عام آدمی پارٹی کی خاص فرقہ پرستی

میونسپل الیکشن سے قبل جھاڑو اور کنول میں گھٹیا سیاسی مسابقت

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

فساد متاثرین ہی پر فساد کا الزام۔ عآپ قائدین کے منہ میں بی جے پی کی زبان
بھارتیہ جنتا پارٹی کو نہات مکار سیاسی جماعت کے طور پر جانا جاتا ہے اس لیے کہ وہ ہر موقع کا انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے ۔ گودھرا کی آگ سے لے کر سہراب الدین کے انکاونٹرتک سبھی کے سہارے ووٹ بٹورے جاتے ہیں۔ کوئی چائے والا وزیراعظم کہہ دے یا باپ کون تھا ؟ جیسا سوال کردے ان جملوں سے فائدہ اٹھا کر اپنا سیاسی الو سیدھا کرلیاجاتاہے لیکن اس معاملے میں عام آدمی پارٹی بھی کم نہیں ہے۔ وہ جئے شری رام کا مقابلہ کرنے کے لیے ہنومان چالیسا پڑھنے لگتی ہے۔ دلی کے معمر ہندووں کی مفت ایودھیا یاترا کا اعلان کرکے دوسرے کی آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکتی ہے ۔ عآپ غریبوں کے لیے مفت بجلی بسوں میں خواتین کے مفت سفر کی باتیں کرکے رائے دہندگان کو خوش کرتی ہے۔ اچھے اسکول اور محلہ کلینک وغیرہ کی سہولت کو بنیاد بناکر عوام کا اعتماد بحال رکھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن فرقہ پرستی کے معاملے میں عآپ بی جے پی کی باپ بن جاتی ہے۔ کشمیر کا معاملہ ہو یا مرکز نظام الدین کا مسئلہ یہ بی جے پی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے۔ دلی کے گزشتہ فساد میں پر اسرار خاموشی اختیار کرلیتی ہے اور اس بار بولتی بھی ہے تو درمیان میں بی جے پی کا لب ولہجہ اختیار کرلیتی ہے کیونکہ دونوں کے اندر ابن الوقت جمہوری دیو استبداد چھپا بیٹھا ہے؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
جہانگیر پوری میں اس بار فساد ہوا تو ابتداء میں عام آدمی پارٹی نے اس کا الزام بی جے پی کے سر ڈال دیا ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ سارے غنڈے موالی اس پارٹی میں جمع ہوگئے ہیں اور دلی حکومت کے پاس پولیس دستہ نہیں ہے اس لیے وہ اپنے کارکنان کی مدد سے فساد نہیں رکوا سکتی۔ یہ موقف جزوی طور پر معقول ہے لیکن اگراسدالدین اویسی یا اجئے ماکن کی مانند خود اروند کیجریوال جائے وقوع پر پہنچ جاتے تو عوام کا اعتماد بحال ہوتا اور امن و امان کے قیام میں مدد ملتی ۔ پچھلے فساد میں انہوں نے گاندھی سمادھی پر ستیہ گرہ کا ناٹک کیا تھا لیکن اس بار وہ ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ عام آدمی پارٹی برندا کرات کی طرح منیش سسودیا کو سپریم کورٹ کے حکمنامہ کی نقل لے کر جہانگیر پوری روانہ کردیتی تو بلڈوزر کے ذریعہ ہونے والی تباہ کاری تھم سکتی تھی لیکن اس کو ہمیشہ اپنے فرقہ پرست رائے دہندگان کی ناراضی کا ڈر ستاتا رہتا ہےاس لیے وہ بیان بازی سے آگے نہیں بڑھتی۔ بدقسمتی سے اس بار وہ بیانات بھی حق گوئی و بیباکی کے بجائے بی جے پی کے ساتھ توتو میں میں بدل گئے ۔
بی جے پی نے محمد انصار پر تشدد کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا بے بنیاد الزام لگا دیا جس نے ایک چاقو بردار فسادی کو سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا تھا ۔اتفاق سے اس کی ویڈیو کو سب نے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ عام آدمی پارٹی نے انصار پر لگنے والی تہمت کی تردید کرنے کے بجائے بی جے پی سے اس کا رشتہ جوڑ دیا ۔ عآپ کی رکن اسمبلی آتشی نے ٹوئٹر پر تصویریں شیئر کرکے اپنا الزام ثابت کرنے کی کوشش کی اور دعوی کردیا کہ ’’جہانگیرپوری فسادات کا مرکزی ملزم انصار ایک بی جے پی لیڈر ہےنیز اس(انصار) نے بی جے پی کی امیدوار سنگیتا بجاج کو الیکشن لڑانے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘‘ اس الزام کے بعد بی جے پی سے فسادات کروانے کے لیے دلی والوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا ۔ اس طرح بی جے پی کو غنڈوں کی پارٹی کہنے کے باوجود تشدد کا الزام جلوس کے بجائے ایک بے قصور مسلمان کے سر منڈھ دیا گیا ۔ اس سے ایک معنیٰ میں بی جے پی کےموقف کی توثیق ہوگئی۔
دلی بی جے پی کے ترجمان پروین شنکر کپور نے اس کے جواب میں کیجریوال سے انصار کو پارٹی سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عآپ رہنماوں کے ساتھ اس کی تصویر شائع کردی۔ کپور نے اپنے خط میں لکھا کہ دلی والے عام آدمی پارٹی کی قیادت سے جہانگیرپوری فسادات میں نوجوانوں کی شمولیت پر جواب چاہتے ہیں، جو بظاہر عآپ کا ایک کارکن ہے۔شما ل مشرقی دلی کے بی جے پی رکن پارلیمان منوج تیواری نے انصار اور طاہر حسین کے عآپ سے تعلق کو ظاہر کرکے پوچھا کیا وہ فسادات کی فیکٹری چلا رہی ہے؟ اس طرح فساد کا الزام گھوم کر عآپ پر آگیا ۔ ایوان پارلیمان کے گزشتہ اجلاس میں دلی کے الگ الگ میونسپل کارپوریشن کو مودی سرکار نے آپس میں ضم کرکے ایک بنادیا ہے اور جلد ہی انتخاب کی توقع ہے اس لیے حریف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر الزام تراشی کررہی ہیں۔ یہ سلسلہ دن بہ دن تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے ۔
انصار کے معاملے میں جب عام آدمی پارٹی کو بی جے پی پر کوئی خاص سبقت نہیں ملی تو اس کا پول کھولنے کے لیے دلی سمیت پورے ملک میں بی جے پی کی غنڈہ گردی اور فسادات پر سروے کرانے کا نیا شوشہ چھوڑدیا ۔اس بابت عآپ کی رہنما آتشی نے تفصیل بتا تے ہوئے کہا کہ لوگوں سے دو سوال پوچھے جائیں گے۔ پہلا کیا بی جے پی نے چاروں طرف غنڈہ گردی اور دہشت پھیلا دی ہے؟ دوسرا کیا عام آدمی پارٹی مہذب، پڑھے لکھے اور ایماندار لوگوں کی پارٹی ہے؟ لوگ اس کا جواب ہاں یا نا میں دیں گے ۔ اس تماشے کا واضح مقصد فساد کو روکنا یا اس کے متاثرین کی مدد کرنا نہیں بلکہ اپنے انتخابی مفادات کا تحفظ ہے۔بی جے پی کا ہر ترجمان دلی تشدد کے حوالے سے فسادیوں پر گرفت کرنےکے بجائے بی جے پی کارکنوں کےذ ریعہ کیجریوال کی رہائش گاہ پر حملہ کا قصہ چھیڑ دیتا ہے اور منیش سسودیا کے گھر پر پرانے حملے کی یاد تازہ کرنے لگتا ہے۔موقع ملے تو دلی جل بورڈ میں بی جے پی صدر پر تشدد، تخریب کاری اور غنڈہ گردی کا الزام لگاتا ہے نیز لکھیم پور کھیری میں آشیش مشرا کے ذریعہ کسانوں کے کچلے جانے کاراگ الاپنے لگتا ہے حالانکہ ان واقعات کا جہانگیر پوری تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ محض نفسِ مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی ترکیب ہے ۔
ان دونوں جماعتوں کے درمیان اس تشدد کے زمانے میں سیاسی نوک جھونک اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ آتشی نے دعویٰ کردیا پورے ملک کے عوام بی جے پی کی غنڈہ گردی، تشدد اور دہشت سے پریشان ہیں۔اب تو وہ کہنے لگے ہیں کہ اگر کوئی بیرون ملک غنڈہ گردی کرتا ہے تو جیل جاتا ہے، لیکن ہندوستان کے اندر غنڈہ گردی کرنے والا بی جے پی میں چلا جاتا ہے۔ ایسے مجرموں کو بی جے پی اعزاز دیتی ہے۔ غیر ممالک میں لڑکیوں سے بدتمیزی ، چھیڑ چھاڑ ، زیادتی اور تشدد کرنے والے کوسخت ترین سزا ملتی ہے لیکن ہندوستان میں سوامی چنمیانند، ساکشی مہاراج اور کلدیپ سنگھ سینگر جیسے لوگوں کو بی جے پی میں بڑے بڑے عہدے دیے جاتے ہیں۔ آتشی کے مطابق دلی سمیت ملک کے ہر حصے میں لوگ ایک آواز میں بی جے پی کی غنڈہ گردی سے پریشانی کا اظہار کررہے ہیں ۔ ویسے تو بی جے پی کے متعلق کہی جانے والی یہ ساری باتیں درست ہیں لیکن ان کا جہانگیر پوری کے فساد سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس طرح گویا عام آدمی پارٹی نے فساد کی آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کا دھندا شروع کردیا۔
اس دوران اچانک کھرگون کی مانند دلی میں بھی بلڈوزر کے استعمال کا سنگین خدشہ منڈلانے لگا۔ عآپ کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان نے نصف شب میں ایک ویڈیو بیان جاری کرکے بلڈوزر کے استعمال سے روکا مگر پارٹی کے کسی اہم ہندو لیڈر کی جانب سے پیغام نہیں آیا حالانکہ یہ احمق اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ بلڈوزر صرف مسلمانوں کی دوکانوں پر نہیں چلے گا بلکہ ہندووں کی دوکانیں بھی اس کی زد میں آئیں گی اور ایسا ہی ہوا۔ اس معاملے میں جہاں فرید احمد اور ریحانہ بی بی کی دوکان ٹوٹیں وہیں دلیپ سکسینہ اور گنیش گپتا بھی محفوظ نہیں رہے بلکہ گپتا جی تو اپنے دستاویز لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر عام آدمی پارٹی کو اپنی غفلت کا احساس ہوا اور اس کی بھرپائی کے لیے رکن پارلیمان راگھو چڈھا کو میدان میں اتارا گیا۔ راگھو چڈھا نے پینترا بدل کر نہایت اعتماد اور سلیقہ سے بی جے پی پر زبردست حملہ بول دیا۔ انہوں چار باتیں کہیں جس کو نہ صرف اروند کیجریوال نے خود ری ٹویٹ کیا بلکہ منیش سسودیا سے لے کر آتشی تک سب نے اس بیان کے مواد کو گول مول کرکے دوہرایا۔
راگھو چڈھا نے سب سے پہلے تو بی جے پی پر سیدھا الزام لگا دیا کہ ملک بھر میں وہ جگہ جگہ فساد کروا رہی ہے۔ اس کے بعد چڈھا بولے اگر ملک بھر میں دنگا فساد روکنا ہے تو سب سے پہلے بی جے پی کے صدر دفتر پر بلڈوزر چلا نا چاہیے ۔ وہ گارنٹی دیتے ہیں کہ اگر ایسا کیا گیا تو فرقہ وارانہ تشدد رک جائے گا۔ اس کے بعد امیت شاہ پر نشانہ سادھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کے اشارے پر فساد ہورہا ہے۔ دنگوں کو روکنا ہے تو سب سے پہلے امیت شاہ کے گھر پر بلڈوزر چلایا جائے ۔ چوتھی بات چڈھا نے یہ کہی کہ پچھلے پندرہ سالوں سے بی جے پی میونسپل کارپوریشن پر قابض ہے ۔ اس کے رہنماوں نے رشوت لے لے کر یہ غیر قانونی تعمیرات کروائی ہیں۔ اس لیے بلڈوزر ایم سی ڈی کےان کارپوریٹرس اورافسران کے گھر پر بھی چلنا چاہیے جنہوںنے پیسے لے کر یہ تعمیرات کروائی ہیں ۔ ان حقائق سے انکار تو ممکن نہیں ہے مگر یہ رائے دہندگان کو رجھانے کی خاطر کہے جانے والے کھوکھلے الفاظ ہیں ۔
راگھو چڈھا نے اپنی باتوں کے درمیان میں تیسرے نمبر پر وہ بات کہہ دی جس نے نظریاتی سطح پر عآپ اور اس کے باپ یعنی بی جے پی کو ایک ہی سطح پر کھڑا کردیا۔ وہ بولے گزشتہ آٹھ سالوں میں بی جے پی نے جگہ جگہ پورے ملک میں بنگلا دیشی اور روہنگیا لوگوں کو بسایا۔ بی جے پی انہیں استعمال کرکے فساد کروارہی ہے۔ انہوں نے بی جے پی سے مطالبہ کیا کہ جن علاقوں میں مذکورہ لوگوں کو بسایا گیا اس کی فہرست انہیں دی جائے تاکہ وہ بتا سکیں کہ اگلا فساد کہاں ہوگا؟ دلی سے بی جے پی کے رکن پارلیمان منوج تیواری فساد کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ڈھکے چھپے انداز میں شہر کے اندر مقیم غیر قانونی تارکین وطن کو پولیس اور امن و امان کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دے چکے ہیں اوران کا اشارہ بلا واسطہ بنگلادیشیوں کی جانب تھا مگر عآپ نے کھل کر وہی بات کہہ دی ۔ اس طرح کیجریوال کی جھاڑو نے نفرت کا کچرا بے قصور اور بے ضرر مسلمانوں کے دروازے پر لے جاکر پھینک دیا۔ عام آدمی پارٹی سے ایسی گھٹیا سیاست کا تصور بھی محال تھا ۔
اقوامِ متحدہ نےروہنگیا مسلمانوں کو ’’روئے زمین کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دے رکھا ہے۔میانمار غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے شہریوں کی شہریت کا انکارکرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بڑی تعداد ہجرت کرکے بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبورہے اور ان کی ایک قلیل تعداد ہندوستان میں بھی بسی ہوئی ہے ۔ عالمی عدالتِ انصاف میں ان کی نسل کشی کا مقدمہ زیر سماعت ہے لیکن اس کا فیصلہ آنے سے قبل امریکہ نے نسل کشی کو تسلیم کرلیا ہے۔گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و تشدد نسل کشی ہے۔اس سے میانمارمیں فوجی آمر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ کھل چکا ہے ۔بلنکن نے کہا تھا کہ امریکی حکام نے میانمار فوج کی بڑے پیمانے پر اور منظم مہم کے تحت شہریوں پرکیے گئے مظالم کی مصدقہ گواہیوں کو پرکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ایسے بے خانماں لوگوں کو فساد کا موجب ٹھہرانا نہایت شرمناک حرکت ہے جو عآپ سے سرزد ہوئی ہے اور اس کو معاف نہیں کیا جاسکتا ۔
امیت شاہ کی مہربانی سے بنگلا دیشی کا نام آتے ہی پڑوسی ملک سے آکر بسنے والے مسلمانوں کا تصور ذہن میں آجاتا ہے جو سراسر غلط ہے ۔ مغربی بنگال وطن عزیز کا حصہ ہے۔ اس میں تیس فیصد مسلمان بنگالی بولتے ہیں ۔ ملک کے دیگر صوبوں سے جس طرح لوگ بڑے شہروں میں آکر بسنے کے لیے مجبور کیے گئے ہیں وہی حال مغربی بنگال کا بھی ہے۔ دلی کے اندرجس طرح پنجابی، ہریانوی ، اترپردیش، اتراکھنڈ ، بہار اور راجستھان کے مزدوروں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے اسی طرح مغربی بنگال کے لوگ بھی بسے ہوئے ہیں ۔ ان میں ہندو مسلمان سب ہیں ۔ کسی ہندو کو بنگالی زبان بولتے ہوئے سننے پر اس کے بنگلا دیشی ہونے کا خیال نہیں گزرتا لیکن اگر وہ مسلمان ہوتو اسے بنگلا دیشی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ بالکل الٹی صورتحال ہے ۔ بنگلادیش کے اندر دس فیصد ہندو ہیں ۔ ایک زمانے میں وہاں بہت غربت تھی اور سرحد بھی کھلی کھلی سی تھی اس لیے وہاں کے ہندو روزی روٹی کے لیے ہندوستان میں داخل ہوتے تھے ۔ اب وہ سلسلہ بھی بند ہوگیا ہے کیونکہ بنگلا دیش کی معیشت بہتر ہوگئی اور سرحد پر پہرا بھی سخت کردیا گیا ہے۔
ایسی صورتحال کے اندر دلی جیسے شہر میں بنگالی بولنے والے ہندووں میں بنگلا دیش سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ امیت شاہ جیسے لوگوں نے انہیں جونک کہہ کر معاملہ الٹ پلٹ دیا۔ پہلے بی جے پی اور اب عآپ فساد ٹھیکرا بنگلا دیشیوں کے بہانے مسلمانوں کے سر پر پھوڑنے کی نہایت مذموم کوشش کررہی ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں عام آدمی پارٹی اپنے سیاسی فائدے کی خاطر بی جے پی سے بھی نیچے اتر گئی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عام آدمی پارٹی اس قدر گھٹیا سیاست کرنے پر کیوں مجبور ہوگئی ؟ اس سوال کے جواب کی خاطر دلی کی انتخابی بساط کو سمجھنا ضروری ہے۔ دلی کہنے کو صوبہ ہے مگر اس کی حیثیت ایک بڑے شہر سے زیادہ نہیں ہے۔ یہاں پر تین انتخابات ہوتے ہیں ۔ پارلیمانی ، صوبائی اور بلدیاتی ، ان تینوں میں دلی کے رائے دہندگان کا رویہ بدل جاتا ہے۔
دلی میں پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کے سارے امیدوار جیت جاتے ہیں اور ریاستی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو زبردست کامیابی مل جاتی ہے اس کے بعد جب بلدیاتی انتخاب آتے ہیں تو پھر سے بی جے پی کی قسمت کھل جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان رائے دہندگان کو نظریاتی سطح پر دونوں جماعتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا کیونکہ دونوں ہندو مذہبیت کا راگ الاپتے ہیں۔ اروند کیجریوال چونکہ مفت کی سہولتیں دیتے ہیں اس لیے انہیں ریاستی سطح پر کامیاب کردیا جاتا ہے۔ دلی کا ووٹر جانتا ہے کہ اگر دلی سے سارے ارکان پارلیمان جیت جائیں تب بھی اثر انداز نہیں ہوسکیں گے اس لیے بی جے پی کو کامیاب کردیتا ہے ۔ مقامی سطح پر بی جے پی کا اب عوام سے گہرا رابطہ ہے اس لیے وہ بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ ان دونوں جماعتوں نے عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرکے اپنی سیاست چمکائی ہے اس لیے وہ دونوں ان کی ناراضی سے خائف رہتے ہیں ۔بلا اجازت جلوس نکال کر اشتعال پھیلانے والے ہندو فسادیوں کا نام نہیں لیتے ۔ مظلوم مسلمانوں کے آنسو نہیں پونچھتے ۔ ایسے میں بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے لیے روہنگیا اور بنگلا دیشیوں کے سر پر فساد کا ٹھیکرا پھوڑنے کے سوا کو ئی متبادل نہیں ہے ۔ یہ جمہوری نظام کی بدترین شکل ہے کہ جس میں حکمراں طبقہ اور حز مخالف ایک دوسرے کے دشمن ہونے کےباوجود ظالم کے ساتھ اور مظلوم کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے فی زمانہ علامہ اقبال کا یہ شعر آپس میں متحارب بی جے پی اور اے اے پی پر بیک وقت صادق آتا ہے؎
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہُوری نظام
چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!
***

 

***

 کیجریوال کی جھاڑو نے نفرت کا کچرا بے قصور اور بے ضرر مسلمانوں کے دروازے پر لے جاکر پھینک دیا۔ عام آدمی پارٹی سے ایسی گھٹیا سیاست کا تصور بھی محال تھا


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  01 تا 07 مئی  2022