شہریت قانون کے خلاف صرف قراردادیں کافی نہیں

ذیشان آزاد

شہریت قانون، این پی آر، این آر سی کے خلاف کئی ریاستوں میں قرارداد منظور ہو چکی ہے، تلنگانہ میں بھی 16 مارچ کو اسمبلی میں بحث کے بعد قرار داد منظور کرلی گئی ، راجستان ملک کی پہلی ریاست تھی جس نے شہریت قانون کے خلاف قرارداد کو پاس کیا ، پھر کیرل،پنجاب،چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال میں بھی شہریت قانون کے خلاف قراردادیں منظور ہوئیں، بہار میں سی اے کی حمایت ہوئی لیکن این آر سی کے خلاف اسمبلی میں resolution پاس ہوا، وہیں دہلی اسمبلی میں بھی این پی آر اور این آر سی کے خلاف قرار داد منظور کر لی گئی۔
تلنگانہ کے وزیراعلی کے سی آر اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال دونوں نے یہی کہا کہ ہمارے پاس برتھ سرٹیفیکٹ نہیں ہے، تلنگانہ کے وزیراعلی نے کہا کہ اس قرارداد کو منصفانہ قراردینے کی وجوہات ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہندوستان جیسے مہذب معاشرہ میں ہم ایسے نقصان دہ قانون کو برداشت نہیں کرسکتے جس کے نتیجہ میں ملک کے کئی علاقوں میں بے چینی پیداہوئی ہے اور لوگوں کے دلوں میں خدشات نے جنم لیے ہیں، جبکہ وزیراعلی اروند کیجریوال کا کہنا تھا کہ” ان کے اور ان کی اہلیہ اور ان کے ماں باپ کے پاس بھی برتھ سرٹی فیکیٹ نہیں ہے، 70 اراکین اسمبلی میں سے 9 اراکین نے کہا ہے کہ ان کے پاس برتھ سرٹی فیکیٹ ہے جبکہ 61 کا کہنا ہےکہ ان کے پاس یہ نہیں ہے تو کیا ان سبھی کو ڈٹینشن سینٹر بھیج دیا جائے گا! "آپ کو یاد ہوگا جب شہریت قانون کے خلاف 13 جنوری کو حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس کی قیادت میں پارلیمان کے احاطے میں مختلف پارٹیوں کی میٹنگ ہوئی تھی، اس وقت عام آدمی پارٹی نے شرکت نہیں کی تھی، حالانکہ عام آدمی پارٹی کے ترجمان اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ نے کہا تھا کہ عام آدمی پارٹی کو اس میٹنگ میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
شہریت قانون کے خلاف اپوزیشن کی میٹنگ میں عام آدمی پارٹی کے علاوہ مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس، اور اترپردیش کی بہوجن سماج پارٹی نے بھی شرکت نہیں کی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستوں میں قراردادیں منظور ہونے سے کوئی فائدہ ہے؟
یا پھر محض احتجاجاً اس عمل کو انجام دیا جا رہا ہے؟
کیا شہریت قانون کے خلاف resolution پاس ہونے سے مرکزی حکومت پر اس حد تک دباؤ پڑے گا، کہ وہ اس قانون کو واپس لے لیں۔؟
ماہر قانون فیضان مصطفی کے مطابق مرکزی حکومت پر دباؤ ضرور پڑے گا ، لیکن اتنا نہیں کہ قانون واپس لے لیا جائے، کیونکہ دفعہ356 کے تحت قانون کے عدم نفاذ پر مرکز ان ریاستوں میں صدر راج لاگو کر سکتا ہے، لیکن فیضان مصطفی کا کہنا تھا کہ ان ریاستوں کو سپریم کورٹ ضرور جانا چاہیے اور انہوں نے اس ضمن میں کیرل کی مثال دی، کیرل دفعہ 131 کے تحت سی اے کے خلاف سپریم کورٹ جا چکا ہے۔
16 مارچ کو راجستھان بھی شہریت قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر چکا ہے، عرضی میں قانون کو رد کرنے کی مانگ کی گئی ہے،یہ عرضی راجستھان سرکار کے سرکاری وکیل منیش سنگھیاں نے عدالت عالیہ میں داخل کی ہے۔
یہ پہلا معاملہ نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کئے گئے قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں جایا جا رہا ہے، اس سے پہلے بی جے پی بھی پارلیمان کے ذریعے منظور شدہ قانون کے خلاف سپریم کورٹ جا چکی ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ کو چیلنج کر چکی ہے،
انیس سو اکیاسی میں پارلیمنٹ کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ ملا تھا۔واضح رہے کہ اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں ملک کے مختلف اداروں، سول سوسائٹی اور منفرد شخصیات کی جانب سے تقریباً 60 عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔
عرضیوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ یہ ملک کے آئین کی شق 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی کرتا ہے اور مذاہب کے مابین امتیازی سلوک کرتا ہے۔
یہ بھی ذکر کرنے کے قابل ہے کہ شہریت قانون کے تحت
31 دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان آنے والے بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کے ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھوں کو انڈین شہریت دینے کی تجویز دی گئی ہے تاہم مسلمانوں کو اس سے محروم رکھا گیا ہے۔