علاج میں آسانی کے لیے ’ڈیجیٹل ہیلتھ مشن‘ اچھی پہل!
شعبہ صحت میں بنیادی سہولتوں کو بہتر بنانے پر اوّلین توجہ ضروری ڈیٹا کے تحفظ پر کوئی قانون نہیں۔ کیا مریضوں کی معلومات محفوظ ہوں گی؟
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
گزشتہ سال کورونا وبا کے قہر نے جس طرح کا بحران پیدا کیا اس سے معیشت اس قدر خراب ہوئی کہ پہلی سہ ماہی میں ملک کی جی ڈی پی تقریباً ایک چوتھائی سکڑ گئی تاہم امسال کورونا کی دوسری لہر نے کم قہر برپا کیا جس کی وجہ سے معیشت پر زد کم پڑی لیکن طبی بحران نے ملک کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ صحت کا بنیادی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چار لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے۔ آکسیجن کی قلت ، اسپتالوں میں بستروں کا نہ ملنا اور دواوں کی بازار میں عدم دستیابی نے قیامت برپا کردی۔ ادھر چند سالوں سے ڈیجیٹل ٹکنالوجی نے تیزی سے قدم بڑھانا شروع کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ شعبہ صحت کی وسعت اور بہتری میں یہ ٹکنالوجی انقلاب لارہی ہے۔ ۲۷ ستمبر کو آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن (اے بی ڈی ایم) منصوبہ کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے درست کہا ہے کہ یہ پہل طبی سہولتوں میں انقلابی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ آدھار نمبر ہی کی طرح فرد کو 14ہندسہ والا ایک خاص نمبر دیا جائے گا یہ یونک شناختی کارڈ قومی پیمانہ پر شعبہ صحت میں تمام شہریوں کے لیے ایک بڑا قدم ہوگا۔ ہمیں اس منصوبہ کے بہترین نفاذ کے لیے شہریوں کے رازوں (پرائیویسی) کا خیال رکھنا ہوگا جس کا استعمال اس کے طبی دستاویزات اور متعلقہ صحت سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے ہوگا۔ اس سے کسی بھی طبی امداد کے لیے مریض کی شناخت ثابت کی جاسکے گی۔ ضرورت پڑنے پر جمع شدہ معلومات کو مریض کی اجازت سے طبی سہولت اور مشورہ کے لیے کہیں بھی بھیجا اور ساجھا کیا جاسکے گا۔ اکثر ہم صلاح سے متعلق معلومات کو لمبے عرصہ تک نہیں رکھ پاتے ہیں۔ سبھی دستاویزات کو کلی طور سے محفوظ رکھنا سہل بھی نہیں ہے کیونکہ ضرورت پڑنے پر انہیں ڈھونڈ کرایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ ڈیجیٹل طبی شناخت سے ان مشکلات سے چھٹکارا مل جائے گا۔ بہت ساری بیماریوں میں ایک سے زائد ڈاکٹروں کے مشورے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب مختلف جگہوں میں مقیم ڈاکٹر بھی سبھی رپورٹس کو دیکھ کر بآسانی بہتر مشورہ دے سکیں گے۔ ملک کے ہر گوشے میں سبھی امراض کے ماہرین دستیاب بھی نہیں ہوتے ہیں۔ بعض گاوں، قصبوں اور ملک کے دور دراز علاقوں میں مستند ڈاکٹرس بھی نہیں ہوتے۔ اب ایسے مقامات کے ڈاکٹرز اور طبی عملہ مریض کے جمع شدہ معلومات کو بڑے شہروں اور اسپتالوں میں بھیج کر رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور اپنے موبائل یا کمپیوٹر پر گھر بیٹھے مریض خود بھی ڈاکٹروں سے مشورہ حاصل کرسکتے ہیں۔ خاص طور سے مہلک اور کہنہ امراض، شعبہ صحت کے لیے ہمیشہ چیلنج رہے ہیں۔ کورونا قہر کے دوران موبائل اور ڈیجیٹل انفارمیشن ٹکنالوجی نے نہ صرف ہمارے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی حسب ضرورت مدد کی ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح طبی میدان میں جدید ٹکنالوجی مثلاً آرٹیفیشل انٹلیجنس (اے آئی) ، مشین لرننگ، مشکل ڈیٹا انالائیسس وغیرہ کو اپنایا جارہا ہے۔ اس شعبہ کے بہت سارے ایپ بھی بازار میں آرہے ہیں۔ ان سہولتوں سے بہتر طور پر اور انہیں مزید موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مریضوں کی معلومات بھی ڈیجیٹل ہوں۔ کہا جارہا ہے کہ قومی صحت اتھاریٹی (این ایچ اے) کی رہنمائی میں چلائے جانے والے پروگرام میں اںس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے کسی بھی فرد کی معلومات کا بے جا استعال نہ ہو اور وہ محفوظ رہیں۔ ان کی اجازت سے ہی ڈیٹا شیئر کیا جاسکے گا ۔ اپنی خواہش سے کوئی فرد ان معلومات کو حذف بھی کرسکتا ہے۔ اس طرح اس مشن کے تحت ڈیٹا پر پورا کنٹرول متعلقہ فرد کا ہی ہوگا۔ اس پروگرام کا نفاذ ملک گیر پیمانے پر نہ ہو کر محض یونین ٹیریٹوری میں ہی ہوا ہے۔ توقع ہے کہ بلا تاخیر اس کی افادیت کی وجہ سے اسے سارے ملک میں وسعت دی جائے گی اور بڑی تعداد میں ہسپتال بھی اس سے منسلک ہوجائیں گے۔
ڈیجٹلائزیشن کے میدان میں بہت سارے چیلنجز ہیں کیونکہ بھارت ابھی ڈیجیٹل کارڈس، ون نیشن، ون راشن کارڈس PM-Jay cards اور آدھار کارڈ کو ابھی تک معیاری نہیں کر پایا ہے کیونکہ بین الریاستی منتقلی پر بہت ساری پریشانیاں سامنے آرہی ہیں۔ جہاں تک ڈیٹا کے تحفظ کا معاملہ ہے تو ایسے ملک میں جہاں صحت عامہ کا شعبہ چرمرایا ہوا ہے یہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ہمارے یہاں شعبہ صحت میں جی ڈی پی کا محض 1.3فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس شعبہ میں بہتر معیار کا اہتمام کرنے میں دشواری ہے۔ یونیسف میں کام کرچکے ایک چائیلڈ اسپیشلسٹ کے کے انتھونی کا کہنا ہے کہ مختلف سطحوں پر ڈیٹا اکھٹا کرنے کا کام ایسا ہی ہے جیسے کوئی سونے کی کان پر بیٹھا ہو۔انشورنس کمپنی، عالمی محققین، فارما کمپنیز کو راز داری کا بہت زیادہ ہی خیال رکھنا ہوگا۔ جدید ڈیجیٹل صحت مشن کو حقیقت میں مفید تر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کے شعبہ صحت کی تعمیر نو کے ذریعہ اسے بہت مضبوط اور طاقتور بنایا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹکنالوجی تک رسائی بھارت جیسے بڑے ملک میں جہاں غربت اور زبانوں کی کم فہمی بہت ساری مشکلات پیدا کرسکتی ہے جس کا حل نکالنا ضروری ہے۔ سب سےبڑی پریشانی اس وقت ہوگی جب ہاسپٹلس اس نظام کا حصہ ہونا چاہیں گے۔ نیشنل ہیلتھ اتھاریٹی (این ایچ اے) نے عندیہ دے دیا ہے کہ نجی ہاسپٹل تمام متعلقہ معلومات پرائیویٹ مالکان تک بھی پہنچا سکتے ہیں جس سے مریضوں کی تمام معلومات تک ان کی رسائی آسان ہوجائے گی۔ پھر وہ این ایچ اے کی فراہم کردہ معلومات کو اپنے انداز میں ترتیب دے کر سافٹ ویر تیار کریں گے ۔ وزارت صحت نے بھی کہا ہے کہ وہ صحت عامہ کا لحاظ رکھنے والی خدمات انجام دینے والی تجربہ گاہوں (Laboratories) کو اس مشن کا حصہ بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی تک ہمارے ملک میں ڈیٹا کے تحفظ پر کوئی قانون نہیں ہے لہذا اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مریضوں کی معلومات کا افشا نہیں ہوگا ۔ اسی لیے اس پروگرام کو ملک گیر پیمانے پر کلی طور پر نافذ کرنے سے پہلے مہینوں تک پالیسی سازوں کو مذکورہ چیلنجز کی حساسیت کو سامنے رکھ کر کمیوں اور خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ دوسری طرف اس ڈیجیٹل پروگرام کی کچھ خامیاں یوروپین اور مغربی ممالک میں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ مگر امریکہ اور آسٹریلیا میں ڈیجیٹل ہیلتھ کیر کے اچھے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں اور وہاں بھی اس موضوع پر بحث جاری ہے۔
***
ابھی تک ہمارے ملک میں ڈیٹا کے تحفظ پر کوئی قانون نہیں ہے لہذا اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مریضوں کی معلومات کا افشا نہیں ہوگا ۔ اسی لیے اس پروگرام کو ملک گیر پیمانے پر کلی طور پر نافذ کرنے سے پہلے مہینوں تک پالیسی سازوں کو مذکورہ چیلنجز کی حساسیت کو سامنے رکھ کر کمیوں اور خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021