عدلیہ کا انحطاط ایک لمحہ فکریہ
سبکدوش جج کھانولکر کا حکومت کو ای ڈی کے من مانی استعمال کا تحفہ!
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
کیا سابق چیف جسٹس گوگوئی کی طرح کھانولکر کے ارمان بھی پورے ہوں گے؟
ایک خوشخبری یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے دوسرے معمر ترین جج، جسٹس اے ایم کھانولکر سبکدوش ہو گئے ہیں۔ یہ خوشخبری اس لیے ہے کہ اپنی سروس کے آخری مہینے میں انہوں نے جو تباہی مچائی اس کو دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ اگر ان کو کچھ اور موقع مل جاتا تو نہ جانے اور کیا کر جاتے؟ اس لیے کہ عدلیہ اگر مقننہ کو خوش کرنے کے لیے انتظامی احکامات صادر کرنے لگے تو عدالتی نظام پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی بار ہو رہا ہے، پہلے یہ کبھی کبھار ہو جاتا تھا اس لیے استثنائی کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا لیکن اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے بعد جسٹس ارون کمار مشرا اور اب اے ایم کھانولکر چار سال کے اندر یکے بعد دیگرے تین لوگوں کے ذریعہ یہ مظاہرہ نہایت سنگین صورتحال کا غماز ہے۔ ان لوگوں نے تو جسٹس پی این بھگوتی کو شرمندہ کر دیا ہے جنہوں نے جنتا پارٹی کے ذریعہ کانگریس کی 9منتخبہ سرکاروں کی تحلیل کا فیصلہ درست ٹھیرا دیا تھا اور پھر جب اندرا گاندھی دوبارہ اقتدار میں آئی تھیں تو کفارہ ادا کرنے کے لیے ان کی ایسی تعریف و توصیف کی کہ اس سے چاپلوس سیاسی رہنماوں کو بھی عار محسوس ہوا ہو گا۔
چیف جسٹس گوگوئی سے قبل جسٹس دیپک مشرا سبکدوش ہوئے، انہوں نے آخری دنوں میں دس مقدمات کا فیصلہ سنایا۔ ان سے قبل سبکدوش ہونے والے جسٹس جے ایس کیہر نے آخری مہینے میں صرف پانچ فیصلے سنائے تھے جن سے کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا، اور شاید اسی لیے وہ گمنام ہو گئے۔ ان سے پہلے والے جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے اواخر میں 29 قضیوں کا نمٹارا کر دیا جبکہ ان کے پیش رو جسٹس ایچ ایل دتو نے آخری مہینے میں صرف ایک فیصلہ دیا۔ یہ جو آخری ایام میں حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فیصلوں کی برسات ہوتی ہے اس کو دیکھ کر مشہور مثل یاد آتی ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے لیکن ان جج حضرات کی بابت کہنا پڑے گا کہ جب ان کی سبکدوشی کا وقت قریب آتا ہے تو سرکار کی پناہ میں عدل و انصاف کا خون کرنے لگتے ہیں۔
بابری مسجد کے نہایت غیر منصفانہ فیصلے کے بعد سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو ایوان بالا کی رکنیت سے نواز کر حکومتِ وقت نے یہ عندیہ دیا تھا کہ ایسے لوگوں کی خدمت رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ اس کی خاطر خواہ قدر دانی ہو گی۔ جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنے انعام کو انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان ایک پُل قرار دیا۔ اس پُل کو عبور کرکے ایک سال بعد جسٹس اے کے مشرا انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ بن گئے۔ اس عہدے کو ان کی سبکدوشی تک کچھ عرصہ خالی رکھا گیا۔ ارون کمار مشرا کا مسئلہ یہ تھا منموہن سرکار نے بلاوجہ ان کی ترقی روک دی تھی اس لیے مودی حکومت نے جیسے ہی انہیں سپریم کورٹ میں بھیجا احسان مندی کے تلے دب کر انہوں نے مودی جی کو مثالی رہنما قرار دے دیا۔ اسی لیے جج لویا کا معاملہ انہیں دیا گیا مگر تین ججوں کی کھلی مخالفت کے سبب انہیں ہٹنا پڑا۔ اس کے بعد جسٹس شرما نے مودی کے منظور نظر گوتم اڈانی کے حق میں کئی فیصلے کر کے ان کا خوب بھلا کیا۔ انہوں نے دو مرتبہ سینئر وکیل گوپال شنکر نارائن کو دھمکی بھی دی اور پھر ججوں کی بدعنوانی پر کتاب لکھنے کی پاداش میں پرشانت بھوشن سے بھڑ گئے۔ ان پر ہتک عزت کا دعویٰ کر کے اپنی بے عزتی کرائی اور رخصت ہونے کے بعد انسانی حقوق کے کمیشن کی سربراہی کا عہدہ پا کر نہال ہو گئے۔ جسٹس اے ایم کھانولکر نے چونکہ ارون کمار مشرا سے زیادہ سرکار کی خدمت کی ہے اس لیے وہ بڑے انعام کے حقدار بنے۔
امسال فروری میں جسٹس ایم اے کھانولکر نے ایف سی آر آئی یعنی غیر ملکی چندے سے متعلق قانون میں ترمیم کے مقدمہ میں فیصلہ سنایا کہ غیر ملکی تعاون حاصل کرنا کوئی بنیادی حق نہیں ہے۔ اس طرح مودی سرکار کی عائد کردہ پابندیوں کی توثیق کر دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے ایمنسٹی جیسے اداروں کو اپنا دفتر بند کرنا پڑا اور اب تو ان پر بڑا جرمانہ بھی لگا دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ذکیہ جعفری معاملہ میں جسٹس کھانولکر کی بنچ نے اول تو وزیر اعظم مودی کو کلین چٹ دی اس کے بعد مقدمہ خارج کرتے ہوئے اپنے حدود سے نکل کر انہوں نے انتظامی احکامات صادر کر دیے اور مجرمانہ سازش کا اندیشہ ظاہر کر کے تفتیش کا حکم دے دیا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر گجرات کی سرکار نے ایس آئی ٹی تشکیل دے دی نیز تیستا سیتلواد، سری کمار اور سنجیو بھٹ کو گرفتار کر لیا۔ اس طرح مظلومین کی مدد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کو قانونی حمایت حاصل ہو گئی۔ جسٹس کھانولکر کا بلڈوزر یہیں نہیں رکا بلکہ انہوں نے چھتیس گڑھ میں قبائلی طبقہ کے حقوق کی خاطر کام کرنے والے گاندھیائی رہنما ہمانشو کا مقدمہ خارج کرتے ہوئے ان پر پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ لگا دیا۔ اس سے یہ اشارہ دیاگیا کہ اگر کوئی سرکار کے خلاف عوام کے حقوق کی بحالی کی خاطر سپریم کورٹ کا رخ کرے گا تو اس کی خیر نہیں ہے۔
مذکورہ بالا متنازع فیصلوں کے بعد لوگ سمجھ رہے تھے کہ اب بہت ہو چکا لیکن اپنی سبکدوشی سے صرف دو دن قبل انہوں ایک ایسا فیصلہ سنا دیا جس سے حکومت وقت کو گویا انسانی حقوق کے قتل عام کا پروانہ مل گیا۔ پرونشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ (PMLA) کے تحت انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) کے ذریعہ کی گئی گرفتاری، ضبطی اور جانچ کے عمل کو چیلنج کرنے والی سو سے زیادہ عرضیاں زیر سماعت تھیں۔ ان سب کو عدالتِ عظمیٰ میں یکجا کر دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ای ڈی کو منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت گرفتاری اور سمن جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ جسٹس اے ایم کھانولکر کی قیادت والی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ای ڈی کے پاس پی ایم ایل اے کے تحت تحقیقات اور جائیداد ضبط کرنے کے تمام اختیارات ہیں۔
سپریم کورٹ کی بنچ نے اعتراف کیا کہ ای ڈی، ایس ایف آئی او اور ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس جیسی تفتیشی ایجنسیاں گو کہ پولیس نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے ذریعہ تحقیقات کے دوران جمع کیے گئے ثبوت حقیقی ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق اس ایکٹ کے تحت کسی ملزم کی گرفتاری غلط نہیں ہے۔ یعنی ای ڈی جانچ کے دوران ضرورت پڑنے پر کسی کو بھی گرفتار کر سکتی ہے اور اس کا ایسا کرنا غلط نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہونے والے شخص کو ای ڈی حکام کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسے کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ معاملے کی اطلاع رپورٹ (ای سی آئی آر) کو ایف آئی آر کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا اور ای سی آئی آر ا ڈی کا ایک داخلی دستاویز ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ملزم کو ای سی آئی آر دینا لازمی نہیں ہے اور گرفتاری کے دوران وجوہات کا انکشاف کرنا ہی کافی ہے۔ یعنی ای ڈی کا گرفتاری کے وقت اس کی بنیاد کا انکشاف کر دینا کافی اور مناسب ہے۔
سپریم کورٹ کی توثیق کے بعد اب حکومت کے پاس اپنے مخالفین کو دہشت گردوں کی مانند کچلنے کے سارے اختیارات مل گئے ہیں۔ ایک ایسا قانون جس کے تحت عشاریہ پانچ فیصد سے کم معاملات میں جرم ثابت ہوتا ہے اور ننانوے فیصد سے زیادہ بے قصور لوگوں کو من مانے طریقہ پر جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہو درست ہو گیا ہے۔ اس کے تحت ان لوگوں کو بے گھر کر کے کاروبار پر قفل لگا سکتی ہے۔ ای ڈی کے فیصلوں کو جس ٹریبونل میں چیلنج کیا جاسکتا ہے دو سال سے اس کا کوئی سربراہ نہیں ہے یعنی اس کے خلاف کوئی شنوائی ممکن نہیں ہے۔ اس معاملے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہاں عدل و انصاف کا وہ بنیادی اصول بالائے طاق رکھا گیا ہے جس کے تحت جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہو جائے اس کو بے قصور مانا جاتا ہے۔ اب تو جس پر بھی ای ڈی نے ہاتھ ڈال دیا وہ قصور وار ہے۔ ای ڈی اس پر جو چاہے اوٹ پٹانگ الزامات لگائے ان کو غلط ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ہے۔ ایک ایسے ملزم پر کہ جس کو دباو ڈال کر بیان لکھنے پر مجبور کیا گیا ہو اور حسب ضرورت گھر یا روزگار چھین لیا گیا ہو۔ اس سے بڑی سرکاری دہشت گردی اور کیا ہو سکتی ہے؟
سپریم کورٹ کا کام صرف یہ دیکھنا نہیں ہے کہ قانون کے مطابق ای ڈی کو یہ اختیارات حاصل ہیں یا نہیں بلکہ اسے جاننا چاہیے تھا کہ وہ آئین میں کسی متعینہ حقوق کو پامال تو نہیں کر رہا ہے؟ اس کے ذریعہ عوام کن مصائب میں گرفتار ہو سکتے ہیں اس کا بھی پتہ لگایا جانا چاہیے تھا۔ عوامی مفادات سے آنکھیں موند کر قانون کو ٹٹولنا اور اس کے تحت قانونی اختیار کا تعین کردینا کافی نہیں ہے۔ ایوان پارلیمان میں منظور ہونے والا کوئی قانون اگر عوام کے بنیادی حقوق سلب کرتا ہے اور حکومت کو انہیں پامال کرنے کی کھلی چھوٹ دیتا ہے تو اس پر لگام لگانا بھی سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ ملک بھر میں منی لانڈرنگ کا الزام لگا کر اب تک حزب مخالف کے کئی بڑے رہنماوں کو گھیرا جا چکا ہے۔ ان کے خلاف معاملات درج کر کے انتقامی کارروائی کی جارہی ہے اور لوگوں کو اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے مجبور کیا جا رہاہے۔ مہاراشٹر میں اقتدار کی تبدیلی میں ای ڈی کی دھمکیوں کا سب سے اہم کردار بتایا جا رہا ہے۔ پہلے بدعنوان مخالفین کو دھمکی دی جاتی ہے اور جب وہ اپنی وفاداری بدل کر کمل تھام لیتے ہیں تو انہیں عام معافی دے دی جاتی ہے۔
مہاراشٹر میں اجیت پوار کو ای ڈی کی مدد سے نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف برداری کے لیے آمادہ کیا گیا۔ راج ٹھاکرے کو اسی چنگل میں پھنسا کر اپنے خیمے میں لانے کے بعد اذان کے خلاف مہم چلائی گئی۔مہاراشٹر وکاس اگھاڑی میں وزیر داخلہ اور این سی پی کے سینئر لیڈر انل دیشمکھ کو اس قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔ راشٹروادی کے ترجمان اور ریاستی وزیر نواب ملک کو بھی ای ڈی نے ہی گرفتار کیا ہے۔ انل دیشمکھ کی گرفتاری مکیش امبانی کے گھر کے قریب رکھے جانے والے دھماکہ خیز مواد کے بعد ہوئی کیونکہ اگر وہ بھید کھل جاتا تو بی جے پی مشکل میں آسکتی تھی۔ نواب ملک نے جب سمیر وانکھیڈے کا پول کھولنے کے بعد سابق وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس کے خلاف سنگین الزامات لگانا شروع کیے تو اچانک ای ڈی حرکت میں آگئی اور ان کو بھی پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ اس سے پہلے ای ڈی نے ان دونوں کے خلاف کوئی کیس نہیں کیا تھا۔ ای ڈی کے اختیارات کو چیلنج کرنے والوں کو امید تھی کہ مرکزی حکومت کی جانب سے بار بار ای ڈی کے بے جا استعمال کے ذریعے حکومتوں کو گرانے اور اراکین اسمبلی کو اپنے خیمے میں لانے کا سلسلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے رک سکتا ہے مگر ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔
ای ڈی کے خلاف داخل کردہ عرضیوں میں کہا گیا تھا کہ پی ایم ایل اے کی کئی دفعات خلاف قانون ہیں۔ غلط طریقے سے پیسہ کمانے کا جرم ثابت نہ ہو تب بھی پی ایم ایل اے کا مقدمہ ادھر ادھر پیسہ بھیجنے کے الزام میں جاری رہتا ہے۔ دلائل کی پیشی کے دوران اس کے غلط استعمال کی مثالیں پیش کی گئیں۔ افسروں کے صوابدیدی اختیارات کو بھی چیلنج کیا گیا مگر ان باتوں کا عدالت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ججوں نے افسروں کو تفویض کیے جانے والے اختیارات کو بھی قانون کے تحت حق بجانب اور مناسب قرار دیا۔ حکومت نے ان عرضیوں کو کارروائی سے بچنے کی ترکیب بتا کر مخالفت کی۔ اس نے کہا کہ یہ وہی قانون ہے جس کی مدد سے وجے مالیا، نیرو مودی اور میہول چوکسی جیسے لوگوں سے بینکوں کے اٹھارہ ہزار کروڑ روپے واپس لیے گئے ہیں۔ ای ڈی کے خلاف آواز اٹھا نے والوں میں حزب اختلاف کے علاوہ انصاف پسند دانشور اور قانونی ماہرین بھی پیش پیش ہیں۔ یہ ای ڈی کو سیاسی مفادات کی غرض سے استعمال کیا جانے والا آلہ سمجھتے ہیں۔کافی عرصہ سے اس پر سماعت رکی ہوئی تھی لیکن جاتے جاتے جسٹس کھانولکر نے سرکار کی من مراد پوری کردی۔ اس کے جواب میں ان کے کون کون سے ارمان پورے ہوں گے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا ۔
معاشی جرائم یا غیر ملکی کرنسی قانون کے خلاف ورزی کی جانچ پڑتال کے لیے یکم مئی 1956 کو ایک محکمہ قائم کیا گیا اور 1957 میں اسے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کا نام دیا گیا۔ ۱۱؍ستمبر کے بعد پوری دنیا میں دہشت گردی اور اس کی فنڈنگ کا شور بلند ہوا تو اس وقت کی اٹل سرکار نے پی ایم ایل اے کا قانون وضع کیا تاکہ دو نمبر کے پیسے کا ہیر پھیر روکا جاسکے۔ اس قانون کا نفاذ دراصل 2005 میں منموہن سرکار کے وزیر خزانہ پی چدمبرم نے پہلی ترمیم کے بعد شروع کیا تھا۔ اس طرح گویا کانگریس پارٹی نے بندوق میں گولیاں بھر کر اس کو تیار کر دیا۔ پچھلے سترہ سالوں میں ای ڈی نے جملہ 4964 کیس درج کیے اور 3086 چھاپے مارے گئے لیکن سزا صرف 23 معاملوں میں ہوئی یعنی عشاریہ پانچ فیصد لوگ مجرم پائے گئے باقی سب کو پریشان و ہراساں کیا گیا۔ ان کی عزت اور دولت سے کھلواڑ کیا گیا۔ 2020 میں ملک کی آٹھ ریاستی حکومتوں نے سی بی آئی کو جانچ کی اجازت نہیں دی تو اس کا استعمال بہت بڑھ گیا۔ سی بی آئی کو صوبائی سرکار کے علاوہ افسران کے شعبے سے بھی اجازت لینی پڑتی ہے لیکن ای ڈی اس سے بے نیاز ہے۔ ای ڈی افسر کے سامنے لیا گیا بیان ثبوت مانا جاتا ہے جبکہ پولیس کو بھی یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔
عدلیہ کا اصول تو یہ ہے کہ حراست استثنائی ہو مگر ضمانت معمول رہے لیکن ای ڈی کے معاملے میں گرفتاری آسان اور ضمانت مشکل ہے کیونکہ اس سے قبل عدالت کے لیے لازم ہے کہ وہ سرکاری وکیل کی دلیل سنے۔ اس کے بعد بھی ضمانت اسی وقت مل سکے گی جب عدالت مطمئن ہو جائے کہ ضمانت کا خواستگار مجرم نہیں ہے اور وہ باہر آ کر شواہد پر اثر انداز نہیں ہو گا۔ عدالت کا یہ طے کرنا کہ وہ مجرم نہیں ہے ضمانت کو بے حد مشکل بنا دیتا ہے۔ چدمبرم کو اگر معلوم ہوتا کہ مودی سرکار ان کے اور بیٹے کارتک کے خلاف اس قانون کا استعمال کرے گی تو شاید وہ اس کو سخت بنانے کے بجائے ختم ہی کر دیتے لیکن دورانِ اقتدار ہر کرایہ دار اپنے آپ کو مکان دار سمجھتا ہے اس لیے یہ کہنا پڑے گا کہ فی الحال کانگریس خود اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں گر کر کراہ رہی ہے۔ چدمبرم خود اس قانون کے تحت اپنے بیٹے سمیت جیل کی ہوا کھا چکے ہیں۔ یہ مشیت الہی کی مار ہے۔ فی الحال زور و شور سے اس کا استعمال کرنے والی بی جے پی کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا اور کل جب ان کی سرکار نہیں رہے گی تو انہیں بھی اسی چھری سے ذبح کیا جائے گا۔ ملک کے سیاستداں اتنے دور اندیش ہوتے تو عوام کی یہ درگت نہ ہوتی۔ خیر گردش زمانہ نے ایک قانون بنوایا دوسرے سے اسے نافذ کروایا اور پھر پہلے سے اس کا استعمال کروا رہا ہے اور دوسرا اپنی باری کا انتظار کررہا ہے۔ یہی زمانے کے وہ نشیب و فراز ہیں جن میں ہر کوئی گرفتار ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
ذکیہ جعفری معاملہ میں جسٹس کھانولکر کی بنچ نے اول تو وزیر اعظم مودی کو کلین چٹ دی اس کے بعد مقدمہ خارج کرتے ہوئے اپنے حدود سے نکل کر انہوں نے انتظامی احکامات صادر کر دیے اور مجرمانہ سازش کا اندیشہ ظاہر کر کے تفتیش کا حکم دے دیا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر گجرات کی سرکار نے ایس آئی ٹی تشکیل دے دی نیز تیستا سیتلواد، سری کمار اور سنجیو بھٹ کو گرفتار کر لیا۔ اس طرح مظلومین کی مدد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کو قانونی حمایت حاصل ہو گئی۔ جسٹس کھانولکر کا بلڈوزر یہیں نہیں رکا بلکہ انہوں نے چھتیس گڑھ میں قبائلی طبقہ کے حقوق کی خاطر کام کرنے والے گاندھیائی رہنما ہمانشو کا مقدمہ خارج کرتے ہوئے ان پر پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ لگا دیا۔ اس سے یہ اشارہ دیاگیا کہ اگر کوئی سرکار کے خلاف عوام کے حقوق کی بحالی کی خاطر سپریم کورٹ کا رخ کرے گا تو اس کی خیر نہیں ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022