سیرت صحابیات سیریز(۵) ام المومنین حضرت ام سلمہؓ

سابقون الاوّلون کا اعزاز۔ زہد،علم ، ذہانت اورسخاوت خاص اوصاف

نام ہند، کنیت ام سلمہ، قریش کے خاندان مخزوم سے تھیں۔حضرت ام سلمہؓ کے والد ابو امیہ ایک دولت مند اور بے حد فیاض آدمی تھی۔ ان کی سخاوت اور دریا دلی کی شہرت چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بیسیوں لوگ ان کے دستر خوان پر کھاتے تھے۔ اگر کبھی سفر کرتے تو اپنے تمام ہم راہیوں کو خوراک اور دوسری ضروریات کی کفالت انہی کے ذمے ہوتی۔ ان فیاضیوں کی بہ دولت لوگوں نے انہیں ’’زاد الراکب‘‘ کا لقب دے رکھا تھا اور وہ تمام قبائل قریش میں نہایت عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔
حضرت ام سلمہؓ کا پہلا نکاح ان کے چچا زاد بھائی ابو سلمہ بن عبدالاسدؓ سے ہوا۔ وہ نہایت سلیم الطبع نوجوان تھے۔ جب رسول کریمﷺ نے تبلیغ حق کا آغاز فرمایا تو ناممکن تھا کہ ان کی پاک باز طبیعت اس سے متاثر نہ ہوتی۔ انہوں نے اپنے قبیلے کی مخالفت اور دوسرے مصائب کے علی الرغم فی الفور اسلام قبول کرلیا۔ حضرت ام سلمہؓ بھی اسی زمانے میں دولت اسلام سے بہرہ یاب ہوگئیں۔ اس طرح یہ دونوں میاں بیوی ان عظیم پاک فطرت انسانوں میں شامل ہوگئے جنہیں سابقون الاولون بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ان سعید روحوں نے اسلام کی خاطر بڑی مصیبتیں اٹھائیں لیکن جادہ حق سے ان کے قدم ذرہ برابر بھی نہ ڈگمگائے۔ جوں جوں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی، کفار بھی اپنی ایذا رسانیوں میں اضافہ کرتے جاتے تھے۔ جب ان کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو رسول کریمﷺ نے صحابہ کرامؓ کو اجازت دے دی کہ جو شخص اپنے دین اور جان کے بچاو کے لیے ہجرت کرنا چاہے وہ حبش چلا جائے جہاں ایک نیک دل عیسائی بادشاہ کی حکومت ہے۔
حضرت ابو سلمہؓ اور ام سلمہؓ اس وقت اسلام قبول کرچکے تھے۔ چناں چہ (بعض روایتوں کے مطابق) وہ بھی دوسرے مسلمانوں کے ہم راہ عازم حبش ہوئے۔ کچھ دن وہاں گزارنے کے بعد واپس آگئے اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا قصد کیا۔ اس وقت حضرت ابو سلمہؓ کے پاس صرف ایک ہی اونٹ تھا۔ اس پر انہوں نے حضرت ام سلمہؓ اور اپنے ننھے بچے سلمہ کو سوار کروایا اور خود اونٹ کی نکیل پکڑ کر پا پیادہ چل پڑے۔ ابھی چند قدم ہی چلے ہوں کہ ام سلمہؓ کے خاندان کے لوگوں یعنی بنو مغیرہ کو پتہ چل گیا۔ انہوں نے اونٹ کو گھیر لیا اور ابو سلمہؓ کے خاندان کے لوگ بنو عبدالاسد آپہنچے۔ انہوں نے ام سلمہؓ کے بچے سلمہ پر قبضہ کرلیا اور بنو مغیرہ سے کہا کہ اگر تم اپنی لڑکی کو ابو سلمہؓ کے ساتھ نہیں جانے دیتے تو ہم اپنے قبیلے کے بچے کو تمہارے پاس نہیں چھوڑیں گے۔ سلمہؓ سے کہا : تو اکیلا جہاں جی چاہے جا سکتا ہے‘‘۔
اس وقت صحابہؓ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا اذن مل چکا تھا۔ حضرت ابو سلمہؓ بیوی بچے کے بغیر ہی مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ام سلمہؓ بنو مغیرہ کے پاس اور ان کا بچہ بنو عبدالاسد کے پاس تھے۔ گویا دین حق کی خاطر تینوں، باپ، بیٹا اور بیوی جدائی کی مصیبتیں برداشت کررہے تھے ۔ حضرت ام سلمہؓ کو شوہر اور بچے کی جدائی کا فطری طور پر بہت صدمہ تھا۔ وہ روزانہ صبح کے وقت گھر سے نکلتیں اور سارا دن ایک ٹیلے پر بیٹھ کر گریہ وزاری کرتی رہتیں۔ پورا ایک سال ایسے ہی گزر گیا۔ ایک دن بنو مغیرہ کے ایک صاحب اثر اور رحم دل آدمی نے انہیں اس حال میں دیکھا تو اس کا دل پسیج گیا۔ اس نے اپنے قبیلے کو اکٹھا کیا اور کہا کہ ’’یہ لڑکی ہمارا ہی خون ہے۔ ہم کب تک اس بے کس کو اپنے شوہر اور بچے سے جدا رکھیں گے۔ اے بنو مغیرہ بخدا ہمارا قبیلہ بڑا شریف اور شجاع ہے جو ظلم کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔ اس نیک دل آدمی کی تقریر سن کر دوسرے لوگوں کو بھی رحم آگیا۔ انہوں نے ام سلمہؓ کو مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔ جب بنو عبدالاسد نے یہ واقعہ سنا تو انہیں بھی ترس آگیا اور انہوں نے سلمہ کو اپنی ماں کے پاس بھیج دیا، اب حضرت ام سلمہؓ نے بچے کو گود میں لیا اور اونٹ پر سوار ہوکر مدینہ ک طرف روانہ ہوئیں۔ راستے میں تنعیم کے مقام پر انہیں ایک شریف النفس آدمی عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ ملے۔ انہوں نے جب ام سلمہؓ کو ایک ننھے بچے کے ہم راہ تن تنہا سفر کرتے دیکھا تو دل میں آیا ’’اے عثمان یہ مردانگی سے بعید ہے کہ قریش کی یہ عورت یوں تنہا سفر کرے اور تو اس کی مدد نہ کرے‘‘۔ انہوں نے ام سلمہؓ کے اونٹ کی نکیل پکڑی اور کشاں کشاں مدینہ کی طرف چل پڑے ۔ جب کہیں پڑاو ہوتا تو وہ کسی درخت کی اوٹ میں ہوجاتے اور چلنے کے وقت اونٹ تیار کرکے لے آتے۔ غرض یوں ہی چلتے چلاتے وہ قبا پہنچے۔ ابو سلمہؓ نے عثمان بن طلحہ کی نیکی کو ہمیشہ یاد رکھا۔ ان کا قول تھا۔
’’میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ ساتھ دینے والا شریف آدمی نہیں دیکھا‘‘
۳ ہجری میں حصرت ابو سلمہؓ جنگ احد میں شریک ہوئے اور نہایت پامردی سے داد شجاعت دی۔ ان کا بازو ایک زہریلے تیر سے زخمی ہوگیا۔ علاج سے وقتی طور پر صحت یاب ہوگئے لیکن چند ماہ بعد یہ زخم پھر ہرا ہوگیا اور اسی تکلیف سے واصل بحق ہوگئے۔
حضرت ام سلمہؓ کو ان کی وفات سے سخت صدمہ پہنچا، بار بار پکارتی تھیں:
’’ہائے ہائے غربت میں کیسی موت آئی ہے‘‘
جب رسول کریم ﷺ کو حضرت ابو سلمہؓ کی وفات کی خبر ملی تو حضورؐ خود ان کے گھر تشریف لے گئے اور ام سلمہؓ کو صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا: ابو سلمہؓ کی مغفرت کی دعا مانگو۔ حضرت ابو سلمہؓ کی آنکھیں وفات کے وقت کھلی رہ گئی تھیں۔ حضورؐنے اپنے دست مبارک سے خود ان کی آنکھیں بند کیں۔ ان کی نماز جنازہ پڑھتے وقت حضور نے نو تکبیریں کہیں، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ نے نو تکبیریں کیسے کہیں؟ فرمایا ابو سلمہؓ ہزار تکبیروں کے مستحق تھے۔
حضرت ابو سلمہؓ بڑے عظیم المرتبت صحابی تھے اور ان کی زندگی میں ایک بار حضرت ام سلمہؓ نے ابو سلمہؓ سے کہا: ’’میں نے سنا ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر اس کی زندگی میں فوت ہوجائے اور وہ عورت اس کے بعد دوسرا نکاح نہ کرے تو اللہ اسے بھی جنت میں داخل کرتا ہے۔ اسی طرح کسی مرد کی زندگی میں اس کی بیوی واصل بحق ہوجائے اور وہ مرد اس کے بعد دوسرا نکاح نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس مرد کو بھی فردوس بریں میں جگہ دیتا ہے۔ آو ہم دونوں عہد کرلیں کہ ہم میں سے جو پہلے مرے دوسرا اس کے بعد مجرد زندگی گزارے‘‘۔
حضرت ابو سلمہؓ نے کہا ۔ ’’کیا تم میرا کہا مانو گی؟‘‘
حضرت ام سلمہؓ نے جواب دیا ’’کیوں نہیں۔ اس سے بڑھ کر میرے لیے کیا سعادت ہوسکتی ہے‘‘۔
حضرت ابو سلمہؓ نے کہا: ’’تو سنو اگر میں پہلے مرجاوں تو میرے بعد ضرور نکاح کرلینا‘‘۔
پھر حضرت ابو سلمہؓ نے دعا مانگی:
اے مولائے کریم اگر میں ام سلمہؓ کی زندگی میں مرجاوں تو تو اسے مجھ سے بہتر جانشین دے‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ جب رسول کریمﷺ حضرت ابو سلمہؓ کی وفات پر تعزیت کے لیے حضرت ام سلمہؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو آپؐ نے بھی ام سلمہؓ کو تلقین کی کہ ’’اے ام سلمہ ابو سلمہؓ کے حق میں دعائے خیر مانگو اور اللہ سے التجا کرو کہ وہ تمہیں ابو سلمہؓ سے بہتر جانشین دے‘‘۔
حضرت ام سلمہؓ سوچا کرتیں کہ ابو سلمہؓ سے بہتر کون ہوسکتا ہے؟ تاآنکہ وہ حضورؐ کے نکاح میں آگئیں۔
ابن سعدؓ کا بیان ہے کہ حضرت ابو سلمہؓ کی وفات کے کچھ عرصے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت سلمہؓ کی کسمپرسی کے خیال سے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔
حضور نبی اکرمﷺ بھی حضرت ام سلمہؓ کی کس مپرسی اور بے مائیگی سے بہت متاثر تھے اور ابو سلمہؓ اور ام سلمہؓ نے راہ حق میں جو مصیبیتں اٹھائی تھیں حضورؐ کو ان کا بے حد احساس تھا۔ چناں چہ سرور عالمﷺ نے حضرت عمر فاروقؓ کی معرفت ام سلمہؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضرت ام سلمہؓ نے قبول کرلیا اور شوال ۴ھ میں وہ حضورؐ کے نکاح میں آ گئیں۔ نکاح کے بعد وہ حضرت زینب بنت خزیمہؓ کے گھر لائی گئیں جو وفات پاچکی تھیں۔ حضرت ام سلمہؓ نے پہلے ہی دن اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کیا۔ حضورؐ نے ام سلمہؓ کو خرمے کی چھال سے بھرا ہوا ایک چرمی تکیہ، دو مشکیزے اور دو چکیاں عطا فرمائیں۔
حضورؐ سے نکاح کے بعد بھی انہوں نے اپنے پہلے شوہر کی اولاد کی پرورش نہایت شفقت اور توجہ سے کی۔ ایک دفعہ رسول کریمؐ سے پوچھا ’’یا رسول اللہ مجھے ان بچوں کی پرورش کا اجر ملے گا یا نہیں’‘ فرمایا ’’ہاں‘‘
حضرت سفینہؓ حضرت ام سلمہؓ کے غلام تھے۔ انہوں نے سفینہ کو اس شرط پر آزاد کردیا کہ وہ زندگی بھر نبی کریمﷺ کی خدمت کریں گے۔
سرور عالم ﷺ سے نہایت عقیدت تھی، حضور کے موئے مبارک تبرکاً چاندی کی ایک ڈبیہ میں محفوظ رکھے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہؓ میں سے کسی کو تکلیف پہنچتی تو وہ ایک پیالہ پانی سے بھر کر ان کے پاس لاتے وہ موئے مبارک نکال کر اس پانی میں حرکت دے دیتیں۔ اس کی برکت سے تکلیف دور ہو جاتی۔
مسند احمد میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہؓ نے حضورؐ کی خدمت میں عرض کیا، یا رسول اللہ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارا قرآن میں ذکر نہیں
حضور ان کی بات سن کر منبر پر تشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی
ان المسلمین و المسلمت والمومنین والمومنت
(الاحزاب ۳۵)
حضرت ام سلمہؓ کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی ، عبادت الٰہی سے بڑا شغف تھا۔ ہر مہینے میں تین روزے بالالتزام رکھتی تھیں (رمضان المبارک کے روزوں کےعلاوہ) اوامر ونواہی کی بھی بے حد پابند تھیں۔
حضرت ام سلمہؓ اپنے باپ کی مانند بے حد سخی تھیں اور دوسروں کو بھی سخاوت کی ترغیب دیتی تھیں۔ ناممکن تھا کہ کوئی سائل ان کے گھر سے خالی ہاتھ چلا جائے۔ زیادہ نہ ہوتا تو تھوڑا یا جو کچھ بھی ہوتا سائل کو دے ڈالتیں۔ ایک مرتبہ چند مساکین جن میں عورتیں بھی تھیں ان کے گھر آئے اور بڑی لجاجت سے سوال کیا، ام الحسنؓ ان کے پاس بیٹھی تھیں۔ انہوں نے ان کو سخت سست کہا۔ حضرت ام سلمہؓ نے ان کو روکا اور فرمایا ہم کو اس کا حکم نہیں۔ پھر لونڈی کو حکم دیا کہ ان کو خالی ہاتھ نہ جانے دو اور کچھ نہ ہو تو ایک ایک چھوہارا ان کے ہاتھ پر رکھ دو۔
حضرت ام سلمہؓ سے ۳۷۸ حدیثیں مروی ہیں۔ فضل و کمال میں حضرت عائشہؓ کے بعد انہی کا درجہ مانا جاتا ہے۔ قرآن کی قرات نہایت عمدہ طریقے سے کرتی تھیں اور یہ حضورؐ کی قرات سے مشابہت رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب روئی، علم، ذہانت اور اصابت رائے کی نعمتوں سے کافی حصہ دیا تھا۔
علامہ ابن قیمؒ کا بیان کہ حضرت ام سلمہؓ کے فتاویٰ سے ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے۔ ان کے فتاویٰ بالعموم متفق علیہ ہیں۔
حضرت ام سلمہؓ نے ۶۳ ہجری میں ۸۴ سال کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔
حضور رسول کریمﷺ کے صلب مبارک سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ چار بچے (دو لڑکے اور دولڑکیاں) ابو سلمہؓ سے تھیں۔ ان کے نام یہ ہیں:
۱۔ سلمہؓ حبش میں پیدا ہوئے۔ رسول کریم (ﷺ) نے حضرت حمزہؓ کی دختر امامہ کا نکاح انہیں سے کیا تھا۔
۲۔ عمرؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کے عہد خلافت میں بحرین اور فارس کے عامل تھے۔ زینبؓ اور درہؓ صاحب زادیاں تھیں۔
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021