علامہ اقبالؔ کی نظر میں خواتین کی اصلاح کیوں ضروری

تسنیم فرزانہ (بنگلورو)

 

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ علامہ اقبال ایک مفکر اور مصلح قوم تھے، وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک صالح معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور اس کے ارتقا کے ضمن میں خواتین نے ہمیشہ ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔
اقبال چونکہ اسلامی شعائر، تہذیب اور تعلیمات کے پروردہ، شیدائی و ہمنوا تھے اور اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق عورت اور مرد خاندانی اکائی کے ایسے پہیے ہیں جن کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چل سکتی۔
علامہ اقبال نے جب ہوش سنبھالا تب مغربیت، مشرقیت پر حاوی ہورہی تھی اور ایک ایسی تہذیب وجود میں آ رہی تھی جس کی اخلاقی قدریں معدوم ہو رہی تھیں۔ اس زمانے کے شاعر و ادیب بھی اپنی شاعری و ادب میں سارا زور عورتوں کے خد وخال کو اجاگر کرنے پر صرف کر کے ایک نئی بنیاد قائم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ لیکن جب اقبال جیسا حساس شاعر اس جانب متوجہ ہوتا ہے تو بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے :
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار!
عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اقبال کا نظریہ وہی ہے جو اسلام کا ہے، اسی وجہ سے اقبال نے اپنے کلام میں عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی سے متعلق اپنے نظریات کو پیش کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں عورت کا مختلف انداز میں بار بار ذکر کیا ہے، وہ عورت کا ذکر نہایت عزت و احترام سے کرتے ہیں کبھی ماں کی شکل میں تو کبھی عورت کی جفاکشی اور دلیری پر داد و تحسین پیش کرتے ہیں تو کبھی اس کی تعلیم و تربیت کی جانب توجہ دلاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ عورت کی عزت و حقانیت کو مرد کا اولین فریضہ بتاتے ہیں، چنانچہ عورتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ :
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
عورتوں کی شجاعت و بہادری اور ان کی عزت و احترام کا عکس ہمیں اقبال کے کلام میں جابجا نظر آتا ہے انہوں نے فاطمہ بنت عبداللہ کو شجاعت کی مثال کہا ہے جو ۱۹۱۲ کی طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تھیں، ان کو امت کی آبرو بتا کر ان کی شہادت پر فخر کیا ہے، فرماتے ہیں :
فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
غازیانِ دین کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
ان اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال عورت کی عظمت اور اس کی نسوانیت پر آنچ نہیں آنے دیتے اور اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
اپنی نظم ’’ماں‘‘ میں ایک ماں کی مامتا، تڑپ، الفت ہر طرح کے جذبوں کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں
میں جو سوئی ایک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے میرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
اقبال کا نظریہ عورت کے تعلق سے بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، وہ اس کے لیے وہی طرزِ زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام سکھاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عورت شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے، اس طرح اپنے آپ کو پیش کرے کہ معاشرے پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرَ تو سے حریمِ کائنات روشن ہو۔
وہ قرآن کریم کی تعلیمات کے پابند تھے اور مرد کو عورت کا قوام کہتے ہیں، مرد و زن کے مَابین مکمل مساوات کے قائل نہیں تھے اس بات کی وضاحت ان کے ان اشعار سے ملتی ہے
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ، نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
عورت کی تعلیم کو اقبال بہت ضروری سمجھتے اور زور دیتے ہیں، ان کا قول ہے کہ عورتوں کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ عورت ہی ہے جس کے وجود سے قوم بنتی ہے، اگر یہ تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو پوری قوم تباہ و برباد ہو جائے گی عورت
و تعلیم کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ
تہذیب فرنگی ہے اگر موت اس وقت
ہے حضرتِ انسان کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ ہنر موت
بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
عورت کی تعلیم کی طرف اشارہ تو ضرور کرتے ہیں مگر وہ ایسی ہونی چاہیے کہ جس سے شخصیت میں نکھار پیدا ہو ایسا نہ ہو کہ اس علم سے مغربی تہذیب کو اپنایا جائے جس سے بے حیائی اور غیر ذمہ داری کو فروغ ملے اپنے کلام میں ایک جگہ فرماتے ہیں :
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
یہاں انگریزی سے مراد یہ نہیں کہ انگریزی زبان میں کوئی خرابی ہے بلکہ علامہ اقبال اس تہذیب و ثقافت کے خلاف ہیں جو اس زبان سے وابستہ ہے، اقبال کا تو یہ ماننا ہے کہ اگر کوئی ان پڑھ غیر مہذب دین دار عورت بچے کی پرورش کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک غیرت مند مسلم وجود میں آ جائے، تو وہ اس ماڈرن، تہذیب یافتہ اور بے دین عورت سے قدرے بہتر ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ’’مومن لونڈی، مشرک آزاد عورت سے بہتر ہے خواہ وہ تمہیں کتنی پسندیدہ کیوں نہ ہو‘‘ – اس سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے بھی حامی ہیں۔ وہ عورت کو خاتونِ خانہ بناتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ شمعِ انجمن بنے تو اس سے مسائل پیدا ہونگے وہ مانتے ہیں کہ عورت کو سماج میں ہر طرح کی آزادی ملے، مگر وہ آزادی ایسی نہ ہو جس سے اس میں اخلاقی گراوٹ آ جائے، اقبال ایک طرف آزادی نسواں کے پُر زور حامی تھے مگر ایسی آزادی کے خلاف بھی تھے جو مغربیت کے طرز پر ہو، ایسی آزادی اقبال کی نظروں میں زہرقند کے مترادف ہے لکھتے ہیں :
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کہ کچھ کہہ کہ بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں یا زمرد کا گلو بند
آزادی نسواں کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات کی تکمیل ہو اور اپنی خودی اجاگر ہو، ورنہ ایسا نہ ہو کہ مغربیت کی اندھی تقلید کی بنا پر اپنے وجود کو فنا کردیں
اقبال نے حضرت فاطمہؓ کے کردار کو عورتوں کے لیے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے، بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہؓ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کی تمام عورتوں کے لیے نمونہ ہے
فرراع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم ہوش از اسوہ زہرا مند
اقبال کے افکار کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہے اور عورت کے متعلق بھی وہ انہی حدود و قیود کے حامی ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں یہ حدود عورت کو نہ تو اس قدر پابند بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ لیا ہے اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں جو مغرب نے دی ہے
علامہ اقبال عورتوں کی حفاظت کے قائل تھے اور ایک ایسے سماج کی تشکیل چاہتے جہاں مرد نسوانیت کی نگہبانی اور حفاظت کرے، کیوں کہ سماج میں زن دشمن بھیڑیے ہر قدم پر پائے جاتے ہیں جن سے عورت کی عزت و آبرو ہر لمحے خطرے میں رہتی ہے
ان باتوں پر عمل درآمد کر کے ایک نیک و صالح معاشرے کی تشکیل علامہ کے پیشِ نظر تھی اسلام بھی عورت کے لئے ایسا ہی ماحول دیتا ہے جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے بروئے کار لائے یہی بات علامہ اقبال نے کہی ہے یہ فطرت کے عین مطابق ہے، اس کی خلاف ورزی معاشرے میں لازماً بگاڑ اور انتشار کا باعث بنتی ہے بقول علامہ
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
***

اقبال کا نظریہ عورت کے تعلق سے بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، وہ اس کے لیے وہی طرزِ زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام سکھاتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عورت شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے، اس طرح اپنے آپ کو پیش کرے کہ معاشرے پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرَ تو سے حریمِ کائنات روشن ہو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020