سکونِ قلب کی تلاش

قدسیہ بنت رفیق شیخ، بیڑ

رائقہ کافی دیر سے مضطرب سی بیٹھی تھی۔اس کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور تناو سے حال برا تھا۔وہ اپنی کسی سہیلی کی طرف سے کال کی منتظر تھی۔ایک تو امتحان اس کے سر پر سوار تھے۔اوپر سے کلاس میں کوئی مسئلہ ہوگیا تھا جس پر میڈم نے اچھی خاصی ڈانٹ پلائی تھی۔زندگی میں پہلی دفعہ اسے کسی ٹیچر نے ڈانٹا تھا۔ اور وہ بھی اتنی بری طرح کہ اسے کلاس کے سامنے شدید سبکی کا احساس ہوا۔اس پر سہیلیوں کی لاتعلقی اور بیگانگی دل کو مزید بوجھل بنائے دے رہی تھی۔ کئی طرح کے وسوسے پیدا ہورہے تھے۔
وہ ایک حساس لڑکی تھی۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہوجایا کرتی تھی۔اسی حالت میں وہ سڑک پر گاڑی دوڑارہی تھی کہ اس کی گاڑی ایک نقاب پوش لڑکی کی اسکوٹی سے ٹکراگئی جس کے ساتھ ہی پیچھے والی سیٹ پرسوار لڑکی کی والدہ گر پڑیں۔رائقہ بد حواس ہوکر گاڑی سے اتری اور خاتون کو اٹھانے اور دواخانہ پہچانے میں مدددی۔ معمر خاتون کے پیر میں فریکچرآیا تھا۔ رائقہ کا خوف کے مارے رنگ اڑ گیا تھا۔ اس لڑکی کے منع کرنے کے باوجود اس نے ہاسپٹل کا بل ادا کیا۔ گھر واپسی تک وہ ان کے ساتھ ہی رہی تھی۔زندگی میں پہلی دفعہ اس سے کوئی ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ اس کو کسی پل قرار نہیں آرہا تھا۔دل بے قرار ہوا جا رہا تھا۔ذہنی اضطراب سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ گھر آکر سو گئی لیکن نیند لینے کے باوجود اس کی حالت میں کوئی تغیر نہیں آیا تھا۔
رائقہ نے منہ ہاتھ دھویا اور زینے سے اتر کر ہال نما کمرے میں چلی آئی۔وہاں موسیقی کا اتنا شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔چند دنوں بعد اس کے سب سے بڑے بھائی سعد کی شادی تھی۔مہمانوں سے کمرہ بھرا تھا۔اس کو کمرے میں آتا دیکھ کراس کی ساری کزن بہنیں اس کی جانب متوجہ ہوگئیں۔ قریب آکر اس کا ہاتھ کھینچنے لگیں کہ وہ بھی ان میں شامل ہوجائے۔ماحول خوب پرکشش تھا لیکن کوشش کے باوجود وہ اس کا حصہ نہیں بن سکی ۔۔ رائقہ بظاہر مسکرارہی تھی لیکن اس کا اندرون پرسکون نہیں تھا۔وہ ہمیشہ ایسی محفلوں کو انجوائے کرتی رہی تھی لیکن آج جو پریشانی اور تناو تھا وہ ہر چیز میں اس کی عدم دلچسپی کا باعث تھا۔گھر میں کہیں پر بھی اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اسے اپنے ذہن کے ساتھ ساتھ دل کا سکون بھی ختم ہوتا محسوس ہورہا تھا۔دل اچاٹ سا تھا۔دنیا کی کوئی چیز اسےسکون نہیں دے پارہی تھی۔ وہ سوچ سوچ کر پریشان ہورہی تھی کہ کہاں جائے اور کیا کرے؟۔پھر وہ کچھ سوچ کر اپنی جگہ سے اٹھی۔اس وقت کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہیں تھا۔اس نے اسٹینڈ پر لٹکی چابی نکالی اور دروازے کی سمت لپکی۔وہ گاڑی کو اسٹینڈ سے نکال ہی رہی تھی تب ہی ایک دلنشین سی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ۔
’’تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! ‘‘ (سورۃالرعد: 24)
آواز نہایت خوبصورت اور کانوں میں رس گھول دینے والی تھی۔رائقہ نے بے اختیار گردن گھمائی۔اس نے دیکھا لان چیئر پر اس کےعمر بھائی جان بیٹھے ہیں جوعمر میں اس سے چار سال بڑے ہیں۔وہ ایک کتاب تھامے ہوئے تھے ۔نگاہیں اطراف و اکناف سے بے خبر کتاب پر ہی ٹکی تھیں۔
وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۙ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ۔
’’رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں، جو ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کے لیے آخرت میں بہت برا ٹھکانہ ہے۔‘‘ (سورۃالرعد25)
رائقہ نے پتلیاں سکیڑ کر بغور دیکھا تو علم ہوا کہ وہ قرآن کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
عمر بھائی ایک ایک آیت کی خوش الحانی سے قرات کرتے پھر اس کا ترجمہ پڑھتے جاتے۔
اللهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُوَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاع ۔
’’اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔ یہ لوگ دنیوی زندگی میں مگن ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلےمیں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ (سورۃالرعد 26)
رائقہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کے قریب جا رکی۔وہ پھر بھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ رائقہ ہاتھ باندھ کر قرآن کے صفحات کو تکنے لگی۔
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ قُلْ إِنَّ اللهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ ۔
’’یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدی کو ماننے سے) انکار کر دیا ہے کہتے ہیں اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟ کہو۔۔۔۔۔ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔‘‘ (سورۃالرعد27)
’’عمر بھائی!‘‘وہ ایک آیت پر رکے تو اس نے ہولے سے پکارا۔
عمر بھائی نے چونک کر دیکھا اورمسکرائے۔
رائقہ! کھڑی کیوں ہو؟ بیٹھو نا، عمر بھائی نے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔
سب لوگ اندر انجوائے کررہے ہیں اور آپ یہاں تنہا بیٹھے ہیں۔
تم بھی تووہاں نہیں ہو۔ کہیں سے آرہی ہو یا کہیں جارہی ہو؟ عمر بھائی نے اس کوعبایا پہنے دیکھا تو پوچھا۔
’’میں سہیلی کے گھر جارہی ہوں‘‘
اچھا۔ بیٹھو تھوڑی دیر۔ میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں۔ عمر بھائی کے کہنے پر وہ بیٹھ گئی۔ وہ پھر سے تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ لیکن اب ان کی آواز بہت دھیمی تھی۔ اتنی دھیمی کہ اسے بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ دانت سے ناخن کترتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ نمیرہ کے گھر جا تو رہی تھی، لیکن وہ اس وقت اس سے ملنا پسند بھی کرے گی یا نہیں۔
’’کیا ہوا؟ ڈسٹرب لگ رہی ہو‘‘ عمر بھائی نے اسے پرسوچ نظروں سے آسمان کو گھورتا ہوا دیکھا تو استفسار کیا۔ وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔
’’نہیں تو۔ میں ڈسٹرب نہیں ہوں۔‘‘
’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم ڈسٹرب ہو۔ کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بتاؤ۔‘‘ اس کے اصرار پر رائقہ نے تفصیلاً سارا قصہ کہہ سنایا۔
عمر بھائی چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔
’’تم سے کتنی دفعہ کہا ہے کہ پریشانی کی حالت میں ڈرائیونگ نہیں کرنی چاہیے۔لیکن تم کسی کی سنتی کہاں ہو؟‘‘ ا س نے سختی سے اس سے کہا۔ رائقہ کی گردن جھک گئی۔
’’تمہیں تو اپنی من مانی کرنی ہوتی ہے۔ اب دیکھ لیا نا انجام!‘‘ عمر بھائی آگ بگولہ ہورہے تھے۔ پہلے ہی ایک ضطراب تھا، اوپر سے عمر بھائی کا غصہ۔۔۔ رائقہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اس کے آنسو دیکھ کر عمر بھائی نرم پڑگئے۔
’’اچھا چلو چھوڑو۔ تم ان کے ساتھ ہاسپٹل گئیں، ان کا بل ادا کیا، انہیں گھر چھوڑا۔ یہ بہت اچھا کام ہے۔ قابل ستائش ہے۔اب تمہیں ان کی عیادت کے لیے جانا چاہیے تھا۔ کوئی بات نہیں۔ میں تمہیں تھوڑی دیر بعد ان کے گھر لے جاؤنگا۔ ان کی عیادت کےلیے۔‘‘ عمر بھائی نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔- وہ ہنوز سر جھکائے آنسو بہاتی رہی۔
’’اوہو! رائقہ کی آنکھوں میں آنسو بالکل اچھے نہیں لگتے۔ عمر بھائی نے کہا۔
’’مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے بھائی! میں بہت پریشان ہوں۔ رونا آرہا ہے مجھے۔‘‘
’’ڈرنے کی کیا بات ہے۔ میں ہوں نا۔ اور اس لڑکی نے تمہیں کچھ کہا؟ نہیں نا؟ اس کی امی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ پھر کیوں ڈررہی ہو تم؟‘‘
’’مجھے ایک طرح کی بے چینی ہورہی ہے۔ آج صبح سے میں بے سکون رہی ہوں۔‘‘
عمر بھائی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ چند پل دیکھتے رہے پھر قرآن کھول کر وہیں سے تلاوت کرنے لگے، جہاں انہوں نے چھوڑا تھا۔ اس دفعہ ان کی آواز بلند تھی۔
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۗ قُلْ إِنَّ اللهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ ۔
’’یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدی کو ماننے سے) انکار کر دیا ہے کہتے ہیں اس شخص پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟ کہو۔۔۔۔۔ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔‘‘ (سورۃالرعد27)
آیت کے اختتام پر عمر بھائی نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ رائقہ کی نگاہیں خودبخود جھک گئیں۔ اسے عجیب سے احساس نے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
عمر بھائی نے بغور اسے دیکھتے ہوئے نگاہیں آیات قرآنی پر ٹکا دیں۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ۔ایسے ہی لوگ ہیں جنہوں نے ( اس نبی کی) دعوت کو مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔‘‘ (سورۃالرعد 28)
عمر بھائی نے اس کی جانب دیکھا۔رائقہ کی آنکھیں پھر سے نم ہونے لگیں۔وہ ہر جمعہ باقاعدگی سے قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھی۔ لیکن کبھی اس نے کلام اللہ کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اس کی کئی راتیں اور کئی دن بے سکونی میں کٹتے تھے، وہ کبھی کسی گیم، کبھی میوزک ، کبھی سہلیوں کے ساتھ تو کبھی ناولز میں سکون ڈھونڈنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ وہ خود کو تسلی دیتی تھی کہ اس کا بوجھل پن و اضطراب ختم ہوگیا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے واقف تھی کہ یہ چیزیں اس کی پریشانی کے ازالے کا سبب کبھی نہیں بنی تھیں۔ اس کے رب نے اس کے سکون کے لیے ایسا طریقہ بتایا تھا جس پر اسے کوئی شبہ نہیں تھا کہ اس میں واقعی دلوں کا اطمینان تھا۔ کتنا مہربان تھا اس کا رب اس پر۔ وہ اس کی رحمتوں سے انجان تھی۔ بےخبر تھی۔ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا۔
عمر بھائی اس کے چہرے کے نشیب و فراز کو دیکھتے ہوئے اس کی کیفیت بخوبی سمجھ رہے تھے۔
أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ۔
’’خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔‘‘
عمر بھائی نے خوش الحانی سے آیت دہرائی۔
اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوۡبٰى لَهُمۡ وَحُسۡنُ مَاٰبٍ‏ ۔
’’پھر جن لوگوں نے دعوت حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور ان کے لیے اچھا انجام ہے۔‘‘ (سورۃالرعد29)
رائقہ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ عمر نے شفقت سے اس کا سر تھپتھپایا۔
عمربھائی کے ساتھ اس خاتون کی عیادت کے بعد وہ لان میں اسی جگہ بیٹھ کر عمر بھائی کے ساتھ وہی آیات دہرا رہی تھی، جو عمر بھائی نے اسے سنائی تھیں۔رائقہ نے ایک نظر آسمان کو دیکھا۔آسمان پر چاند ستاروں کے ساتھ اپنی روشنی سے دھرتی کو روشن کیے ہوئے تھا۔
عمر بھائی خوبصورتی کے ساتھ تلاوت کررہے تھے۔ رائقہ کے دل کا بوجھ دھیرے دھیرے اتر رہا تھا۔اضطراب میں کمی آرہی تھی۔طمانیت طار ی ہورہی تھی اور دل منور ہو رہا تھا۔
أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ۔
’’خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔‘‘
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اکتوبر 2021