سری لنکا میں بدترین معاشی بحران

سیاحت پر منحصر معیشت کی تباہی کے لیےتنہا کوویڈ ذمہ دار نہیں

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

حکومت کے غلط فیصلے۔کیمیائی کھاد پر پابندی اور محصولات میں کمی کے منفی اثرات
سری لنکا اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، غذائی اجناس کی شدید قلّت پیدا ہوگئی ہے لوگ راشن کی دکانوں کے سامنے لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں تاکہ انہیں کھانے کے لیے کچھ سامان مل جائے لیکن غذائی قلت اس قدر ہے کہ انہیں سامان خریدنے کے لیے کئی کئی دنوں تک اپنی باری کا انتظار کرنا پڑ رہا ہے، کئی تو اپنی باری کے انتظار میں غش کھا کر گر رہے ہیں۔ ہم اس بحران کا اندازہ نہیں لگا سکتے کیوں کہ ہم بڑے اطمینان سے اپنے گھروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کو کھانے پینے کے سامان کی حفاظت کے لیے فوج لگانی پڑی ہے اور فوج ہی کے ذریعہ اشیائے خورد ونوش تقسیم کی جا رہی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ہاں انڈا چار تا پانچ روپے ہونے پر ہم مہنگائی کا درد محسوس کرتے ہیں لیکن سری لنکا میں اس وقت ایک انڈا چالیس روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے، دودھ تین سو روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا ہے۔ یہاں پٹرول، ڈیزل اور گیس کی قیمتوں نے ہمارے چھکے چھڑوا دیے ہیں تو وہاں سری لنکا میں کیا صورت حال ہوگی اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بلا شبہ اس وقت ایشیا کا سب سے مہنگا ملک سری لنکا ہے، ایندھن کی قلت کی وجہ سے بجلی نہیں بن پا رہی ہے اور جب بجلی کی پیداوار نہیں ہو گی تو سربراہی بھی متاثر ہو گی چنانچہ بجلی صرف آٹھ گھنٹے ہی سپلائی کی جا رہی ہے۔ نتیجے میں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ملک پر بھی اس کے اثرات مرتب ہونے لگے ہیں، لوگ اپنی زندگیوں کو بچانے کے لیے ہندوستان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ یہ تو گھروں کا حال ہے، کارخانوں اور صنعتی اداروں کا حال تو اس سے بھی برا ہے، کئی کارخانے مکمل طور پر یا تو بند ہوچکے ہیں یا بند ہونے کے قریب ہیں، کیوں کہ ان کارخانوں اور صنعتوں کو اپنی کارکردگی جاری رکھنے کے لیے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں نہیں مل رہی ہے۔ یہاں یہ کہنا بالکل بے جا نہیں ہو گا کہ سری لنکا کی معیشت پوری طرح سے تباہ ہو چکی ہے۔
آخر اس ملک میں معاشی بحران کیوں پیدا ہوا اور کون اس معاشی تباہی کا ذمہ دار ہے؟ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کوویڈ نے اس کا یہ حال کیا ہے، یہ بات درست ہے کہ کوویڈ نے کئی ممالک کو معاشی طور پر کمزور کیا ہے، سری لنکا کی معیشت میں شعبہ سیاحت ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتا ہے اور کوویڈ کے دوران سیاحت مکمل طور پر بند ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں اس ملک کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ رک گیا۔ 2019 میں کوویڈ سے قبل سری لنکا کا بیرونی زرِ مبادلہ تقریباً 7 بلین ڈالر کا ہوا کرتا تھا جو اب 2021 میں گھٹ کر 2 بلین ڈالر تک رہ گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ پیچھے سال سری لنکا کی حکومت نے کیمیائی کھادوں پر پابندی عائد کردی تھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی واقع ہو گئی اور آہستہ آہستہ ملک میں غذائی اجناس کی قلت شروع ہو گئی۔ جیسے ہی پیداوار میں کمی واقع ہوئی اجناس مہنگے ہونے لگے۔ تیسری وجہ یہ کہ حکومت نے عوام کی قوت خرید کو بڑھانے کے لیے ٹیکسوں کی کمی کردی جس کے نتیجے میں ملک کو آمدنی کم ہوئی کیوں کہ کسی بھی ملک کی آمدنی کا اہم ذریعہ ٹیکس ہی ہوا کرتا ہے اور جب اس نے ٹیکس کم کر دیے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ آمدنی گھٹ گئی۔ ان ٹیکس کٹوتیوں کی وجہ سے محصولات میں کمی واقع ہوئی جس سے مالیاتی پالیسیاں متاثر ہوئیں اور ساتھ ہی بجٹ خسارہ 2020 میں پانچ فیصد سے بڑھ کر 2022 میں پندرہ فیصد ہو گیا۔ حکومتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مرکزی بینک نے مزید کرنسی کی چھپائی شروع کر دی جب کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے یہ مشورہ دیا تھا کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرے اور ٹیکس بڑھائے لیکن آئی ایم ایف کی اس تنبیہ کے باوجود کرنسی کی چھپائی جاری رکھی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کے پاس پیسے تو تھے لیکن خریدنے کے اشیاء خورد ونوش دستیاب نہیں تھیں، جب اشیاء خورد ونوش کی قلت ہوتی ہے تو پھر مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے اور معاشی اخراجات میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے سماج میں بدامنی پھیل جاتی ہے اور یہ ہوا بھی۔ سماج میں بدامنی پھیلانے لگی، مظاہرے ہونے لگے۔ مارچ 2022 تک غیر ملکی ذخائر 2.3 بلین امریکی ڈالر تک گر گئے جس کی وجہ سے سری لنکا دیوالیہ پن کا شکار ہو گیا اور یہ رقم اسے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی تھی۔ جبکہ اسے7 بلین امریکی ڈالر قرض ادا کرنا ہے اور سال 2022 میں اسے ایک بلین امریکی ڈالر کی بین الاقوامی خود مختار بانڈ (ISB) کی ادائیگی بھی کرنی ہے، جو اس کے پاس ہے یقیناً ناکافی مقدار میں موجود ہے۔ قومی صارف قیمت اشاریہ کے مطابق، فروری 2022 میں قومی افراط زر کی شرح بڑھ کر 17.5 فیصد ہو گئی جو خطرے کے نشان سے کہیں اوپر ہے۔ چوتھی وجہ روس اور یوکرین کی جنگ ہے۔ یوکرین سری لنکا کی چائے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ جنگ کی وجہ سے چائے کی برآمدات پرشدید اثر پڑا ہے، روس اور یوکرین سے سری لنکا کو سب سے زیادہ سیاح آتے تھے، جنگ کی وجہ سے یہاں سے سیاح آنے بند ہو گئے اس کا بھی گہرا اثر پڑا ہے۔
اس وقت سری لنکا کو نہ صرف معاشی بد حالی کا سامنا ہے بلکہ اس کو اپنے قرضہ جات بھی واپس کرنے ہیں جو تقریباً سات ارب ڈالر ہے، جس میں سے چین کے سب سے زیادہ پانچ ارب ڈالر ہیں۔ چین نے اپنے دفاعی منصوبوں کے تحت ہندوستان کے اطراف کے ممالک کو بڑے پیمانے پر قرض فراہم کیے تھے جیسے پاکستان، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور افغانستان وغیرہ تاکہ وہ ان ممالک پر اپنے اثرات بڑھا سکے۔ سری لنکا نے بھی چین سے بڑے پیمانے پر قرض لیا جس کے نتیجے میں اس پر یہ تنقید بھی کی جارہی تھی کہ سری لنکا چین کے ہاتھوں غلام بن گیا ہے کیوں کہ اس نے معاشی سرگرمیوں کے نام پر چین سے قرض لیے ہیں جو اسے اسی سال واپس کرنے ہیں۔ ان قرضوں کے بحران کے لیے چین کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں کیوں کہ چین کو واجب الادا بیرونی قرض صرف دس فیصد ہی ہے اس لیے یہ کہنا کہ سری لنکا چینی قرضوں کے جال میں پھنس گیا ہے درست نہیں۔ اس کے برعکس سری لنکا کے بیرونی قرضوں کے ذخیرے کا زیادہ تر حصہ بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں کو واجب الادا ہے جو 47 فیصد تک ہے اور مزید 22 فیصد کثیر جہتی ترقیاتی بینکوں (ملٹی پٹرول ڈیولپمنٹ بینکس) کے پاس ہے، اس کے بعد جاپان کے پاس بیرونی قرضوں کا دس فیصد ہے۔
2021 ہی میں سری لنکا کی حکومت نے باضابطہ طور پر یہ اعلان کر دیا تھا کہ ملک گزشتہ 73 سالوں کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے، سری لنکا اپنے پڑوسی سارک ممالک سے نقد رقم کی درخواست کر رہا ہے، سری لنکا کے وزیر توانائی اُدے گامان پیلا نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ بحران مالیاتی تباہی کا باعث بنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سری لنکا اپنے قرض کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے اور نہ صرف قرض بلکہ اس پر بڑھتا ہوا سود بھی اسے مزید پریشانی میں مبتلا کر رہا ہے۔ چین اور دیگر ممالک نے اسے دو سے چھ فیصد شرح سود پر قرض فراہم کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ یقیناً سودی لین دین ایک عذاب ہے۔

 

***

 یہ بات درست ہے کہ کوویڈ نے کئی ممالک کو معاشی طور پر کمزور کیا ہے، سری لنکا کی معیشت میں شعبہ سیاحت ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتا ہے اور کوویڈ کے دوران سیاحت مکمل طور پر بند ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں اس ملک کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ رک گیا۔ 2019 میں کوویڈ سے قبل سری لنکا کا بیرونی زرِ مبادلہ تقریباً 7 بلین ڈالر کا ہوا کرتا تھا جو اب 2021 میں گھٹ کر 2 بلین ڈالر تک رہ گیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 تا 16 اپریل  2022