طنز ومزاح

نمک پارے

الفیہ فرحت ، مہاراشٹر

 

"السلام علیکم! کیا حال ہے پروفیسر صاحب سب بخیر ہیں؟ آج بہت دنوں بعد آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے” میں نے گرمجوشی سے مصافحہ کے لیے اپنے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
"ارے یہ کیا حماقت ہے بھئ! آپ کو معلوم ہونا چاہیے پینڈمک چل رہا ہے، وبائی ماحول ہے اور آپ ہاتھ ملانے پر مصر ہیں!! ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ دو گز کی دوری، ماسک ہے ضروری۔۔۔اور آپ کا ماسک کہاں ہے جناب؟ آج کل کے نوجوان اپنے آپ کو اسپائیڈر مین سمجھنے لگے ہیں، انہیں نہیں معلوم کہ یہ ظالم وائرس نہ اسپائیڈر مین کا سگا ہے نہ شکتی مان کا” انہوں نے اپنے منہ سے ماسک نکالتے ہوئے پھوپھلے منہ سے تھوک کی بوچھاڑ اڑاتے ہوئے کہا.
"جی جی! بالکل درست فرمایا محترم آپ نے’’ میں نے خجالت محسوس کرتے ہوئے بزرگوار کی تائید کرنا چاہی،
” ہاں! تو اب بتائیے رہبر میاں! آپ کیا پوچھ رہے تھے؟” انہوں نے ایک دم باتوں کارخ بدلتے ہوئے کہا،
"جی! میں بس آپ کی خیر خیریت دریافت کر رہا تھا” میں نے محتاط انداز میں کہا
"کیا بتائیں رہبر میاں خیریت ہی تو نہیں ہے۔ اسی لیے ذرا دل بہلانے اور ہوا خوری کرنے، سیر سپاٹے کے لیے نکلے ہیں۔ سنا ناں آپ نے؟ ہوا خوری ہی کہا ہے میں نے۔۔۔”
انہوں نے چشمے کو ناک سے نیچے کرتے ہوئے مجھے گھورا اور میں کچھ لمحے کے لیے سٹپٹا گیا۔
"اچھا ہوا جو آپ سے ملاقات ہو گئی۔ آئیے بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں” اس سے پہلے کہ میں احتجاج کرتا، پروفیسر صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے آگے کی جانب لے گئے اور پتھر کی بنی نشست پر براجمان ہو گئے۔
"پروفیسر صاحب میری آن لائن کلاس کا وقت ہو رہا ہے اور اب تو لاک ڈاؤن میں بھی حکومت نے ڈھیل دے دی ہے۔ ان شاء الله کل بیٹھ کر پورے اطمینان سے گفتگو کرتے ہیں” میں نے دامن بچانے کی کوشش کی۔
"ارے رہبر میاں رہنے دیں، رہنے دیں! میں خوب جانتا ہوں آپ کی آن لائن کلاسس کو، یہ آج کل کے نا اہل اساتذہ، طالب علموں اور ان کے والدین کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور طالب علم اپنے والدین اور استادوں کو بے وقوف بنا چکے ہیں، بھئی درس وتدریس کے شعبے سے ہم چالیس سال منسلک رہے ہیں۔ مگر وہ دَور اور تھا۔ اس دَور سا تعلیمی معیار اب کہاں ہے! ہم استاد بھی اپنی مثال آپ تھے اور طالب علم بھی خاصے مثالی ہوا کرتے تھے” انہوں نے گہری آہ بھرتے ہوئے کہا۔
میں نے ان کی ساری باتیں عدم دلچسپی سے سنیں، البتہ ان کا آج کل کے مدرس کو "نااہل” کہنا مجھے ہضم نہیں ہوا تھا ۔
"ایسی بات نہیں ہے پروفیسر صاحب! ہمارے مدرسین اپنے طالب علموں کے تئیں بہت خیرخواہ اور مخلص ہیں اور ان کے روشن مستقبل کے لیے، بہت جانفشانی سے اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں اور ہمارے بچے بھی ماشاءاللہ بہت سنجیدگی اور سچی لگن سے آن لائن ہی سہی مگر محنت کر رہے ہیں۔
میں نے غیر محسوس طریقے سے ان کی بات پر اعتراض جتانے کی کوشش کی۔
"کس خیر خواہی، جانفشانی، سنجید گی اور سچی لگن کی بات کر رہے ہیں آپ رہبر میاں! "انہوں نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔
"میری پوتی آن لائن کلاس اٹینڈ کرتی ہے، پوری شان اور آب وتاب کے ساتھ کرتی ہے، پورا گھر سر پر چڑھا لیتی ہے، پڑھائی کے نام پر باپ کے ناک میں دم کر دیا ہے۔ پہلے کہتی تھی "بابا موبائیل نہیں ٹیب چاہیے اور اس کے باپ اور ہمارے نالائق بیٹے نے بھی فرمانبرداری کا ثبوت دیتے ہوئے بیٹی کی فرمائش پوری کردی، حالانکہ ہماری بیگم اپنے نالائق بیٹے کو منع کرتی گئی کہ "بیٹا بچوں کی ہر خواہش پوری کرنا ٹھیک بات نہیں ہے” مگر اب ان کی گھر میں کہاں چلتی ہے۔ اور ہم تو گھریلو معاملات میں زیادہ دخل اندازی بھی نہیں کرتے ہیں، ہمیں تو پتہ بھی نہیں گھر میں کیا ہو رہا ہے کیا چل رہا ہے؟
جب سے ریٹائرمنٹ ہوا ہے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں بس۔
پروفیسر صاحب بڑی شان بے نیازی سے شکایت بھی کررہے تھے اور گھریلو معاملات سے عدم توجہی اور عدم دلچسپی کا اعلان براءت بھی فرمارہے تھے۔
"درست فرمایا آپ نے! والدین ہی اپنی اولاد کی ہر جائز وناجائز خواہشات پوری کرکے بچوں کو ضدی اور غیر سنجیدہ بنا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بچے نااہل طالب علم ثابت ہو رہے ہیں”
میں نے بھی تیر نشانے پر لگانے کی کوشش کی۔مگر ان پر میری باتوں کی تلخی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
"ارے میاں! آگے اور سنیے، کچھ مہینے پہلے ہماری پوتی کی سالگرہ پر ہمارے نالائق بیٹے نے بچی سے پوچھ ہی لیا کہ اسے اپنی سالگرہ پر کیا تحفے چاہیے تو بچی نے سیدھے لیپ ٹاپ کی ڈیمانڈ کر دی، اور حیرت کی بات تو تب ہوئی جب اس کی ڈیمانڈ پوری ہو گئی۔ ہماری بیگم کا تو تب سے لیکر آج تک بی پی کبھی اوپر تو کبھی نیچے۔۔۔ہمارے بڑے پوتے صاحب کا تو کیا کہنا؟ آنجناب بھی کسی سے کم نہیں ہیں….
عمر کے پندرہویں مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ نیند کے معاملے میں کمبھ کرن کے بھی باپ ہیں۔ معمول کے مطابق صبح سویرے ان کی بھی آن لائن کلاس رہتی ہے مگر مجال ہے جو باضابطہ کلاس اٹینڈ کی ہو، نالائق اٹھ کر جھوٹ موٹ کی حاضری درج کرواکر ایسے سوتا ہے جیسا اس کے باپ نے اتنی جائیداد بنالی ہو کہ تین چار نسلوں کا تو یوں ہی بستر میں آرام کرتے ہوئے گزارا ہوجائے گا۔
خیر! چلیں آپ سنائیے۔۔! سوشل میڈیا جیسی خطرناک بیماری ہے آپ کو”؟ انہوں استفسار کیا، اور میں حیرت سے پروفیسر صاحب کا چہرہ دیکھنے لگا۔
"جی سوشل میڈیا کی بہت ساری بیماریاں ہم نے اپنے موبائل میں انسٹال بھی کر رکھی ہیں اور آج کل مستقل اس مرض میں مبتلا بھی ہو چکے ہیں۔ میں نے بھی اپنے sense of humour کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
"ہمیں بھی ان امراض میں سے ایک مرض لاحق ہو گیا ہے”
"کون سے مرض کی بات کر رہے ہیں آپ پروفیسر صاحب "؟ میں نے متجسس ہوتے ہوئے پوچھا۔
"بھئ اس عمر میں تو مرض عشق ہونے سے رہا” انہوں نے شوخی سے کہا
"جی نہیں! میں سوشل میڈیا والے مرض کی بات کر رہا ہوں” میں نے جواباً کہا۔
"واٹس ایپ کا علیحدہ قصہ ہے ہم میں بھی اور یہ وبائی مرض ہمارے پورے گھر کو لاحق ہو گیا ہے۔ سوائے ہماری بیگم کے”
میں نے گھڑی دیکھتے ہوئے جانے کی اجازت چاہی مگر پروفیسر صاحب نے مجھے دوبارہ پکڑ کر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ میں بیزار ہونے لگا۔
"ارے بھئ اتنی بھی کیا جلد بازی لگا رکھی ہے بھئ، چلے جائیے گا، بہت دن بعد آپ ملاقات ہوئی ہے ذرا ٹھیریے کچھ دیر اور بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔
ہاں تو سنیں! انہوں نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا، ہماری منجھلی بہو ہے وہ تو اس مرض کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے”
"اچھا! وہ کیسے؟”مجھے پہلے حیرانی ہوئی پھر میں دلچسپی سے ان کی بات کو غور سے سننے لگا ۔
"ایک دن ہوا یوں کہ ہمارا فون اچانک غائب ہو گیا۔ ہم اور ہماری پوتی دونوں فون کو جگہ جگہ تلاش کرتے ہوئے گھنٹوں خوار ہو رہے تھے کہ اچانک ہمارے پوتی ہماری بہو رانی کا موبائل ہاتھ میں لیے ہوئی وارد ہوئی اور کہنے لگی "دادا ابا یہ فون چاچی کا ہے، وہ غلطی سے آپ کا فون لے گئی ہیں اور اپنا فون یہی بھول کے مائیکے چلی گئی ہیں۔ ہم نے سوچا چلو آج اسی سے کام چلا لیتے ہیں، جوں ہی ہم نے واٹس ایپ کھولا۔۔ دھڑلے سے میسیج کا انبار لگ گیا، "مائے فیملی” مائے فرینڈس، ذائقہ، اسلامی نقطہ نظر، خبر پر نظر، ایسے تقریباً درجنوں واٹس ایپ گروپس تھے ہمیں اچانک رویش کمار یاد آگیا” میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔
"ارے مشہور صحافی رویش کمار”!!
"جی رویش کمار کو کون نہیں جانتا مگر آپ کو اچانک اس کی یاد کیوں آئی”؟
میں نے ایک بار پھر استفسار کیا
"ارے جناب رویش کمار نے واٹس ایپ کو، واٹس ایپ یونیورسٹی یوں ہی تو نہیں کہا ہے۔ اس کے پیچھے بھی ایک لاجک ہے۔ ایک معقول وجہ ہے۔” میری دلچسپی میں مزید اضافہ ہونے لگا تھا۔ "دیکھیے میاں! سارے گروپس پر آنے والے میسیجس نصاب کی طرح پڑھے جاتے ہیں اور ہر گروپ مان لوں ایک سبجیکٹ ہے۔ جیسے فیملی، فرینڈز اور ایسی ہی نوعیت کے دیگر گروپس سوشیو لوجی کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی طرح مذہبی گروپس، اسلامیات کا درجہ رکھتے ہیں اور جن گروپس پر گرما گرم بحث ومباحث ہوں وہ کریٹیسیزم کا ۔۔اور پھر ایسے بے سر پیر کے میسجز اور un authentic مواد پڑھنے سے نوجوان اور دیگر یوزرس تو اپنے آپ کو گریجویٹ سمجھنے لگتے ہیں اور بات بے بات ایسے تھرڈ کلاس اقوال منہ سے اگلنے لگتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔ بات صرف یہیں تک ہوتی تو ٹھیک تھا مگر ہر میسیج چاہے وہ اچھا ہو، چاہے برا، اسی کو فارورڈ کیے جاتے، بعض اوقات تو فارورڈ کرنے سے پہلے تصدیق تو دور کی بات ہے ایک نظر دوڑانا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔۔۔ اگر کوئی مسیج جذباتیت اور لفاظی سے لبریز ہو تو بے سمجھے بوجھے ہر دوسرے بندے پر دے مارتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں زیادہ اس کا حق دار ہے۔ اور اگر زیادہ ہی پسند آجائے تو اسٹیٹس پر چسپاں کردیتے ہیں۔ عورتوں کو تو دل ہلکا کرنے اور جلی کٹی سنانے کا ڈیجٹل موقع مل گیا ہے۔ کچھ تو خوامخواہ کے کونسلر بنے بیٹھے ہیں اور بڑی بے غیرتی اور ہمت سے ایسے ایسے اقوال واٹس ایپ اسٹیٹس پر ڈال دیتے ہیں کہ جی چاہتا ہے ان کا کچا چٹھا سب نکال لوں۔ ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں،
ایک صاحب نے چھ مہینے پہلے مجھ سے قرض لیا تھا اور اب واپس دینے کے معاملے میں آنا کانی کر رہے ہیں، پرسوں ان کے اسٹیٹس پر نظر پڑی تو دیکھا کہ موصوف نے عہد شکنی اور دھوکے کے تعلق سے وعیدیں چسپاں کر رکھی ہیں۔ مجھے بہت غصہ آیا۔
"کل ہماری بیگم سے بہو رانی کی کھٹ پٹ ہو گئی پھر اس نے وہ زبان درازی کی کہ خدا کی پناہ،۔۔۔۔۔۔
اگلے ہی دن ہماری بہو رانی نے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس پر بزرگوں کی عزت، قدردانی، صبرو تحمل اور دیگر اخلاقیات کے ایسے ایسے بم گرائے کہ اخلاقی اقدار بھی شرم سے پانی پانی ہو جائیں۔ وہ تو خیر رہی کہ ہماری بیگم کے پاس نہ تو فون ہے اور نہ وہ سوشل میڈیا کے جھمیلے میں پڑتیں ہیں، ورنہ یقین مانیں رہبر میاں! تیسری عالمی جنگ تو ہمارے گھر سے ہی شروع ہو جاتی۔۔
مجھے اب پروفیسر صاحب کی باتوں میں دلچسپی محسوس ہو رہی تھی۔
کیا بات ہے پروفیسر صاحب آپ کی نظر بڑی گہری ہے اور تجزیہ بھی بہت خوب کیا ہے آپ ”
"اجی کہاں رہبر میاں! ہم تو آج کل گھر اور دیگر معاملات میں دخل اندازی کرتے ہی کہاں ہیں۔ ہم تو جب سے ریٹائر ہوئے ہیں اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، سارا دن ہم بھلے اور ہمارا موبائل بھلا”
پروفیسر صاحب کی بات سن کر میں نے بے اختیار قہقہہ لگایا، اب جانے کے لیے اٹھا، اس بار انہوں نے مجھے نہیں روکا اور میں سلام کرتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ان کی نگاہیں میرا تعاقب کر رہی ہیں، پھر میرے ذہن میں ان کے الفاظ گونجنے لگے، "ہم تو آج کل گھر اور دیگر معاملات میں دخل اندازی کرتے ہی کہاں ہیں”
***

ہر میسیج چاہے وہ اچھا ہو، چاہے برا، اسی کو فارورڈ کیے جاتے، بعض اوقات تو فارورڈ کرنے سے پہلے تصدیق تو دور کی بات ہے ایک نظر دوڑانا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔۔۔ اگر کوئی مسیج جذباتیت اور لفاظی سے لبریز ہو تو بے سمجھے بوجھے ہر دوسرے بندے پر دے مارتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں زیادہ اس کا حق دار ہے۔ اور اگر زیادہ ہی پسند آجائے تو اسٹیٹس پر چسپاں کردیتے ہیں۔ عورتوں کو تو دل ہلکا کرنے اور جلی کٹی سنانے کا ڈیجٹل موقع مل گیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021