محی الدین غازی
ماہ محرم کی مناسبت سے خصوصی مضمون
اہل حجاز، جنہوں نے نبوت اور خلافت راشدہ کے تجربے کو قریب سے دیکھا تھا، اس بات کا سب سے گہرا ادراک رکھتے تھے کہ نبوت کے طریقے والی خلافت جو اسلام کی سیاسی معاہداتی قدروں پر استوار ہوتی ہے اور قیصر و کسری کے طریقے والی ملوکیت جو خود پسندی، جبر اور وراثت پر استوار ہوتی ہے، دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اور وہ یہ کیسے نہیں جانتے جب کہ انہوں نے خود دیکھا کہ نبی ﷺ وفات پاگئے اور یہ معاملہ اپنے بعد شوری کے حوالے چھوڑ گئے اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ابوبکرؓ نے صحابہ کے ساتھ مشاورت کے بعد اور ان کی رضامندی کو یقینی بنانے کے بعد عمرؓ کو اپنا جانشین بنایا جن سے آپ کا کوئی نسب کا تعلق نہیں تھا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ عمرؓ کی یہ فکر اور کوشش تھی کہ اقتدار ان کے بیٹے عبداللہؓ کے پاس نہ جائے اگرچہ وہ مسلمانوں کے بہترین لوگوں میں تھے۔ چھ نمائندوں کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے صاف کہہ دیا ’’عبداللہ بن عمرؓ تمہارے ساتھ شریک رہیں گے لیکن انہیں اقتدار میں کچھ نہیں ملے گا‘‘ اس کی وجہ ابن ملقن کے الفاظ میں یہ تھی کہ عمرؓ کو “اندیشہ ہوا کہ اسے ہرقل والی یا کسری والی حکومت کہا جانے لگے۔” عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے جب یزید کی بیعت کو قابل نفرت و کراہیت قرار دیا تو دراصل انہوں نے ایک بہادر مرد کا کردار ادا کیا جس نے اسلامی سیاسی قدروں کے سلسلے میں مدینہ منورہ کے مکینوں اور مسلمانوں کے بہترین لوگوں کے ضمیر کی ترجمانی کی اور نبوی ریاست و خلافت راشدہ کی نظیر یاد دلائی۔
اس لیے ذرا تعجب نہیں ہونا چاہیے اگر سرزمین حجاز سے شوری کی بازیافت کے لیے انقلابی کوششیں برپا ہوئیں، ان انقلابی کوششوں میں: حسین بن علیؓ کا یزید بن معاویہ کے خلاف اٹھنا تھا، جن کے اٹھنے کا محرک ابن العربی کے الفاظ میں ’’ دین کے لیے غضب ناک ہونا اور حق کو قائم کرنا‘‘ تھا۔ اسی طرح اہل مدینہ کا اٹھنا بھی تھا جو ذہبی کے الفاظ میں ’’اللہ کے لیے اٹھے‘‘ اور اہل مدینہ نے ’’رضامندی اور شوری کی دعوت دی اور قریش پر عبداللہ بن مطیع عدویؓ کو امیر بنایا، انصار پر عبد اللہؓ بن حنظلہ کو اور مہاجرین کے قبائل پر معقل بن سنان اشجعیؓ کو‘‘ عبداللہ ؓبن حنظلہ یزید بن معاویہ کے بارے میں کہتے تھے: ’’اللہ کی قسم اگر میرے ساتھ صرف میرے یہ بیٹے ہوں تو بھی میں ان کو لے کر اس سے جہاد کروں گا۔‘‘
اس کے بعد سیاسی جواز کی بازیافت کے لیے اور امت کو ’’امیر پر حکومت کرنے‘ کا مقام واپس دلانے کے لیے، حجازی انقلابات میں سب سے بڑا انقلاب صحابی رسول عبد اللہ بن زبیرؓ کے ذریعے برپا ہوا، جو امت کے سواد اعظم کو اپنے ساتھ جمع کرنے میں کام یاب ہوئے اور تمام شہروں نے ان کی بیعت پر اجماع کرلیا “[ابن زبیرؓ] ان میں سے تھے جنہوں نے یزید بن معاویہ سے بیعت کرنے سے انکار کیا اور مکہ بھاگ نکلے اور [یزید کی زندگی میں] اپنے لیے دعوت تو نہیں دی، مگر بیعت بھی نہیں کی، یزید ان سے بہت ناراض ہوا، جب یزید مرگیا تو ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی گئی، حجاز، یمن، عراق اور خراسان والوں نے ان کی اطاعت قبول کی… ان سے باہر صرف شام اور مصر رہ گئے، وہاں معاویہ بن یزید سے بیعت کی گئی، ان کی مدت لمبی نہیں تھی، ان کے مرنے پر وہاں والوں نے بھی ابن زبیرؓ کی اطاعت کی اور ان سے بیعت کرلی۔”
جس طرح اس سے پہلے اہل مدینہ نے ’’رضا مندی اور شوری” کی طرف دعوت دی تھی، ابن زبیرؓ اور ان کے ساتھی بھی طبری کے بقول “اقتدار کو شوری مانتے تھے‘‘ مقدسی اس کی اور وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اور عبداللہ بن زبیرؓ نے مکہ میں خود کو محفوظ کیا، کعبہ کی پناہ لی، لوگوں کو شوری کی طرف بلایا، یزید کو لعنت کرنے لگے اور اسے متکبر فاسق کا نام دیا۔ اور کہا اللہ معاویہؓ کے یزید کو اقتدار دینے سے راضی نہیں ہوگا، یہ تو عام مسلمانوں کا حق ہے، لوگوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور یہ مانا کہ حق ان کے ساتھ ہے۔‘‘
غرض مدینہ کا انقلاب عبداللہ بن مطیعؓ اور عبداللہ بن حنظلہؓ کی قیادت میں اور مکہ کا انقلاب عبداللہ بن زبیرؓ کی قیادت میں برپا ہوا۔ دونوں ہی ایک سیاسی پروگرام رکھتے تھے جو جبری بادشاہت اور بہ زور اقتدار والے پروگرام کے عین خلاف تھا۔ مدینہ کے انقلاب کی ناکامی کے بعد عبداللہ بن مطیعؓ ابن زبیرؓ سے جاملے اور انہوں نے مکہ کے انقلاب میں ابن زبیرؓ کی زیر قیادت جنگ کی، یہاں تک کہ یہ رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے کام آگئے:
أنا الذی فررتُ یوم الحَرَّهْ والحُرُّ لا یفــرُّ إلا مَــرَّهْ
(میں ہی وہ ہوں جو حرہ کے دن فرار ہوگیا اور مرد حر ایک بار سے زیادہ فرار نہیں ہوتا۔)
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ تینوں انقلابات میں سے ہر کوئی ایک سانحہ پر ختم ہوا، جس کی وجہ خلفشار اور کم زور تیاری تھی، کربلا کا سانحہ حسینؓ کے انقلاب کا اختتام تھا، حرہ کے واقعہ میں مدینہ منورہ کی حرمت کی پامالی مدینہ والوں کے انقلاب کا اختتام تھا اور مکہ کی حرمت کی پامالی اور خانہ کعبہ کی آتش زنی ابن زبیرؓ کے انقلاب کا اختتام تھی، “خانہ کعبہ یزید بن معاویہ کے زمانے میں نذر آتش ہوگیا، جب اس پر [یعنی مکہ پر] شام والوں نے چڑھائی کی۔” اور عبداللہ بن زبیرؓ بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے قتل کردیے گئے، اس وقت وہ اپنی والدہ یعنی ابوبکر صدیقؓ کی بیٹی اسماءؓ کو مخاطب کرتے ہوئے رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے:
أسماءُ یا أسماءُ لا تبكینی لمْ یبق إلا حسَبی ودِینی
(اسماء! اے اسماء! مجھ پر مت رونا، میرے پاس بس میرا حسب اور میرا دین بچا ہے۔)
شروع کے ان انقلابوں میں ایک اور انقلاب یزید بن معاویہ اور اس کے عراق پر گورنر عبیداللہ بن زیاد کے خلاف توابین کا انقلاب تھا، لیکن یہ حجاز کے بجائے عراق میں تھا، صحابی رسول سلیمانؓ بن صرد نے اس کی قیادت کی تھی۔ سلیمانؓ جمل اور صفین دونوں جنگوں میں علیؓ کے ساتھ تھے۔ ذہبی کہتے ہیں: “وہ دین دار اور عبادت گزار تھے، وہ ان لوگوں کے ایک لشکر کے ساتھ نکلے جو شہید حسینؓ کا ساتھ نہ دینے پر نادم ہوکر اللہ سے تائب ہوئے اور ان کے خون کا مطالبہ لے کر چلے، انہیں توابین کے لشکر کا نام دیا گیا‘‘
اسی نہج پر، حجاج بن یوسف کے ظلم و زیادتی کے خلاف، عبدالرحمن بن اشعث کی قیادت میں فقہا کا انقلاب بھی تھا۔ صحابی رسول انس بن مالکؓ اپنی کبر سنی کی وجہ سے اس میں باقاعدہ شرکت نہیں کرسکے لیکن انہوں نے اس کی معنوی مدد کی، وہ ’’حجاج کے خلاف ابھارنے والوں میں تھے اور وہ عبدالرحمن بن اشعث کے ساتھ تھے۔‘‘ اس انقلاب کے قافلے میں تابعین میں سے بہت سے بڑے علما اور قرا شامل ہوئے، جن میں عبدالرحمن بن ابی لیلی، سعید بن جبیر اور شعبی بھی تھے، یہاں تک آیا کہ ’’حجاج سے جنگ کرنے اور عبدالملک کو معزول کرنے کے لیے، ان کے ہاتھ پر بصرہ کے تمام قرا اور علما نے بیعت کی۔” ان کی فوج میں “علما، فقہا اور صالحین تھے جو حجاج کے خلاف اپنی مرضی سے ان کے ساتھ نکلے تھے” اور “بصرہ اور دیگر شہروں کے اکثر فقہا اور قرا ان کے ساتھ تھے۔‘‘
صحابی رسول سلیمانؓ بن صرد کی قیادت میں توابین کا انقلاب ہو، یا عبدالرحمن بن اشعث کی قیادت میں فقہا کا انقلاب ہو، دونوں کا اختتام اموی فوج کے ہاتھوں قتل عام پر ہوا۔ توابین کا قتل عام عین وردہ کے واقعہ میں ہوا، جب ایک نا برابری والی مڈبھیڑ میں “توابین کا بے دریغ قتل کیا گیا” جس میں ایک طرف صحابی سلیمانؓ بن صرد کے ساتھ رضاکاروں کی چھوٹی سی فوج تھی اور دوسری طرف منظم اموی فوج تھی جسے عبیداللہ بن زیاد نے حصین بن نمیر کی سالاری میں بھیجا تھا، اس نے اس کے بعد حرہ کے واقعہ میں مدینہ منورہ کی بے حرمتی کے جرم کا ارتکاب بھی کیا، پھر وہ اس وقت مرا جب وہ مکہ میں ابن زبیرؓ کا محاصرہ کیے ہوئے تھا۔ ابن اشعث کے انقلاب کے خلاف قتل عام دیر جماجم کے مشہور معرکوں میں ہوا، جب حجاج کے خلاف ان کے ساتھ نکلنے والے انقلابیوں کو شکست ہوئی۔ اور جب حجاج نے ابن اشعث کے ساتھیوں پر قابو پالیا، تو پھر اس کے ہاتھوں ان پر شدید مظالم ہوئے۔“اس نے ان سب لوگوں کی تلاش کیا جو ان کے ساتھ تھے اور انہیں تلوار کے سامنے پیش کیا، جو اس کے سامنے یہ اقرار کرتا کہ اس کے خلاف خروج کرنے کی وجہ سے وہ کافر ہوگئے اسے چھوڑ دیا اور جو نہیں کرتا اسے تڑپا تڑپا کر قتل کردیتا‘‘
یہاں قاری پوچھ سکتا ہے کہ ہم پہلی صدی ہجری کے انقلابوں میں ان بہت سے دوسرے انقلابوں اور پرتشدد سیاسی تبدیلیوں کو شامل کیوں نہ کریں جنہیں بعد کی اسلامی تاریخ نے دیکھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے پیش نظر یہاں وہ انقلابات ہیں جن کے پاس واضح اخلاقی مشن تھا، جو اسلامی سیاسی قدروں کے احیا کے لیے کوشاں تھے، خاص طور سے شوری کی قدر، جو کہ سیاسی عمارت کی سب سے اساسی قدر ہے اور جو اسلام میں سیاسی جواز کا منبع ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پہلی صدی ہجری کے بعد ہم اسلامی تاریخ میں اس قسم کے انقلابات نہیں پاتے ہیں۔
ان اولین انقلابات کے برپا ہونے اور جبری اقتدار کی سخت گیری اور اس کی قوت کی زیادتی کے سامنے ان کے ناکام ہوجانے کے بعد، لفظ شوری کے سیاسی ابعاد بتدریج دھندلے ہوتے گئے یہاں تک کہ پورے طور پر غائب ہوگئے اور پھر آداب سلطانی کی کتابوں میں خلیفہ اور سلطان کے دوسرے اوصاف اور قابلیتیں سامنے آگئیں۔ اب کسی سلطان کی مدح سرائی میں یہ نہیں کہا جاتا کہ اس کا اقتدار شورائی اقتدار ہے۔ دوسری طرف انقلابیوں اور باغیوں کے یہاں بھی شورائی امامت یا شوری کی حکم رانی کا نعرہ نہیں ملتا۔” اگرچہ بعد کی اسلامی تاریخ میں ہونے والی کچھ سیاسی تبدیلیوں کے پاس وسیع اجتماعی قواعد تھے، جیسے عباسی انقلاب اور مرابطین اور موحدین کی تحریکیں، مگر وہ اخلاقی پہلو سے ایسا سیاسی نقطہ نظر نہیں رکھتی تھیں جو شوری اور اقتدار کی تشکیل کے معاملے میں ان سے مختلف ہوتا جن کے خلاف انہوں نے علم انقلاب بلند کیا تھا، چاہے وہ اقتدار کی انجام دہی میں کبھی ان سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔
فتنہ اکبر جو اسلام کے قلب کو ہلاک کردینے کے درپے تھا اور اس کے بعد آنے والے انقلابات جو بڑی بے رحمی سے زندہ درگور کردیے گئے، ان سب کے نتیجے میں سیاسی اصلاح کی کسی بھی کوشش کے سلسلے میں ،خواہ وہ کتنی ہی ضروری ہو، مسلم ضمیر کے اندر بدشگونی اور مایوسی گھر کرگئی، یہی نہیں بلکہ اسلام کی سیاسی قدروں کی اساس پر ہونے والی نئی تعمیر کی ہر طرح کی کوشش کو بد شگونی کی نظر سے دیکھا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں تمام انقلابوں کی ناکامی نے خلافت راشدہ کی واپسی کے امکان کے سلسلے میں مایوسی کو گہرا کردیا اور فتنے کے سلسلے میں اندیشوں نے اپنی جڑیں جمالیں اور سیاسی انقلابات کے تعلق سے شدید خوف دل میں بیٹھ گیا۔ یہ خوف کہ کہیں کام یابی کے وسائل نہیں رکھنے کی صورت میں انقلابی کوششیں بے سود جنگوں اور تباہ کن کوششوں کی شکل اختیار کرلیں، جس سے امت پارہ پارہ ہوجائے اور اس کے دشمنوں کے سامنے اس کی پشت غیر محفوظ ہوجائے۔ مزید برآں جن شرم ناک حرکتوں کا ارتکاب یزید بن معاویہ، عبیداللہ بن زیاد اور حجاج بن یوسف جیسے ظالم حکم رانوں نے کیا اور ان کی فوجوں نے جس طرح مسلمانوں کے خون اور اسلام کی حرمتوں کی پامالی کی، ان سب کا اس بدشگونی کو گہرا کرنے میں بڑا اثر رہا۔ مسلمانوں کے دل اب مدینہ منورہ کی ایک اور بے حرمتی، بیت حرام کی دوبارہ آتش زنی، یا خاندان رسول کے افراد کی پھر خوں ریزی کے متحمل نہیں رہے۔
اس بدشگونی کو بعض سیاسی مخالفین کی غلط روی نے اور بڑھادیا، جیسے خوارج نے غلط روش اختیار کی اور آخری خلیفہ راشد کو قتل کردیا اور اس طرح ایک خلا پیدا کردیا جس میں ملوکیت کے خیمے نے اپنی میخیں گاڑ لیں۔ پھر اموی دور میں وہ ظالم حاکموں کے خلاف مقابلہ آرائی سے آگے بڑھ کر مظلوم امت کے خلاف معرکہ آرا ہوگئے۔ وہ شریعت کی سمجھ اور سیاسی حکمت سے پوری طرح عاری تھے۔ انہوں نے معاشرے کو ظلم سے آزاد کرانے کی دلیل سے پورے معاشرے کا خون حلال کردیا۔ اس طرح خوارج کے گروہوں کی غلط روی، ان کے دینی اور سیاسی افق کی تنگی اور ان کے تباہ کن بے ہنگم طریقوں کی وجہ سے، جبری اموی نظام کے متبادل پر بھروسا بری طرح سے ٹوٹ گیا۔
کسی بھی اصلاحی کوشش کے تعلق سے یہ پوشیدہ بدشگونی اور مایوسی ایسی پھیلی، کہ بہت سے مسلمان فقہا اور مورخین نے پہلی صدی ہجری کے انقلابوں کو منفی نقطہ نظر سے پڑھا اور ناحق ان پر ’’فتنوں‘‘ کا نام چسپاں کردیا، جس سے اسلامی حافظے میں ان عظیم انقلابوں کے سلسلے میں برا تاثر نقش ہوگیا۔ چناں چہ اسلامی مآخذ میں اہل مکہ کے انقلاب کے لیے ’’فتنہ ابن زبیر‘‘ کا نام بار بار آیا، اس کے باوجود کہ امت کی اکثریت ابن زبیرؓ کے پرچم تلے اکٹھی ہوگئی تھی اور اپنی مرضی سے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اسی طرح ان مآخذ میں حجاج بن یوسف کے خلاف عراق والوں کے انقلاب کو بھی بار بار ’’فتنہ ابن اشعث‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا، اس کے باوجود کہ امت کے علما اور صالحین کی بڑی تعداد اس میں شریک تھی۔ ہمارے علم کی حد تک مورخین میں ابن خلدون وہ تنہا مورخ ہیں جنہوں نے اسے غیر جانب دار نام دیتے ہوئے ’’ابن اشعث کی جنگ‘‘ کہا۔
سیاسی اصلاح سے یہ بدشگونی کبھی اس رجحان کی صورت میں بھی سامنے آئی، کہ گوشہ نشینی اور کنارہ کشی اختیار کرلی جائے اور اہل اقتدار کے ساتھ میل جول ختم کرلیاجائے، بجائے اس کے کہ ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے یا نکیر کے ساتھ ان کے ظلم کا سامنا کیا جائے۔ اس رخ کی طرف اکثر اہل تصوف کا میلان رہا، ابو حامد غزالی نے اس رجحان کو اپنے لفظوں میں اس طرح بیان کیا: “جان لو کہ ظالم امرا و عمال کے ساتھ تمہارے تین احوال ہوسکتے ہیں: پہلا حال یہ کہ تم ان کے یہاں جاؤ اور دوسرا اس سے کم درجے کا یہ ہے کہ وہ تمہارے یہاں آئیں اور تیسرا حال یہ ہے اور اسی میں سب سے زیادہ سلامتی ہے کہ تم ان سے عزلت اختیار کرو، نہ تم انہیں دیکھو اور نہ وہ تمہیں دیکھیں۔‘‘
(ماخوذ از ’اسلامی تمدن میں آئینی بحران، مصنف ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی، ترجمہ: محی الدین غازی)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022