بخیر وعافیت نہ نکل جاتے تو انہی لمحات میں دہشت گردی کا ایک بہت بڑا واقعہ ظہور پذیر ہو جاتا۔
ہجرتِ نبویؐ کے بعد ریاست مدینہ قائم ہو جانے اور قوت وشوکت حاصل ہونے کے باوجود آنحضرت ﷺ نے قریشِ مکہ کی انتہا پسندی کا جواب انتہا پسندی سے نہیں دیا، بلکہ ایک محتاط، معتدل، ترقی یافتہ معاشرے کی داغ بیل ڈالی اور اس کا عملی نمونہ سب سے پہلے خود اُس مدنی معاشرے کی از سرِ نو تبدیلی سے فرمایا جہاں آپؐ نے قدم رنجہ فرمایا تھا اور جہاں انتہا پسندانہ مزاجی حالات نے اس خطے کے باشندوں کے لیے جہنم زار بنا دیا تھا۔ آپؐکی آمد اور آپؐکی مساعیِ جمیلہ سے مدینہ طیبہ، جنت نشان قرارِ جاں بن گیا۔ اس خوش گوار تبدیلی کا نقشہ قرآن نے ان الفاظ میں کھینچا ہے:
اور یاد کرو احسان اللہ کا، اپنے اُوپر، جب کہ تھے تم آپس میں دشمن، پھر اُلفت دی تمہارے دلوں میں، اب ہو گئے اس کے فضل سے بھائی بھائی، اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے، پھر تم کو اس سے نجات دی۔ (آل عمران، ۱۰۳)
حضور نبی کریمؐنے یثرب کی اُس سر زمین کو، جہاں بدامنی، قتل وغارت گری اور لا قانونیت کا دور دورہ تھا، جہاں کسی کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ نہ تھی، جہاں اوس وخزرج اور یہودی قبائل ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے، جہاں نراج کی حکمرانی تھی اور انتہا پسندی عام تھی، امن وامان کا گہوارا بنا دیا۔ عدل واحسان کی حکمرانی سے متمتع کیا۔ ایک قانون اور ایک دستور کا پابند کیا۔ ہر قسم کی انتہا پسندی کو ممنوع ٹھیرایا۔ خوں آشام قبائل کو شیر وشکر کیا، نراج کو راج سے بدلا، ایک مرکز عطا کیا۔ اخلاق، مروّت، اخوت، اعتدال کی فضا قائم کی۔ پوری بستی کے حدود کو حرم قرار دیا اور ایک شہرِ بے مایہ کو تاجدارِ مدینہ نے مدینہ بنا کر مفتخر (فخر کرنے والا) کیا۔ اب جو اُمت تشکیل پائی وہ ’اُمتِ وسط‘ قرار دی گئی۔ وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۱۲۳) (اور اس طرح ہم نے تم کو اُمت وسط /اُمت معتدل بنا یا ہے)۔ اُمت معتدل، موضح القرآن کے مطابق: ’’وہ اُمت ہے جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط۔ عیسائیوں نے افراط اختیار کی کہ حضرت عیسٰیؑ کو خدا کا بیٹا بنا دیا اور یہودیوں نے تفریط دکھائی کہ ان کی پیغمبری کو بھی نہ مانا۔ اُمت معتدل نے نہ ان کو حد سے بڑھایا نہ گھٹایا بلکہ ان کے درجے پر رکھا‘‘(حاشیہ ف م جالندھری، ص ۳۵)۔ حاشیہ عثمانی کے مطابق: وسط، یعنی معتدل کا یہ مطلب ہے کہ یہ اُمت ٹھیک سیدھی راہ پر ہے جس میں کچھ بھی کجی کا شائبہ نہیں اور افراط وتفریط سے بالکل بری ہے‘‘ (ص ۲۷)۔ علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: الوَسَط (بفتح السین) اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دو مذموم اطراف کے درمیان واقع ہو، یعنی معتدل جو افراط وتفریط کے بالکل درمیان ہوتا ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ معنی اعتدال کی مناسبت سے یہ لفظ عدلٌ نصفۃ سواءٌ کی طرح ہر عمدہ اور بہترین چیز کے لیے بولا جاتا ہے۔ چنانچہ اس معنی میں اُمت مسلمہ کے متعلق فرمایا گیا۔ وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۱۲۳)۔
یہ کہنا گویا عین حقیقت ہے کہ اُمت مسلمہ یا مسلمانوں کا بحیثیت اُمتِ وسط دائرہ حیات اعتدال وتوسط کے گرد ہی گھومتا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں کار فرمائی میانہ روی کی ہے، تاکہ انفرادی واجتماعی زندگی کا ہر گوشہ توازن وہم آہنگی سے ہم کنار ہو اور کسی قسم کی بے اعتدالی، ناروا زیادتی، غلو اور انتہا پسندی سرزد نہ ہونے پائے۔ دین اسلام کی یہ ایسی بنیادی صفت ہے کہ حضور اکرمؐ سے پہلے آنے والے تمام انبیؐ ورُسل بھی اس اہم مقصد کے لیے کوشاں رہے کہ عدل وقسط قائم ہو اور کتب وصحائف کا نزول بھی اسی غرض سے ہوا کہ لوگ راستی ومیانہ روی کو اپنی زندگیوں میں جاری و ساری کریں (ملاحظہ ہو سورہ الحدید آیت ۲۵)۔ آپؐ کا لایا ہوا دین تو سرتاسر عدل وقسط اور اعتدال واقتصاد (میانہ روی) کا آئینہ دار ہے۔ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جہاں اس کی کارفرمائی نہ ہو یا اسے نظر انداز کر دیا گیا ہو۔ درحقیقت اس دین فطرت میں ظاہر وباطن کا ہرجلوہ، اور فکر وعمل کا ہر ذرّہ مبنی بر عدل ہے، اور جلوہ ہائے نبوت سے ہم آہنگ ہے۔ بروایت حضرت عبداللہ بن سرجسؓ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حسنِ سیرت (نیک چال چلن)، بُردباری اور میانہ روی نبوت کے اجزا میں سے ۲۴واں حصہ ہے‘‘۔(ترمذی، مشکوٰۃ)
یہ میانہ روی زندگی کے ہر معاملے، ہر گوشے میں مطلوب ومحمود ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ’’حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے، حضور ﷺ نے فرمایا:خوش حالی میں میانہ روی کیا ہی خوب ہے، ناداری میں اعتدال کی روش کیا ہی اچھی ہے، اور عبادات میں میانہ روی کیا ہی بہتر ہے‘‘(مسند بزاز، کنزالعمال)،(عبدالغفار حسن،انتخابِ حدیث، ص ۶۶)۔ یہ روش، یہ رویہ ہر لحاظ سے بہتر ثابت ہوتا ہے۔ یہ ارشاد رسالت مآب کیسا معنی خیز ہے۔ آپؐ نے فرمایا: دین آسان ہے۔ کوئی شخص دین سے زور آزمائی نہ کرے کیونکہ یہ دین اس پر غالب آ کر رہتا ہے۔ اس لیے سیدھے رہو۔ میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش بشاش رہو (ایضاً، ص ۶۶، ۶۷)۔ ایک اور حدیث قدسی میں ہے کہ ’’مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے‘‘۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ مومن اپنے آپ کو ذلیل کیسے کرتا ہے؟ آپؐنے فرمایا: نا قابلِ برداشت (طاقت سے زیادہ) آزمائش میں خود اپنے آپ کو ڈالتا ہے۔ (ترمذی، مشکوٰۃ)
اس لیے یہ بات طے ہے کہ انصاف اور اعتدال ومیانہ روی ترک کرنے سے ہی انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ انتہاپسندی، اعتدیٰ، عدوان، ہر صورت میں منع ہے۔ چنانچہ مختصر مگر جامع انداز میں یہ حکم دے دیا گیا کہ وَ لَا تَعْتَدُوْا ’’حد سے آگے نہ بڑھو‘‘ (المائدہ ۵:۸۷)۔ سورہ البقرہ میں یہ مضمون کئی جگہ بیان ہوا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے: تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا (البقرہ ۲۲۹) ’’یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں سو اس سے آگے مت بڑھنا‘‘۔ اور دوسری جگہ فرمایا گیا: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَعْتَدِیْنَo (البقرہ۱۹۰) ’’بے شک اللہ حد سے آگے بڑھ جانے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ انتہاپسندی کی مذمت دوسرے الفاظ میں اس طرح کی گئی: وَ لَا تَطْغَوْا ط اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(ھود ۱۱۲) ’’اور حد سے تجاوز نہ کرنا، اللہ تمہارے سب اعمال کو بخوبی دیکھ رہا ہے‘‘۔ یہی حکم سورہ طٰہٰ میں مکرر دیا گیا (طٰہٰ ۸۱)۔ حدود سے تجاوز کرنے والوں (للطاغین) سرکشوں کو بُرے ٹھکانے کی وعید سنائی گئی ہے (صٓ ۵۵)۔ یہی وعیدِ جہنم سورہ نبا(۲۲) میں بھی مذکور ہے۔ مذہبی انتہا پسندی تو اور بھی زیادہ دنیا وآخرت دونوں جگہ خسارے کا باعث ہو سکتی ہے۔ لہٰذا یہود ونصاریٰ، اہلِ کتاب کو سرزنش کرتے ہوئے اہلِ ایمان کو بھی تنبیہ کر دی گئی لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ (النسا ۱۷۱) ’’اپنے دین کے معاملے میں حد سے آگے نہ بڑھو، غلو سے کام نہ لو‘‘۔ نیز دین میں غُلو یا انتہا پسندی میں دوسرے لوگوں کے آلہ کار بننے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ یہ بھی احتیاط ضروری ہے کہ کسی ظلم وزیادتی اور انتہا پسندی کے کاموں میں نہ تو کسی سازش اور منصوبہ بندی کا حصہ بنیں۔ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المجادلہ۵۸:۹)، اور نہ اس قسم کے کاموں میں مدد وتعاون بہم پہنچائیں۔
بعض اوقات انتہا پسندی کا ارتکاب لاعلمی میں یا نادانستہ طور پر بھی ہو جاتا ہے، اور بعض اوقات کچھ نادیدہ محرکات وقتی جذبات واحساسات کے تحت بھی انتہا پسندی سرزد ہو جاتی ہے۔ حاصلِ گفتگو یہ کہ انتہا پسندی اور غلو چاہے اس کی نوعیت، شکل اور اظہار کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو، دین کے نزدیک بہرحال پسندیدہ اور مستحسن نہیں، بلکہ اس کے خاتمے کے لیے شعوری کوششوں کی ضرورت ہے اور مذہبی انتہاپسندی کا امتناع تو بدرجہ اولیٰ لازم ہے۔ مگر یہ احتیاط لازم ہے کہ انتہا پسندی کی نوعیت وماہیت کو پہلے سمجھ لیا جائے۔ اس لیے کہ کسی مقصد کے لیے جدوجہد، تحریک، ترغیب اور تخریب کے خطوط بہت قریب سے گزرتے ہیں اور دفع واستیصال کے لیے پہلے حکمت وتدبیر اور تحمل کو کام میں لانا چاہیے اور آخری چارہ کار کے طور پر طاقت کا استعمال کرنا چاہیے، کیونکہ اس بات کا بہت اندیشہ ہے کہ نشہ طاقت ہی کہیں خرابی کا باعث نہ بن جائے ع
صاحب نظراں نشہ قوت ہے خطرناک
(ماخوذ ترجمان القرآن ، اپریل ۲۰۱۴)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021