سیکولرزم، جمہوریت اور لبرلزم۔ نقد مکرر
محمد ذکی کرمانی
اختلاف کی گنجائش کو تسلیم کرتے ہوئے اور مباحثے کو آگے بڑھانے کی دعوت کے ساتھ زیر نظر مضمون ایک نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔( ادارہ)
برصغیر کی تحریک اسلامی اپنے فکری ارتقا کی ابتدا ہی سے مذکورہ تین اصطلاحوں سے بخوبی واقف رہی ہے کیوں کہ یہ اصطلاحیں گہرے تجزیے اور سنجیدہ تنقید سے گزری ہیں اور انہیں بجا طور پر اسلام سے متصادم سمجھا گیا ہے۔ سوشلزم بھی ایک دور میں ایسا ہی ایک نظریہ تھا لیکن اب وہ اپنی قدر کھو چکا ہے اور آج اس کے نام لیوا کم ہی پائے جاتے ہیں۔ البتہ سیکولرزم، جمہوریت اور لبرلزم کی اصطلاحیں آج بھی نہ صرف برصغیر میں بلکہ عالم اسلام میں گاہے گاہے حوالہ اور ہدف کے طور پر سامنے آتی رہتی ہیں۔
پیشِ نظر مضمون میں ان اصطلاحوں کے بعض ان پہلوؤں کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جن کی سودمندی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک حق پرست گروہ کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے کہ کسی نظریہ سے بنیادی اختلاف رکھنے کے باوجود اس کے ممکنہ مفید پہلو ؤںسے نہ تو صرف نظر کریں اور نہ ہی ان کا انکار کریں بلکہ پوری وسیع القلبی کے ساتھ ان پہلوؤں کو تسلیم کریں۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ کوئی بھی انسانی نظریہ جیسے کہ یہ تینوں واقعتاً ہیں مکمل طور پر غلط یا نقصان دہ نہیں ہو سکتا۔
سیکولرزم کے بارے میں غور کرتے ہوئے ہمیں نقطہ نظر اور رویہ کے فرق کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ سیکولرزم بطور نظریہ مذہب کے مکمل طور پر انکار اور اسے مسترد کرنے پر مشتمل ہے۔ اس کے عملی معنی یہ ہوئے کہ اجتماعی شکل مثلاً سیاست اور حکومت میں مذہب کا عمل دخل نہ ہو۔ یہ نقطہ نظر راقم کے نزدیک انسانی خیالات کا انتہائی غیر فطری formulationہے اور حقیقت اور مشاہدے کے خلاف ہے۔ کیوں کہ مذہب جو چاہے کتنا ہی قدیم اور ابتدائی شکل میں کیوں نہ ہو انسانی فطرت میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ جنگلوں میں آباد وہ انسانی قبیلے جنہیں ابھی تہذیب کی ہوا بھی نہیں لگی جب اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لیے شکار کی غرض سے گھروں سے نکلتے ہیں تو نظروں کو اوپر اٹھا کر اس قوت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کا شکار کام یاب رہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قوت سے اگر وہ مربوط نہ ہوں تو ان کو اچھا شکار نہ مل سکے گا۔ گویا مذہب انسانی فطرت کا حصہ ہے جس کا انکار اس فطرت کا انکار ہے۔
سیکولرزم کے غیر فطری ہونے کے باوجود آخر یہ نظریہ کیوں کر تشکیل پا سکا اس سوال کا جواب نقیب العطاس نے اپنی معروف کتاب ‘سیکولرزم’ میں بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ اس کی جڑیں دراصل مغربی تصور مذہب اور کلیسا کے رویوں میں پیوست ہیں۔ البتہ عالم اسلام میں اس کی مخالفت کے پس منظر میں اتاترک کے ترکی اور قبل از انقلاب ایران کے شہنشاہی دور میں دیکھی جا سکتی ہیں جہاں سیکولرزم کے نام پر نہ صرف اجتماعی مظاہر سے مذہب کو یکسر مٹادینے کی کوشش کی گئی بلکہ انفرادی اور پرائیویٹ زندگی میں بھی انتہائی ظالمانہ طریقے سے مذہب یا اس سے سے مماثلت رکھنے والی ہر روایت اور عمل کو یکسر مٹا ڈالنے کی حکومتی سطح پر کوشش کی گئی۔ ان کوششوں کی داستان اتنی لرزہ خیز ہے کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس بحث کو یہیں ختم کرتے ہوئے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ مذہب کے خلاف اس متشدد رویہ کے پیچھے اہل مذہب کے رویے بھی رہے ہوں گے۔
سیکولرزم سے ماخوذ ایک اصطلاح سیکولر ہے جو دراصل ایک رویہ کے معنیٰ میں آتی ہے۔ اس سے مراد مذہب مخالف رویہ سے زیادہ مذہب کو پیش نظر رکھے بغیر تعلقات، روابط اور معاملات کو استوار کرنے سے ہے۔ یعنی تعلقات میں، معاملات میں اور حقوق کی ادائیگی میں اور عدل کے قیام میں امتیاز نہیں ہوگا اور مذہب سے وابستگی کی اہمیت نہ ہوگی۔ یہ ایک انتہائی مناسب اور مہذب رویہ ہے اور یقیناً اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ چناں چہ اگر کسی کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ سیکولر روایات کا حامل ہے تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں مذہبی نہ ہو لیکن اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ معاملات میں مذہبی وابستگیوں کو پیش نظر نہیں رکھتا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ایک مثبت رویہ ہے جسے ہمیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔
دوسری اصطلاح جمہوریت ہے جو ایک نظام حکمرانی کے ساتھ ایک رویہ بھی ہے۔ نظام حکمرانی میں اس کے معنی یہ لیے جاتے رہے ہیں کی اکثریت کی رائے اور فیصلے قابل احترام ہیں جمہوری رویہ کے معنی میں یہ ایک راستے کا احترام اور اس کے اظہار کی آزادی سے متعلق ہے۔ جمہوری نظام حکمرانی میں جس جماعت کو اکثریت حاصل ہو جائے اسے حکومت سازی اور حکومت چلانے کا اختیار مل جاتا ہے اور جہاں ضروری ہو وہاں قانون سازی کا حق بھی مل جاتا ہے۔ لیکن اس نظام میں بالخصوص ایشیائی ممالک میں جمہوریت کے نتیجہ میں اقلیت اکثریت پر حکمران ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
دوسرا پہلو جس کی بنا پر اس طرز حکمرانی پر تحریک اسلامی یا اسلام پسند حلقوں میں تنقید ہوتی رہی ہے اس کا قانون سازی کا حق ہے۔ یہاں عوام کے نمائندے مختار کل اور اقتدار اعلی ہوتے ہیں۔ یہ مقام دراصل خدا کا ہی ہے اس لیے یہ تنقید کی گئی کہ جمہوری نظام میں عوام کو ساورنٹی دی گئی ہے جو ہمارے تصور سے بنیادی طور پر اختلاف رکھتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس اصولی تنقید میں اب وہ سختی نہیں رہی حالانکہ اصولی اختلاف سے اب بھی انحراف نہیں کیا گیا۔ تجربات نے یہ سکھایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی انتخابی عمل میں اسلام پسند گروہ کو عوام اس بنا پر بھی اکثریت سے کام یاب کردیں کہ اسلام پسندوں کا خدمت خلق اور قانون کی پاسداری کا ریکارڈ دوسروں کی نسبت بہت بہتر ہوتا ہے۔ عرب بہار کے دوران اخوان المسلمین کی ابتدائی ہچکچاہٹ شاید اسی بنا پر تھی لیکن جب سوچ میں تبدیلی آئی تو انہوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا اور انہی وجوہات کی بنا پر وہ کام یاب بھی ہوئے۔لیکن کیوں کہ مسلمانوں میں سیاسی رجحانات کو اس طرح فرقوں کا رنگ دے دیا گیا ہے کہ یہ تقسیم بڑی گہری نظر آتی ہے اور ہر فرقہ اپنا تحفظ چاہتا ہے۔ چناں چہ انتخاب کے نتیجہ میں برسراقتدار اسلامی گروہ اس سوال کا جواب دیے بغیر رہ نہیں سکتا کہ آپ کے اقتدار میں کس فقہ کے تحت قانون سازی ہوگی۔ یہ سوال بعض اوقات ان فرقوں کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی ان گروہوں کی شرارت آمیزی ہوتی ہے جو کسی اسلامی جماعت کو مضبوط دیکھنا نہیں چاہتے ۔ یہ سوال پاکستان میں بھی اٹھتا رہا اور جماعت اسلامی اس کا جواب دینے کی کوشش کرتی رہیں اور مصر میں بھی اٹھا۔ جواب بھی دیا گیا لیکن نتیجہ یہ نکالا گیا کہ جمہوری روایت کے مطابق جس فقہ کے ماننے والوں کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہوگی اسی کے تحت قانون سازی کی جائے گی۔ آپ کی سوچ کچھ بھی ہو اور آپ یہ بھی کہہ دیں کہ ہمارے نزدیک اس تقسیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے عوام کی اکثریت اسے صرف ایک سیاسی جواب ہی مانے گی۔ اس کی وجوہات متعدد ہیں لیکن ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ خود ہمارے اسلام پسند سیاسی حلقوں میں اس پر غور ہی نہیں کیا گیا کہ جب برطانیہ جیسی جمہوریت میں مسلمانوں کو اسلامی شرعی عدالت قائم کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے اور کم از کم عائلی معاملات میں برطانوی نظام شرعی عدالتوں کے فیصلوں کو قانونی طور پر تسلیم کر سکتا ہے تو ہم یہ کیوں نہیں کہہ سکتے کہ اسلامی نظام حکومت میں جو پارٹی جمہوری طرز پر منتخب ہو کر برسر اقتدار آئے گی وہ تمام مسالک کے تحت فیصلوں کا انتظام کرے گی اور وہ یہ بھی انتظام کرے گی کہ جو چاہے سیکولر نظام کے تحت اپنے فیصلے کرائے۔
اس طرح جمہوری نظام میں اصولاً اقتدار اعلی افراد یا ان کے نمائندوں کو حاصل ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ باآسانی مختلف اسلامی مسالک ہی نہیں بلکہ غیر مسلم شہریوں کو بھی یہ آزادی دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے مسالک یا پھر بالکل ہی سیکولر انداز میں قانون سازی کے ذریعے زندگی گزاریں۔
لبرلزم
یہ بھی مغرب کی پروردہ ایک اصطلاح ہے اور اس کی جڑیں بھی دراصل مغرب کے مذہب مخالف ماحول میں پیوست ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ نقطہ نظر، رویوں، معاملات اور تعلقات میں مذہب اور روایت ہماری رہ نما نہیں جس کی ہم پابندی کریں۔ ہم آزاد ہیں، چاہیں تو کسی معاملے میں مذہب کی بات کو تسلیم کریں اور چاہیں تو نہ تسلیم کریں۔ یہ رویہ بھی مذہب کی سخت گیری اور اس کے علم برداروں کے غیر منطقی انطباق کا شاخانہ رہا ہے۔ اس کے اثرات صرف مذہبی رویوں تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ سیاست اور تجارت تک پھیل گئے ہیں۔ لیکن چوں کہ یہ اصطلاح مغرب زدہ افراد میں جو مسلم ممالک میں رہتے ہیں کافی معروف ہے اس لیے اسلام پسندوں کے لیے قابل غور ضرور ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اس اصطلاح کا استعمال اس طرح نہیں ہوتا جس طرح مغرب میں ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں مذہب مخالف ماحول نہیں پایا جاتا۔ اس لیے یہاں لبرلزم مذہبی انطباق اور مذہبی آراء کے پس منظر میں ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک فقہہ کی تنگنائیاں اور دوسرے فقہہ میں پائی جانے والی نسبتاً آزاد فضا اس رویہ کی وجہ بنتی ہے۔ چناں چہ مسلمانوں کے درمیان لبرلزم دراصل فقہہ کی بندشوں سے آزادی کا نام ہے۔
اس کے پس منظر میں فکر یہ ہے کہ جب کسی بھی فقہ کو غلط نہیں کہا گیا اور اس کے پیچھے ہمارے جیسے انسان ہی تھے اور مزید یہ کہ فقہ کے تمام تر مظاہر اصلا ً تو قرآن اور سنت ہی سے ماخوذ ہیں تو کسی بھی فقیہ کے کسی بھی قانون کو جسے ہماری عقل تسلیم کرے مانا جا سکتا ہے اور اسی بنا پر کسی نقطہ نظر کو مستردنہیں کیا جا سکتا ۔ چناں چہ مسلمانوں کا لبرلزم دراصل مخصوص فقہی پابندیوں سے آزادی ، یا قرآن و سنت کے کسی مخصوص فہم سے آزادی کا نام ہے کہ قرآن اور سنت سے آزادی مروجہ چار فقہوں کے بجائے کسی پانچویںیا چھٹے فقہی نظام کا بھی امکان ہے۔ اور ان تمام سے وابستگی قرآن و سنت سے وابستگی ہی تسلیم کی جائے گی۔ آج کے ترکی میں لبرلزم کی اصطلاح کا استعمال اسی پس منظر میں ہے۔
یہاں میں نے مسلم معاشرہ میں ان تین اصطلاحوں کا ایک ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور مسلمانوں کے بعض رویوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر اصطلاح پہلے ایک لفظ ہوتی ہے جس کے کچھ معنی ہوتے ہیں جو قاموس کی مدد سے متعین ہو جاتے ہیں۔ جب یہ اصطلاح بن جاتی ہے تو اس کے معنی قاموس کی مدد سے متعین نہیں ہوتے بلکہ معاشرے میں اس کے استعمال اور اس استعمال کے پس منظر سے متعین ہوتے ہیں۔ مذکورہ تینوں اصطلاحوں کا حال یہی ہے ہم اپنے مباحث میں اس پس منظر کو پیش نظر رکھ سکیں تو فضا خاصی آزاد ہو سکتی ہے اور دوسروں کے ساتھ فاصلوں کو کم کرسکتی ہے۔