علی الاعلان ایمرجنسی سے غیر اعلانیہ ہنگامی حالات تک

ماضی کا ماتم کرنے کے بجائے حال اور مستقبل کوسنوارنے کی ضرورت

ڈاکٹر سلیم خان

۲۶ ؍جون ۱۹۷۵جدید ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا کہ جب سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔ جب اچانک سارے بنیادی حقوق سلب ہوگئے تو ان کی اہمیت کا شدید احساس بھی ہوا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ ہر سال اس دن بڑے ذوق و شوق سے کانگریس کے مظالم یاد کرتے ہیں۔ ماضی کے مظالم کو یاد کرکےمظلوم یا تو گریہ وزاری کرتا ہے یا انتقام کا عزم پختہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس ظالم اپنے مظالم کی پردہ پوشی کے لیے اس موقع کو استعمال کرتا ہے۔ وہ اسے اپنے ظلم کا جواز بناتے ہوئےیہ تاثردیتا ہے کہ یہ سب پہلی بار نہیں ہورہا ہے بلکہ پہلے سے ہوتا رہا ہے اور آگےبھی ہوتا رہے گا۔ اپنے ضمیر کی آواز کودبا کر عوام کو گمراہ کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ ماضی کے ظالموں کے عبرت ناک انجام سے سبق حاصل کریں۔ وزیر اعظم نریندر مودی چونکہ ’مشکل کو موقع‘ میں تبدیل کرنے کے قائل ہیں اس لیے انہوں نےاس نادر موقع کا بھرپور استعمال کیا ۔ انہوں نے ۲۶ جون ۲۰۲۰ کو ایک ٹویٹ میں لکھا:’’ٹھیک ۴۵ سال قبل ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، میں ان لوگوں کے آگے اپنا سر جھکاتا ہوں جنہوں نے ہندوستانی جمہوریت کی بقاء کے لیے جدوجہد کی اور تعذیب کا شکار ہوئے۔ قوم ان کی قربانی کبھی نہیں بھولے گی ‘‘۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ جس دن وزیر اعظم ۴۵ سال قبل جمہوریت پر ہونے والے حملے کی دہائی دے رہے تھے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا کمیشن حکومت ہند کو جمہوری اقدار کے پاسداری کی نصیحت کررہا تھا۔ یواین ایچ آر سی کے اہلکار ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ شہریت کے متنازعہ قانون سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو فوراً رہا کیا جائے۔اقوام متحدہ نے اپنے بیان میں کہا کہ بہت سارے طلباء اورسی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنےوالوں کو محض سرکارپر تنقید کرنے کے اپنے حق کو استعمال کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کو گرفتارکرنے کا مقصدسول سوسائٹی کو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنےسے روکنا ہے جو حکومت کے عدم برداشت کا ثبوت ہے۔ وزیر اعظم جس ایمرجنسی کے خلاف مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں اس میں یہی سب تو ہوا تھا۔ اس طرح گویا حقوق انسانی کے اس عالمی ادارےنے ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی تصدیق کردی ہے۔
اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ مذکورہ گرفتاریوں کے علاوہ نئی دہلی میں برپا ہونے والے فسادات پر بھی کلام کرتی ہے ۔اس میں کہا گیاہے کہ پولیس نفرت اور تشدد کو بھڑکانے والے بی جے پی رہنماؤں اور اس کےحامیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے برعکس فسادات کے الزام میں سی اے اے کی مخالفت کرنے والے بہت سارے افراد پر یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت الزامات عائد کیے گئے ۔اقوام متحدہ نے11 مقدمات میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور متعصبانہ رویہ کی جانب توجہ دلائی جن میں سب سے سنگین معاملہ حاملہ طالبہ علم صفورہ زرگرکا تھا۔ اس رپورٹ نے وہ گتھی بھی سلجھا دی کہ آخر صفورہ زرگر کی مخالفت کرنے والی پولیس کے خلاف اچانک سالیسیٹر جنرل کو میدان میں اتار کر ضمانت کی راہ ہموار کیوں کی گئی؟اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن منظر عام پر آنے والی رپورٹ کی سنُ گنُ حکومت ہند کو پیر کی شب میں ہی مل گئی تھی۔ اس لیے اس نے خود کو رسوائی سے بچانے کی خاطر اسے ضمانت دلوادی اور اس کا ذکر آگے چل کر رپورٹ میں درج ہوگیا۔
وزیر اعظم کےٹویٹ کو مؤثر بنانے کے لیے ایمرجنسی کے مظالم کو دکھانے والی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی۔ اس ویڈیو کے اندر مودی کے ظلم کا شکار ہونے والے لال کرشن اڈوانی تو موجود ہوں گے لیکن خود مودی جی نہیں ہوسکتے۔ ایمرجنسی کےوقت مودی جی کی عمر ۲۵ سال تھی۔ ۱۸ سال کی عمر میں شادی کے بعد امور خانہ داری سے سنیاس لے کر وہ سیاست کے گدلے تالاب میں چھلانگ لگا چکے تھے ۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے عمر میں دو سال چھوٹے ارون جیٹلی کو تو ایمرجنسی میں جیل کی ہوا کھانی پڑی لیکن نریندر مودی بچ گئے؟ وہ اگر ہنگامی حالات کے خلاف جدوجہد کرنے والوں میں شامل ہوتے تو یقیناً پابند سلاسل کیے جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کاایک مطلب تو یہ ہوا کہ وہ خاموش تماشائی بنے رہے یا انہیں غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا یا پھر وہ زیر زمین چلے گئے تھے۔ ماہرین کے خیال میں یہ سارے قیاسات درست ہیں۔ مودی جی ان چند سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے کبھی بھی جیل کی ہوا نہیں کھائی۔ اس معاملے میں امیت شاہ کو ان پر فوقیت حاصل کیوں کہ قتل و غارتگری کے جرم میں سہی جیل تو گئے۔
وزیر اعظم کے دفتر میں لکھنے پڑھنے والوں کی فوج ہوتی ہے جو نہ صرف بیانات اور تقریریں بلکہ کبھی کبھار ان کے نام سے کتاب بھی لکھ مارتی ہے۔ حکومت چونکہ فی الحال چین کی بابت مشکل میں ہے اس لیے ایمرجنسی والا بیان ذرا طویل لکھا گیا اور منسلک ویڈیو میں وزیر اعظم یہ کہتے دکھائی دیے کہ ’’جس وقت ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی تھی تو اس کی مخالفت سیاست یا سیاستدانوں تک محدود نہیں تھی۔ عام لوگوں کے اندر اس کے خلاف غم وغصہ تھا۔ اس میں گمشدہ جمہوریت (کے حصول) کی تڑپ اور خواہش کار فرما تھی‘‘۔ آج بھی بالکل وہی صورت حال ہے کہ طلباء، نوجوان اور سول سوسائٹی کے ارکان میدانِ عمل میں ہیں لیکن افسوس کہ ایمرجنسی کا رونا رونے والی سرکار ان کو کچل رہی ہے ۔وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ’’ایسا اس لیے نہیں تھا کہ آئین نے جمہوری نظام کو جنم دیا بلکہ ہندوستان کو اس بات پر فخر ہے کہ جمہوریت ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے‘‘ ۔
اس بات پر تو اختلاف ہوسکتا ہے کہ ہماری تہذیب و ثقافت حصہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے لیکن آئین میں اس کا درج ہونا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے اس لیے جمہوریت پر فخر کرنے والے رہنماؤں کو آئینی حقوق کو استعمال کرتے ہوئے بنیادی حقوق کی پامالی پر احتجاج کرنے والوں نیزحکومت کی زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو بے جا الزامات کے تحت جیل میں نہیں ٹھونسنا چاہیے۔ وزیر اعظم اپنے بیان کے اختتام پر فرماتے ہیں کہ ’’اگر دنیا میں کوئی ایسا موقع آیا تھا کہ جب عوام نے اپنے مفاد اور حقوق کو بالائے طاق رکھ کر جمہوریت کے نظریہ پر ووٹ کیا ہو تو وہ ۱۹۷۷ کا انتخاب تھا‘‘۔ مودی جی کا یہ دعویٰ درست ہے لیکن افسوس کہ ۲۰۱۹ میں ملک کے عوام غیر اعلانیہ ایمرجنسی کو محسوس نہیں کر سکے ورنہ ۱۹۷۷ کی تاریخ دُہرائی جاتی اور انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا جاتا ۔ایسا نہ ہونےکی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایئر اسٹرائیک کی آڑ میں قوم پرستانہ جذبات کو بھڑکا کر ان کا استحصال کیا گیا۔ دوسرے یہ کہ پہلی مدت کار میں انسانی حقوق کی پامالی کا جوکام ڈھکے چھپے انداز میں ہوتا تھا وہ دوسری مرتبہ کامیاب ہونے کے بعد کھلے عام ہونے لگا تھا۔
بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے ٹویٹ میں لکھا ’’۱۹۷۵ میں اس دن سیاسی مفاد کی خاطر سرکار نے ایمرجنسی کا اعلان کر کے اپنے مخالفین کو جیل بھیج دیا۔ عوام کے بنیادی حقوق چھین لیے گئے اور اخبارات کے دفاتر پر تالے لگا دیے گئے‘‘۔ یہ بات درست ہے لیکن اس وقت کم ازکم یہ حق تلفی ایک اعلان کے بعد قانونی دائرے کے اندر کی گئی تھی یعنی عوام کو یہ معلوم تھا کہ کون کون سے حقوق سلب ہوئے ہیں اور کون سے محفوظ ہیں لیکن حالیہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی میں یہ تفریق بھی موجود نہیں ہے۔ اس من مانی چال میں وزیر اعظم کے قتل کی سازش کا الزام لگا کر پروفیسر آنند تیلتمبڈے جیسے دانشورکو حراست میں لے لیا جاتاہے۔ دہلی میں فساد زدگان پر فساد برپا کرنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے ۔فساد میں زخمی ہونے والوں کے مسیحا ڈاکٹر انور کے خلاف ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ کپل مشرا جیسے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے والے جسٹس مرلی دھر کا راتوں رات تبادلہ کردیا جاتا ہے۔ کیا یہ ایمرجنسی سے بدتر صورت حال نہیں ہے؟ جہاں تک اخبارات کے بند ہونے کا سوال ہےتو مودی حکومت انہیں خرید کر ان سے قصیدے پڑھوا رہی ہے۔ جے پی نڈا ان محب وطن لوگوں کے آگے سر جھکاتے ہیں جنہوں نے تمام تر ناانصافی اور ایذا رسانی کے باوجود جمہوریت کے قاتلوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے‘‘۔ لیکن جب ان کی اپنی سرکار جمہوریت کی چتا جلا کر اس پر سیاسی روٹیاں سینکتی ہے تو یہ الفاظ کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔
امیت شاہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی موضوع پر مودی کے بعد نڈا بھی بول دیں تو وہ چپ نہیں رہ سکتے اس لیے انہوں نے اپنے انداز میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ’’۴۵ سال قبل آج ہی کے دن ایک خاندان کے اقتدار کے لالچ نے ملک میں ایمرجنسی لگوادی اور راتوں رات ملک کو ایک جیل میں بدل دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ عدلیہ اور اظہار رائے کی آزادی کو کچل دیا گیا۔ غریبوں اور پسماندہ طبقات پر مظالم توڑے گئے اور لاکھوں لوگوں کی کوششوں سے ایمرجنسی اٹھی‘‘۔ ماضی میں اقتدار کو بچانے کے لیے جو کچھ ہوا تھا فی الحال خود شاہ جی وہی ساری حرکتیں کر رہے ہیں جس کا ذکر اس بیان میں ہے۔ یہ سب اس قدر کھلے عام کیا جا رہا ہےکہ اس کی مثال دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔آج بھی لاکھوں لوگ اس حکومت کے مظالم کا شکار ہو رہے ہیں اور اس ختم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔امیت شاہ کو اس سوال پر غور کرنا چاہیے فی الحال یہ ظلم و ستم کون کررہا ہے؟ اور جو لوگ اس کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں ان کے ساتھ وزیر داخلہ کا سلوک کیسا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ دوسروں پر انگشت نمائی جتنا آسان ہے خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا اس سےبہت مشکل ہوتا ہے۔ امیت شاہ کا یہ بیان غلط ہےکہ ایک خاندان کے اقتدار کی خاطر ایمرجنسی لگائی گئی تھی ۔ ایمرجنسی دراصل ایک فرد یعنی اندرا گاندھی کی کرسی بچانے کے لیے لگائی گئی تھی اور اب نریندرمودی کا اقتدار محفوظ کرنے کے لیے وہی کھیل کھیلاجارہاہے۔ یہ درست ہے کہ اٹل جی اور مودی کے خاندان کو اس کا فائدہ نہیں پہنچا کیونکہ اٹل جی نےشادی ہی نہیں کی اور مودی جی نے اپنی بیوی کو بے یارومددگارچھوڑ دیا لیکن بی جے پی کے اولاد والوں کو دیکھیں۔ وجئے راجے سندھیا کی بیٹی وزیر اعلیٰ بنیں اور پوتےو نواسے دونوں کوایوانِ پارلیمان کا رکن بنایا گیا۔کلیان سنگھ، یشونت سنہا، کھڑسے ، منڈے ، یدیورپاّ، سنی دیول اور نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جن کو وراثت میں عہدوں سے نوازا گیا۔ امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کو جس نے کبھی ٹسٹ میچ کا بلاّ تک نہیں پکڑا، دنیا کے امیرترین بی سی سی آئی کا سکریٹری بنادیا گیا ۔ سب سے زیادہ بدعنوان کرکٹ ایسوسی ایشن کے خزانے کی کنجی مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر کے بیٹے ارون دھومل کو پکڑا دی گئی۔ کیا یہ اقرباء پروری نہیں ہے۔
نائب صدر وینکیا نائیڈو نے ایمرجنسی کے خلاف لڑائی کو دوسری آزادی کی جدوجہد قرار دیا۔نائیڈو نےایمرجنسی کے خلاف اپنی زیر زمین پیغام رسانی کی کوششوں کو یاد کیا۔ انہوں نے کورونا کے لاک ڈاؤن کا ایمرجنسی سے موازنہ کرتے ہوئے لکھاکہ تین ماہ سے ہم برضا و رغبت اپنے آپ کو گھروں میں محصور رکھے ہوئے ہیں ۔ ہم نے ازخود اپنے چہروں کو ڈھانک لیا ہےاور اپنی آمد و رفت محدود ہوگئی ہے۔ یہ جائز تحدید ۴۵ سال پہلے ملک پر تھوپی گئی پابندیوں کے متضاد ہے۔ نائب صدرنے فیس بک پر عوام کوآئین کے اندر انفردای آزادی کی بنیاد پر عطا کردہ پر وقار زندگی کو بحال رکھنے کی خاطرایمرجنسی کو پیش نظر رکھنے کی تلقین کی۔ وینکیا نائیڈو کو معلوم ہونا چاہیے کہ فی الحال ملک کے عوام ان کی اپنی پارٹی کے خلاف تیسری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لوگ ان کی ہدایت کے مطابق جد و جہد کررہے ہیں کیونکہ انفرادی آزادی پر اسی طرح کے خطرات منڈلا رہے ہیں جیسے ایمرجنسی کے دوران تھے۔وہ جواں مرد جیالےپھر سے کامیاب ہوں گے کیوں کہ جبر کی رات کے بعد صبحِ آزادی نمودار ہوکر رہتی ہے۔
لال کرشن اڈوانی ایک ایسے رہنما ہیں جنہوں نےایمرجنسی کو بہت قریب سے دیکھا بھگتا اور اس پر خوب لکھا ۔ ۲۰۱۱ میں جب منموہن سنگھ کی حکومت نے بابا رام دیو کے دھرنے پر پولیس کی کارروائی کی تھی تو اڈوانی نے اسےجمہوریت پر حملہ قرار دیا تھا ۔آج یہ سب ہورہا ہے مگر وہ خاموش ہیں۔ اڈوانی جی کے پاس اب گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بابری مسجد کے مقدمہ میں انہیں جیل بھیجنے کا خطرہ مودی نہیں لے سکتے اس لیے ان کو اپنی حکومت کی زیادتی کے خلاف کھل کر بولنایا لکھنا چاہیے ممکن ہے کہ وہ اسی کے لیے یاد کیے جائیں ۔۲۰۱۴ کے بعد اڈوانی جی ایک بلاگ میں بڑے کام کی باتیں لکھی تھیں مثلاً:’’ بی جے پی نے سیاسی طور پرغیر متفق لوگوں کو اپنا دشمن نہیں مانا بلکہ صرف مخالف کی حیثیت سے دیکھا۔ راشٹر واد (قوم پرستی) کے ہمارےنظریہ سے اختلاف کرنے والوں کو ملک دشمن نہیں سمجھا‘‘۔ آج کل بی جے پی کا کوئی رکن بھی اگر مودی یا شاہ سے اختلاف کرے تو اس کوقوم دشمن سمجھ لیا جاتا ہے اور اس پر کارروائی بھی ہوجاتی ہے۔
اڈوانی نے لکھا تھا:’’ ملک اورپارٹی کے اندر جمہوریت اور جمہوری اقدار کی پاسداری بی جے پی کے لیے فخر کی بات ہے۔ اس لیے بی جے پی میڈیا سمیت تمام جمہوری اداروں کی آزادی، سالمیت، غیر جانبداری اور مضبوطی کا مطالبہ کرنے میں سب سے آگے رہی ہے‘‘۔اڈوانی کا یہ جملہ پڑھتے ہوئے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس بی جے پی کے بات ہورہی ہے۔ اڈوانی جی نےشاید ان روایتوں کو لاحق خطرات کو محسوس کرکے اپنے من کی بات لکھ تو دی لیکن وہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ اس پر دھیان دیا جاتا تو عالمی سطح پر ملک کی بدنامی نہ ہوتی۔ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے ذریعہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں کی قیادت کرنے والے سماجی کارکنان اور طلبہ کی گرفتاریوں پر تنقید اور فوری رہائی کا مطالبہ اس کاجیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ جنیوا میں یو این ہیومن رائٹس ہائی کمشنر کےمطابق ان گرفتاریوں کا واضح مقصد سول سوسائٹی کو خوفزدہ کرکے حکومت کی پالیسیوں پر تنقید سے روکنا ہے۔ اس پریس ریلیز میں میراں حیدر، گلفشاں فاطمہ، صفورہ زرگر، آصف اقبال تنہا، دیوانگنا کلیتا، نتاشا ناروال، خالد سیفی، شفاء الرحمٰن، ڈاکٹر کفیل خان، شرجیل امام اور اکھل گوگوئی کا نام بہ نام ذکر ہے۔ صفورہ زرگر کو ۲؍ ماہ تک قید تنہائی میں اہل خانہ، وکیل تک کی رسائی کو محدود کردینا نیز مناسب طبی مدد اور غذا کی فراہمی سے محروم کرنے کا تذکرہ کرنے کے بعد ۲۳؍ جون کو انسانی بنیادوں پر ضمانت پر رہا کرنے کا ذکر کیاگیا ہے۔
اقوام متحدہ نےان جہد کاروں کو ’’حقوق انسانی کا مجاہد ‘‘ قرار دے کر فوری رہائی کامطالبہ کیا ہے ۔ عالمی ماہرین کے لیے سرکاری حکام کے جانبدارانہ رویہ باعث تشویش ہے۔رپورٹ میں سی اے اے مخالف مظاہرین کو ضمانت سے محروم رکھنے کے لیے پولیس کےاختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی مخالف قانون(یو اے پی اے) عائدکرنا سراسر زیادتی کا الزام لگایا گیا ہے۔اقوام متحدہ نےیاد دلایا ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ نے طبی وجوہات سے جیلوں کی بھیڑ کم کرنے کا حکم دیا اس کے برعکس انتظامیہ نےمظاہرین کو گرفتار کرکے جیل میں ٹھونس دیا ۔یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ۳ مارچ ۲۰۲۰کو اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنر برائے حقوقِ انسانی کے دفتر نے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین، عالمی اقدار اور انصاف کے معیار کے مطابق شہریت کے قانون پر نظر ثانی کرنےکی درخواست جمع کی تھی لیکن امیت شاہ نے اس تازیانہ عبرت سےسبق سیکھنے کے بجائے اپنی کینہ پروری اور کم ظرفی کے سبب ملک کی جو بدنامی کروائی ہے وہ ایمرجنسی سے کم نہیں ہے۔ اس لیے سرکار کو ماضی کا ماتم کرنے کے بجائے اپنا حال اور مستقبل درست کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے ۔
***


اقوام متحدہ نے11 مقدمات میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں اور متعصبانہ رویہ کی جانب توجہ دلائی جن میں سب سے سنگین معاملہ حاملہ طالب علم صفورہ زرگرکا تھا۔اس رپورٹ نے وہ گتھی بھی سلجھا دی کہ آخر صفورہ زرگر کی مخالفت کرنے والی پولیس کے خلاف اچانک سالیسیٹر جنرل کو میدان میں اتار کر ضمانت کی راہ ہموار کیوں کی گئی؟اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن منظر عام پر آنے والی رپورٹ کی سنُ گنُ حکومت ہند کو پیر کی شب میں ہی مل گئی تھی ۔