ایس امین الحسن
سماج میں کچھ لوگ فراخ دل اور کشادہ دست ہوتے ہیں، ان کے برعکس کچھ لوگ تنگ دل اور کم ظرف ہوتے ہیں۔ فراخ دست انسان سماج میں محبوب ہوتا ہے جب کہ بخیل انسان سماج میں ایک ناپسندیدہ کردار مانا جاتا ہے۔ داد ودہش والا انسان سماج سے جڑا ہوتا ہے اور بے کرم انسان لوگوں سے کنارا رکھتا ہے۔ ہر سماج میں حاتم طائی کردار کے لوگوں کے واقعات نسل در نسل لوگ یاد رکھتے ہیں، جب کہ کنجوسوں اور بخیلوں کے قصے عوام کے دل بہلاوے کے لیے لطیفے بن جاتے ہیں۔ فراخ دلی اور تنگ دلی کو عموماً انفاق اور سماج میں خرچ کرنے کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے جب کہ ان کے مطلب میں اس سے زیادہ وسعت پائی جاتی ہے، جس پر گفتگو الگ سے کبھی ہوگی۔ تنگ دل اور بخیل انسان کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سخی آدمی اللہ سے قریب، جنت سے قریب، لوگوں سے قریب اور جہنم سے دور ہے، بخیل آدمی اللہ سے دور، جنت سے دور، لوگوں سے دور، اور جہنم سے قریب ہے، جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عالم سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔ (ترمذی)
تنگ دل آدمی پیسوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے اور انھیں سینت سینت کر رکھنا اس کی عادت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی وہ پیسے بچانے کے لیے پیسہ خرچ کرتا ہے۔ پیسے بچانے کے لیے وقت کا زیاں اس کے نزدیک کوئی احمقانہ بات نہیں ہوتی۔ پیسے بچانا اس کا مقصد اول ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کی ضرورتوں کو بھی جبرا دبائے رکھتا ہے تاکہ دو پیسے بچ جائیں۔ دوستوں کے ساتھ ملنا جلنا اس کے لیے گھبراہٹ کا باعث ہوتا ہے، اس لیے کہ پتہ نہیں کب خرچ کرنے کا مطالبہ ہو جائے۔ ایک مہا کروڑ پتی کے ساتھ مجھے شہر میں ادھر ادھر گھومنے کا موقع ملا اور انھوں نے خود بتایا کہ وہ اپنی جیب میں سو روپے سے زیادہ نہیں رکھتے۔ کنجوس آدمی کو مارے مجبوری کے کبھی چائے پلانے کا موقع آگیا تو ’کٹ جائے‘ تلاش کرے گا۔ بخیل کی تمنا ہوتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھ فراخی کا برتاؤ کریں اور وہ خود کسی کے لیے تحفہ تک لے جانے کا روادار نہیں ہوتا، اس پر ستم یہ کہ وہ تحفہ دینے کے خلاف دلائل بھی رکھتا ہے کہ سماج نے خواہ مخواہ زندگی کو بوجھل بنا دیا ہے، اس لیے میں ان رسوم کا مخالف ہوں۔
شح نفس کے مریض کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ راہ خدا میں خرچ کرنے سے کترائے گا اور کوئی اس سے پوچھ بیٹھے تو اپنی شاہ خرچی کی لمبی فہرست پیش کرے گا۔ قرآن نے ایسے لوگوں کا کردار پیش کیا ہے:
یَقُوْلُ اَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًاؕ
کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا! (سورۃ البلد: ۶، ۷)
اس طرح کے لپاٹئے لوگوں کی نفسیات کی بہترین تصویر کشی مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں کی ہے۔ اس کردار کا عنوان دیا ہے: ’فاسد ذہنیت سے فاسد کردار‘ پھر لکھتے ہیں:
اوپر کی آیت میں ان کی اس ذہنیت سے پردہ اٹھایا گیا ہے جس میں مال و جاہ کی فراوانی نے ان کو مبتلا کر دیا تھا۔ اس آیت میں ان کے اس کردار سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے جو اس فاسد ذہنیت نے ان کے اندر پیدا کیا۔
جن کے اندر یہ گھمنڈ پیدا ہوجاتا ہے کہ ان کو جو مال وجاہ حاصل ہے یہ ان کا پیدائشی حق اور ان کی قابلیت وہنر کا کرشمہ ہے، ان کے اندر انفاق کا جذبہ بالکل مردہ ہوجاتا ہے اس لیے کہ ان کو نہ خدا کی پروا رہ جاتی نہ آخرت کی۔ اس طرح کے لوگ اپنی بخالت پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے مستحقین کے سامنے ہمیشہ اپنے وسیع مصارف کا رونا روتے رہتے ہیں اور اس طرح ان کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھیں ذاتی مصارف کے علاوہ قومی واجتماعی مصارف پر اتنا خرچ کرنا پڑتا ہے کہ وسیع ذرائع آمدنی رکھنے کے باوجود مشکل ہی سے کچھ پس انداز ہوتا ہے۔ یہی طریقہ وہ ان لوگوں کو چپ کرنے کا اختیار کرتے ہیں جو ان کو خدا اور آخرت کے نام پر انفاق کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کو وہ جواب دیتے ہیں کہ آخر کہاں تک خرچ کیے جائیں! ڈھیروں مال تو اسی طرح کے مصارف پر اٹھا چکے ہیں!
خدا کی راہ میں انفاق کرنے والا جب کچھ دیتا ہے تو اسے انتہائی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک بخیل انسان سے کچھ مانگا جاتا ہے تو اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے۔ قرآن اس کے لیے شح نفس کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَاسۡمَعُوۡا وَاَطِيۡعُوۡا وَاَنۡفِقُوۡا خَيۡرًا لِّاَنۡفُسِكُمۡؕ وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ
لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو، اور اپنے مال خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں (سورۃ التغابن:۱۶)
تنگ دل انسان غربت کے موہوم اندیشے میں مبتلا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا اضطراب ہے۔ اسے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ غریب نہ ہوجائے۔ اسے اپنی عزت نفس سے زیادہ مرغوب شئے دولت ہوتی ہے۔ وہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے مصداق اپنی خودی کو بیچ کر دولت کی حفاظت کرتا ہے۔ تنگ دل انسان وہ نہیں جو دوسروں کو اپنی تنگ دستی کے سبب نہ دے بلکہ وہ ہے جس کے پاس دوسروں کو دینے کے بعد بھی اس کے معیار زندگی میں کوئی فرق واقع نہیں ہو تب بھی اپنی دولت کے ایک چھوٹے سے حصے میں دوسروں کو شریک کرنے کا روادار نہیں ہو۔
تنگ دل انسان تبدیلی اور زوال دو چیزوں سے ڈرتا ہے۔ جب کہ کائنات کی یہ دو عظیم حقیقتیں ہیں۔ جدھر نگاہ اٹھاؤ ادھر ہر آن تبدیلی رونما ہورہی ہے۔
سکُوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
ایک تنگ دل انسان زمانے کے ساتھ منجمد رہنا پسند کرتا ہے۔ گھر میں نئے برتن، نئے پردے، نئی چادریں، اور نئے کپڑے خریدنا، دنیا کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سفر کرنا، یہ سب تبدیلی کے مطالبے ہوتے ہیں جن کے پیچھے کچھ خرچ آتا ہے۔ تنگ دل انسان ایسی تبدیلیوں سے گھبراتا ہے۔
تنگ دل انسان اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ اس کائنات میں ہر عروج کے بعد زوال ہے، جوانی کے بعد بڑھاپا آتا ہے، پھل دار درخت ایک دن بانجھ ہوجاتا ہے اور پھر اس کی لکڑی جلانے کے کام آتی ہے۔ اسی طرح دولت پر بھی زوال آنا یقینی ہے، عقل مندی یہ ہے کہ اس کے آنے سے پہلے انسان خرچ کرکے اپنے لیے آخرت کی ذخیرہ اندوزی کرلے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بندہ (ترنگ میں آکر)کہتا ہے: میرا مال، میرا مال حالاں کہ اُس کے (جمع کیے ہوئے) مال میں سے اُس کا حصہ صرف تین قسم کا مال ہے: جو اُس نے کھالیا اور فنا ہوگیا یا جو اُس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا یا جو اُس نے اللہ کی راہ میں دے دیا اور وہ اُس کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گیا، اس کے سوا جو کچھ بھی ہے (وہ اس کا نہیں ہے) وہ تو (آخرت کا راہی ہے، وقت آنے پر ) چلا جائے گا اور (اپنا تمام جمع کیا ہوا مال وارثوں کے لیے) چھوڑ جائے گا” (صحیح مسلم)۔
انسانی نفسیات کا اثر اس کے جسم پر پڑتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جسم میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے پیچھے اس کی ذہنی کیفیت کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ یہ ایک نیا اور اختلافی موضوع ہے۔ جسم کو لاحق ہونے والی بعض بیماریوں کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انسان بخیل ہوتا ہے، اور بخیلی کی وجہ سے اضطراب، بے چینی اور غیر یقینی صورت حال میں مبتلا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص دولت کا پجاری ہوتا ہے وہ نفس کا مارا انسان زندگی کے حقیقی لطف سے محروم رہتا ہے۔ اگر اسے ارتقائی مرحلے طے کرنا ہے تو لازم ہے کہ وہ شعور کی اعلی سطح سے زندگی گزارے۔ ایک تنگ دل آدمی روحانی طور پر لاغر انسان ہوتا ہے۔ حالات، شکایات اور لوگوں کی غلطیوں کو پکڑے رکھنے سےکہیں زیادہ صحت کے لیے بہتر ہے کہ درگزر کا رویہ اختیار کیا جائے۔
(اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والے اس کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں:
The Key to Self-liberation: 1000 Diseases And Their Psychological Origins by Christiane Beerlandt)
تنگ دلی ایک نفسیاتی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص صرف دنیا سے لینا جانتا ہے دنیا کو دینا نہیں جانتا۔ یہ بنی اسرائیل اور منافقین کی خصلتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اہل ایمان کی اعلی ترین خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ راہ خدا میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ اور یہ نہیں کہ وہ صاحب ثروت ہونے کے بعد ایسا کرتے ہیں بلکہ جب خود تنگی اور محتاجی کا شکار ہوتے ہیں اس وقت بھی ایثار کرتے ہوئے وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔
شح نفس کا نفسیاتی تجزیہ
روایتی طور پر مغربی علم نفسیات انسانی رویوں کے منفی پہلوؤں کے مطالعے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ انسانی رویوں کے مثبت گوشوں کا مطالعہ علم نفسیات کی ایک نئی شاخ ہے۔ 1990 سے اس عدم توازن کو دور کرنے کے لیے ماہرین نفسیات کی طرف سے کوششیں سامنے آنی شروع ہوئیں۔ انھی میں سے ایک مطالعہ یہ ہے کہ انسان نفسیاتی طور پر کب مضبوط ہوتا ہے اور اندرونی خوشی اسے کب ملتی ہے جو لازوال ہو۔ ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی خوشی اس کے اپنے تصور ذات سے پیوست ہے۔ جس کی زندگی اور سرگرمیوں کا محور اس کی ذات ہو، وہ شخص ایک ٹھوس مستقل آزاد وجود رکھتا ہے۔ یہ تصور اسے متزلزل اور ناپایدار خوشی دیتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس ماہرین نفسیات ایک نظریہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جو شخص بے نفسی کے ساتھ کام کرتا ہے اس کی شخصیت لچک دار ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اسے یقینی اور پائیدار خوشی ملتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ خوشی کو کیسے ناپا جائے؟ خوشی ناپنے کا مغربی طریقہ یہ ہے کہ تیسرے فرد کی آنکھ سے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے جب کہ روحانی کیفیات کو ناپنے کے لیے خود انسان کی ذات کافی ہے۔ خود احتسابی پیمائش ذات کا اہم ذریعہ ہے۔ اب مغرب کی دماغی ٹریننگ کی تجربہ گاہوں میں بھی اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔
تنگ دل آدمی کو جو خوشی ملتی ہے وہ احساس کی سطح پر ہوتی ہے جسے لذتیاتی خوشی (hedonic happiness) کہتے ہیں۔ جب کہ ایک فراخ دل آدمی کو جو خوشی ملتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ کام کرنے سے ملتی ہے، بھلے ہی اس کے پاس اشیا کی کمی ہو۔ اس کو آپ ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک بخیل آدمی کے پاس عالی شان کوٹھی ہوگی جسے دیکھ کر وہ احساس کی خوشی میں مبتلا رہتا ہے، مگر وہ گھر کسی کی مہمان نوازی کے شرف سے محروم رہتا ہے۔ ایک دوسرا شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس سر چھپانے کے لیے معمولی گھر ہوتا ہے مگر اس کے گھر میں مہمانوں کی بہار ہوتی ہے۔ اور وہ شخص اپنے اس عمل سے نہایت خوش رہتا ہے۔ یا یوں سمجھیے کہ ایک آدمی کے پاس BMW کار ہے اور اسے دیکھ دیکھ کر یا اپنے حلقہ یاراں میں اس کا تذکرہ کرکے وہ خود اپنی ذات میں خوش رہتا ہے۔ اس کے بالمقابل ایک دوسرا فرد ہے جو فراخ دل اور انسانیت نواز ہوتا ہے، اس کے پاس ایک معمولی کار ہوتی ہے اور وہ خاندان کے اور بھلائیوں کے کام میں استعمال ہوتی ہے، اس پر وہ شخص خوش رہتا ہے۔ اس کو موزوں تفاعل کی خوشی (happiness of optimal functioning) کہتے ہیں۔ جس خوشی کا انحصار دولت، اقتدار اور مادی چیزوں پر ہوگا وہ ناپائیدار ہوگی۔ اس لیے کہ ان تمام خوشیوں کا تعلق انسانی ذات سے باہر کی چیزوں سے وابستہ رہنے میں ہے۔ اس لیے ان کی مدت قلیل ہوتی ہے۔ ایسا شخص کبھی گھڑی پہلے خوش اور لمحہ بعد مغموم ہوگا۔ اس طرح وہ شخص خوشی اور غم کے اتار چڑھاؤ کی کیفیتوں سے بار بار دوچار ہوتا رہے گا۔ اور جو خوشی اسے ملے گی وہ بھی غیر معتبر اور غیر حقیقی ہوگی۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ خوشی کے بیرونی ذرائع سے چمٹے رہنے سے اور اسی کو خوشی سمجھنے کے نتیجے میں اگر دائمی نہیں تو عارضی اضطراب کا پیدا ہونا لازم ہے۔ دوسری طرف معتبر اور حقیقی خوشی حالات پر منحصر نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک فرد کو وہ اندرونی وسائل فراہم کرتی ہے جن سے زندگی میں جو بھی واقعہ پیش آئے اور جیسے کچھ بھی حالات ہوں ان سے نمٹنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ خوشی کا احساس صرف کسی سرگرمی سے منسلک نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک گہرے جذباتی توازن کی ’حالت میں ہونے‘ کی عکاسی کرتا ہے۔ عظمت، خوشی، اطمینان، اندرونی سکون یا تکمیل کی طمانیت مستند خوشی کی علامتیں ہوتی ہیں۔
تنگ دل انسان ’خود مرکزیت‘یا ’خود پسندی‘ کا شکار ہوتا ہے۔ اس طرز عمل کے پیچھے دو اہم عوامل کار فرما ہوتے ہیں: نفس پرستی اور اپنی اہمیت کا ایک مبالغہ آمیز احساس۔ خود پسندی سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ نفس کی متعدد نفسیاتی سرگرمیوں جیسے سعی وکوشش، محرک، توجہ، ادراک، اثر، جذبات، لیاقت وقابلیت اور طرز عمل کے سلسلے میں اگر کوئی اچھی مثال وہ پیش کر سکتا ہے تو وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی پوری سوچ کا مرکزی نقطہ نظر اس کی اپنی ذات ہوتی ہے۔ خود پسند شخصیت کی پہچان تعصب، عداوت اور خصومت سے بھی ہوتی ہے۔
جو انسان تنگ دل نہیں ہوتا وہ خود پسند نہیں ہوتا بلکہ بے نفس ہوتا ہے اور اس کے نفسیاتی عوامل مندرجہ بالا شخص سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کی مرکزیت کے احساس سے پاک ہوتا ہے۔ ہر جگہ اور ہر بات میں اپنی اہمیت جتانا اس کی خصلت نہیں ہوتی۔
نفسیاتی طور پر ایسا انسان اخلاص، احسان، احترام، ہمدردی جیسی صفات کا پیکر ہوتا ہے۔ ایسا شخص اپنی ذات میں جذباتی توازن رکھتا ہے اس لیے وہ سارے سماج سے ہم آہنگ ہوکر چل سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہمیشہ خوشی کے چشمے اس کے اندر سے پھوٹتے ہیں۔
انسانی زندگی بہت پیچیدہ ہوتی ہے، چارٹ میں دیا ہوا تجزیہ سمجھانے کے لیے آسان بناکر پیش کیا گیا ہے۔
شح نفس سے کیسے بچا جائے؟
١. ایمان کی پختگی
پختہ ایمان تنگ دلی سے محفوظ رکھتا ہے۔ جو خدا پر یقین رکھتا ہے وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ سب کچھ خدا کا دیا ہوا ہے اور وہ ایک امتحان ہے۔ اسی خدا کا حکم یہ بھی ہے کہ مال اس کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ اور جو کچھ اس کی راہ میں خرچ کیا جاتاہے خدا اسے اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے، اور اس کو بڑھا چڑھا کر واپس لوٹا دیتا ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ رقم کی شکل میں ہی لوٹے بلکہ اس بندے کو وہ کچھ عطا کرتا ہے جو آخرت میں انعام کے علاوہ اس کی دنیاوی زندگی کو بھی خوش حال بنا دیتا ہے۔ مال میں برکت، جسم و جان کی سلامتی، بیماریوں سےتحفظ، بیوی سے سکون، بچوں کی ترقی، دنیا میں عزت اور نیک نامی اور ایمان کی موت یہ وہ عطیہ جات ہیں جن کا خدائے مہربان اپنے کشادہ دل بندوں پر فیضان فرماتا ہے۔
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ ۖ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ
تم میں سے کون ہے، جو اللہ کو قرض حسن دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کردے۔ گھٹانا بھی اس کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے۔(سورۃ البقرۃ: 245)
ایک مومن کو انسانوں پر خرچ کرنے کے لیے جو چیز آمادہ کرتی ہے وہ یہ عقیدہ کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے اور جو دولت ملی ہے اس سے آخرت کمائی جائے۔ وہاں پہنچنے کے بعد نیکیوں کی ضرورت پڑی تو سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا اس لیے کہ وہاں زر کا مبادلہ ممکن نہیں
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِىَ يَوۡمٌ لَّا بَيۡعٌ فِيۡهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ؕ وَالۡكٰفِرُوۡنَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مال ومتاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ خرید وفروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔(سورۃ البقرۃ: 254)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد کی گرد اور جہنم کا دھواں دونوں کسی بندے کے سینے میں جمع نہیں ہو سکتے، اور نہ ہی کسی بندے کے سینے میں بخل اور ایمان اکٹھا ہو سکتے ہیں“۔ (سنن نسائی)
٢. مال کا صحیح تصور
اسلام مال کے سلسلے میں صحیح تصورات دیتا ہے، ان کا شعور انسان کو شح نفس سے محفوظ رکھ سکتا ہے:
ملکیت: ایک بخیل انسان یہ سمجھتا ہے کہ مال اس نے کمایا ہے لہذا خرچ کرنے کا پورا اختیار صرف اس کا ہے اور خرچ کا مصرف صرف اس کی ذات اور خاندان ہے۔ جب کہ ایک مومن سمجھتا ہے کہ مال کا اصل مالک اللہ تعالی ہے۔
وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ يَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ هُوَ خَيۡـرًا لَّهُمۡؕ بَلۡ هُوَ شَرٌّ لَّهُمۡؕ سَيُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِهٖ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ؕ وَ لِلّٰهِ مِيۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ
جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ بخیلی ان کے لیے اچھی ہے۔ نہیں ‘ یہ ان کے حق میں نہایت بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کررہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔(سورۃ آل عمران: ۱۸۰)
خلافت: ایک سچے مسلمان کا یہ تصور ہوتا ہے کہ زمین پر موجود دولت اور وسائل کے محافظ کی حیثیت سے اس پر ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور قیامت کے دن اپنے رویے کا اللہ کے سامنےجواب دہ ہوگا۔
اٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَاَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَـكُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِيۡنَ فِيۡهِؕ فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَاَنۡفَقُوۡا لَهُمۡ اَجۡرٌ كَبِيۡرٌ
ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ (سورۃ الحدید:۷)
اسلام کی تعلیم ہے کہ کائنات اللہ کی ملکیت ہے۔ کائنات کے خزانے اس کے ہیں، اور ان خزانوں کی چابیاں خدا کے پاس ہیں۔ جس کو وہ جو کچھ دیتا ہے اس کا وہ اصل مالک نہیں بلکہ امین ہے۔ اس کا اصل وارث خدا ہے۔
امتحان : تیسری بات یہ ہے کہ خدا جو کچھ مال دیتا ہے وہ اس بات کی علامت نہیں کہ خدا اپنے اس بندے سے محبت کرتا ہے اور بطور انعام اس نے سب کچھ اسے نوازا ہے، بلکہ بطور امتحان دیا گیا ہے اس لیے کہ بہت سے بندوں کی ضروریات اللہ تعالی نے اس بندے سے وابستہ کر رکھی ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان کا حق ادا کرتا بھی ہے یا نہیں۔
وَهُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡشَاَ جَنّٰتٍ مَّعۡرُوۡشٰتٍ وَّغَيۡرَ مَعۡرُوۡشٰتٍ وَّالنَّخۡلَ وَالزَّرۡعَ مُخۡتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيۡتُوۡنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيۡرَ مُتَشَابِهٍ ؕ كُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَاٰتُوۡا حَقَّهٗ يَوۡمَ حَصَادِهٖ ۖ وَلَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ
وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کئے۔ کھیتیاں اگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں ‘ زیتون اور انار کے درخت پیدا کئے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں۔ کھاؤ اس کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو، جب ان کی فصل کاٹو، اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (سورۃ الانعام: 141)
روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاصؓ کا خیال تھا کہ انھیں دوسرے بہت سے صحابہ پر (اپنی مالداری اور بہادری کی وجہ سے) فضیلت حاصل ہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم لوگ صرف اپنے کم زور اور معذور لوگوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے مدد پاتے اور رزق سے نوازے جاتے ہو۔ (صحیح بخاری)
٣. مقصدیت
زندگی کا اونچا مقصد تنگ دلی کی پستی سے اوپر اٹھا دیتا ہے، ایک بخیل انسان کسی بڑے مقصد سے وابستہ نہیں ہوسکتا۔ اپنے سماج میں چاروں طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیے, جہاں بھی خیر یا اس کی علامتیں پائی جاتی ہیں مثال کے طور پر ہسپتال، اسکول، یتیم خانہ، لنگر وغیرہ ان سب کے قیام کے پیچھے کچھ بندگان خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں کسی ایک کام کو اپنا مقصد بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے دل کھول کر خرچ کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی اپیل کرتے ہیں۔ اس طرح سے انسانی خدمت کے بڑے ادارے قائم کر جاتے ہیں اور صدیوں تک ان کا فیض جاری رہتا ہے۔ جب کہ اسی وقت نہ جانے کتنے بڑے بڑے مال دار تھے جو تنگ دل تھے وہ کار خیر میں حصہ لینے سے کترا گئے اور اپنی دولت اپنے پیچھے بچوں میں چھوڑ کر چلے گئے آج دنیا میں ان کا نام ونشان تک باقی نہیں ہے۔
٤. انسانوں سے محبت
انسانوں سے محبت فطری جذبہ ہے، اسے اجاگر کرنا تنگ دلی سے بچنے کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں انسانوں سے محبت کرنے کی تعلیم پائی جاتی ہے، بلکہ ان کے ہاں بھی انسانیت کی خدمت ایک مقدس کام ہے جو کسی دین دھرم کو نہیں مانتے۔ آج بھی انسانیت نوازی انسانوں میں زندہ ہونے کا ثبوت ہے۔
مکی دور کی سورتوں تو میں اس پہلو کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا کہ انسانوں سے محبت کرو، ان کا درد محسوس کرو اور انھیں اس تکلیف سے نکالنے کے لیے انفاق کرو
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ
تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزاوسزا کو جھٹلاتا ہے ؟وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہےاور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔ (سورۃ الماعون: ۱-۳)
فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَةَ وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا الۡعَقَبَةُ فَكُّ رَقَبَةٍ اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِىۡ يَوۡمٍ ذِىۡ مَسۡغَبَةٍ يَّتِيۡمًا ذَا مَقۡرَبَةٍ اَوۡ مِسۡكِيۡنًا ذَا مَتۡرَبَةٍ
مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی ہمت نہ کیاور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دشوار گزار گھاٹی؟ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا، یا فاقے کے دن کھانا کھلانا۔ کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو (سورۃ البلد: ۱۱-۱۶)
نیکی پسند بنیں
انسان کے اندر نیکی اور بدی کی کشمکش جاری رہتی ہے، اگر آپ اپنا جھکاؤ ہمیشہ نیکی کی طرف رکھتے ہیں تو نیکی کو قوت ملتی ہے۔ انسانی نفس کی ساخت ایسی بنائی گئی ہے کہ اس میں فیاضی کے پہلو بہ پہلو تنگ دلی کو بھی پیوست کی گیا ہے۔ جیسے کہیں گواہی دینے کا موقع آتا ہے تو سچ بولنے میں کچھ دقتیں پیش آتی ہیں تو دوسری طرف دل میںیہ خیال بھی آتا ہے کہ جھوٹ بول کر دامن جھاڑ لیا جائے۔ کمائی کے وقت حلال راستوں سے کمانے میں کچھ دقت ہوتی ہے اور کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے جب کہ رشوت خوری اور دیگر مذموم طریقوں سے کمائی کی راہ آسان نظر آتی ہے۔ اسی طرح کسی کی مدد کا خیال دل میں آتا ہے تو اعلیٰ روحانی اوصاف انفاق کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، تو دوسری طرف بخل کا مارا انسان سوچتا ہے کہ میں کیوں خرچ کروں۔ جن کی انسانیت مرچکی ہے وہ تو یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جنھیں غریب رکھا ہے، انھیں دراصل ان کے کرتوت کی سزا دی گئی ہے سو ہم انفاق کرکے خدا کی مشیت میں کیوں خلل اندازی کریں۔
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیں عطا کیا ہے، اس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرو تو یہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے ایمان لانے والوں کو جواب دیتے ہیں کیا ہم ان کو کھلائیں جنھیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا ؟ تم تو بالکل ہی بہک گئے ہو (سورۃ یس: 47)
ایثار کو فروغ دیں
ایثار شح نفس کی سب سے بڑی ضد ہے، ایثار کی صفت بڑھانے سے تنگ دلی سے نجات ملتی ہے، ایثار کو ہم اس ذہنی کیفیت سے تعبیر کریں گے جہاں انسان دولت اور مادی اسباب ووسائل سے زیادہ دوسروں کی ضروریات اور جذبات کا خیال رکھے اور یہ جذبہ ہو کہ میری ذات سے کسی کا دکھ درد دور ہوجائے۔ اس طرح سے ایثار کرنے والا درحقیقت فیاضی کا ایک عظیم تحفہ خود اپنی ذات کے لیے نذر کرتا ہے۔ دنیا میں کتنے یتیم، بیوہ، مسکین اور مجبور انسان ہیں جن کی آنکھیں ہماری طرف تکتی ہیں، ان کے ان جذبات کو سمجھنا اور خود اپنی مجبوریوں اور تنگ دامانی کے باوجود دوسروں کی مدد کردینا جذبہ ایثار کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ فیاضی اور معاشی خوش حالی کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ اپنی بنیادی ضروریات سے زیادہ نہیں رکھتے مگر ایثار کرنا ان کے لیے آسان ہوتا ہے۔ جب کہ کچھ اور ہوتے ہیں جن کے پاس مال کی فراوانی ہوتی ہے مگر دوسروں کو دیتے ہوئے انھیں ایسا لگتا ہے گویا دم گھٹ رہا ہو۔ جو ایثار کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جو حقیر رقم ان کی مٹھی میں ہے اسے خرچ کرکے اس سے وہ محبت، دعاؤں اور برکتوںکا تبادلہ کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ شفقت اور امداد کا رشتہ قائم کرکے وہ اپنی زندگی کو با معنی بناتے ہیں اور فیاضی کے مثبت جذبات سے روح کی آبیاری کرتے ہیں۔
تنگ دلی کا شکار بندہ مال کو روک کر خود اپنے لیے خدا کی رحمت اور برکت کو روکنے کا سبب بن جاتا ہے، روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئیں۔ آپ نے فرمایا : (مال کو) تھیلی میں بند کر کے نہ رکھنا ورنہ اللہ پاک بھی تمہارے لیے اپنے خزانے میں بندش لگا دے گا۔ جہاں تک ہوسکے لوگوں میں خیر خیرات تقسیم کرتی رہو۔ (صحیح بخاری)■