صرف جسمانی نہیں‘ذہنی غلامی سےآزادی بھی ضروری
روادارانہ سوچ سے ہی معاشرہ میں عدل و انصاف کا فروغ ممکن
ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
شعبہ دینیات، مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ
ہمہ ہمی اور جانبداری جیسی قبیح اور مکروہ باتوں نے ایک اچھی انسانی سوسائٹی کی ترتیب وتشکیل میں جو رکاوٹیں پیدا کی ہیں وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہیں۔ لگاتار کسی بھی زندہ اور حساس معاشرے میں اس طرح کے کلچر کا پروان چڑھنا مناسب نہیں ہے۔ جس سماج کے افراد کو اس طرح کی چیزوں میں ملوث رکھا جانے لگے تو وہ اس معاشرے کے لیے ہی نہیں بلکہ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے بھی بڑی تباہ کن بات ہے۔ ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں کہ کہیں عقیدت اور کہیں مذہب کے نام پر انسانوں کو تہ تیغ کر دیا جاتا ہے جبکہ سچی بات یہ ہے کہ اس طرح کے رویوں کی اجازت نہ کسی مذہب میں ہے اور نہ انسانی ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ معاشرتی سطح پر نوع انسانی کو اس وقت جن تحدیات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان میں نمایاں طور پر وہ مناظر اور افکار ونظریات ہیں جن سے باہم طبقات انسانی اور اقوام وملل کے مابین خلیج وکشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔ متعدد تہذیبی قدروں اور دینی تنوع کی حیثیت کو تسلیم بھی کرتے ہیں اسی پر بس نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی آزادی فکر ونظر اور رنگا رنگی کے متعلق باضابطہ اصول وضوابط اور دفعات وتعزیرات مرتب بھی کر لی ہیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ صورت حال جوں کی توں برقرار ہے۔ آج اگر کسی کو کسی بھی قوم یا طبقہ کو سب سے بڑی نفرت ہے تو وہ باہم مذہب وملت سے ہے۔ اگر زمینی سطح پر معاشروں کے کردار ورویوں کا انصاف سے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا کہ مذہبی منافرت سب سے زیادہ انہی لوگوں میں پائی جاتی ہے جو ہر روز نت نئے اصول بناتے ہیں۔ در اصل عوام ان لوگوں کے جال میں پھنس کر غیر سنجیدگی یا عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عوام تو عوام ہوتے ہیں ان کی صحیح رہنمائی کرنا اور ذمہ داری کا احساس دلانا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اپنے آپ کو مذہب وسیاست جیسی صفات کا حامل مانتے ہیں۔ یقیناً عوام نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے پس پردہ حقائق کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ انہیں دانستہ طور پر حقائق سے دور رکھا جاتا ہے، یا پھر وہ عقیدت واحترام اور تعلق وربط کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ پاتے ہیں۔ اسی بے جا محبت ومودت کا فائدہ اٹھا کر تقریباً تمام مذاہب کی سربر آوردہ شخصیات نے اب تک خوب فائدے حاصل کیے ہیں۔ اس لیے بنیادی طور پر عوام کو ان کی خود ساختہ مصلحتوں اور محدود مفادات کو سمجھ کر اپنی زندگی کی روش کو اعتدال کی راہ پر گامزن کرنا ہو گا۔ اس حقیقت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان بنیادی طور پرآزاد پیدا کیا گیا ہے، ہر طرح کی غلامی اور قید وبند سے انسان کو آزاد رکھا گیا ہے۔ اس میں جسمانی غلامی کے ساتھ ساتھ فکری اور ذہنی غلامی سے رستگاری بھی شامل ہے۔ اتنی واضح ہدایات کے باوجود آج بھی امت کا ایک بڑا طبقہ عوام پر اپنی گرفت برقرار رکھنے اور اُن پر اپنی دھاک جمانے کے لیے جسمانی طور پر نہ سہی لیکن فکری طور پر اور مزاجاً عوام کو اپنا اسیر بنائے ہوئے ہے۔ معاشرے میں اس کے الگ الگ رنگ اور اثرات آئے دن دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ ہر طرح کی غلامی اور محکومی سے نجات دلانے اور خالق کائنات کی اطاعت وفرمانبرداری کا احساس دلانے کے لیے ایک موقع پر خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ ’’لوگوں کو تم نے کب سے غلام بنا لیا جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا‘‘ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ آج سائنس وتجربات کی ایجادات نے دنیا کو بہت ہی ایڈوانس بنا دیا ہے وہیں کچھ لوگ اب بھی اپنی فکری سطح کو قطعی استعمال کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہی معاشرے کی کمزوری ہے جسے مذہب ودھرم کے نام پر نت نئے زاویوں سے اعتماد میں لیکر عوام کا استحصال کیا گیا ہے۔ ان کے حقوق کو غصب کیا جاتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ اب ذاتی طور پر عوام کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے تبھی عوامی سطح پر انسانیت کی بنیاد پر رشتے استوار ہو سکیں گے۔ سب سے پہلے آج مذہب وسیاست کے نام پر جس طرح کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اگر ہم صالح خطوط پر اپنے دماغ کا استعمال کریں تو یقیناً ہم بہت سے محنت کش، ناداروں اور بنیادی ضروریات سے محروم زندگی گزارنے والوں کے لیے سود مند ثابت ہو سکیں گے۔ اگر اسی طرح ہمیں مذہب یا دیگر چیزوں کے نام پر استعمال کیا جاتا رہا تو یقین جانیے کہ نہ ہم اپنے اور نہ ہیں سماج ومعاشرے کے لیے نفع بخش ہو پائیں گے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ کائنات کا ہر فرد بہت اہم ہے اس کے اندر خفیہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود ہے البتہ اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے اور ملک وملت کی ترقی کے لیے اسے جہاں پرسکون وپرامن ماحول کی ضرورت ہے وہیں اس کو اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اسے ایک آزاد ماحول ملے، سوچ وفکر اور عقل وخرد کے استعمال کرنے پر کسی بھی نوعیت کی بے جا پابندی عائد نہ کی جائے۔ نیز اس پر کسی بھی طرح کا دباؤ یا بوجھ نہ ڈالا جائے تبھی وہ اپنی صلاحیتوں سے معاشرے کو بہترین بنا سکتا ہے۔ عقیدت کا بھی بڑا مسئلہ ہے کہ اب اس کا اثر ورسوخ اور دائرہ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب عقیدت مند صرف مذہبی حلقہ اور شخصیات کے ارد گرد پائے جاتے تھے اب تو مذہبی شخصیات سے زیادہ مضبوط اور اندھے مقلد سیاسی جماعتوں اور دیگر گروہی عصبیت رکھنے والی تنظیموں میں پائے جاتے ہیں۔ اس وقت عقیدت کا جو رنگ عوام پر چڑھایا گیا ہے اس نے معاشرے میں بہت سی ایسی باتوں کو جنم دیا ہے جن کا ذکر نہ تو کسی دھرم میں ہے اور نہ کسی بھی تاریخ کی کتاب میں۔ مسلسل عوام گو گمراہ کرنا انہیں بے بنیاد باتوں میں الجھا کر انسانی اور معاشرتی تقاضوں کو پس پشت ڈالنا ٹھیک بات نہیں ہے۔ ذرا غور کیجیے آج جن معاشروں اور قوموں کو ہم تعلیم سے لیکر دیگر قابل قدر میدانوں میں اپنا آئیڈیل مانتے ہیں ان کی بہت ہی روشن وتابناک تاریخ ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنی تاریخ کو خود اپنے ہاتھوں سے دفن کیا ہے۔ اب زمانے کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل طے کرنا ہو گا، سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں اور کیوں پسپا ہوئے ہیں! تمام اسباب ووجوہ کا باریکی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ جن معاشروں نے اپنے وجود اور مقصدیت کو نظر انداز کیا ہے انہیں ہر محاذ پر نہایت بھاری خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ معاشرے میں توازن واعتدال برقرار رکھنے کے لیے فطری طور پر ان رجحانوں اور منصوبوں کو عوامی سطح پر کالعدم قرار دینا ہوگا جن کی بنیاد پر عوامی ضروریات کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔ انسانی سوسائٹی کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس کے اندربرداشت وتحمل جیسی پاکیزہ صفات پائی جائیں اور وہ بھلے برے کی معرفت کر سکے۔ جب ان بنیادی اقدار وروایات کے پرکھنے میں کوتاہی ہونے لگے تو پھر یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اب انسانی سوسائٹی کہیں نہ کہیں بے جا عقیدت کی شکار ہو چکی ہے۔ ملک میں عوامی کیفیت بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ حتیٰ کہ بسا اوقات یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ ہم بھوکے رہیں گے مگر اپنی عقیدت پر کسی بھی طرح کی آنچ نہ آنے دیں گے۔ یہ صورتحال بہت خطرناک ہے۔ اسی سے معاشرے کا توازن بگڑتا ہے۔ اسی طرح کی فکر رکھنے والے افراد تنگ نظری اور عملی طور پر تعصب کا شکار ہوتے ہیں اور معاشرے میں بدامنی اور بدعنوانی کو فروغ دینے کا کام کرتے ہیں۔ آج جو معاشرے جمہوری نظام اور سیکولر روایتوں کے امین ہیں انہوں نے اپنے مستقبل اور معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے اجتماعی طور پر رواداری کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ برسرِ اقتدار جماعتوں کی منفی پالیسیوں پر قدغن لگانا اور ان کے غیر جمہوری رویوں پراعتراضات کرنے کو فلاحی معاشرے کی علامت تصور کرتے ہیں۔ ہندوستانی معاشرہ بھی جمہوریت کا پاسبان ہے لہٰذا ہندوستانی معاشرے کو جمہوریت کے استحکام اور اس کے مطلوبہ کرداروں کو عروج وارتقا تک پہنچانے، نیز ہر شہری کے حقوق سے واقف کرانے اور اس کی افادیت ومعنوییت جتانے کے لیے عوام میں درست نہج پر بیداری پیدا کرنی ہوگی۔ وہی معاشرے جمہوری نظام کے سچے علمبردار اور اس کے روحانی تقاضوں کے وفادار ہوتے ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت یا اقتدار پر مسلط افراد سے سوالات کرتے ہیں۔ عقیدت کو بالائے طاق رکھ اپنی بازیابی اور بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں۔ جب معاشرے میں روادارانہ سوچ کا فروغ ہوگا تو لازمی طور پر معاشرے میں عدل وانصاف اور مساوات جیسی خصوصیات نظر آئیں گی۔ چنانچہ آج ضرورت اسی بات کی ہے کہ سماجی سطح پر ایسے اصول ترتیب دیے جائیں جو انسانی سوسائٹی کو قابل قدر اور لائقِ ستائش بنا سکیں۔
[email protected]
***
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ جن معاشروں نے اپنے وجود اور مقصدیت کو نظر انداز کیا ہے انہیں ہر محاذ پر نہایت بھاری خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ معاشرے میں توازن واعتدال برقرار رکھنے کے لیے فطری طور پر ان رجحانوں اور منصوبوں کو عوامی سطح پر کالعدم قرار دینا ہوگا جن کی بنیاد پر عوامی ضروریات کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔ انسانی سوسائٹی کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس کے اندر برداشت وتحمل جیسی پاکیزہ صفات پائی جائیں اور وہ بھلے برے کی معرفت کر سکے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021