عدا لتِ عظمیٰ: کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ابو اشرف
انتظار بسیار کے بعد ہندوستان کی عدالتِ عظمیٰ کمبھ کرن کی نیند سے جاگی اور اس نے مہاجر مزدوروں سے متعلق عرضی پر سماعت کرتے ہوئے حکم دیا کہ جو بھی مزدور پیدل سڑک پر نظر آئیں انہیں فوراً شیلٹر میں لے جا کر خورد ونوش کے اشیاء اور بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ جو مزدور ٹرین اور بس سے بھیجے جا رہے ہیں ان سے کرایہ نہیں لیا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں عدالت نے یہ بھی کہا کہ بس میں سفر کرنے والے مزدوروں کو حکومتیں کھانا دیں۔ اگر وہ ریل میں سفر کر رہے ہیں تو ریلوے کے ذریعہ کھانا مہیا کیا جانا چاہیے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ تارکین وطن مزدوروں کے کیس کی سماعت اس بار جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم آر شاہ نے کی۔ اگر اس بنچ میں چیف جسٹس اے ایس بوبڑے موجود ہوتے تو بعید نہیں تھا کہ اس بار بھی مزدوروں کے ہاتھ محرومی ہی آتی اس لیے کہ پہلے کی ہر بنچ میں موصوف براجمان تھے۔ عدالت کا یہ حکم سن کر سڑکوں اور پٹریوں پر دم توڑنے والے محنت کشوں کے اہل خانہ اور راستوں میں جنم لینے بچوں کی مائیں اور گھر والے غالب کے الفاظ میں یوں فریاد کناں ہیں ؎
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اس شعر کا دوسرا مصرع سپریم کورٹ پر صادق نہیں آتا کیونکہ وہ ہنوز پشیمان نہیں ہے۔ اس کو تو چاہیے تھا کہ وہ ان کروڑوں مزدوروں سے معافی مانگتی جن کو عدالیہ کی بے حسی نے شدید مصائب سے دوچار کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے تو خیر کئی سینیئر وکلاء کی گریہ وزاری کے بعد یہ حکم دیا مگر گجرات ہائی کورٹ نے تین ہفتے قبل احمد آباد میں ہفتے بھر کے لیے مکمل طور پر لاک ڈاؤن کے باعث ہونے والے مصائب پر ریاستی حکومت کو اس سے بھی واضح ہدایت دی تھی۔ احمد آباد میں کورونا وائرس کے معاملات میں زبردست اضافہ کے پیش نظر 7 مئی کو ریاستی حکومت نے دارالحکومت میں ایک ہفتہ کے لیے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا تھا۔ دودھ اور دوائیوں کی دکانوں کو چھوڑ کر سب کچھ 14 مئی تک بند رکھنے کا حکم دیا گیا تھا ایسے میں عوام کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے از خود نوٹس لے کر شہر کے مضافات وریاست کے دوسرے حصوں میں فاقہ کش تارکین وطن مزدوروں اور شہر کے دیگر لوگوں میں کھانے کے پیکٹ تقسیم کرنے کی تاکید کی۔
جسٹس جے بی پردی والا اور جے وورا کی ڈویژن بنچ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’’مکمل لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر لوگ بھوکے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں، دیگر رفاہی اداروں اور رضاکاروں سے غریب عوام کو جو بھی تھوڑی بہت مدد ملتی تھی وہ بھی رک چکی ہے۔ ایلس برج کے قریب فٹ پاتھ پر بسنے والے دو سو سے زیادہ افراد کے پاس پچھلے چار دنوں سے کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جو رضاکار ان کے پاس کھانا لاتے تھے انہیں بھی مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے کھانا پہنچانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ اس لیے ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے شہری بھوکے نہ رہیں۔ انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے جج صاحبان نے کہا کہ اگرچہ ریاستی حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کی پوری کوشش کر رہی ہے لیکن صورت حال قابو سے باہر ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاستی حکومت کے مختلف محکموں کے مابین مناسب تال میل کا فقدان ہے اور ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کچھ غلط ہو رہا ہے۔ بد قسمتی سے اس طرح کی درد مندی کا مظاہرہ عدالت عظمیٰ نے ہوائی جہاز سے ہندوستان آنے والے تارکین وطن امیر کبیر مسافروں کے تئیں تو کیا مگر سڑکوں پر چلنے والوں کے لیے نہیں کیا۔
وندے بھارت کے تحت تارکین وطن ہندوستانیوں کو واپس لانے والی ائیر انڈیا فلائیٹ کے پائلٹ دیوین کنانی نے بامبے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کر کے شکایت کی تھی کہ 23 مارچ کے سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بین الاقوامی پروازوں میں درمیانی نشست خالی نہیں رکھی جا رہی ہے۔ اس کے جواب میں ائیر انڈیا نے کہا کہ مذکورہ سرکلر گھریلو اڑانوں کے لیے اور اسے بھی ۲۲ مئی کو بدل دیا گیا ہے۔ اس مقدمہ کے خلاف ائیر انڈیا اور مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تو مہاجر مزدوروں کے مقدمات پر ٹال مٹول کرنے والی عدالت نے فوراً اس کی سماعت شروع کر دی اور خلاف توقع حکومت کی تائید کرنے کے بجائے سرزنش کرنے لگی۔ سرکار کی جانب سے سالیسیٹر جنرل نے یہ کہنے پر کہ جہاز کم ہیں اور اگر ایک نشست خالی چھوڑ دی جائے گی تو منصوبہ بگڑ جائے گا سپرم کورٹ نے کہا کہ گھریلو اور بیرونی دونوں قسم کی فلائیٹس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جہاز کے باہر فاصلہ رکھنا اور اندر شانہ بشانہ بیٹھنا غیر مناسب ہے۔ دو طرح کے ضابطے نہیں چلیں گے نیز حکومت کو ائیر لائن کے بجائے مسافروں کی صحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد ۶ مئی تک استثنائی اجازت دے کر بامبے ہائی کا حکم ماننے کا حکم دیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کا سب کے لیے یکساں ضابطوں پر زور دینا اور مسافروں کی صحت کا خیال رکھنا قابلِ ستائش اقدامات تھے لیکن افسوس کہ زمین پر چلنے والے مزدوروں اور فضا میں اڑنے والی پروازوں کے تئیں سپریم کورٹ کا اپنا رویہ تفریق وامتیاز پر مبنی تھا۔ امیر کبیر مسافروں کی صحت کا جس قدر خیال رکھا گیا ویسا غریب مزدوروں کا نہیں رکھا گیا۔ لاک ڈاؤن کے فوراً بعد 31 مارچ کو ذرائع ابلاغ پیدل مزدوروں کی تصاویر سے اٹا پڑا تھا مگر سالیسیٹر جنرل نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے کہہ دیا کوئی مزدور سڑک پر نہیں ہے اور عدالت عظمیٰ نے اس خلافِ حقیقت دعویٰ کو آنکھ موند کر قبول کر لیا۔ جب حکومت کی جانب سے پیدل چلنے والوں کو پچھلی مرتبہ کھانا پانی اور تحفظ دینے کا حکم دینے کی درخواست کی گئی تو عدالت نے صاف کہہ دیا کہ یہ حکومت کا کام ہے اس بابت وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ کیسا دوغلا پن ہے کہ پیدل چلنے والوں کو حکومت کے رحم وکرم پر چھوڑ کر ہوائی جہاز میں اڑنے والے مسافروں کی خاطر سرکار کو ڈانٹا جائے۔ مزدوروں کے بارے میں بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ کورٹ ان کی فریاد کو کیوں سنے جب کہ ہوائی جہاز کے مسافروں کا قریب قریب بیٹھنا تک گوارا نہیں کیا گیا؟ ائے کاش کے عدالت عظمیٰ نے ٹرک میں مویشیوں کی مانند بھرے ہوئے لوگوں کے کرب کو محسوس کیا ہوتا۔
اورنگ آباد سانحہ کے بعد ایک اور مفاد عامہ کا مقدمہ دائر کیا گیا جس میں مہاجر مزدوروں کو بلا کسی شرط کے مفت میں گھروں تک پہنچانے کا حکم دینے کی گزارش کی گئی۔ اس پر عدالت نے کہہ دیا مرکزی اور صوبائی حکومتیں ضروری اقدامات کر رہی ہیں اس لیے مقدمہ کو باقی رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ریل پٹریوں پر سونے والوں کو کون روک سکتا ہے؟ اس کے بعد چلچلاتی دھوپ میں ۲۲ مزدوروں کے ہلاک ہونے کی خبر آئی اس پر پی آئی ایل کے ذریعہ توجہ دلائی گئی تو عدالت نے حکومت کی دلیل دہراتے ہوئے کہا کہ یہ اس افواہ کے خوف سے ہو رہا ہے جس میں کہا گیا کہ لاک ڈاون تین مہینے چلے گا۔ اب جب کہ لاک ڈاون فی الحال ڈھائی مہینے چل چکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ افواہ نہیں تھی اور عوام کا اندیشہ درست تھا۔ عدالت اگر اس وقت حکومت کے دلائل پر ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے دیگر مسائل مثلاً بھوک، بیروزگاری اور غربت وغیرہ پر توجہ دیتی تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ ایک طویل غفلت کے بعد بیدار ہو کر مرکزی اور صوبائی حکومت کو نوٹس دینے کا جرم کرنے والی عدالت کو کون سزا سنائے گا؟
عدالت عظمیٰ کے ذریعہ اس طرح کی سفاکی کا مظاہرہ بارہا ہوتا رہا ہے۔ ہرش مندر نے ۷ اپریل کو مفاد عامہ کا مقدمہ پیش کیا اور مزدوری دینے کی بات کہی تو قاضیٔ اعظم بوبڑے نے پوچھا کہ جب کھانا مل رہا ہے تو روپیہ کیوں چاہیے؟ اس جواب سے ایسا لگتا ہے گویا مزدور انسان نہیں بلکہ مویشی ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جب چارہ ڈالا جا رہا ہے تو پھر اور کیا چاہیے؟ عدالت عظمیٰ کے اندر ان بے کس مزدوروں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کا گلا گھونٹنے کی خاطر سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے یہاں تک کہہ دیا کہ روزگار پیدا کرنے والی پی آئی ایل کی اس دوکانداری کو ان سنگین حالات میں بند کر دیا جانا چاہیے۔ مہتا جی نہیں جانتے کہ پی آئی ایل کوئی وقت گزاری کا مشغلہ نہیں ہے۔ اس طرح کے مشکل حالات میں ہی ان کی ضرورت پیش آتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا اے سی میں بیٹھ کر بغیر کسی معلومات کے مقدمہ درج کر دینا قوم کی خدمت نہیں ہے جب کہ وقت نے ثابت کر دیا کہ مزدوروں کی پیروی کرنے والے عوام کی مخلصانہ خدمت کر رہے تھے اور تشار مہتا جیسے لوگ حکومت کے ایماء پر عدالت کو گمراہ کر رہے تھے۔
مقدمہ کی سماعت کے دوران مؤقر اخبار دی ہندو نے ایک جائزہ شائع کیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ 96 فیصد مزدوروں کو راشن نہیں ملا اور 90 فیصد کو اپنی محنت کی اجرت تک نہیں ملی۔ تشار مہتا نے بلا تحقیق اس سروے کو غلط ٹھیرا دیا اور عدالت نے بھی اس دعویٰ کو قبول کرلیا۔ اس مقدمہ کو عدالت نے کمال رعونت سے یہ کہہ کر نمٹا دیا سرکار کو ضروری اقدامات کرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے اور یہ جاننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ کیا کہا گیا ہے؟ سوامی اگنی ویش نے کھیت میں کام کرنے والے مزدوروں کی مشکلات پر پی آئی ایل داخل کی تو چیف جسٹس نے اس پر ایس جی کے جواب کو سن کر بنا بحث کے مقدمہ ختم کر دیا۔ تشار مہتا نے وزارت زراعت کی رہنمائی پر عمل درآمد کا دعویٰ کیا لیکن عدالت نے اس کو جانچنے کی کوشش نہیں کی۔صفائی کا کام کرنے والوں کو پی پی ای فراہم کرنے کا مقدمہ آیا تو سی جے نے تحریری فیصلہ سنانے کے بجائے بس اتنا کہا مرکزی حکومت ڈبلیو ایچ او کی ہدایت پر عمل کر رہی ہے اور مقدمہ لپیٹ دیا۔ گاؤں واپس آنے والے مزدوروں کے لیے عارضی منریگا جاب کارڈ کا مطالبہ کرنے والے مقدمہ کو تشار مہتا کے یہ کہنے پر کہ سرکار نے 6800 کروڑ روپیوں کی ادائیگی کر دی ہے، طویل مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ سب سے بڑا لطیفہ تو رکن پارلیمان مہوا موئترا کے ساتھ ہوا۔ ان کے خط کو عدالت نے خود ۳ اپریل کو مقدمہ میں تبدیل کیا اور 13 اپریل کو وجہ بتائے بغیر خارج کر دیا۔ مثل مشہور ہے جیسی روح کے ویسے فرشتے اسی طرح جیسی سرکار ویسا ہی سرکاری وکیل۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کی رعونت فی الحال آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ عدالت کے اندر یہ جرأت نہیں ہے کہ ان کی زبان پر لگام لگائے اس لیے وہ جو من میں آیا وہ بولتے ہیں۔ ایسے میں اگر جج صاحبان کو اپنے وقار کا پاس ولحاظ ہوتا تو تشار مہتا جیسے بد زبان شخص کو کان پکڑ کر باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا۔تشار مہتا نے اپنی حالیہ پیروی کے بعد عدالت سے اجازت لے کر مزدوروں کی خاطر مداخلت کرنے والوں کو تباہی کے پیغامبر قرار دے دیا اور انہیں اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لیے کہا۔ انہوں نے حقِ نمک ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت کے اقدامات سے عدالت مطمئن تھی مگر یہ لوگ منفی رحجانات کو فروغ دینے کے لیے سوشیل میڈیا پر لکھتے اور انٹرویو دیتے ہیں وہ قوم کے حق میں خیر نہیں ہے۔ انہوں نے کیوین کارٹر نامی فوٹو گرافر کی مثال دے کر کہا گو کہ خود کشی کرنے والے اس فوٹو گرافر کو پلٹزر انعام سے نوازا گیا لیکن ایک صحافی نے اسے بھی گدھ قرار دیا تھا۔ اپنی دوکان چمکانے والے ایسے لوگوں کو سرکار پر تنقید کرنے والی عدالت ہی اچھی لگتی ہے۔ وکلاء کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ پر برستے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ متوازی حکومت چلا رہے ہیں اور مرکزی وصوبائی حکومت سے سوال کرتے ہیں۔
کپل سبل جب ان کا جواب دینے کے لیے اٹھے تو سیاست کرنے والے تشار مہتا نے نصیحت کی کہ عدالت سیاست کی جگہ نہیں ہے۔ اس پر کپل سبل نے کہا میں انسانیت کے مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر مہتا نے ایک ذاتی نوعیت کا سوال کر دیا کہ اس مصیبت سے بچانے میں آپ کی کیا حصہ داری ہے؟ اس کے جواب میں کپل سبل نے کہا میرے چار کروڑ ہیں۔ ائے کاش کہ اس کے بعد تشار مہتا بھی بتاتے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کیا تعاون کیا ہے؟ انہوں نے سرکار کی چاپلوسی کے سوا کچھ کیا ہوتا تو بتاتے۔ اس آفتِ ناگہانی نے سرکار اور اس کے وکیل دونوں کے مزدور دشمن چہرے کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ مہتا کی طرح چیف جسٹس بوبڑے کا بھی یہی خیال ہے کہ مشکل حالات میں انتظامیہ کو زیادہ سے زیادہ چھوٹ ملنی چاہیے۔ تو کیا عدالت کو محض خاموش تماشائی بن جانا چاہیے؟ اگر یہ موقف درست ہے تو ہوائی جہاز کے مسافروں سے متعلق بھی حکومت اور ائیر انڈیا کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی۔ اس کو اتنی جلدی تاریخ دینے کے بجائے ٹال دیا جاتا۔ ایسی سخت جرح اور پھٹکار سنانے کے بجائے تشار مہتا کے دلائل کو بلا چوں وچرا پہلے کی طرح مان لیا جاتا۔ عارضی چھوٹ دینے بعد بامبے ہائی کورٹ سے رجوع ہونے کے لیے نہیں کہا جاتا۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ پہلی نظر میں سرکاری احکامات کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور آگے کی بکنگ نہ کرنے کا حکم بھی نہیں سنایا جاتا۔
عدالت کا میزان اگر کسی ایک جانب جھک جائے تو وہ اپنا وقار اور اعتبار دونوں کھو دیتی ہے اور ایسا ہی معاملہ فی الحال سپریم کورٹ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وباء نے اس مرض کو بے نقاب کرنے کا کام کیا ہے۔ اس کا علاج لا دینی جمہوریت کے اندر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے الہامی ہدایت سے رجوع کرنا لازمی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ائے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔ اس آیت میں تفریق وامتیاز کی ساری بنیادوں (اپنا پرایا، کنبہ قبیلہ، امیر غریب) کو ایک ایک کرکے اکھاڑ کر پھینکا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اگر کوئی بھلائی کی خوش فہمی میں عدل کو پامال کرتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے زیادہ کوئی کسی کا خیر خواہی نہیں ہے۔ انسان اپنی چرب زبانی سے دوسرے انسانوں کو فریب تو دے سکتا ہے لیکن خدا کو نہیں کیونکہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ دنیا کی عدالت میں سزا سے بچ جانا آسان ہے لیکن اللہ کی عدالت میں بچ نکلنا ناممکن ہے۔
(مضمون نگار معروف کالم نویس وتجزیہ نگارہیں)
عدالت کا میزان اگر کسی ایک جانب جھک جائے تو وہ اپنا وقار اور اعتبار دونوں کھو دیتی ہے اور ایسا ہی معاملہ فی الحال سپریم کورٹ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وباء نے اس مرض کو بے نقاب کرنے کا کام کیا ہے۔ اس کا علاج لا دینی جمہوریت کے اندر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے الہامی ہدایت سے رجوع کرنا لازم ہے۔