’ عاشق قرآں ہوں ، یہ رتبہ بھی مجھ کو کم نہیں ‘
مولانا محمد یوسف اصلاحی ،جن کا ذہن حکمت قرآن کا خزانہ تھا
محمد جاوید اقبال، نئی دہلی
رواداری، وضع داری اور شرافت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی پرکشش شخصیت
مولانا محمد یوسف اصلاحی کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کی گفتگو نہایت دل پزیر ہوتی تھی۔ وہ معروف ومشہور عالم دین، عظیم مصنف اور نہایت عمدہ مقرر تھے۔ ان کے انتقال سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ ان کی زبان میں عجیب قسم کا جادو تھا۔ ان کی سیرت میں ایسی کشش تھی کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ مغرب ومشرق کے عوام وخواص بھی ان کی طرف مائل ہوتے تھے۔ ان کی کتابیں شوق سے پڑھی جاتی ہیں یہاں تک کہ جاپان میں بھی ان کی کتابوں کے ترجمے شائع ہوتے ہیں۔ ان کی مشہور کتاب آداب زندگی دنیا کے مسلمانوں میں مقبول ترین کتاب ہے۔
وہ تحریک اسلامی کے ایک ستون تھے۔ تقریبا ۳۵ سال تک مرکزی شوریٰ جماعت اسلامی ہند کے رکن رہے۔ اس سے زائد سالوں تک مجلس نمائندگان کے ممبر رہے۔ آل انڈیا اجتماعات میں ان کا ایک پروگرام ضرور رہتا تھا۔ مرکز جماعت اسلامی ہند میں وہ جب بھی تشریف لاتے نماز فجر کی امامت ان کے ذمہ رہتی۔ خطبہ جمعہ بھی وہ دیتے اور دلوں کو گرم و گداز کرتے۔ آسان، شستہ اور دلکش زبان قرآن وحدیث کے حوالے صحابہ کرام کے سچے واقعات سے عمل کی طرف راغب کرتے۔ ان کے اندر رواداری اور وضع داری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ انہوں نے اپنے آپ کو حق پسندی اور شرافت کے سانچے میں ڈھال لیا تھا۔
’’شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق‘‘
ان کی تقریر اور گفتگو سے معلوم ہوتا تھاکہ ان کا ذہن قرآن کی حکمت کا خزانہ ہے۔ ان کی شخصیت میں ایسی دل کشی تھی کہ ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔ مظاہر العلوم سہارنپور میں انہوں نے تعلیم پائی لیکن جماعت اسلامی سے تعلق ہونے پر ان کا اخراج کیا گیا۔ اس کے بعد مولانا مدرستہ الاصلاح سرائے میر، اعظم گڑھ اعلیٰ تعلیم کے لیے گئے جہاں انہیں مولانا اختر اَحسن اصلاحی اور دیگر اساتذہ کی صحبت میسر آئی جن سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا اپنے اساتذہ کے افکار اور تحقیقات سے استفادہ کرتے اور نوٹس بھی تیار کرتے۔ مرحوم قرآن پاک پر مسلسل غور وفکر کرتے رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی مایوس نہ ہوتے تھے بلکہ حالات کی سنگینی سے کوئی نہ کوئی روشن پہلو نکال لاتے۔ اپنی تقریر، تحریر اور گفتگو میں قرآن وحدیث کے حوالے دیتے۔ میں نے جب بھی قرآن کی کسی مشکل آیت کے بارے میں معلوم کیا انہوں نے فوراََ دل لگتی تشریح کر دی۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ بعد میں بتاؤں گا۔ میں نے ان کے پاس ایک ایسا قرآن کا نسخہ دیکھا جو انہوں نے ہر ورق کے بعد ایک سادہ ورق شامل کر کے جلد کرایا ہوا تھا اور وہ ان سادہ صفحات پر قرآن کے نکات نوٹ کرتے رہتے تھے۔ وہ قرآن پاک کے شیدائی تھے۔
ان کی شخصیت با رعب تھی وہ ہر جگہ مقبول رہے۔ ان کے مخالفین بھی ان کے علم اور فکری صلاحیت کا لوہا مانتے تھے۔ وہ اسلامی افکار کو نہایت عمدہ، نئے اسلوب اور آسان زبان میں پیش کرتے مثلاََ ایک غیر ملک میں ان کی ملاقات ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ دار سے ہوئی جو مُلحد تھا۔ مولانا مرحوم نے دوران گفتگو اس سے کہا کہ میں ایک خدا پر یقین رکھتا ہوں اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں پر اور آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر یقین رکھتا ہوں۔ میرا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ایک دن ایسا آکر رہے گا جب تمام انسان اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے جہاں ان کا حساب کتاب ہو گا۔ پھر فرمایا میں سال میں ایک دفعہ حج بھی کرتا ہوں جو زندگی مین ایک بار فرض ہے۔ میں زکوٰۃ بھی دیتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے اس شخص سے پوچھا ۔کیا آپ اپنا عقیدہ بتائیں گے؟ اس شخص نے کہا میں خدا کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ ان سب باتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد نماز کا وقت ہو گیا اور نماز کی تیاری ہونے لگی۔ اس نے پوچھا کہ کیا میں بھی نماز پڑھ سکتا ہوں۔ جواب دیا گیا کہ آپ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ کئی اور لوگ بھی افسر اعلیٰ کے ساتھ نماز میں شامل ہو گئے۔ نماز کے بعد ان سب نے اسلام قبول کر لیا۔ بات بہت سادہ ہے لیکن اسلوب کی قدرت نے اس کو پُر اثر کر دیا۔ اللہ تعالیٰ جس کو جب چاہے ہدایت دیتا ہے۔
اسی طرح ایک خط کے جواب میں مولانا نے تحریر فرمایا ۔’ میرے بھائی! قرآن کو اپنا ساتھی بنا لیجیے۔ جب اکیلے میں ہو تو اس کے پاس جاؤ، قرآن سے باتیں کرو، اس سے معاملات میں مشورہ کرو، یہ آپ کی زندگی میں انقلاب برپا کر دے گا۔ یہ کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ آپ کی غلطیوں پر ٹوکے گا۔ آپ کو اصلاح کی دعوت دے گا۔ اندھیری گھڑی میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ خوش قسمت ہوں گے۔ آپ کو اپنی قسمت پر ناز ہوگا۔ آپ کو احساس ہوگا کہ آپ نے سب کچھ پا لیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ تم کو قرآن کی روشنی عطا فرمائے۔‘
مولانا مرحوم کا یہ انداز بہت نرالا، دلکش اور پُر اثر ہے۔ ان کی خطبات، مکتوبات اور دیگر تحریریں آسان اور دل کو چھو لینے والی ہیں۔
ان کے پانچ صاحبزادگان ہیں جو الحمدللہ سب صالح ہیں، سلمان اسعد سلمہ نے عربی میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ کچھ کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ امید ہے کہ مولانا مرحوم کے درس، خطابات کو وہ مرتب کر کے افادہ عامہ کے لیے شائع کریں گے اور مرحوم کے کام کو آگے بڑھائیں گے۔
مولانا مختلف اداروں اور خاص طور سے تعلیمی اداروں کے سرپرست رہے۔ مرکزی درس گاہ اسلامی کے ایک طویل عرصے تک ناظم رہے۔ جامعتہ الصالحات میں مولانا عبد الحئی مرحوم کے بعد جناب توسل حسین صدیقی صاحب ناظم رہے۔ ان کے انتقال کے بعد تقریباََ ۲۸ سال تک مولانا یوسف اصلاحی مرحوم نے اس ادارے کو خون دل سے سینچا۔ آنے والی نسلیں ان کے لیے ہمیشہ دعا کرتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کا مقام بلند کرے۔ ان کے علم وعمل کو ہما رے لیے نمونہ بنائے۔ آمین!
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 02 جنوری تا 08 جنوری 2022