جلیل القدر صحابیہ جنہیں جہاد میں شرکت کی سعادت ملی
حجۃ الوداع (۱۰ھ) کے چند دن بعد کا ذکر ہے کہ ایک روز رحمت عالمﷺ مدینہ منورہ سے قبا تشریف لے گئے اور اپنی ایک قرابت دار خاتون کے ہاں قیام فرمایا جو آپؐ کی دل وجان سے عقیدت مند تھیں۔ انہوں نے حضورؐ کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ آپؐ کھانا کھاکر لیٹ گئے تو وہ خاتون آپؐ کے سر اقدس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں ۔ جلد ہی حضورؐ کو نیند آگئی۔ تھوڑی دیر بعد آپؐ بیدار ہوگئے۔ اس وقت آپؐ کے لب ہائے مبارک پر تبسم تھا۔ آپؐ نے فرمایا:
’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ سمندر میں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے آمادہ سفر ہیں‘‘۔
وہ خاتون عرض پیرا ہوئیں:
یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، دعا فرمائیے کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہو‘‘۔
رحمت عالم ﷺ نے دعا فرمائی اور پھر سوگئے،تھوڑی دیر بعد پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور وہی خواب بیان فرمایا۔ میزبان خاتون نے اب کی بار بھی سابقہ دعا کے لیے عرض کی۔
حضورﷺ نے فرمایا: ’’تم بھی اسی جماعت کے ساتھ ہو‘‘۔
سید المرسلین ﷺکا ارشاد سن کر خاتون کو اس قدر مسرت ہوئی کہ ان کی زبان پر بے اختیار تکبیر و تہلیل جاری ہوگئی۔ یہ خاتون جن کو فخر موجودات ﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا اور جنہیں لسان رسالت ؐ نے مجاہدین فی سبیل اللہ میں شامل ہونے کی بشارت دی حضرت ام حرام بنت ملحان انصاریہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
حضرت ام حرام بنت ملحانؓ کا شمار نہایت جلیل القدر صحابیاتؓ میں ہوتا ہے ان کا تعلق خزرج کے خاندان بنو نجار سے تھا۔ نسب یہ ہے : حضرت ام حرام بنت ملحان بن خالد بن زید بن حرام بن جند بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار۔
ارباب سیر نے حضرت ام حرامؓ کے نام کی تصریح نہیں کی۔ اس لیے وہ اپنی کنیت ہی سے مشہور ہیں۔
حضرت ام حرامؓ کی والدہ کا نام ملیکہ بنت مالک تھا۔ وہ بھی بنو نجار سے تھیں۔ آبائی سلسلے سے حضرت ام حرام سلمیٰ بنت زیدؓ (یا بہ روایت دیگر سلمی بنت عمرو بن زید) نجاری کی پوتی تھیں، جو حضور ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کی والدہ تھیں۔ اس نسبت سے حضرت ام حرامؓ کو سرور عالمﷺکی خالہ کہا جاتا تھا۔ خادم رسولؐ حضرت انس بن مالک کی والدہ حضرت ام سلیمؓ ان کی حقیقی بہن تھیں اور شہید بئر معونہ حضرت حرام بن ملحانؓ حقیقی بھائی۔
بنو نجار کو دعوت حق قبول کرنے میں سبقت کی بنا پر انصار میں خاص امتیاز حاصل تھا حضرت ام حرامؓ بھی اپنی بہن اور بھائی کے ساتھ مدینہ منورہ میں اوائل اسلام میں مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ ان کی پہلی شادی عمرو بن قیسؓ (بن زید بن سودا بن مالک بن غنم بن مالک بن نجار) سے ہوئی تھی۔ وہ بھی اوائل اسلام میں شرف اسلام سے بہرہ ور ہوئے اور ساتھ ہی ان کے نوجوان فرزند قیس بن عمروؓ بھی اس نعمت عظمیٰ سے بہرہ یاب ہوئے۔ گویا اسلام کے نور نے سارے گھرانے کو منور کردیا اور اس کی سب خواتین و مرد شمع رسالت ؐ کے پروانے بن گئے۔
ہجرت نبویؐ کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت ام حرامؓ کے شوہر حضرت عمرو بن قیس اور فرزند حضرت قیس بن عمروؓ کو ان تین سو تیرہ سرفروشوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا، جنہوں نے حق و باطل کے معرکہ اول غزوہ بدر میں والہانہ شوق و ذوق سے خواجہ کونین ﷺکی ہم رکابی کا حق ادا کیا۔
۳ھ میں غزوہ احد برپا ہوا تو پھر دونوں باپ بیٹے جانیں ہتیھیلی پر رکھ کر میدان جہاد میں پہنچے اور مردانہ وار داد شجاعت دیتے ہوئے خلعت شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ شوہر اور محبوب فرزند کی جدائی حضرت ام حرام کے لیے صدمہ جانکاہ کی حیثیت رکھتی تھی لیکن انہوں نے اسے بڑے صبر و شکر سے برداشت کیا۔ اس واقعہ کے کچھ بعد ان کا نکاح ثانی جلیل القدر صحابی حضرت عبادہ بن صامتؓ سے ہوگیا۔
حضرت عبادہ بن صامتؓ کا مکان مدینہ منورہ سے باہر غربی پتھریلے علاقہ کے کنارے قبا سے متصل واقع تھا۔ حضرت ام حرامؓ نکاح ثانی کے بعد اسی مکان میں آگئیں۔
۴ھ میں حضرت ام حرامؓ کو ایک اور صدمہ عظیم سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کے محبوب بھائی حرام بن ملحانؓ واقعہ بئر معونہ میں مظلومانہ شہید ہوگئے۔ حضرت ام حرام فرط غم سےنڈھال ہوگئیں لیکن رضائے الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور خود بھی راہ حق میں جان کی قربانی دینے کے لیے بے تاب رہنے لگیں۔ سرور عالم ﷺ نے بھی حضرت حرامؓ کی مظلومانہ شہادت کو بہت محسوس کیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ ازواج مطہرات ؓ کے علاوہ اور کسی خاتون کے گھر تشریف لے جاتے تھے لیکن ام سلیمؓ مستثنیٰ تھیں۔ لوگوں نے دریافت کیا تو فرمایا مجھے ان پر رحم آتا ہے کہ ان کے بھائی نے میرے ساتھ رہ کر شہادت پائی ہے۔
اس روایت میں صرف حضرت ام سلیم ؓ کا نام لیا گیا ہے لیکن سیرت کی دوسری کتابوں میں کچھ ایسی روایات بھی ملتی ہیں کہ رسول اکرمﷺ حضرت ام سلیمؓ کے علاوہ بعض دوسری صحابیات مثلاً حضرت ام حرامؓ ، حضرت ام الفضلؓ، حضرت شفا بنت عبداللہؓ ، حضرت اسما بنت عمیسؓ اور حضرت اسما بنت ابی بکرؓ کے ہاں بھی کبھی کبھی تشریف لے جاتے تھے۔
علامہ ابن سعدؒ، حافظ ابن حجرؒ، علامہ ابن اثیرؒ اور زرقانیؒ نے خصوصیت سے لکھا ہے کہ رسول اکرمﷺ حضرت ام حرام کی بہت عزت کرتے تھے۔ ان کو دیکھنے تشریف لے جاتے تھے اور ان کے گھر آرام فرماتے تھے۔ یہ بات اس لیے بھی صحیح معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ام حرامؓ بھی حضرت حرام بن ملحانؓ کی حقیقی بہن تھیں یعنی جو تعلق حضرت ام سلیم کا حضرت حرامؓ سے تھا وہی حضرت ام حرامؓ کا تھا اور پھر ان کے پہلے شوہر اور نوجوان فرزند بھی راہ حق میں شہید چکے تھے۔ اس لیے رحمت عالمﷺ ان کو بھی یقیناً رحم کا مستحق سمجھتے ہوں گے۔ مستند روایات کے مطابق حضور ﷺ نے غزوہ بحر کا خواب اس وقت دیکھا جب آپؐ حضرت ام حرامؓ کے گھر میں استراحت فرماتھے۔
اس خواب کی تعبیر حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں یوں پوری ہوئی کہ ۲۸ ھ میں حاکم شام حضرت امیر معاویہؓ نے امیر المومنینؓ کی اجازت سے جمیرہ قبرص کی تسخیر کے لیے ایک بحری بیڑا روانہ کیا۔ اسلامی لشکر میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ شامل تھے جن میں ایک حضرت عبادہ بن صامت ؓ تھے۔ حضرت ام حرامؓ کو راہ خدا میں جہاد کرنے اور رتبہ شہادت پر فائز ہونے کی بے حد تمنا تھی۔ وہ بھی اپنے شوہر کے ہم راہ اس لشکر میں شامل ہوکر قبرص گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور قبرص پر پرچم اسلام بلند ہوگیا۔ جب مجاہدین اس مہم کی تکمیل کے بعد واپس ہونے لگے تو حضرت ام حرامؓ بھی سواری پر بیٹھنے لگیں، جانور منہ زور تھا، اس نے زمین پر گرادیا۔ حضرت ام حرام ؓ سخت زخمی ہوئیں اور اسی صدمے سے وفات پائی۔ امام بخاریؒ اور ابن اثیرؓ کا بیان ہے کہ سرزمین قبرص ہی کو ان کا مدفن بنے کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت ام حرام کی اولاد میں تین لڑکیوں کے نام ملتے ہیں۔ حضرت عمرو بن قیس انصاریؓ سے قیس ؓ اور عبداللہؓ اور حضرت عبادہ بن صامتؓ سے محمد ؒ
قیس ؓ کا شمار بدری صحابہ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے غزوہ احد میں شہادت پائی۔
حضرت ام حرامؓ سے چند احادیث بھی مروی ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت انس بن مالکؓ اور عبادہ بن صامتؓ جیسے اجل صحابہؓ اور عطا بن یسار اور یعلی بن شداد بن اوس جیسے اکابر تابعین شامل ہیں۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 01 تا 07 مئی 2022