عوام بھوک اور سماجی تفریق سے پریشان

کسان احتجاج پر اور حکومت کالے قوانین واپس نہ لینے پراٹل

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

عالمی غذائی پروگرام کو جاریہ سال کا نوبل پرائز دیا گیا۔ عالمی غذائی پروگرام انسانوں کی مدد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس ادارہ کے ڈائریکٹر نے نوبل انعام قبول کرتے ہوئے کہا کہ غذائی سلامتی میں ہی قومی سلامتی مضمر ہے۔ اس پس منظر میں ہم کسان تحریک کو دیکھتے ہیں کہ کئی سالوں سے سماجی سلامتی اور غذائی کی فراہمی میں بڑی لاپروائی برتی جارہی ہے۔ گوداموں کا غلوں کی زیادتی کی وجہ سے پیٹ پھولا جا رہا ہے مگر عوام کا پیٹ، پیٹھ اور کمر سے لگ رہا ہے۔ حالیہ نیشنل فیملی ہیلت سروے کی رپورٹ کے مطابق بھوک کے معاملے میں بھارت کا اسکور 272 ہے۔ گلوبل پروگریس کی فہرست میں ہمارا ملک بہت بری حالت میں ہے۔ دنیا میں انٹرنیٹ بندی میں مسلسل 3 سالوں سے آن لائن آزادی کے معاملے میں ابتری کا شکار ہوا ہے 107ممالک میں 2020 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہمارا مقام 94 واں ہے کیونکہ ہمارے پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) میں چھید ہی چھید ہے۔ بدعنوانی عام ہے۔ بے ایمان لوگ وہاں سے غذائی اجناس اٹھا کر کر زیادہ نفع پر کھلے بازار میں فروخت کر دیتے ہیں جبکہ غربا محروم رہ جاتے ہیں۔ جنسی تناسب میں 8 ریاستوں کی حالت خطرناک حد تک نیچے ہے۔ ہمارے یہاں اعداد و شمار میں ہیرا پھیری بھی عام بات ہے۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کاترقیاتی پروگرام اورانسانی ترقی کے انڈیکس میں جو عام شہریوں کے زندگی، تعلیم اور فی کس آمدنی کی درجہ بندی سے متعلق ہے، 189ممالک کی فہرست میں ہمارا مقام 131واں ہے۔ ہیومن فریڈم انڈیکس میں 2020 میں ہمارا ملک بدترین 17 درجہ کم ہو کر 162 ممالک میں 111ویں مقام پر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی ترقی انڈیکس میں ہم پاکستان اور بنگلہ دیش بہتر ہے جو ہمیں شاید کچھ تسلی ہی دے کیونکہ ملک میں سیاسی اور حقوق انسان کا معیار حد درجہ پست ہوگیا ہے۔ اس وقت بھارت کی 11 ریاستوں کے سروے کے مطابق بھوک سے اب تک 100 لوگوں کی موت ہوگئی ہے۔ اس سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے درمیان بھارت میں کئی خاندانوں کو بسا اوقات کئی کئی رات بھوکے پیٹ سونا پڑا ہے۔ ان کے پاس کھانے اور پیٹ بھرنے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ ایسے حالات میں 27 فیصد سے زائد لوگ مبتلا تھے۔ چنانچہ ماقبل لاک ڈاون 56 فیصد لوگوں کو روزانہ کھانا دستیاب ہوتا تھا۔ تقریباً 71 فیصد لوگوں کے کھانے میں تغذیہ کی کمی لاک ڈاون کے درمیاں آئی ہے۔ محض پیٹ بھرنے کے لیے 45 فیصد لوگوں کو قرض لینا پڑا۔ انہیں زیوارت اور دیگر اثاثے فروخت کرنے پڑے۔ پیسے کی تنگی کی وجہ سے بچوں کو اسکولوں سے نکلوا لیا گیا۔ اتنی تمام کمیوں اور خامیوں کے باوجود مختلف ریاستوں میں وہی نکمی حکومت برابر برسر اقتدار آتی رہی۔ انتخابی کامیابی عوام الناس کی صحت اور معیار زندگی کی بہتری کے لیے نہیں ہوتی؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ مودی جی کے دور حکومت میں بازار بھی ختم ہوکر رہ گیا۔ یہاں بچوں کی تغذیہ کی کمی کا بحران بھی ہے۔ جس کی وجہ سے بچوں کی بربادی تیزی سے بڑھی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف تغذیہ کی کمی کی وجہ سے 10لاکھ سے زیادہ بچوں کی موت ہوجاتی ہے۔ Save the children دنیا بھر کے بچوں کی حالت پر ایک فہرست جاری کرتی ہے جہاں بچے سب سے زیادہ مصیبت میں ہیں۔ ہمارا ملک گزشتہ سال جاری کردہ ایک فہرست میں 116ویں مقام پر تھا۔ یہ فہرست صحت، تعلیم کے ساتھ 8 پیمانوں کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے۔ بڑی تعداد میں شہریوں کو حسب ضرورت غذائی نہ ملنے کی وجہ سے موٹاپا اور متعدی امراض کی بڑھتی ہوئی شرح بھی تشویش کا باعث ہے۔ ہماری جمہوری صحت بھی بری طرح تباہ ہوگئی ہے۔ مثلاً ملک میں سی اے اے شہری ترمیمی قانون کا پاس ہونا، جموں و کشمیر سے 370 کو کالعدم قرار دے کر ریاستی مقام کو گھٹا کر یونین ٹریٹری بنایا جانا، متعلقہ فریقوں سے گفتگو کے بغیر زرعی قانون کا نفاذ، تمام دستوری اداروں کو کمزور کرکے نزاع کی حالت میں پہنچادیا جانا، سی بی آئی، آربی آئی، ای سی آئی کے ساتھ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ اور میڈیا کو کنٹرول کرکے جارح نسل پرستی، پرتشدد اور راشٹر واد اور زہریلی فرقہ پرستی کے کلچر کو فروغ دے کر ایک فرد کی شبیہ کا بڑھایا جانا۔
تغذیہ کی کمی اور بھکمری کے معاملے میں ملک کی حالت بدتر ہونے کے باوجود حکومت کی اس طرف توجہ ہے اور نہ ہی فکر۔ ہمارے ملک میں خود کفیل بھارت کا نعرہ چہار طرف گونج رہا ہے اس کے بعد لوکل کو ووکل نعرہ بھی دیا گیا۔ جملہ بازی میں وزیراعظم کا کوئی جواب نہیں ہے۔ کبھی دو کروڑ سالانہ روزگار تو کبھی 15 لاکھ فی کس بینک کے کھاتے میں۔ نوٹ بندی سے دہشت گردی۔ کالا بازار اور جعلی نوٹوں کے خاتمہ کا بھی نعرہ دیا گیا۔ حکومت کے نزدیک سب سے بڑی ترجیح ہے معیشت میں ترقی۔ مگر ترقی اور معاشی بہتری میں فرق ہے۔ ہر ترقی کا معیار ہے فی کس آمدنی میں اضافہ ہو، جی ڈی پی بڑھے۔ اس کے علاوہ جمہوریت، سماجی طاقت میں بہتری اور سلامتی کا چلن ہو۔ تعلیم و صحت میں بہتری آئے۔ فی الوقت جو اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں وہ ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ لَو جہاد، ماب لنچنگ، این آر سی اور سی اے اے کے احتجاج پر پولیس ایکشن، جی ڈی پی کا بدترین مظاہرہ۔ سنسیکس کا 1407 پوائنٹ کے ساتھ اوندھے منھ گرنا۔ یہ 7ماہ میں سب سے بڑی تنزلی تھی۔ سرمایہ کاروں اور کاروباریوں کو 7 لاکھ کروڑ روپوں کا نقصان ہوا ہے۔ کئی دنوں سے دلی کے سنگھو سرحد پر ملک کا سب سے طاقتور کسانوں کا مظاہرہ پوری شدت سے جاری ہے۔ 38 سے زائد کسانوں نے احتجاج کرتے ہوئے سخت سردی میں جان دے دی۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ جلد بازی سے پاس کیے گئے تینوں زرعی قوانین کو جب تک حکومت رد نہیں کرتی اس وقت تک یہ احتجاج جاری رہے گا۔ کسانوں کو اندیشہ ہے کہ اڈانی، امبانی جیسے کارپوریٹ گھرانوں کے مفاد کے لیے حکومت نے اس طرح کی قانون سازی کی ہے۔ پہلے سبھی ایم ایس پی کے حساب سے کسانوں کو پیداوار کی قیمت نہیں مل رہی ہے۔ بہار کے کمزور کسان ایم ایس پی نہ ہونے پر سب سے زیادہ زد میں ہیں۔ ایم ایس پی کے ذریعہ دھان کی قیمت 1800روپے فی کوئنٹل ہے۔ مگر وہاں کے کسانوں کو دھان محض 100 روپے فی کنٹل فروخت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہی حال ملک کے دیگر علاقوں اور پیداوار کا بھی ہے۔ اس بار جن کسانوں نے تحریک کی رہنمائی کا جھنڈا اٹھایا ہے وہ پنجاب اور ہریانہ کے متمول کسان ہیں۔ کارپوریٹ کی دلالی میں حکومت اور جانب دار میڈیا انہیں بدنام کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ کبھی انہیں خالصتانی اور سکھوں کو ملک دشمن قرار دے کر انہیں گالیاں تک دی جا رہی ہیں۔ کسانوں نے حکومت کے ساتھ 5 نشستیں کیں مگر نتیجہ بے سود رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ زراعت سے ملک کے کسانوں کو اتنی بھی آمدنی نہیں ہو رہی ہے کہ وہ با عزت زندگی بسر کرسکیں۔ پیداوار کی صحیح قیمت نہ ملنے کی وجہ سے سالانہ اوسطاً 12 ہزار کسان سالانہ خودکشی پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس لیے لوگ زراعت کو چھوڑ کر ملازمت کو ترجیح دینے لگے ہیں لیکن ملک میں روزگار ندارد ہے۔ کسانوں نے ان تین قوانین کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ چیف جسٹس کے بنچ نے کہا ہے کہ وہ اس کی دستوری حیثیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ سپریم کورٹ کو فکر ہے کہ کسانوں کے احتجاج و مظاہرے سے شہریوں کے بنیادی حقوق پر ضرب نہ آئے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا حکومت یقین دہانی کراسکتی ہے کہ جب تک معاملہ زیر عدالت ہے تب تک اس قانون کے تحت فیصلہ نہ لیا جائے۔ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کو صحیح گردانتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مظاہرین پورے شہر کو بندی بنالیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم مودی نے گجرات اور مدھیہ پردیش کے کسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زرعی قوانین کسانوں کی بہتری کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہے ٹھیک ایک سال قبل این آر سی اور سی اے اے کے خلاف ملک گیر مظاہرہ مہینوں تک جاری رہا۔ اور حکومت لگاتار کہتی رہی کہ دونوں قوانین میں بھارت کے تمام فرقوں کی بہتری ہے۔ نوٹ بندی، تالہ بندی جی ایس ٹی سب عوام کی بہتری کے لیے ہیں مگر اس بار کسان، حکومت کی جملہ بازی کے نرغے میں آنے والے نہیں ہیں۔ دلی کی سرحد پر کئی دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے کسانوں کی تحریک کی وجہ سے دلی، ہریانہ اور راجستھان اور اتر پردیش کے علاقوں میں 14000کروڑ روپے کی تجارت کا بڑا خسارہ ہوا ہے۔ یہ اندازہ کنفڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرس (CAIT) کا ہے جس نے کسان رہنماؤں اور مرکزی حکومت سے مسئلہ کو جلد سلجھانے کی اپیل کی ہے۔

دلی کی سرحد پر کئی دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے کسانوں کی تحریک کی وجہ سے دلی، ہریانہ اور راجستھان اور اتر پردیش کے علاقوں میں 14000کروڑ روپے کی تجارت کا بڑا خسارہ ہوا ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021