سماجی تبدیلی کیسے ممکن ہے ؟

مسائل سے فرار کا بڑھتا رجحان اور پس پردہ وجوہات

زعیم الدین احمد حیدرآباد

اخبارات، اور خاص طور پر ٹی وی نیوز چینلوں کو دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ ملک کے عوام مہنگائی سے پریشان اور بد حال ہیں، کیوں کہ شام ہوتے ہی اپنے چھوٹے سے مکعب میں چند خود ساختہ ماہرین جو ہر موضوع پر بحث کرسکتے ہیں، ایسے موضوعات پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن کا فائدہ ایک مخصوص جماعت کو پہنچتا ہو یا ان موضوعات کا عوامی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو۔ پٹرول اور ڈیزل سو روپے کے پار ہوگیا ہے، پکوان گیس سلنڈر ایک ہزار ہوچکا، پٹرول و ڈیزل کے مہنگا ہونے کی وجہ سے نہ صرف اشیاء خورد ونوش مہنگی ہو گئی ہیں بلکہ تعمیراتی اشیاء جیسے لوہا، سمنٹ وغیرہ بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی مہنگائی ہونے کے باوجود عوام میں کیوں حکومت کے خلاف غصہ نظر نہیں آتا؟ کیا وجہ کہ عوام اس کمر توڑ دینے والی مہنگائی کے خلاف آواز بلند نہیں کر رہے ہیں؟ جس طرح ہم نے پچھلی حکومتوں میں دیکھا تھا کہ پٹرول پر ایک آدھ روپیہ بڑھ جانے پر لوگ سڑکوں پر اتر آتے تھے، سڑکیں جام کر دیتے تھے، بازاروں کو بند کردیا جاتا تھا لیکن اب ایسی کیا وجہ بنی کہ عوام اس کے خلاف نہ صرف احتجاج نہیں کر رہے ہیں بلکہ ناراضگی بھی دکھائی نہیں دیتی۔
یہ بات واضح ہے کہ مہنگائی کی مار صاحب ثروت افراد پر نہیں پڑتی ہے، مہنگائی سے ان کے روز مرہ کے معمولات پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اشیا مہنگائی ہوں یا سستی ان کے لیے برابر ہے، اس لیے اس تعلق سے ان کا فکر مند نہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ رہے غریب عوام جن کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی ہوتی ہے نہ رہنے کے لیے گھر۔ وہ خالی پیٹ احتجاج پر تیار نہیں ہوسکتے کیوں کہ سب سے پہلے انہیں یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ان کا پیٹ کیسے بھرے، ان کو روٹی کہاں سے ملے؟ ان کا خالی پیٹ انہیں احتجاج نہیں بلکہ اکثر جرائم کے راستے پر لے جاتا ہے کیونکہ پیٹ کی جلن انہیں ذہنی طور پر ماؤف کردیتی ہے۔ اور رہا مسئلہ متوسط طبقے کے گھرانوں کا حال تو یہ وہ طبقہ ہوتا ہے جو سماج میں ہونے والی ہر تبدیلی سے متاثر ہوتا ہے، چاہے مہنگائی ہو یا قانونی تبدیلی یا کچھ اور، یہ طبقہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ دنیا کی آبادی کا بہت بڑا حصہ اسی طبقہ پر مشتمل ہوتا ہے، یہی طبقہ سماج میں ہونے والی ہر تبدیلی کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے، اکثر سیاسی و سماجی انقلابات اسی طبقہ کے ذریعہ آتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہی طبقہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے، کیوں یہ طبقہ اتنا پست ہمت نظر آنے لگا ہے؟ کیوں اس کے اندر سے وہ محرکات نکل گئے ہیں جو حقوق کو منوانے میں کارگر ہوتے تھے؟ کیوں مہنگائی و بے روزگاری پر وہ اتنی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے؟ دیگر مسائل پر بھی وہ لب کشائی سے گریزاں ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات ہم سب کو مل کر ڈھونڈنا ہو گا۔ ان کے جوابات ہمارے اندر ہی مل جائیں گے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا واقعی سماجی نفسیات تبدیل ہو چکی ہیں؟ وہ کیا وجوہات ہیں جو سماج کے اندر بے حسی پیدا کر رہے ہیں؟ اس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے مادہ پرستانہ خیالات، آپ سماج میں دیکھ سکتے ہیں کہ لوگ صرف اپنی ذات کے ارد گرد گھومتے نظر آئیں گے۔ وہ میں اور صرف میں کی ذہنیت کے ساتھ چل رہے ہیں، دوسروں کے مسائل سے مجھے کیا واسطہ، ان کی پریشانی کا مجھ سے کیا لینا دینا، ہماری کمائی میں بچت ہو رہی ہے، ہماری زندگی سکون سے چل رہی ہے یا نہیں، یہی مادہ پرستانہ ذہنیت انسانی سماج کو مشینی پرزے میں تبدیل کرتی چلی جا رہی ہے۔ ان کے اندر بے حسی پیدا کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ سماج کا وہ طبقہ جو کبھی تبدیلی میں اہم رول ادا کرتا تھا وہ بھی اس سوچ کی زد میں آ گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کو دیکھیں وہ اپنی تنخواہوں کو بڑھانے کے لیے احتجاج کرتے ہیں لیکن مہنگائی کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں وہ کبھی نظر نہیں آئیں گے۔ یہ تو رہی داخلی وجہ، ایک وجہ خارجی بھی ہے۔ حکمراں کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ لوگ متحد رہیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ مذہبی بنیادوں پر آپس میں منقسم رہیں۔ ذات پات اور طبقات کی بنیادوں پر بکھرے رہیں، وہ کوشش کرتے ہیں کہ عوام آپس میں دست وگریباں رہیں، انہیں مثبت سوچ کا کوئی موقع فراہم نہ کیا جائے۔ دوسری طرف عوام ہیں کہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، وہ اس بات پر غور ہی نہیں کر رہے ہیں کہ قیمتیں جو بڑھی ہیں وہ کسی ایک مذہبی گروہ کے لیے نہیں بڑھی ہیں بلکہ سب کے لیے بڑھی ہیں، اس مہنگائی سے ایک مسلمان بھی اتنا ہی پریشان ہے جتنا کہ ایک ہندو، ایک عیسائی اور ایک سکھ یا بودھ پریشان ہے۔ یہ مصیبت کسی ایک خاص طبقہ پر وارد نہیں ہوئی ہے بلکہ سب پر یکساں نازل ہوئی ہے، لیکن مہنگائی کے خلاف آواز بلند کرنا ہو تو سب ذاتوں میں منقسم ہو جاتے ہیں۔ کوئی مندر کے نام پر بٹا ہوا ہے تو کوئی مسجد کے نام پر، کوئی شہری ترمیمی قانون کے نام پر بٹا ہوا ہےتو کوئی تین طلاق کے نام پر۔ جبکہ آپسی اتحاد ہی اس مسئلے کا حل ہے، ہمیں ان چھوٹے چھوٹے خانوں سے نکل کر ایک بڑے مقصد کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
تیسری وجہ اقتدار وقت کا خوف ہے۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ اگر میں حکومت کے کسی اقدام کے خلاف آواز اٹھاتا ہوں تو کہیں میں اس کے عتاب کا شکار نہ ہو جاوں؟ کہیں مجھے حکومت کے غیض و غضب کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا؟ کہیں حکومت سے سوال کرنے پر مجھے ملک سے غداری کا الزام تو عائد نہ کردیا جائے گا؟ اگر کوئی مسلمان آواز اٹھاتا ہے تو اسے پاکستانی ایجنٹ قرار دیا جاتا یے، اگر کوئی ہندو آواز اٹھاتا ہے تو اس پر اربن نکسل کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے، اسی خوف نے عوام کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کرتا ہے تو اسے ہر طرح سے پریشان کیا جاتا ہے، اس پر ضمانت نہ ملنے والے دفعات لگا دیے جاتے ہیں۔ آج بھی کئی صحافی اور نوجوان جیلوں میں بند ہیں، انہیں ضمانت تک نہیں مل رہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ حکومت وقت اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر ہمیشہ سے ظلم کرتی رہی ہے انہیں پریشان کرتی رہی ہے۔ لیکن محض اس وجہ سے خاموشی اختیار کرنا ظلم کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
چوتھی وجہ عوام میں مایوسی ہے۔ لوگ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ ہماری کوشش سے کیا ہو گا؟ حکومت ہماری بات سنتی ہی نہیں ہے پھر ہم اس کے خلاف آواز اٹھا کر کیا فائدہ حاصل کرلیں گے؟ حکومت بے حسی پر آمادہ ہے، ہمارے دیوار سے سر ٹکرانے سے کیا ہوگا، الٹا ہمیں ہی نقصان ہوگا حکومت کا تو کچھ نہیں بگڑے گا۔ اس مایوسی کو اپنے اندر پنپنے نہیں دینا چاہیے ہمارے اندر اتنا عزم واستقلال ہونا چاہیے کہ جو خرابی میں دور کر سکتا ہوں یا جو مسئلہ میں حل کرسکتا ہوں، اس میں مجھے عوام کو ساتھ لینا ہے اور انہیں اپنے ساتھ لے کر اس کا حل تلاش کرنا ہے۔
پانچویں وجہ اپنے آپ کو کسی ایک قائد کے سپرد کر دینا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا لیڈر ہی ہمیں سب کچھ کر کے دے گا ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند کر کے اس کی تابعداری کرتے ہیں، اس کے اندھے مقلد بنے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
سماجی مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس کے اثرات سے آپ اور میں بچ سکیں گے، بلکہ اس کے خلاف لڑنے سے حل نکلے گا۔ جب حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے تو سوال کرنے کا خوف نہیں ہونا چاہیے ۔
***

 

***

 سماجی مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی اس کے اثرات سے آپ اور میں بچ ساکیں گے، بلکہ اس کے خلاف لڑنے سے حل نکلے گا۔ جب حکومت عوام کے سامنے جوابدہ ہے تو سوال کرنے کا خوف نہیں ہونا چاہیے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  06 فروری تا 12فروری 2022