ہجرت حبشہ و مدینہ کی دوہری سعادت
حضرت رقیہ رسول کریمﷺ کی دوسری صاحب زادی تھیں۔ والدہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ تھیں۔ بعثت نبوی سے سات سال پہلے متولد ہوئیں۔ سرورکائناتؐ کی عمر اس وقت تینتیس برس کی تھی۔ حضرت رقیہؓ حضرت زینبؓ سے تین برس چھوٹی تھیں۔
ان کا پہلا نکاح اپنے ابن عم عتبہ بن ابولہب سے ہوا ، جب سورہ تبت یدا ابی لہب نازل ہوئی تو عتبہ نے اپنے باپ ابی لہب کے حکم کے مطابق حضرت رقیہؓ کو طلاق دے دی۔ حضرت رقیہؓ کی رخصتی ابھی نہیں ہوئی تھی۔
چند دن بعد حضرت عثمان بن عفانؓ نے اسلام قبول کیا۔ وہ نہایت صالح متمول اور مخیر نوجوان تھے۔ حضورؐنے اپنی دامادی کے لیے انہیں منتخب فرمایا۔ حضرت عثمانؓ کی اپنی دلی خواہش بھی یہی تھی۔ چناں چہ رسول کریم ﷺ نے مکہ ہی میں حضرت رقیہ ؓ کی شادی حضرت عثمانؓ سے کردی۔
مکہ میں کفار نے جب مسلمانوں کو بے حد ستایا تو حضورؐنے انہیں حبش کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ حضرت عثمانؓ بھی حضرت رقیہؓ کے ہم راہ حبش کو ہجرت کرگئے۔
کچھ عرصہ بعد حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہؓ واپس مکہ تشریف لے آئے لیکن کفار کی ایذا رسانیاں پہلے سے بھی بڑھ گئی تھیں۔ چناں چہ دوبارہ حبش کی طرف ہجرت کرگئے۔ جب عرصے تک ان کی کوئی خبر نہ ملی توحضورؐکو بہت فکر ہوئی۔ ایک دن کسی عورت نے آکر خبر دی کہ میں نے عثمانؓ اور رقیہؓ کو بہ چشم خود حبش میں بہ خیریت دیکھا ہے۔ اس پر حضورؐکو اطمینان ہوگیا۔
کافی عرصے بعد حبش میں قیام کے دوران بعد حضرت عثمانؓ کو خبر ملی کہ رسول کریمﷺ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے والے ہیں۔ چناں چہ کچھ دوسرے مسلمانوں اور حضرت رقیہؓ کے ہم راہ انہوں نے مکہ کی طرف مراجعت کی اور پھر چند دن کے بعد رسول کریمﷺ کی اجازت سے حضرت رقیہؓ کے ہم راہ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ وہاں حضرت اوس بن ثابتؓ کے گھر اترے۔ کچھ عرصے بعد حضورؐبھی مدینہ تشریف لے آئے۔ ۲ ہجری میں حضرت رقیہ کو چیچک نکلی ۔ اس وقت حضور ﷺ بدر جانے کی تیاری کررہے تھے۔ روانگی سے پہلے آپؐنے حضرت عثمانؓ کو حکم دیا کہ وہ رقیہ ؓ کی خبر گیری کے لیے مدینہ ہی میں ٹھہریں۔ اس کے عوض اللہ انہیں جہاد میں شریک ہونے کا ثواب بھی دے گا اور مال غنیمت سے بھی انہیں حصہ ملے گا۔ چناں چہ حضرت عثمانؓ حضرت رقیہؓ کے پاس ہی ٹھہرے۔ رسول کریمؐ ابھی بدر ہی میں تھے کہ حضرت رقیہؓ کی تکلیف بڑھ گئی اور انہوں نے اکیس سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ عین اس وقت جب قبر پر مٹی ڈالی جارہی تھی، حضرت زید بن حارثہؓ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کی فتح کی خوش خبری لے کر مدینہ میں داخل ہوئے۔
سرور عالمؐاپنی لخت جگر کی وفات کی اطلاع پاکر بہت مغموم ہوئے اور آپؐکی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ مدینہ واپس تشریف لاکر حضور ؐحضرت رقیہؓ کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’عثمان بن مظعونؓ جاچکے اب تم بھی ان سے جاملو‘‘۔ (مہاجرین میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ پہلے صحابی تھے، جنہوں نے مدینہ آکر وفات پائی تھی حضورؐکے اس ارشاد پر عورتوں میں کہرام مچ گیا۔ حضرت عمرؓ نے انہیں منع کیا۔ حضور نے فرمایا ’’عمرؓ انہیں رونے دو، دل اور آنکھ کے رونے میں کوئی حرج نہیں، البتہ نوحہ و بین سے بچنا چاہیے‘‘۔
حضرت فاطمۃ الزہراؓ بھی اپنی بہن کی قبر پر تشریف لائیں اور قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگں۔ حضورؐاپنی چادر مبارک کے کناروں سے ان کے آنسو پونچھتے تھے۔
حضرت رقیہؓ کے قیام حبش کے دوران میں ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا تھا ان کا نام عبداللہ ؓ رکھا گیا تھا۔ انہی صاحب زادے کے نام کی نسبت سے حضرت عثمانؓ نے اپنی کنیت ابو عبداللہ اختیار کی تھی۔
حضرت عبداللہؓ کی عمر ابھی چھ برس کی تھی کہ ایک مرغ نے ان کی آنکھ میں چونچ ماری جس سے تمام چہرہ متورم ہوگیا اوراسی تکلیف سے جمادی الاول ۴ ھ میں انہوں نے وفات پائی۔
حضور نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت عثمانؓ نے قبر میں اتارا
حضرت رقیہ اور حضرت عثمانؓ میں باہم بے حد محبت تھی۔ ان کے تعلقات اتنے خوش گوار اور مثالی تھے کہ لوگوں میں یہ مقولہ ان کی نسبت بہ طور ضرب المثل مشہور ہوگیا تھا
احسن الزوجین راھما الانسان رقیہ و زوجھا عثمان
یعنی رقیہ اور عثمانؓ سے بہتر میاں بیوی کسی انسان نے نہیں دیکھے۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 دسمبر تا 1 جنوری 2021