عدلیہ کا پیلٹ گن پرپابندی سے انکار ۔۔۔ کشمیر میں مایوسی!
غازی سہیل خان ؍ سرینگر
گزشتہ دنوںجموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے نے کشمیریوں اور حقوق انسانی کے کارکنوں میں چینی پیدا کردی ہے۔ ہائی کورٹ نے پیلٹ گن پر روک لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک عرضی کو مسترد کردیا ہے۔
پیلٹ گن پرروک لگانے کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ جب تک بے قابو بھیڑ کے ذریعے تشدد کیا جاتا ہے طاقت کا استعمال نا گزیر ہوتا ہے۔ یہ درخواست جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں دائر کی گئی تھی ان دنوں وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بڑھ گیا تھا ۔دراصل فورسیس نے احتجاج کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال کیا تھا جس کے سبب سینکڑوں لوگ زخمی ہوگئے تھے ان میں سے بیشتر کو اپنی بینائی مکمل یا جزوی طورپر کھونا پڑی تھی اسی کے بعد یہ عرضی دائر کی گئی تھی ۔عدالت کا کہنا تھا کہ کس جگہ کس طرح سے طاقت کا استعمال کرنا ہے یہ اس جگہ کے انچارج پر منحصر کرتا ہے ،جو حملہ کی جگہ تعینات ہے ۔
پیلٹ گن کشمیر میں احتجاجی مظاہرین کے لیے استعمال میں اُ س وقت لانے شروع ہوئے جب سری نگر کے علاقے راجوری کدل میں ۱۱؍ جون ۲۰۱۰ء کو طفیل متو(Tufail Matoo) آنسو گیس شل لگنے سے جاں بحق ہوا تب وہ کوچنگ کلاس جارہا تھا اسی طرح سے ایک اور تیرہ سالہ طالب علم وامق فاروق جنوری ۲۰۱۰ء میں نزدیک سے ایک آنسو گیس شل کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا تھا ۔ان اموات کے بعد نہ تھمنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے فورسز نے پیلٹ گن کا استعمال کرنا شروع کیا تھا ۔اس کے بعد زخمیوں اور بینائی سے محروم نوجوانوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ۔
پیلٹ بندوق کشمیر میں مظاہرین کے خلاف استعمال میں لائی جاتی ہے۔اسے ایک بار چلانے سے اس میں سے ۵۰۰ پیلٹ بیک وقت نکل کربکھر جاتے ہیں جو کوئی بھی ان چھروں کی زد میں آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے ۔پیلٹ کے چھرے لگنے کے بعد انسان زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا درد محسوس کرتاہے ۔پیلٹ چھرے دور سے انسان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے لیکن جب یہ 500میٹر کی دوری سے چلائے جائیں توشدید نقصان پہنچاتے ہیں خاص طور سے جب یہ انسان کے نازک حصوں پہ لگتے ہیں۔ جن میں آنکھیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔
سرکاری عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ پیلٹ گن غیر مہلک ہتھیار ہے باوجود اس کے ۲۰۱۰ء سے آج تک وادی کشمیر میں ہزاروں نوجوان جُزوی اور ایک سو سے زائد نوجوان کلی طور اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور ابھی تک پیلٹ گن کی وجہ سے ۱۴؍ افراد کی موت بھی واقع ہوئی ہے ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق حکومت ہند اس ہتھیار کو پیلٹ گن کہتی ہے لیکن اصل میں یہ پمپ ایکشن شاٹ گن pump action shotgun)) ہے۔ ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ اکثر جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہے یہ ہتھیار احتجاج کو قابو کرنے کے لیے نہیں بنائی گئی ہے‘ ۔انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بار ہا حکومت ہند کو مشورہ دیا ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائدکریں ۔ وادی کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے خواتین بچے اور پیر و جواں سب متاثر ہوئے ہیں ۔جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔۲۰۱۸ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچی ہبہ نثار پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھی، ایک اور بچی انشاء مشتاق بھی ۲۰۱۶ میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہو گئی ہے ۔اسی طرح درجنوں نوجوان پیلٹ گن کا شکار ہونے کے بعد محتاجی کے عالم میں زندگی گُزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔شمالی کشمیر سے ایک پیلٹ متاثرہ نوجوان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر انتہائی افسوس اور مایوسی کااظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ’ یہ ایک اُمید تھی وہ چلی گئی ہم چاہتے تھے کہ اب کوئی نوجوان کشمیر میں اندھا نہ ہو کوئی نوجوان زندگی بھر محتاج نہ ہو لیکن گزشتہ ہفتے کے عدالتی فیصلے نے ہم کو مزید مایوسی کا شکار بنا دیا‘۔متاثرہ نوجوان کی دونوں آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی ہیں اس نے کہا کہ’ جب کوئی نوجوان پیلٹ کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دیتا ہے تو وہ لازماً ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا، وہ جسمانی طور پر محتاج ہوجاتا ہے، وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا جس کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے نوجوان خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔متاثرہ نے بتایاکہ میرے ایک جاننے والے پیلٹ متاثرہ نے گزشتہ سال خود کشی کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ ان کے گھر میں دوپہر کا کھانا نہیں تھا یہ نوجوان اس گھر کا واحد کمانے والا شخص تھا جس کی اپنی زندگی اب دوسروں کی محتاج ہو گئی ہے اور دیگر افراد خانہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے مجبور ہیں۔
بایں ہمہ کشمیر میں ایک تحقیق کے مطابق 85؍فی صد پیلٹ متاثرین نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔جس میں 25.79%؍سماج میں احساس تنہائی کا شکار 15.79%؍ پوسٹ ٹرامیٹک سٹرس ڈس آرڈر9.21%؍شدید پریشانی کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔ڈاکٹروں نے 380پیلٹ متاثرین کی تشخیص کے دوران پایا کہ 2016ء کے بعد پیلٹ متاثرین مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں ۔اس تحقیق کے مطابق آنکھوں کی بینائی سے محروم نوجوانوں میںذہنی انتشار پیدا ہونے کے زیادہ اثرات پائے جاتے ہیں ۔پیلٹ متاثرین میں سے 92.92%؍افراد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں ۔تاہم جن 380؍ پیلٹ متاثرین پر یہ تحقیق کی گئی ہے ان کا علاج متواتر طریقے سے گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں ہو رہا ہے گر چہ بہت سارے متاثرین نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں ۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بہت سارے متاثرین اپنے ذہنی امراض کے بارے میں نہیں جانتے ۔تاہم متعدد مریضوں کی کونسلنگ اور دیگر ادویات کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے ۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان سب متاثرین کی ایک بار اسکرینگ کی جانی چاہے تا کہ ان کو صحیح طریقے سے علاج فراہم کیا جائے ۔
مجموعی طور پر کشمیر میں ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عوام میں ناراضگی کا اظہارکیا جا رہا ہے ۔لوگوں کا خیال ہے کہ عدالت ہی ایک واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے اس مہلک ہتھیار سے نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا ،لیکن اب اس عدالتی فیصلے نے وادی میں مایوسی پھیلا دی ہے اور پیلٹ متاثرین بھی اس فیصلے کو حق و انصاف کے منافی خیال کرتے ہیں ۔
رابطہ۔[email protected]