عورت کا حوصلہ ہی اسے ٹوٹنے سے روکتا ہے
ایک عورت کی اپنے بچے کی تربیت سے غفلت دوسری عورت کے لیے وبال بن جاتی ہے
شاہانہ خانم، حیدرآباد
شاہدہ آج بہت اداس نظر آرہی تھی۔ وہ میری عزیز ترین سہیلی ہے۔ میں اسے بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ اپنے دکھ کسی سے نہیں کہتی۔ اس کی شخصیت صبرو شکر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ میرے آنے سے وہ بظاہر خوش ہورہی تھی لیکن میں اس کی مسکراہٹوں کے پیچھے چھپے درد کے طوفان کو جانتی ہوں۔ میں نے اس کا چہرہ پڑھا تو بیک وقت کئی تاثرات ذہن میں ابھر آئے۔ واقعی منفی سوچ گھروں کو برباد کر رہی ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر ہم غیر اسلامی مزاجوں کو اپناتے چلے جارہے ہیں۔ ساکھ، ناک اور معیار کی خاطر نجانے ہم کیا کیا کر گزرتے ہیں۔ ہم سب اپنے اپنے راستوں پر اپنی اپنی خواہشات کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے خود کو گھسیٹ رہے ہیں ۔
حال دل سناتے ہوئے جب اس کے آنسو نکل آئے تو یوں محسوس ہوا کہ یہ گرم گرم آنسو گالوں کے ساتھ روح کو بھی جھلسا گئے ہوں گے۔ پھر اپنی بپتا سنا کر اس نے چپ سادھ لی تھی۔ شاید ان جیسے گھرانوں کی لڑکیوں کا یہی نصیب ہوتا ہے۔ مردوں کے غلط رویہ او ر بد خصالی کا خمیازہ عورت ذات بھگت رہی ہے۔ شاید ایسے ہی مردوں کی وجہ سے عورتوں کی زندگی اجیرن بن رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سبھی عورتوں کی زندگیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ۔ بہت سے مرد اچھے بھی ہوتے ہیں چنانچہ کسی کی زندگی محبت کے مختلف رنگوں سے بھری ہوئی ہے تو کسی کی زندگی نفرت زدہ ماحول کی عادی ہو چکی ہے یہاں کوئی تمام عمر وحشت کے نشے میں ڈوبا رہتا ہے تو کوئی تربت میں اترنے تک انسانیت کی خدمت میں مگن رہتا ہے ۔شاہدہ کے شوہر کا بظاہر لوگوں سے میل ملاپ اچھا ہے اور دوسروں سے ہمدردی کی خوبی بھی اس میں ہے لیکن اپنے اہل وعیال کے لیے اس کے احساسات ختم ہوچکے ہیں۔ شخصیت کا یہ دوغلاپن زندگی میں مسائل کے انبار لگا دیتا ہے۔ آپ اپنے ماحول اور معاشرے میں چیختے چنگھاڑتے مسائل کی طرف دھیان دیں تو ان میں سے اکثریت کا سبب منہ سے نکلنے والے ناروا الفاظ اور نازیبا کلمات ہی ہوتے ہیں۔ یہ زبان ہی تو ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ فتنے اور فساد پیدا کرتی ہے۔ یہ الفاظ ہی تو ہوتے ہیں جو گھروں اور خاندانوں کو اجاڑڈالتے ہیں۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ پتہ نہیں عورت کے اندر اتنے دکھ کیسے بس جاتے ہیں جو ختم ہی نہیں ہوتے جن کی تکلیف کو وہ سارا دن ہنس کر سہتی رہتی ہے لیکن رات ہوتے ہی اندھیرے کی آغوش میں وہ اس تکلیف کو آنکھوں کے راستے دکھ بہانے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہوئے سو جاتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ عورت کی آنکھیں صرف آنسو نہیں دکھ بھی بہاتی ہیں۔ کبھی ماں باپ سے بچھڑ جانے کا دکھ کبھی شوہر کی بے رخی کا دکھ کبھی اولاد کا دکھ، گھر میں ہر شخص کا کام کرنے کے بعد کچھ اچھا سننے کی چاہ میں تھکن سے چور وجود کا دکھ، کبھی اولاد کی لاپروائی کا دکھ اور کبھی کبھی کچھ پانے کے چکر میں خود کو کھو جانے کا دکھ۔ یہ ہے عورت کی زندگی جسے وہ دکھوں کی نذر کر دیتی ہے پھر بھی ہمت کے ساتھ کام لیتی ہے۔ اگر عورت کو رونے کے لیے کاندھا میسر نہ ہو تو وہ مضبوط ہوجاتی ہے محتاج نہیں رہتی۔ ایک بار اسے دلاسہ نہ دو تو اگلی بار کبھی آپ کے سامنے بکھرا ہوا وجود لے کر نہیں آئے گی ایک دفعہ وہ بات سنانا چاہیے اور شوہر نامدار یہ کہدے کہ ’پھر کسی وقت سہی ابھی مصروف ہوں‘ تو وہی بات کبھی نہیں بتائے گی۔ عورت کو جب شوہر کی ضرورت ہو اور وہ مصروف ہو، جب کچھ سنانا چاہے تو وہ بے توجہی سے سنے یا سنے ہی نہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ کہنا ہی چھوڑ دیتی ہے، مضبوط ہوجاتی ہے محتاج نہیں رہتی اور اسے اکیلا رہنا آجاتا ہے۔ عورت کے کردار کو پرکھنے کے لیے لوگوں نے کتنے پیمانے بنا رکھے ہیں، عورت کالباس، عورت کی آواز، عورت کے ہاتھ پاوں، عورت کی شکل صورت، عورت کے ہاتھ سے بنی روٹی، اس کے ہاتھ سے پکے کھانوں میں نمک، اس کے ہاتھوں پر چڑھا مہندی کا رنگ، اس کا خاندان، اس کی ماں، اس کے خاندان کے معاشی حالات، اس کا ڈاکٹر ہونا اچھی ملازمت کرنا کوئی اچھی سے اچھی عورت بھی بے شک سب مرحلے پار کر جائے مگر کہیں نہ کہیں کوئی کسر رہ ہی جاتی ہے۔ سوچتی ہوں مردوں کے کردار کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہو سکتا ہے؟ صرف ایک اچھی سی ملازمت اس کے سب عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ عورت اپنے آپ کو سب سے اکیلا اس وقت محسوس کرتی ہے جب رات کے کسی پہر وہ اپنی تکلیف سے ہار جاتی ہے اور آنسو اس کے ہتھیلیوں پہ گرنے لگتے ہیں اور وہ اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس کو محسوس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ عورت کا جب ضبط ٹوٹتا ہے تو وہ ٹوٹ کر رو دیتی ہے پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے آنسو صاف کرتی ہے خود کو خود ہی چپ کرواتی ہے اور پتہ ہے اپنے آپ کو خود ہی چپ کروانے سے بڑی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ یہ عورت کی فطرت ہے کہ وہ گھر کی خاطر بہت سی قربانیاں دیتی ہے کڑوی باتیں اور تلخ رویے تک سہہ جاتی ہے مگر جب اس کا ہمسفر ہی اس کو نظر انداز کردے تو وہ اندر سے ٹوٹ جاتی ہے۔ عورت کا حوصلہ ہی اس کا شریک حیات ہوتا ہے۔ تو مردوں سے کیوں نہ کہا جائے کہ وہ قدر کریں اپنی عورتوں کی، آپ کا تھوڑا سا وقت تھوڑی سی توجہ اور تھوڑا سا احساس اس کے حوصلوں کو بلند کردے گا۔
میں نے شاہدہ سے کہا تھا میرے سامنے اپنا دل رکھ کے بتاو شاید تم اس سے سکون محسوس کرو گی۔ بہت اصرار پر اس نے بتایا کہ روز کے جھگڑوں اور اس کے شوہر کی زیادتی سے وہ بہت پریشان ہے۔ اس نے حالات کو کنٹرول کرنے کی ہر طرح سے کوشش کی لیکن حالات ریت کی طرح اس کی مُٹھی سے پھسل جاتے ہیں۔ اس کے شوہر نے اس کا اور بچوں کا خرچ دینا بند کر دیا تو اس نے خاموشی سے برداشت کرلیا لیکن ظلم ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اس کے شوہر کی گالم گلوچ طنزیہ باتیں اس کے دل کو چھلنی کر دیتی ہیں۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ پہلے تولو پھر بولو مگر رفتہ رفتہ لوگ اتنے جلد باز ،بے پروا اور بدذوق ہوگئے کہ پہلے بولنے اور پھر تولنے لگے مگر اب تو حالت یہ ہے کہ لوگ صرف بولتے ہیں۔ شاہدہ کے شوہر کاحال ایسا ہی ہے۔
شاہدہ ایک پڑھی لکھی عورت ہے اس نے کٹھن حالات کو اپنی حوصلہ مندی سے سنبھال تو لیا لیکن وہ شوہر کی مسلسل بے رخی اور طنز و طعنوں کے نشتروں کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ میں نے شاہدہ کی ڈھارس بندھاتے ہوئے اسے بہت سی باتیں سمجھائیں۔ ان باتوں میں سے ایک بات میں تمام ہی عورتوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ مردوں کے خراب ہونے کی اچھی خاصی ذمہ داری عورتوں پر بھی عاید ہوتی ہے۔ ایک عورت کی اپنے بچے کی تربیت سے غفلت دوسری عورت کے لیے وبال بن جاتی ہے۔ اس لیے عورتیں معاشرے کو اچھے مرد اور اپنی ہی جیسی عورتوں کو اچھے سہاگ دینے کے لیے اولاد کی تعلیم و تربیت اور انہیں رشتوں کا احترام و اخلاق سکھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں تاکہ جو کچھ انہوں نے جھیلا ہے وہ دوسری عورتوں کو جھیلنا نہ پڑے۔ آخر مرد کو مرد بنانے والی ذات عورت ہی کی تو ہوتی ہے۔ بچپن سے لے کر جوان ہونے تک عورت ایک ماں کی حیثیت اپنے لخت جگر کی پرورش کرتی ہے لیکن اسے سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی ہی جیسی عورتوں کو اچھے شوہر کیوں نہیں دے پا رہی ہے۔
٭٭٭