ڈاکٹر عنایت اللہ وانی ندوی
اسسٹنٹ پروفیسر (عربک) ڈوڈہ، جموں وکشمیر
انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا دو دھاری تلوار کی مانند ہیں جو ناقابلِ تصور حد تک خیر وشر کا مجموعہ بن گئے ہیں، انٹرنیٹ نے خیر وشر کی تمام دوریوں کو نزدیکیوں میں تبدیل کر دیا ہے، خلوت وجلوت کے پیمانے بدل دیے ہیں، ناممکن الحصول چیزوں کو صرف ممکن الحصول ہی نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ سہل الحصول بنادیا ہے اور ہر کس وناکس کی کسی بھی چیز تک رسائی کو نہایت آسان بنا دیا ہے،، تعلیم وتعلم، تبادلۂ معلومات، افکار ونظریات کی تبلیغ وتشہیر اور پوری دنیا کے حالات وواقعات اور اخبار سے آگہی کی مسافتوں کو بھی سمیٹ دیا ہے، اس کا استعمال اب خاص طور پر نوجوانوں کے لیے ایک چیلنج اور امتحان بن گیا ہے جہاں نفسِ امارہ کے ہوتے ہوئے اور خوفِ خدا اور خوفِ آخرت کے نہ ہوتے ہوئے بگڑنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں نوجوانوں کی نوجوانیاں بے راہ روی اور شیطانی چالوں کا شکار ہوجاتی ہیں اور اگر عزمِ مصمم کے ساتھ انتہائی درجہ کی احتیاط وتدابیر نہ اختیار کی گئیں تو اس کا استعمال اسفل سافلین تک پہنچا دیتا ہے، کیونکہ اَن گنت شیطانی طاقتیں انٹرنیٹ کو ذریعہ بنا کر صرف اسی لیے کوشاں ہیں تاکہ نوجوان نسل کو اخلاقی اعتبار سے بالکل کھوکھلا کر دیا جائے جس کے بعد وہ دنیا میں کوئی بھی تعمیری کام کرنے کے لائق نہ رہ سکیں، سوشیل میڈیا کے خطرات اور تباہ کاریوں کا اندازہ ان نوجوانوں کے ذریعہ بخوبی کیا جا سکتا ہے جو اس کے شر کے جال میں پھنس چکے ہوتے ہیں، جو ہر وقت معلومات حاصل کرنے کے نام پر تباہ کن ویب سائیٹوں کا مشاہدہ کر کے دل ودماغ کو مفلوج کر لیتے ہیں، دورِ حاضر میں دینی وسعت اور اندازِ فکر میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ بڑی باریک بینی کے ساتھ مصالح اور مفاسد میں امتیاز کرنا نہایت ضروری ہے اور سوشیل میڈیا کے خیر سے فائدہ حاصل کرنے اور اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان نہایت حزم واحتیاط، شر کے مقابلہ میں ارادہ کی قوت اور قوی ایمان وایقان کے ساتھ اس کا استعمال کرے ورنہ کوئی بھی انسان اس کے شر سے محفوظ نہیں رہ سکتا ہے، ان نوجوانوں کے لیے جو سوشیل میڈیا کی تباہ کاریوں کا احساس رکھتے ہیں اور اس کے شرور وفتن سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں ان کے لیے مندرجہ ذیل سطور میں مختصر طور پربعض بنیادی اصول وآداب بیان کیے جا رہے ہیں جن پر عمل کرنے کی صورت میں بے راہ روی اور اخلاقی بگاڑ سے کافی حد تک بچا جا سکتا ہے:
۱- سب سے پہلے سوشیل میڈیا اور انٹرنیٹ کے شر اور تباہ کاریوں کا ادراک کر لینا ضروری ہے کیونکہ کسی بھی چیز کے نقصانات اور ضرر سے واقف ہونے کے بعد ہی اس کے ضرر سے بچا جا سکتا ہے اور اس بات کو اچھی طرح ذہن میں رکھا جائے کہ اس کے غلط استعمال کی صورت میں ہم شیطانی ایجنٹوں کا شکار بن رہے ہیں جنہوں نے اخلاقی بگاڑ ہی کے مقصد سے یہ سارا مواد فراہم کیا ہے۔
۲- سوشل میڈیا کا استعمال ’’تعاون علی البر والتقوی ‘‘کی بنیاد پر ہو نہ کہ ’’تعاون علی الاثم والعداون‘‘ کی بنیاد پر۔
۳- بقدرِ امکان خلوت اور تنہائی کے اوقات میں سوشیل میڈیا کے استعمال سے گریز کیا جائے کیونکہ ایسے موقع پر شیطان سب سے زیادہ دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور انسان تباہ کن فحش سائٹوں تک پہنچ جاتا ہے،اس لیے بڑوں اور سر پرستوں کے سامنے ہی انٹرنیٹ استعمال کیا جائے۔
۴- ہر وقت اس کا احساس رہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی ایک ایک حرکت سے واقف ہے وہ ظاہر وباطن ہر چیز کو دیکھتا اور جانتا ہے اور صدق واخلاص کے ساتھ اسی سے فتنہ اور شر سے محفوظ رکھنے کی دعا کی جائے، اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو بھی یاد کیا جائے اور کراماً کاتبین کی موجودگی اور ہر چیز کو نوٹ کرنے کا احساس کیا جائے اور یہ سوچا جائے کہ اللہ اس پر بھی قادر ہے کہ اسی وقت اسی حالت میں سزا دے یا موت دے اور پھر توبہ کی بھی مہلت نہ رہے۔
۵- سوشل میڈیا اطاعت میں کوتاہی ضیاعِ وقت یا غفلت کا ذریعہ نہ بنے، کیونکہ بروز قیامت انسان حسرت وافسوس کے ساتھ کہے گا: ’’افسوس میری اس تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا‘‘۔(سورۂ زمر:۵۶)
۶- سوشل میڈیا کے استعمال کے وقت اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین رکھا جائے کہ دھوکہ، فریب، جھوٹ اور اس قبیل کی ہر چیز ناجائز ہے، اللہ کے رسولﷺ نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ (صحیح بخاری: 5885)
۷- کمپیوٹر، لیب ٹاپ، موبائل وغیرہ کو گھر میں کسی ایسی جگہ پر رکھا جائے جہاں سب کی نگاہ پڑتی ہو اور دروازہ بھی کھلا رکھا جائے، دروازہ بند کر کے انٹرنیٹ کا استعمال کرنا مضر ہو سکتا ہے، اسی طرح اسکرین کا رخ دوسروں کی جانب یا کمرے کے دروازہ کی طرف ہو۔
۸- بہتر یہ ہے کہ کمپیوٹر، لیب ٹاپ یا موبائل کا آغاز کرنے کے لیے Srartup sound کے طور پر کسی قرآنی آیت یا حدیث نبویﷺیا کسی مؤثر حکمت کو متعین کیا جائے اور اسکرین سیور بھی کوئی ایسی تصویر یا حکمت کی بات ہو جو آخرت اور موت کو یاد دلانے والی ہو، اور یکے بعد دیگرے اس کو تبدیل کیا جاتا رہے۔
۹- نامعلوم پیغامات اور سائٹس کا ہرگز استعمال نہ کیا جائے، اس لیے کہ ان میں سے اکثر فحش ہوتے ہیں یا وائرس پر مشتمل ہوتے ہیں یا پھر وقت، مال اور محنت کو ضائع کرنے والی تشہیر پر مشتمل ہوتے ہیں۔
۱۰- اسکول یا محلہ میں برے ساتھیوں سے ہر ممکن دور رہا جائے کیونکہ اس سے غلط معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے نوجوان بغیر دوستوں کے رہیں یہ ان کے لیے کہیں بہتر ہے کہ وہ ایسے دوستوں کے ساتھ رہیں جو ان کے لیے فواحش اور گناہوں کو مزین کر کے پیش کریں۔
۱۱- بہتر یہ ہے کہ میز پر اور کمرے میں بعض اسلامی اور احادیث پر مشتمل کتابیں بھی ہوں تاکہ حدیث اور علوم شریعت کی تکریم اور اجلال میں انسان غلط سائٹوں تک پہنچنے سے احتراز کر سکے اس کے ذہن میں یہ بات آئے کہ میرے سامنے حدیث رسولﷺ ہے لہذا میں غلط چیزوں کا مشاہدہ کیسے کر سکتا ہوں!۔
۱۲- انٹرنیٹ کھولنے سے پہلے تعوذ وتسمیہ کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم کی ایک دوآیات کی تلاوت خود بھی کی جائے تاکہ دل نرم ہو اور شیطان اور وسوسوں سے حفاظت ہو۔
۱۳- اچھی چیز کو لائک یا شیئر کرنا اچھی بات ہے، لیکن غلط چیز کو لائک یا شیئر کرنا رضا بالمعصیۃ، معصیت میں اعانت اور بری چیزوں کے استحسان(اچھا سمجھنے)میں داخل ہے جو کہ گناہ ہے۔
۱۴- مراسلت کے لیے مناسب وقت کا انتخاب ضروری ہے تاکہ مخاطب کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو۔
۱۵- ہر ایک سے اس کے مقام ومرتبہ کے مطابق بات کی جائے۔
۱۶- جب بھی شیطان غلط خیالات اور وسوسہ دل میں ڈالے تو فورا کمپیوٹر اور موبائل بند کر دیا جائے اور عمومی مجلس میں بیٹھا جائے یا کسی ایسے کام میں لگ جایا جائے جس سے انسان کی سوچ تبدیل ہو جائے اور کیا ہی بہتر ہو کہ ایسے موقع پر قبرستان جا کر موت کو یاد کیا جائے۔
۱۷- اس بات کا استحضار کیا جائے کہ فحش تصاویر کا دیکھنا حرام ہے جس سے دل بھی سخت ہوجاتا ہے جسم بھی بُری طرح متأثر ہوتا ہے اور خاندانی نظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے۔
۱۸- کمپیوٹر اور موبائل میں موجودہر قسم کے غلط مواد، سی ڈیز اور خارجی میموری میں موجود ہر قسم کے غلط مواد کو(Delete) کر دیا جائے اور کمپیوٹر اور موبائل میں اللہ کا کلام، دعائیں، احادیث، علماء کی مؤثر تقاریر محفوظ کی جائیں، اور یہ سوچا جائے کہ اللہ کے کلام کے ساتھ فحش چیزوں کی موجودگی کلامِ الہی کی توہین ہے جو ایک خطرناک بات ہے۔
۱۹- اگر انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ میں انٹرنیٹ کنکشن کے ہوتے ہوئے اپنے نفس پر قابو پانے سے قاصر ہوں تو اس کا آخری طریقہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کنکشن ہی کو ختم کر دیا جائے اور ضروری استعمال کے لیے کسی کیفے کا استعمال کیا جائے اور کیفے میں بھی تنہا نہ بیٹھا جائے بلکہ ساتھ میں ضرور کوئی نہ کوئی ہو۔
۲۰- اگر انٹرنیٹ کا استعمال ناگزیر ہی ہے تو پھر فحش اور غلط سائٹوں سے دور رہنے کے لیے کمپیوٹر اور موبائل میں ایسے پروگرام انسٹال کیے جائیں جو اسی کے لیے تیار کئے گئے ہیں، جیسے کے (Naomi) یا) (Stoppornیا (k9 webprotectionchildcontrol) یا(mpsoft block) جیسے پرگرام ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے کمپیوٹر اور موبائل کو فحش سائیٹوں سے محفوظ بنا دیا جائے۔
۲۱- برے خیالات سے اپنے دل ودماغ کو دور رکھا جائے کیونکہ صرف کمپیوٹر، موبائل یا گھر سے فحش مواد کو ہٹانے سے کا م نہیں چلے گا جب تک کہ دل ودماغ سے بھی مکمل طور پر اس کو ختم نہ کر دیا جائے، اکثر وبیشتر نوجوان ایک مرتبہ توبہ کرکے کچھ دن تک باز رہتے ہیں لیکن غلط خیالات اور بری سوچ کی وجہ سے دوبارہ اسی شر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ان چند بنیادی اصول وضوابط پر عمل کر کے وہ نوجوان انٹرنیٹ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں جن کے اندر برائی کا احساس ہو اور برائی سے محفوظ رہنا چاہتے ہوں، البتہ جن نوجوانوں کے اندر برائی کا احساس ہی نہ ہو، بلکہ وہ انٹرنیٹ کے اخلاق سوز وایمان سوز مواد کو انٹرٹینمنٹ اور وقت گزاری کے لیے ایک انمول تحفہ سمجھتے ہوں اور فحش مواد کے مشاہدہ کو اپنے لیے باعثِ تسلی سمجھتے ہوں تو ان کو دنیا کا کوئی بھی قانون اور اصول اس سے باز نہیں رکھ سکتا ہے، البتہ مسلم نوجوان کو یہ بخوبی جان لینا چاہیے کہ انٹرنیٹ پر موجود فحش پروگرام ایک خطرناک زہر ہے جو دین وایمان کو بھی تباہ کر دیتا ہے اور نفسیاتی اور جسمانی صحت کو بھی بگاڑ دیتا ہے اور دنیاوی زندگی کو بھی بے سکون وبے کیف بنا دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ انٹرنیٹ پر اسلامی ناموں سے بہت سی ایسی ویب سائیٹس اور فیس بک اور ٹویٹر پر ایسے فرضی اکاؤنٹس موجود ہیں جو بظاہر تو اسلام کے تعارف وتبلیغ پر مشتمل ہیں لیکن ان کے ذریعہ غلط افکار کی تشہیر اور اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنا مقصود ہے، اس لیے ہر ویب سائٹ سے بغیر کسی تحقیق کے استفادہ کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ صرف انہی سائٹوں اور اکاؤنٹس سے استفادہ کیا جائے جو مستند اور محقق ہوں، ورنہ بہت سے نوجوان اس طرح کی ویب سائٹوں اور اکاؤنٹس کے ذریعہ گرفتار ہو کر اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر بسا اوقات عملی طور پر اسلام سے بھی دستبردار ہو جاتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اگر انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا ایک طرف غیر اسلامی افکار کو فروغ دینے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف پیغامِ ہدایت پہنچانے کا بھی ایک اہم پلیٹ فارم ہے، اگر انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا کو خیر کا ذریعہ سمجھ کر اس سے صحیح طور پر استفادہ کیا جائے تو انسان اس سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے اور زندگی کو سنوار سکتا ہے ورنہ اس کے شر اور فساد کا شکار ہو کر اپنی زندگی کو تباہ بھی کر سکتا ہے، یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ خیر وشر میں سے کون سی چیز کا انتخاب کرتا ہے۔
Email: [email protected]
****
***
یہ پیغامِ ہدایت پہنچانے کا بھی ایک اہم پلیٹ فارم ہے، اگر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاکو خیر کا ذریعہ سمجھ کر اس سے صحیح طور پر استفادہ کیا جائے تو انسان اس سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے اور زندگی کو سنوار سکتا ہے، ورنہ اس کے شر اور فساد کا شکار ہو کر اپنی زندگی کو تباہ بھی کر سکتا ہےش، یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ خیر وشر میں سے کون سی چیز کا انتخاب کرتا ہے۔