عالم تصور سے ۔۔۔

ایمان والوں کی پہلی عید

سیف اللہ، راجستھان

 

ہم کچھ دیر کے لیے ان ظاہری آنکھوں کو بند کر کے تصور کی آنکھوں کو کھولیں اور آج سے چودہ سو برس پہلے کا منظر دیکھیں۔
یہ مدینہ منورہ ہے۔ اسلامی حکومت کا پہلا دارالسطنت۔ آنحضرتﷺ کا شہر۔ آج یہاں پر چہل پہل ہے، رونق ہے، جوش وخروش ہے، اس وقت مدینہ بچوں کی چہلوں، جوانوں کی تفریحوں اور ضعیفوں کی سنجیدگی آمیز تفریح گاہوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
کیا آپ نے سوچا کہ یہ خوشیوں کا سمندر یہاں کیوں ٹھاٹھیں مار رہا ہے؟ لطف و تفریح کے دریا کیوں بہہ رہے ہیں؟ آج مدینہ میں پہلی بار عید منائی جا رہی ہے بلکہ یوں کہیے کہ عالم امکان کی پہلی عید کا پہلا جلوہ یہاں کی سرزمین پر آج لوگوں نے دیکھا ہے۔
اللہ اللہ آج مسلمانوں کی خوشیوں کا کیا پوچھنا، تیرہ برس تک کے چھوٹے بڑے ظلم انہوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیے، اپنوں کے طعنے سنے، غیروں کے پتھر کھائے، گھر چھوٹا، سب چھوٹے لیکن انہوں نے اللہ سے جو رشتہ استوار کیا تھا اس پر ثابت قدم رہے اور پریشانیوں اور مصیبتوں میں گھبرا کر پیچھے دیکھنے کے بجائے اللہ کی ہی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہے۔ حق یہ ہے کہ ان ہی کو آج تفریح کا حق حاصل ہے جنہوں نے اللہ کے اور اس کے رسول کے احکام پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ یہ صاحب جو خوشی خوشی جا رہے ہیں، آپ نے انہیں پہچانا؟ یہ حضرت بلال حبشیؓ ہیں۔ سچ بتائیں، آج کے دن جب یہ پچھلی مصیبتوں کو یاد کرتے ہوں گے تو ان کا سر سجدہ شکر کے لیے جھک نہ جاتا ہو گا اور کیا یہ اپنے ان دنوں کو بھول گئے ہوں گے جب مکہ کے کفار انہیں گرم انگاروں پر لٹا کر پتھر کی بھاری سل ان کے سینے پر رکھ دیتے تھے اور ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ اللہ کے ساتھ ہمارے معبودوں کو بھی شریک کرو لیکن اس آزمائش میں بھی ان کے منہ سے ’’ احد احد‘‘ کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا۔ تو آج جو کہ عید کا دن ہے، خوشی کا دن ہے، لطف و تفریح کا دن ہے، ان کی خوشی کا کیا عالم ہو گا؟
مثال بہت چھوٹی سی ہے لیکن یوں سمجھیے کہ جس طرح ایک طالب علم سال بھر محنت کرتا ہے، رات دن تعلیم میں لگا رہتا ہے اور اس کے بعد جب نتیجے میں وہ اپنے آپ کو کامیاب دیکھتا ہے تو اس روز اسے کتنی خوشی ہوتی ہے؟ اسی طرح آج رسول اللہ ﷺ کے شیدائیوں نے رزلٹ شیٹ میں اپنی کامیابی دیکھ لی تھی، یہ عید انہیں تیرہ برس کی مشقتوں کے صلے میں ملی تھی۔ ان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب عام تفریح کا حکم ملا تھا۔ مکہ میں تو ان چیزوں کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ مدینہ ہی میں یہ نعمت ملی تھی۔ لیکن مدینہ آتے ہی دشمنوں کی ریشہ دوانیاں شروع ہو گئیں، لوگ ابھی اطمینان سے بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ 2 ہجری کے اس رمضان میں دشمنوں کی چڑھائی کی خبر ملی۔ مسلمان رمضان کے دنوں میں مقابلے کے لیے نکلے۔ ہم اور آپ تو صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔ اس لیے ذرا ان کی حالت کا تصور کیجیے، کوئی منظم فوج نہیں تھی، پورا سازو سامان نہیں تھا۔ مجاہدین بہت کم تھے۔ پھر عرب کی گرمی، ریتیلی زمین، سر پر تپتا ہوا سورج، نیچے جلتی ہوئی ریت، پانی ناپید، غذا کم۔۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود مسلمان خدا کے حکم پر جانیں فدا کرنے کو نکل آئے۔ یہ معرکہ بدر تھا۔ اس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان روئے زمین پر پہلی مرتبہ آمنا سامنا ہوا تھا۔
مسلمانوں کی طاقت اس وقت اتنی کم تھی کہ آنحضرت ﷺ روتے جاتے تھے اور اللہ سے کہتے جاتے تھے کہ بار الٰہا یہ میری تمام عمر کی کمائی ہے۔ میں نے انہیں تیرے حکم پر لا کھڑا کیا ہے۔ دشمنوں کی تعداد بہت ہے۔ اب اگر تو نے ان کو اس جگہ شکست دی تو قیامت تک روئے زمین پر تیری بندگی نہ کی جائے گی۔ گھمسان کی لڑائی کے بعد مسلمانوں کو اس معرکہ میں فتح ہوئی۔ دشمنوں کے بڑے بڑے سرغنے قتل کیے گئے۔
اور پھر رمضان کے دنوں میں اپنی کم طاقت کے باوجود انہوں نے دشمنوں کے مسلح چکر سے جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا اور ایسی شکست دی جو رہتی دنیا تک یاد رہے گی۔
رمضان کے تیس دن پورے ہونے کے بعد پہلے ہی روز عید کا دن آ جاتا ہے تاکہ مسلمان اس دن خوشی منا سکیں تو آج مدینہ میں وہی پہلی عید ہے۔ مرد اور خواتین، چھوٹے اور بڑے ہر ایک اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس تفریح میں حصہ لے رہے ہیں۔ آج کے دن بھی وہ دائمی زندگی کو یاد رکھتے ہیں کہ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے جو کچھ یہاں بوؤگے وہی وہاں کاٹوگے، انہیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ آج خوشی کے دن اتنے مدہوش نہ ہوجاؤ کہ اپنے ان بھائیوں کو بھول جاؤ جو کہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس تقریب میں حصہ نہ لے سکے، انہیں ساتھ لو اور خوشیوں میں شریک کرو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021