شگفتہ مزاجی،مولانا محمدیوسف اصلاحیؒ کی ہر دلعزیزی کا راز

معنی خیز جملوں میں بات سے بات نکالنےکے نمونے

مولانا کے ساتھ سفر و حضرمیں پیش آئے کچھ دلچسپ واقعات
مشاہدات: اظہر اللہ خاں قاسمی، ہاسن۔ تحریر: لئیق اللہ خاں منصوری ، بنگلور
خوش مزاجی کی اہمیت
خوشی وفرحت کا اظہار انسانی فطرت ہے۔ اسلام نے اس فطرت کا بھرپور لحاظ رکھا ہے۔ شگفتہ مزاجی اور بذلہ سنجی ایک کامیاب شخصیت کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺکے بارے میں آتا ہے کہ آپ بہت زیادہ مسکرانے والے تھے۔ آپ کے لطیفے ’’اونٹنی کا بچہ‘‘ اور ’’بڑھیا کا جنت میں جانا‘‘ مشہور ہیں ۔آپ نے امت کو بھی اس بات کی تلقین فرمائی کہ اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے۔خشک مزاجی اور ہمیشہ کی سنجیدگی لوگوں سے دوری کا باعث بنتی ہے۔علماء جو انبیاء کے وارث ہوتے ہیں اس پہلو سے بھی اپنا جائزہ لیں کہ ان کی شخصیت معاشرہ کے لیے ہر دلعزیز ہے یا پھر اپنے مزاج کی سختی کی وجہ سے لوگ ان سے ملنے کے لیے کتراتے ہیں۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کی بذلہ سنجی۔۔۔
مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب معروف عالم دین اور تحریک اسلامی کے بزرگ رہنماؤں میں سے ہیں۔ مولانا مرحوم ریاست کرناٹک کے دورے پر تشریف لاتے رہے ہیں۔ ان دوروں میں مولانا اظہر اللہ خاں قاسمی موجودہ ناظم، مجلس العلماء، تحریک اسلامی ہند، کرناٹک بھی ہمراہ رہے ہیں۔ دوران سفر وحضر مولانا کی شگفتہ مزاجی سے تمام رفقاء لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ ان تمام تاثرات کی اس مضمون میں احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ علماء برادری کے لیے یہ خوش گوار نقوش، خوش مزاجی کی ترغیب کا باعث بن سکیں۔
اتنا لمبا سفر ہم نے بے کار نہیں کیا ہے!
کرناٹک کے ایک دورے کے موقع پر بنگلور سے ٹمکور، ہبلی، داونگرہ ہوتے ہوئے بیدر تک کے مختلف مقامات کا سفر کار کے ذریعے طے کیا گیا تھا۔دورے کے آخر میں حیدر آباد ایئرپورٹ روانگی کے وقت حلقہ کی گاڑی کے ڈرائیور جناب عبد الرحمن شریف صاحب سے مولانا نے پوچھا: ہم نے بنگلور سے یہاں تک کتنے کلو میٹر کا سفر طے کیا؟ شریف صاحب نے بتایا کہ تقریباً 800 کلو میٹر کا۔ فرمایا : تو ہم نے اتنا لمبا سفر کار سے طے کیا ہے، بے کار نہیں کیا ہے۔
خاندانی خازن۔۔۔
دفتر میں بلال بھائی کے والد جناب شرف الدین صاحب سے ملاقات ہوئی، مولانا نجم الدین صاحب نے تعارف کرایا کہ وہ اڑپی (یامنگلور) میں کئی برسوں سے جماعت کے بیت المال کے خازن رہے ہیں۔ وہیں بلال بھی تھے ان کا تعارف کروایا گیا کہ یہ ان کے فرزند محمد بلال ہیں اور یہ دفتر حلقہ میں بیت المال کے خازن ہیں۔ تو مولانا نے کہا: اچھا تو آپ خاندانی خازن ہیں!
اچھا۔۔۔نام کے لیے کیا ہے!
سری رنگا پٹنم دارالامور میں وہاں کے ڈائرکٹر مولانا حاذق ندوی صاحب نے مولانا سے گفتگو کے دوران اپنے تعلیمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ندوہ سے فراغت کے بعد میسور وغیرہ میں مزید تعلیم حاصل کی اور ڈاکٹری کی۔ تو کہا: آپ تو حاذق (طبیب) ہی کافی تھے، ڈاکٹری واکٹری کی کیا ضرورت تھی؟ اس پر حاذق صاحب نے ازراہِ مذاق کہا: نام کی مناسبت سے کچھ کرنا ضروری تھا۔ تو مولانا نے فرمایا :اچھا! نام کے لیے کِیا ہے؟
سلسلۂ نسب۔۔
مولانا اظہر اللہ خاں قاسمی سے ایک مرتبہ مولانا نے پوچھا، آپ اصلی پٹھان ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! ہمارے آباء واجداد افغانستان سے آئے تھے، ان میں شیرخان نام کے ایک نواب یو پی کے ضلع میرٹھ کے قریب آباد ہوئے انہیں کے نام سے شیر پور نام کی بستی آباد ہوئی جو ہمارا آبائی وطن ہے۔ میں نے اسی کے ساتھ کہا کہ دارالعلوم دیوبند کے سابق شیخ الحدیث مولانا شیخ نصیر الدین خان صاحب میرے والدصاحب کے رشتہ داروں میں سے ہیں۔ تب مولانا یوسف اصلاحی صاحب نے فرمایا:’’ہم پیغمبروں کی اولاد میں سے ہیں، حضرت نوحؑ ہمارے والد ہیں۔اب پہنچیے کہاں تک پہنچتے ہیں‘‘ تبھی مولانا وحید الدین خان صاحب نے کہا کہ ان کے والد حضرت آدمؑ ہمارے دادا ہیں۔ اس پر اصلاحی صاحب نے کہا ’’وحید الدین خاں صاحب کی اتنی عمر بظاہر نہیں لگتی‘‘۔
چشمے کی تلاش۔۔۔
اسلامیہ عربک کالج منصورہ میں مولانا وحید الدین صاحب کا چشمہ گم ہوگیا تھا، کافی تلاش کرنے پر بھی نہیں ملا اور جب یہ بات اصلاحی صاحب کے سامنے آئی تو کہا کہ ’’اب بے چارے وحید الدین صاحب بغیر چشمے کے اپنا چشمہ کیسے تلاش کریں گے‘‘؟
شکاگو کا واقعہ۔۔۔
مولانا اصلاحی نے شکاگو کا واقعہ بیان کیا کہ وہاں ایک پڑھے لکھے صاحب نے ایک خطاب کے بعد سوال کیا کہ ’’مولانا! انتقال کے بعد منکر نکیر جو سوال کرنے کے لیے آئیں گے وہ میت کے سرہانے کھڑے ہو کر سوال کریں گے یا پیروں کی جانب کھڑے ہو کر؟ تو ہم نے جواب دیا کہ ‘‘ماشاء اللہ آپ تو پڑھے لکھے لگتے ہیں عمر بھی60 سے زائد ہے تھوڑا انتظار کر لیجیے خود ہی پتہ چل جائے گا‘‘۔ پھر ہم سے کہا کہ ’ہر سوال کا جواب علمی نہیں ہوا کرتا‘۔
ایک خاتون کے پیچیدہ سوال کا جواب۔۔۔
اسی طرح ایک اور مقام کے بارے میں بتایا کہ وہاں لوگوں نے ایک خاتون کا ذکر کیا کہ وہ نہایت گہرے سوال کرتی ہیں، آج بھی وہ پروگرام میں شریک ہیں آپ کے خطاب کے بعد سوال کرنا چاہتی ہیں، ان کے سوال بہت مشکل ہوتے ہیں، لہٰذا اگر آپ جواب دے سکیں تو بہتر ہے ورنہ آپ خاموش ہو جائیں۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ خطاب کے بعد اس خاتون نے سوال کیا کہ مولانا: اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بنایا، جنت اور جہنم بنائی۔ جب حشر کے مراحل ختم ہو جائیں گے، جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے، ساری کارروائی ختم ہو جائے گی تو اب اللہ تعالیٰ کیا کرے گا؟ اس سوال پر ہم نے کہا کہ ’’اللہ نے اس معاملے میں ہم سے تو کوئی مشورہ نہیں کیا تھا،اب جب حشر میں ملاقات ہوگی تو وہیں پوچھ لیں گے۔ہمیں تو پیغمبروں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اتنا ہی منصوبہ بتایا تھا‘‘۔
ابو الارکان۔۔۔
کرناٹک کے ضلع ہاسن کے ایک مقام ارے ہلی میں امیر مقامی مولانا اظہار اثر عمریؔ صاحب کے والد جناب عبد الکریم صاحب سے گفتگو ہوئی، وہ اپنے بچوں کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ میرے فلاں فرزند یہ کر رہے ہیں اور وہ رکنِ جماعت ہیں، اور فلاں کی مصروفیت یہ ہے اور وہ بھی رکن ِ جماعت ہیں۔۔۔ اس پر مولانا اصلاحی نے فرمایا ’’ارے واہ، آپ کی کنیت تو ابو الارکان ہونی چاہیے‘‘۔
ناموں کی قلت کا خدشہ۔۔۔
حلقے کی گاڑی کے ڈرائیور جناب عبدالرحمن شریف صاحب کو مولانا اصلاحی صاحب عبد الرحمن کہہ کر مخاطب کرتے تھے، اور ہم دوسرے احباب انہیں شریف صاحب کہہ کر مخاطب ہوتے۔ ایک دفعہ پوچھا کہ ان کا نام تو عبد الرحمن ہے نا؟ کہا گیا کہ ان کا پورا نام عبد الرحمن شریف ہے۔ تو کہا، اتنا بڑا نام۔۔۔! ہاں سوچا ہوگا کہ آبادی بڑھ رہی ہے بعد میں ناموں کی کمی ہوجائے گی، اس لیے دو نام رکھ لیے انہوں نے‘‘۔
داونگرے کا سفر۔۔۔
شہر ’’داونگرے ‘‘ریاست کرناٹک کا ایک ضلع ہے۔دوران سفر مولانا اس لفظ ’’داونگرے‘‘کو مکرر سنتے رہے۔ جب شہر میں پہنچ گئے تو مولانا شرکاء سفر سے مخاطب ہوئے ’’۔۔اچھا، یہی ہے وہ جگہ ہے جہاں ہمیں گرنا تھا۔۔!‘‘
دوران سفر کا ایک راز۔۔۔
ایک سفر میں شہر سے پار ہونے کے بعد طویل مسافت تک دونوں جانب میدان ہی میدان نظر آرہے تھے۔ ڈرائیور صاحب گویا ہوئے۔۔۔’’مولانا! یہاں دونوں جانب میدان ہی میدان ہیں۔‘‘مولانا نے یہ سن کر کہا کہ ’’اگر آپ نہیں بتاتے تو یہ راز ہم پر کون منکشف کرتا؟ ‘‘
ٹول گیٹ فیس۔۔۔
ایک دورے میں داونگرہ کے قریب ٹول گیٹ بنایا جا رہا تھا۔ مولانا کے پوچھنے پر ڈرائیور صاحب نے اس کی تفصیل پیش کی کہ پچاس روپیے جانے کے اور پچاس آنے کے ہوتے ہیں۔ مولانا نے پوچھا کہ اگر آپ ایک لاکھ مرتبہ آنا جانا کریں گے تو کتنا خرچ آئے گا؟ ڈرائیور صاحب نے کہا کہ ایک کروڑ روپیے۔مولانا نے مزاحاً فرمایا ’’آپ اس کے بننے سے پہلے ہی اتنی مرتبہ چکر لگالیں، بڑی بچت ہوگی۔‘‘ ڈرائیور صاحب نے کہا کہ یہ تو ممکن نہیں ہے۔مولانا نے کہا کہ ’’میں تو بس آپ کو پیسے بچانے کی ترکیب بتا رہا ہوں، آگے آپ کی مرضی ہے۔‘‘
چائے آ رہی ہے۔۔۔
دفتر حلقہ کرناٹک میں جناب ریاض احمد، مولانا کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ مولانا پروگرام کے لیے روانہ ہونا چاہتے تھے۔ریاض احمد نے بتایا کہ مولانا چائے آرہی ہے۔۔۔ مولانا نے پوچھا ’’کہ چل کر آرہی ہے یا دوڑ کر؟‘‘
میری آواز پہنچ رہی ہے؟
جناب ملا لیاقت احمد نے ایک واقعہ سنایا کہ دہلی میں جماعت کا اجلاسِ نمائندگان منعقد ہوا۔ نمائندگان کے اجلاس میں مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کی صدارت میں امیر جماعت کے انتخاب کا پروگرام تھا۔ مولانا نے سامعین سے پوچھا کہ میری آواز آرہی ہے ؟جواب ملا کہ نہیں آرہی ہے۔ مولانا نے تعجب کا اظہار کیا کہ ’’اگر آواز نہیں آرہی ہے تو آپ نے میرے سوال کا جواب کیسے دیا؟ ‘‘
باہمی تعارف کا ایک موقع۔۔۔
کچھ عرصہ پہلے میسور کی مقامی جماعت کی آفس میں مولانا کی آمد پر رفقاء کی نشست منعقد ہوئی۔ باہمی تعارف کا موقع آیا۔ یکے بعد دیگرے سب نے اپنا تعارف کروایا۔اکرم الدین خاں، نور احمد خاں، رحمت اللہ خاں، اعجاز احمد خاں۔۔۔ ان کے بعد ۔۔۔محمد ایوب۔۔مولانا نے مسلسل پٹھانوں کے نام سننے کے بعد محمد ایوب صاحب کا نام سن کر کہا کہ آپ یوں کہیں۔۔۔محمد ایوب بے خاں۔۔۔رفقاء میں ہنسی کا ماحول پیدا ہوگیا۔ اس کے بعد احمد کٹّی صاحب کی باری تھی۔پیچھے سے آواز آئی ان کا نام ۔۔کُٹی خاں ۔۔ہے۔
دوران سفر کا مطالعہ۔۔۔
ایک سفر میں مولانا سے استفسار کیا گیا کہ مولانا! آپ سفر میں کچھ پڑھتے ہیں؟۔۔۔ مولانا نے جواب دیا کہ ’’میں سفر میں اللہ کی نشانیاں پڑھتا ہوں۔‘‘
ایک دسترخوان پر۔۔۔
ایک رفیق جماعت کے گھر دعوت کا اہتمام تھا۔ کھانا حاضر ہوا۔ مولانا سے گزارش کی گئی کہ کھانا لیں۔ مولانا نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر میں پھل پیش کیے گئے۔ مولانا نے بخوشی وہ پھل تناول فرما لیے۔ پھر کہا کہ ’’آپ لوگ انسانوں کی بنائی ہوئی چیزیں کھائیے میں اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں کھاتا ہوں‘‘ پھر گویا ہوئے کہ ’’یہ بھی عجیب صورت حال ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو لے کر انسان اسے کچھ اور ہی بنا کر کھاتا ہے!‘‘۔
(یہ مضمون مجلس العلماء، تحریک اسلامی ہند، کرناٹک کے سہ ماہی مجلۃ العلماء (اکتوبر۔دسمبر۲۰۱۵ء)کے شمارہ میں شامل اشاعت تھا)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  02 جنوری تا 08 جنوری 2022