صفورہ زرگر کا کیس ‘ہندوستانی جمہوریت کی آزمائش

عدلیہ ،کمزوروں کے حقوق کے تحفظ کے بجائے حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے زیادہ چست

اعجاز ذکا سید

یہ بات تو تسلیم کرنی چاہیے کہ بی جے پی نے ۷برس سے بھی کم مدت میں ہندوستان کے ہر اس دستوری ادارے اور ہر اس جمہوری روایت کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو ملک کے معماروں نے گزشتہ ۷۰برسوں کے دوران قائم کیے تھے۔ ان بربادیوں میں سب سے اہم قانون کی بالا دستی وحکم رانی کا خاتمہ ہے۔ اور اگر قانون کا احترام ہی ختم ہو جائے گا تو پھر ملک میں کیا باقی رہ جائے گا؟
جب دہلی پولیس کی جانب سے شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کرنے والے اور پرامن انداز میں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے مسلمان طلبا کو دہشت گردوں اور فرقہ ورانہ فساد بھڑکانے والوں کی طرح جیل میں بند کر دیا گیا تو کسی کی پیشانی پربل تک کیوں نہیں آیا؟
جن لوگوں نے قانون کا نفاذ کرنے والوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ببانگِ دہل اشتعال انگیز باتیں کہیں اور تشدد کی دھمکی دی، جیسا کہ بی جے پی کے کپل مشرا نے دہلی فساد سے قبل کیا تھا، دہلی پولیس کی جانب سے پیش کی گئی نو چارج شیٹوں میں ان کا کوئی ذکر تک نہیں ہے۔ ان چارج شیٹوں میں مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر کا بھی کوئی تذکرہ نہیں ہے جنہوں نے ملک کی راجدھانی میں ہوئی ایک ریلی کےدوران اپنے حامیوں سے’’دیش کے غداروں کو گولی مارو……‘‘ جیسے نعرے لگوائے تھے۔ نہ اس میں بی جے پی کے رکن پارلیمان پرویش ورما کا کوئی ذکر ہے جنہوں نے رائے دہندوں کو یہ کہہ کر خبر دار کیا تھا کہ اگر دہلی میں بی جے پی نہیں جیتے گی تو مسلمان ان کے گھروں میں گھس کر ان کی عورتوں کے ساتھ زیادتی کریں گے؟ یہاں تک کہ ان میں وہ دو نوجوان بھی شامل نہیں ہیں جنہوں نے دہلی کے شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر پولیس والوں کے سامنے گولیاں چلائی تھیں۔ اس کے علاوہ اے بی وی پی کے ان غنڈوں پر بھی اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے جنہوں نے ۵ جنوری ۲۰۲۰ کوجواہر لعل نہرو یونیورسٹی کیمپس پر حملہ کیا تھا اور وہاں کے طلبا و اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔اس کے برخلاف راست وزیر داخلہ امیت شاہ کو رپورٹ کرنے والی چوکس دہلی پولیس جامعہ ملیہ اسلامیہ کی پی ایچ ڈی اسکالر صفورہ زرگر جیسے طلبا اور کئی سماجی جہد کاروں کو گرفتار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ فیض احمد فیض نے شاید اسی صورت حال کی عکاسی کی ہے:
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
واضح رہے کہ صفورہ زرگر اس وقت چھ ماہ کی حاملہ ہیں۔ حالاں کہ حمل کے اس مرحلے میں ایک خاتون مستقل طبی نگہداشت اور جسمانی و جذباتی مدد کی محتاج ہوتی ہے لیکن صفورہ کو اس مرحلے میں تہاڑ جیل کی ان اندھیری کوٹھریوں میں محروس کر دیا گیا ہے جہاں خطرناک مجرموں، قاتلوں اور زنا بالجبر کے مجرموں کو رکھا جاتا ہے۔ اس معاملے کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب اس وقت کیا جا رہا ہے جب ہندوستان ایک خطرناک اور مہلک عالمی وبا سے لڑ رہا ہے۔ صفورہ زرگر کو سب سے پہلے ۱۰ اپریل کو ’’ٹریفک میں خلل اندازی‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اس کیس میں ضمانت کے حصول کے فوری بعد یعنی ۱۳ اپریل کو انہیں یو اے پی اے ۱۹۶۷ (UAPA) کے کالے قانون کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور ان پر دوسروں کے ساتھ مل کر فروری میں ہونے والے دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کر دیا گیا۔ ان پر ۲۳ فروری کو ایک اشتعال انگیز تقریر کرنے اور شمال مشرقی دہلی میں فسادات کروانے کے الزام لگائے گئے۔ حالاں کہ وہ فساد سے پہلے یا اس کے دوران کبھی بھی اس علاقے میں گئی ہی نہیں تھیں۔ صفورہ کی ضمانت عرضی کو تیسری بار مسترد کرتے ہوئے پٹیالہ ہاوز عدالت کے جج دھرمیندر رانا نے کہا’’جب آپ چنگاریوں سے کھیلیں گے تو ہوا کو الزام نہیں دے سکتے کہ اس نے آگ کو دور دور تک کیوں پھیلا دیا‘‘۔ جج نے مزید کہا ’’اسے ریکارڈ میں موجود مواد کے تقدس سے کوئی دل چسپی نہیں ہے‘‘اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ ’’ریکارڈ پر جو بھی مواد موجود ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ درخواست گزار یا ملزم کے خلاف کوئی بادی النظر میں کیس درج کیا گیا ہے‘‘۔
صفورہ زرگر کے وکیل نے انسانی بنیادوں پر بھی ضمانت کے لیے درخواست کی کہ وہ ۲۳ ہفتوں کی حاملہ ہے اور وہ رحم کی خرابی کا بھی شکار ہے۔ انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ کووڈ۔ ۱۹ کی وجہ سے اس کی صورت حال اور بھی زیادہ نازک ہے کیوں کہ دہلی کے جیلوں کے اکثر قیدی کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔ ان سب کے باوجود جج نے ضمانت کی عرضی مسترد کردی اور اتنی رحم دلی کا مظاہرہ کیا کہ حکام کو ’’ضروری طبی امداد‘‘ کی فراہمی کی ہدایت کر دی۔
اگر یہ ملزم کو سزا دینے کی یقینی صورت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اور وہ بھی جب کہ ایک پر امن احتجاج اور راستہ روکنے کو دہشت گردی کا عمل قرار دے دیا جائے؟
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کے سب سے بھیانک قتل عام، جس میں ۵۳ لوگ مارے گئے اور سینکڑوں دکان، مکانات اور جائیدادیں تباہ کردی گئیں، اس کے اصل منصوبہ ساز تو اپنے صاحب اقتدار دوستوں کی چھتر چھایا میں آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں اور دوسری طرف مسلم سماجی جہد کار خود اپنی قوم کے قتلِ عام کے الزام میں سخت ترین قوانین کا سامنا کر رہے ہیں!
جب عدالتیں سماج کے سب سے کم زور طبقات کے حقوق کی حفاظت اور انہیں ایک ظالم حکومت کی انتقامی کارروائیوں سے بچانے میں نا کام ہو جائیں تو آخر آپ انصاف کے لیے کہاں جائیں گے؟ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں عدالتیں محکوموں کے شہری حقوق، بالخصوص جب کسی مطلق العنان حکومت کی جانب سے ان کا اتلاف ہو رہا ہو تو وہ غیر معمولی اقدامات کے ذریعے ان کا تحفظ کرتی ہیں۔ ہندوستانی عدلیہ بھی کسی وقت اپنے آزادانہ جذبہ انسانیت اور دستور و بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے مشہور تھی لیکن موجودہ حکومت کے تحت عدلیہ سماج کے سب سے زیادہ مجبور و مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ و نگرانی کے بجائے الٹا ظالم و جابر اقتدار کی خوشنودی میں زیادہ چست دکھائی دے رہی ہے۔
صفورہ زرگر اور ان کے دوستوں کا اصل جرم یہ ہے کہ انہوں نے شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں حالیہ تاریخ کا ایک منفرد اور مشہور احتجاج منظم کیا تھا۔ ان تاریخی احتجاجوں نے جو اصلاً خواتین اور طلبا کی جانب سے منظم کیے گئے تھے، تھوڑے ہی دنوں کے اندر پورے ہندوستان میں ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا ان کےاندر عزم و حوصلہ پیدا کیا اور بی جے پی کی جانب سے منظور کیے گئے اس غیر جمہوری شہری قانون کو عالمی سطح پر اجاگر کر دیا۔
ان احتجاجوں نے ’سب کا ساتھ ،سب کا وکاس‘ جیسے دل فریب نعروں کی پول کھول دی اور ان لوگوں کی کھلی منافقت کو پوری دنیا کےسامنے عیاں کر دیا جن کے ذریعے وہ لوگوں کو بے وقوف بنا رہے تھے۔
جامعہ کے پر عزم طلبا کی جانب سے شروع کردہ اس منظم تحریک نے پژمردہ قوم میں ایک حیاتِ نو اور ایک متحدہ مقصد کی لگن پیدا کی اور لاکھوں ہندوستانیوں کو ان مسلم بھائیوں اور بہنوں کی تائید میں سڑکوں پر نکلنے کے لیے آمادہ کیا۔ یہ عظیم الشان جمہوری تحریک عزت نفس کی یہ جستجو اور اپنےجائز مطالبات کو سڑکوں پر لے جانے کے لیے مسلم نوجوانوں کا یہ عزم و ارادہ اس حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا جو مسلمانوں کو ہندوستان کے برابر کے شہری تو کجا ہندوستانی ہی نہیں سمجھتی۔ جس وقت موجودہ حکم راں کا نام نئے ہندوستان کی ذمہ داری کے لیے پیش ہوا تھا اس سے پہلے بھی صرف انہی مسلمانوں کو اچھے ہندوستانی سمجھا جاتا جو اپنی تنگ و تاریک بستیوں میں خاموشی کے ساتھ مشکلات سہتے ہوئے پڑے رہتے اور جنہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں حاشیہ پر بھی بڑی مشکل سے برداشت کیا جاتا تھا۔ چناں چہ ان کی اتنی ہمت کیسے ہوگئی کہ وہ موجودہ صورت حال کو چیلنج کرنے لگیں اور برابر کے حقوق کا خواب دیکھیں؟ مزید یہ کہ صفورہ زرگر جیسے کشمیریوں سے اس طرح کی حرکت تو ناقابل برداشت ہے۔ اس لیے حکومت نے اپنے ہاتھ میں موجود تمام اختیارات اور وسائل کو کام میں لاتے ہوئے ایک مجبور و بے بس نوجوان، حاملہ عورت اور اس کی طرح کے ایک بے چین مسلم نوجوان کو سب کے لیے مثال بنانے کا ارادہ کرلیا۔تاہم یہ مقدمہ صرف صفورہ زرگر کا نہیں ہے اور آزمائش بھی صرف اسی کی نہیں بلکہ خود عظیم ہندوستانی جمہوریت اور قانون کی حکم رانی اور قانون کی نظر میں تمام شہریوں کے برابر ہونے کے اصول کی ہے۔صفورہ زرگر کی حراست نے ایک دستوری جمہوریت کی حیثیت سے خود ہندوستان کے مستقبل پر کئی بنیادی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
کلپنا کنا بیرن کے الفاظ میں’’صفورہ زرگر جو شہریت ترمیمی قانون منظور کرنے والی ہندتو حکم رانی کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں تو وہ دراصل ہندوستان کی حقیقی روح کو بچانے کی لڑائی لڑ رہی ہیں‘‘۔
کنا بیرن نے اسکرول میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ:ایک پر امن احتجاجی حاملہ مسلم خاتون پر ریاست کا یہ ظلم ہمیں ان خطرات کے متعلق کیا کہتا ہے جو اس وقت ہمارے دستور کو لاحق ہیں؟ کیا ہم زوال کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں؟ ہاں! یقیناً یہ زوال کی انتہا ہی ہے۔
(اعجاز ذکا سید ایک ایوارڈ یافتہ آزاد صحافی اور خلیج کے ایک مشہور اخبار کے سابق مدیر ہیں)
***


 

بی جے پی نے 7برس سے بھی کم مدت میں ہندوستان کے ہر اس دستوری ادارے اور ہر اس جمہوری روایت کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو ملک کے معماروں نے گزشتہ 70برسوں کے دوران قائم کیے تھے