عمل سے زندگی بنتی ہے
رضوان الدین فاروقی، بھوپال
اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
ونسٹن چرچل کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’کامیابی حتمی منزل نہیں ہے اور نہ ہی ناکامی حتمی مایوسی، دراصل حوصلہ قائم رہے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔ انسان کی کامیابی اس کی جسمانی ساخت سے ہرگز مشروط نہیں ہے۔ کامیابی کے لیے ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ غیر متزلزل یقین، مصمم ارادہ اور آگے بڑھنے کی صلاحیت و خواہش بہت ضروری ہوتی ہے۔
وہ لوگ جو کامیابی کے سفر میں رکاوٹوں کی پروا نہیں کرتے وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ کسی بھی بڑی کامیابی کی پہلی کلید پہلا قدم اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کو کیا چاہیے؟ جب ہم اپنا ہدف متعین کرکے اسے کاغذ پر یا آج کل موبائل نوٹس میں لکھتے ہیں، اسی وقت ہم اپنے اندر ایک تبدیلی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ناکام انسان بغیر کسی ہدف کے بھٹکتا رہتا ہے اور کامیاب انسان کے پاس متعین ہدف ہوتا ہے۔
اکثر ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ہم سے تعصب رکھا جاتا ہے اور ہم محنت کریں تب بھی بہتر نتائج نہیں ملتے۔ ایسا بالکل نہیں ہے ہمارے سامنے کئی مثالیں ہیں۔سب سے پہلے ہمیں احساس کم تری کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ تعلیم کے حصول پر تمام تر توجہ مرکوز کرتے ہوئے دنیا کو یہ بتانا ہوگا کہ ہم ہی نے دنیا کو تہذیب، علم اور فن دیا ہے۔ اسپین (اندلس) کا کتب خانہ ابن رشد، ابن سینا، امام رازی وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ہمیں اوپر والا ہاتھ بننے کی تلقین کی تھی اور ہم اپنی پست ہمتی سے نیچے والا ہاتھ بن کے رہ گئے۔ ہمیں یہ باتیں یاد رکھنا ہے اور مثبت سوچ کے ساتھ ان پر عمل کرنا ہے کیوں کہ ہمارے ذہن میں آنے والا ہر مثبت خیال اس دعا کی مانند ہوتا ہے جو ہماری تقدیر بدل سکتی ہے۔
یہ بات یاد رکھیے کہ حوصلہ اور ہمت ہارنے والے کبھی منزل حاصل نہیں کرسکتے۔ واٹس ایپ کے موجدین ’’جین کوم‘‘ اور ’’برائن ایکٹن‘‘ نے بے شمار انٹرویوز دیے لیکن حصول ملازمت میں ناکام رہے، انہوں نے فیس بک میں ملازمت کے لیے درخواست بھیجی جس کو قبول نہیں کیا گیا۔ انہوں نے حوصلہ اور ہمت نہ ہارتے ہوئے ’’واٹس ایپ‘‘ ایجاد کیا جو آج ساری دنیا کے ہر فرد کے لیے کارآمد ہے۔ 19؍فروری 2014 کو فیس بک امریکہ نے واٹس ایپ کو 19؍ ارب ڈالر میں خرید لیا تھا۔ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے اور سیکھنے کے لیے درکار وقت دیں، اپنی ساری توجہ سے بذات خود باریک بینی سے جائزہ لیں اور ﷲ کی رضا میں راضی رہیں۔ چیونٹی اپنے عزم و حوصلے کے بل بوتے پر بڑے سے بڑا معرکہ سر کر لیتی ہے اور اس کی ننھی منی جسامت منزل تک پہنچنے کے احساس کو کسی بھی طرح کم زور نہیں کرتی۔ جب ایک چیونٹی کا یہ حال ہے تو انسان کا عزم و حوصلہ کتنا بلند ہونا چاہیے؟ انسان میں موجود عزم و حوصلہ چٹانوں سے ٹکرانے اور طوفانوں کا رُخ موڑنے کی ہمت پیدا کر دیتا ہے۔
دریاؤں کی روانی سے ملتا ہے یہ سبق
راہوں میں جو چٹان ملے توڑتے چلو
کٹھن وقت میں مشکل فیصلہ ہی آپ کو مشکلات سے نکالتا ہے۔ ایسے وقت فیصلہ کرنا واقعی بڑے دل گردے کا کام ہے۔ دل گھبراتا بھی ہے اور ڈرتا بھی ہے مگر صرف پہلا قدم اور کچھ دور جانے تک کی بات ہوتی ہے اور آسانیاں آپ کی طرف لپکنا شروع کر دیتی ہیں۔ اپنے رب کے اس ارشاد کے عین مطابق کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
ہماری صلاحیتیں لامحدود ہیں اور ترقی کے امکانات وسیع ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ہدف متعین کریں اور اس پر عمل کریں کیوں کہ سب سے ضروری ہے عمل، عمل سے ہی زندگی بنتی ہے۔
یہاں دو مثالیں پیش کرتا ہوں کہ ایک شخص غبارے میں ہوا بھر رہا تھا۔ غبارے میں گنجائش صرف دو لیٹر کی تھی، وہ مکمل طور پر بھر چکا تھا لیکن پھر بھی اس نے ہوا بھرنا جاری رکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غبارہ پھٹ گیا۔ دوسری جانب ایک شخص نے بیٹری چارجنگ پر لگائی۔ دو گھنٹے میں بیٹری فل ہو گئی لیکن اسے اتارا نہیں گیا۔ وہ دو گھنٹے مزید چارجنگ پر لگی رہی اور بالآخر جل گئی۔
بالکل اسی طرح کچھ لوگ ہر وقت ایرک تھامس، ٹونی روبنس، بل گیٹس، زگ زگلر، نِک ووئجچ، قاسم علی شاہ، آرنلڈ، روبن شرما یا سندیپ مہیشوری کو سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں اور وجہ بتاتے ہیں کہ ”موٹیویشن“ ملتا ہے۔ لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ وہ پھر بھی ناکام ہی ہیں۔ وجہ؟ وجہ یہی ہے کہ سیلف موٹیویشن کی ہوا ان کے غبارے میں اتنی بھر دی جاتی ہے کہ پھٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
دراصل کامیابی عمل سے ملتی ہے، جب پریکٹیکل نہیں تو کبھی کامیاب نہیں بن سکتے۔ آج تک ہندوستان میں کوئی ایسا شخص نہیں جو پورے یقین سے کہے کہ وہ ایرک تھامس یا بل گیٹس کی وجہ سے کامیاب ہوا۔ دراصل موٹیویشنل اسپیکر آپ کے غبارے میں ہوا بھرتے ہیں، آپ کی بیٹری چارج کرتے ہیں، اب یہ آپ پر ہے کہ آپ درست وقت پر اس ہوا یا چارجنگ کے ساتھ عملی میدان کے لیے نکل پڑیں یا پھر پھٹنے یا جلنےکے لیے بیٹھے رہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
محض ویڈیوز دیکھنے سے عملی زندگی میں کوئی کامیاب نہیں ہوتا۔ کامیابی دنیا میں دھکے کھانے سے ملتی ہے اور یاد رکھیں موٹیویشنل اسپیکر ہمیشہ ”ون ان ملین“ کی مثال دیتے ہیں جو ہر کوئی نہیں بن سکتا۔ اصل کام یابی خوشی کا حصول ہے، چاہے وہ جھگی میں بیٹھ کر روکھی سوکھی روٹی کھا کر ملے یا ہوٹل تاج کے کسی سوپر ڈیلکس روم میں میک بک چلاتے ہوئے۔ یہ جہاں بھی آپ کو نصیب ہو، سمجھیں آپ کو کام یابی مل گئی۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020